کراچی میں کمشنری نظام گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی روکنے میں ناکام
اشیائے خورونوش کی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کرایوں، تجاوزات، ذخیرہ اندوزی پر قابو پایا نہ جا سکا
سندھ حکومت نے دس سال قبل صوبے میں کمشنری نظام اس بنیاد پر بحال کیا کہ اس نظام کے تحت اشیائے خورونوش کی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کے کرایوں، تجاوزات، ذخیرہ اندوزی اور غیرقانونی معاملات کو کنٹرول کیا جاسکے گا تاہم اتنا عرصہ گزرنے کے باوجودان معاملات میں بہتری کے بجائے مزید تنزلی آگئی ہے، بالخصوص روزمرہ استعمال کی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
کمشنراورڈپٹی کمشنرز کی ہدایت پر قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے رسماً چند کارروائیاں ضرور کردی جاتی ہیں جس کا نتیجہ صفر ہوتا ہے، عملاً کمشنری نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔
ایکسپریس کے سروے کے مطابق شہر قائد میں ایک سال کے دوران بتدریج کھلے آٹا دال، تیل، مرغی، سبزی، گوشت دالیں اور دودھ اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے تاہم شہری انتظامیہ نہ صرف اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو مقرر کرنے اور کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے، بیکری اشیا اور کمپنی سے بنے تیل گھی، ڈبل روٹی وغیرہ کی قیمتوں کی چیکنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے، کمپنی مالکان ایک ہی وقت میں باآسانی ایک آئٹم پر دس روپے سے تیس روپے اضافہ کردیتے ہیں لیکن ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
رمضان سے قبل رسمی کارروائیاں شروع کی جائیں گی
صارف انجمن پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا کہ اب چونکہ رمضان المبارک قریب آنے والے ہیں جس میں عوام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لیے مہنگائی کے خلاف اجلاس اور منافع خوروں کے خلاف کچھ اقدامات نظر آئیں گے لیکن مافیا اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی منشا کے مطابق قیمتوں کا تعین کردیا ہے اور رمضان سے پہلے ہی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ کمشنر کراچی کی جانب سے اشیائے خورونوش کے نرخ نامہ کی لسٹ جاری ہوتی ہے، 5 روپے اس کی سرکاری قیمت مقرر ہے لیکن بازار میں یہ 20 سے 30 روپے میں فروخت ہوتی ہے، یہ نرخ نامہ کون فروخت کرتا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ، اس سے ہونے والی آمدنی سرکار کے کس کھاتے میں جاتی ہے، یہ بھی نہیں پتہ، یہ لسٹ کسی دکاندار کے پاس نظر نہیں آتی حالانکہ اسے سامنے لگانا لازمی ہے۔
کوکب اقبال نے کہا کہ اس وقت پرائس کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، مصالحہ جات، بیکری اشیا ، گھی، تیل وغیرہ کے پیکٹ کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، مل مالکان کے خلاف تو رسماً بھی کارروائی نہیں کی جاتی ہے، اسسٹنٹ کمشنرز کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں، بازاروں کے سروے ہوتے ہیں اور نہ ہی منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، مہنگائی نے ریکارڈ توڑدیے ہیں اور غریبوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت شگئی ہے۔
کوکب اقبال نے کہا کہ محکمہ زراعت کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ رپرائسز نامی ایک محکمہ کام کرتا ہے لیکن وہ بے اختیار ہے۔
''ریٹیلرز زیرعتاب اورہول سیلرز کو کچھ نہیں کہا جاتا''
صارف انجمن پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے بتایا کہ کمشنر کراچی کنٹرولر جنرل پرائس کنٹرول ہیں اوراشیائے خورونوش کی قیمتں مقرر کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا ان کی ذمے داری ہے، ڈپی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی ذمے داریوں میں اشیائے خورونوش کا نرخ نامہ جاری کرنا ہے۔
بازاروں کے دورے کرکے اشیا کی قیمت چیک کرنا اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی کرنا ان کی ذمے داری ہے ان افسران کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہیں اس لیے ان کے لیے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن عرصہ دراز سے دیکھا گیا ہے اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی ہے اور جو بھی کارروائی کی گئی ہے وہ رسماً کی گئی ہے اور تھوک فروش (ریٹیلرز) کے خلاف کی گئی ہے جبکہ بڑی مچھلیوں یعنی خوردہ فروشوں ہول سیلرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جوکہ مہنگائی کے اصل ذمے دار ہیں۔
قانون کے تحت منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف 500 روپے سے 50 ہزار جرمانہ اور ایک دن سے 5 دن تک گرفتاری کی جاتی ہے، سندھ بھر میں جو رسماً کارروائی بھی ہوتی ہے اس کی مد میں جو جرمانہ اکٹھا کیا جاتا ہے، وہ کہاں جمع ہوتا ہے وہ کسی کو نہیں پتہ ہے۔
پرائس کنٹرول اختیارات ضلعی انتظامیہ کوملنے پرسروے کرتے ہیں،علی آرائیں
ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی اینڈ رپرائسزمعمر سالک مرزا نے بتایا کہ کہ یہ چارج انھوں نے ابھی لیا ہے اس لیے تفصیلات ان کے ایک ذمے دار افسر علی حیدر آرائیں سے لی جائیں۔
