موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے خطرے کا الارم…
پاکستان اب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کا خدشہ ہے
اگر آپ کسی ماہر ماحولیات یا سائنسدان سے پوچھیں کہ آج سب سے بڑا عالمی مسئلہ کون سا ہے تو وہ بیک زبان کہیں گے کہ موسمیاتی تبدیلی اور کرہ ارض کے درجہ حرارت کا بڑھنا۔ دو سو سال پہلے کی دنیا آج جیسی نہ تھی، ہزارہا سال سے سب کچھ قانون قدرت کی ترتیب کے مطابق چل رہا تھا۔
انسان روایتی طریقوں سے موسمی تبدیلیوں کے مطابق زندگی گزارتا چلا آرہا تھا۔اٹھارویں صدی میں یورپ خصوصاً برطانیہ میں صنعتی انقلاب سے تکنیکی ترقی کا آغاز ہوا۔اس ترقی نے بظاہر عالم انسانیت کے لیے سہولیات پیدا کیں لیکن ان صنعتوں میں استعمال ہونے والے کوئلہ,تیل اور گیس سے خارج ہونے والادھواں فضا میں شامل ہونے لگا۔ یہ صنعتی ترقی بتدریج دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچی، یوں فضائی آلودگی عالمی شکل اختیار کرنے لگی۔
دو سو سال تک تو اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سائنسدانوں نے اس خدشے کا اظہار شروع کر دیا کہ فضائی آلودگی ہر سانس لیتی مخلوق کے لیے نقصان دہ ہے۔ایٹمی توانائی، زیرزمین اور سمندر میں ایٹمی تجربات اور عالمی تنازعات اور کاروباری پروجیکٹ میں بارود کے بے پناہ استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی فضا میں معلق ہوگئے۔
کرہ ارض رب کریم کا ایک سیارہ ہے۔ سورج، چاند اور ستارے گردش میں ہیں، سمندر، دریا،جھیلیں اور بارش زمین پر زندگی کی بنیاد ہیں اور یہی زمین پر آباد ہر مخلوق کے لیے رزق پیدا کرنے کا کام کررہے ہیں۔ زمین کی فضا، زیر زمین اور زیر سمندر و دریاؤں میں آلودگی اور زہریلی گیسوں کی صفائی یا فلٹریشن کے لیے قدرت کا ایک خودکار نظام موجود ہے۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سمندر اور جنگلات کے ذخیرے زمین پر پیدا ہونے والی زہریلی گیسں کو ری سائیکل کرکے صاف اور شفاف آب و ہوا کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ رب کریم کے متعین کردہ فارمولے کے تحت سمندر اور جنگلات دنیا بھر میں پیدا ہونے والی 30 فیصد تک آلودگی اور مضرصحت گیس کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں آلودگی کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
آلودگی کے پھیلاؤ کو اگر نہ روکا گیا تو دنیا کا مستقبل کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوگا۔ یہ عمل کس قدر پریشان کن ہے کہ ہم نے مادی ترقی اور ایک دوسروں کے وسائل پر قبضے کے لیے ایسے ایسے کام کیے کہ پورے کرہ زمین نہ صرف آلودہ ہوا بلکہ ایسی ایسی بیماریوں اور وائرسزز کی افزائش ہوئی (کورونا بھی اس میں شامل ہے) جو نسل انسانی کی بقا کے لیے خطرہ خطرہ بن گئی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین نے اس خطہ زمین کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو رپورٹس تیار کی ہیں اس کے مطابق اس آلودگی کے ذمے دار وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جنھیں Economic Power کہا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چین کی صنعتوں سے پھیل رہا ہے جس کا تناسب 30 ہے۔دوسرے نمبر پر امریکا ہے جو دنیا بھر میں 15فیصد آلودگی پھیلا رہا ہے۔تیسرے نمبر پر یورپی یونین کے ممالک ہیں جو 10 فیصد آلودگی پھیلا تے ہیں، اس کے بعد بھارت سات فیصد آلودگی پھیلا رہا ہے۔ بھارت کے بعد روس کا نمبر ہے جو 5فیصد آلودگی کا سبب ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آلودگی پھیلانے کے اس عمل میں پاکستان کا حصہ سب سے کم ممالک کی فہرست میں ہے، جو ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان اب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔
چند ماہ پہلے ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے جس طرح خیبرپختونخواہ کے پہاڑی علاقوں، جنوبی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں کو متاثر کیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ماحول پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے RISKDIASTERنے 2020 میں جو رپورٹ شایع کی اس کے تحت پاکستان دنیا کا اٹھارہواں ملک تھا جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات متوقع تھے ۔
انسان روایتی طریقوں سے موسمی تبدیلیوں کے مطابق زندگی گزارتا چلا آرہا تھا۔اٹھارویں صدی میں یورپ خصوصاً برطانیہ میں صنعتی انقلاب سے تکنیکی ترقی کا آغاز ہوا۔اس ترقی نے بظاہر عالم انسانیت کے لیے سہولیات پیدا کیں لیکن ان صنعتوں میں استعمال ہونے والے کوئلہ,تیل اور گیس سے خارج ہونے والادھواں فضا میں شامل ہونے لگا۔ یہ صنعتی ترقی بتدریج دنیا کے دوسرے ممالک تک پہنچی، یوں فضائی آلودگی عالمی شکل اختیار کرنے لگی۔
دو سو سال تک تو اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سائنسدانوں نے اس خدشے کا اظہار شروع کر دیا کہ فضائی آلودگی ہر سانس لیتی مخلوق کے لیے نقصان دہ ہے۔ایٹمی توانائی، زیرزمین اور سمندر میں ایٹمی تجربات اور عالمی تنازعات اور کاروباری پروجیکٹ میں بارود کے بے پناہ استعمال سے پیدا ہونے والی آلودگی فضا میں معلق ہوگئے۔
کرہ ارض رب کریم کا ایک سیارہ ہے۔ سورج، چاند اور ستارے گردش میں ہیں، سمندر، دریا،جھیلیں اور بارش زمین پر زندگی کی بنیاد ہیں اور یہی زمین پر آباد ہر مخلوق کے لیے رزق پیدا کرنے کا کام کررہے ہیں۔ زمین کی فضا، زیر زمین اور زیر سمندر و دریاؤں میں آلودگی اور زہریلی گیسوں کی صفائی یا فلٹریشن کے لیے قدرت کا ایک خودکار نظام موجود ہے۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سمندر اور جنگلات کے ذخیرے زمین پر پیدا ہونے والی زہریلی گیسں کو ری سائیکل کرکے صاف اور شفاف آب و ہوا کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ رب کریم کے متعین کردہ فارمولے کے تحت سمندر اور جنگلات دنیا بھر میں پیدا ہونے والی 30 فیصد تک آلودگی اور مضرصحت گیس کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں آلودگی کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
آلودگی کے پھیلاؤ کو اگر نہ روکا گیا تو دنیا کا مستقبل کسی سے چھپا ہوا نہیں ہوگا۔ یہ عمل کس قدر پریشان کن ہے کہ ہم نے مادی ترقی اور ایک دوسروں کے وسائل پر قبضے کے لیے ایسے ایسے کام کیے کہ پورے کرہ زمین نہ صرف آلودہ ہوا بلکہ ایسی ایسی بیماریوں اور وائرسزز کی افزائش ہوئی (کورونا بھی اس میں شامل ہے) جو نسل انسانی کی بقا کے لیے خطرہ خطرہ بن گئی ہے۔
ماحولیات کے ماہرین نے اس خطہ زمین کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو رپورٹس تیار کی ہیں اس کے مطابق اس آلودگی کے ذمے دار وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جنھیں Economic Power کہا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چین کی صنعتوں سے پھیل رہا ہے جس کا تناسب 30 ہے۔دوسرے نمبر پر امریکا ہے جو دنیا بھر میں 15فیصد آلودگی پھیلا رہا ہے۔تیسرے نمبر پر یورپی یونین کے ممالک ہیں جو 10 فیصد آلودگی پھیلا تے ہیں، اس کے بعد بھارت سات فیصد آلودگی پھیلا رہا ہے۔ بھارت کے بعد روس کا نمبر ہے جو 5فیصد آلودگی کا سبب ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آلودگی پھیلانے کے اس عمل میں پاکستان کا حصہ سب سے کم ممالک کی فہرست میں ہے، جو ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان اب دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان کا خدشہ ہے۔
چند ماہ پہلے ہونے والی طوفانی بارشوں اور سیلاب نے جس طرح خیبرپختونخواہ کے پہاڑی علاقوں، جنوبی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں کو متاثر کیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ماحول پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے RISKDIASTERنے 2020 میں جو رپورٹ شایع کی اس کے تحت پاکستان دنیا کا اٹھارہواں ملک تھا جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات متوقع تھے ۔