علی حیدر آرائیں نے ایکسپریس کو بتایا کہ2002 سے قبل یہ محکمہ سندھ حکومت کے تحت کام کرتا تھا اس وقت یہ محکمہ ایس ڈی یم حضرات کے تعاون سے پرائس کنٹرول کرتا تھا ایس ڈی ایم کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے ہیں جو منافع خوروں اور ذخیراندوزوں خلاف بروقت کارروائی کرتے تھے، بعدازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ شہری حکومت کے ماتحت یہ محکمہ کام کرتا رہا، 2012-13 میں پرائس کنٹرول کے اختیارات کمشنر ز و ڈپٹی کمشنرز کو دیدیے گئے اب یہ محکمہ صرف بازاروں کے سروے کرتا ہے اور اس کی رپورٹ متعلقہ شہر اور ضلع کے کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز کو بھیجوادی جاتی ہے جس کی بنیاد پر منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔
ایکسپریس نے کمشنر کراچی اقبال میمن سے کئی بار رابطے کی کوشش کی انھیں سیل فون پر پیغام بھی بھیجا تاہاہم انھوں نے فون موصول کرنے کی زحمت نہیں کی۔
کمشنراورڈپٹی کمشنرز کی ہدایت پر قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے رسماً چند کارروائیاں ضرور کردی جاتی ہیں جس کا نتیجہ صفر ہوتا ہے، عملاً کمشنری نظام مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔
ایکسپریس کے سروے کے مطابق شہر قائد میں ایک سال کے دوران بتدریج کھلے آٹا دال، تیل، مرغی، سبزی، گوشت دالیں اور دودھ اور دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے تاہم شہری انتظامیہ نہ صرف اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو مقرر کرنے اور کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہے، بیکری اشیا اور کمپنی سے بنے تیل گھی، ڈبل روٹی وغیرہ کی قیمتوں کی چیکنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے، کمپنی مالکان ایک ہی وقت میں باآسانی ایک آئٹم پر دس روپے سے تیس روپے اضافہ کردیتے ہیں لیکن ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
رمضان سے قبل رسمی کارروائیاں شروع کی جائیں گی
صارف انجمن پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا کہ اب چونکہ رمضان المبارک قریب آنے والے ہیں جس میں عوام کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لیے مہنگائی کے خلاف اجلاس اور منافع خوروں کے خلاف کچھ اقدامات نظر آئیں گے لیکن مافیا اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی منشا کے مطابق قیمتوں کا تعین کردیا ہے اور رمضان سے پہلے ہی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ کمشنر کراچی کی جانب سے اشیائے خورونوش کے نرخ نامہ کی لسٹ جاری ہوتی ہے، 5 روپے اس کی سرکاری قیمت مقرر ہے لیکن بازار میں یہ 20 سے 30 روپے میں فروخت ہوتی ہے، یہ نرخ نامہ کون فروخت کرتا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں ، اس سے ہونے والی آمدنی سرکار کے کس کھاتے میں جاتی ہے، یہ بھی نہیں پتہ، یہ لسٹ کسی دکاندار کے پاس نظر نہیں آتی حالانکہ اسے سامنے لگانا لازمی ہے۔
کوکب اقبال نے کہا کہ اس وقت پرائس کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، مصالحہ جات، بیکری اشیا ، گھی، تیل وغیرہ کے پیکٹ کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، مل مالکان کے خلاف تو رسماً بھی کارروائی نہیں کی جاتی ہے، اسسٹنٹ کمشنرز کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں، بازاروں کے سروے ہوتے ہیں اور نہ ہی منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، مہنگائی نے ریکارڈ توڑدیے ہیں اور غریبوں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت شگئی ہے۔
کوکب اقبال نے کہا کہ محکمہ زراعت کے تحت بیورو آف سپلائی اینڈ رپرائسز نامی ایک محکمہ کام کرتا ہے لیکن وہ بے اختیار ہے۔
''ریٹیلرز زیرعتاب اورہول سیلرز کو کچھ نہیں کہا جاتا''
صارف انجمن پاکستان کے چیئرمین کوکب اقبال نے بتایا کہ کمشنر کراچی کنٹرولر جنرل پرائس کنٹرول ہیں اوراشیائے خورونوش کی قیمتں مقرر کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا ان کی ذمے داری ہے، ڈپی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی ذمے داریوں میں اشیائے خورونوش کا نرخ نامہ جاری کرنا ہے۔
بازاروں کے دورے کرکے اشیا کی قیمت چیک کرنا اور خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی کرنا ان کی ذمے داری ہے ان افسران کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہیں اس لیے ان کے لیے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنا کوئی مسئلہ نہیں لیکن عرصہ دراز سے دیکھا گیا ہے اس ضمن میں کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی ہے اور جو بھی کارروائی کی گئی ہے وہ رسماً کی گئی ہے اور تھوک فروش (ریٹیلرز) کے خلاف کی گئی ہے جبکہ بڑی مچھلیوں یعنی خوردہ فروشوں ہول سیلرز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جوکہ مہنگائی کے اصل ذمے دار ہیں۔
قانون کے تحت منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف 500 روپے سے 50 ہزار جرمانہ اور ایک دن سے 5 دن تک گرفتاری کی جاتی ہے، سندھ بھر میں جو رسماً کارروائی بھی ہوتی ہے اس کی مد میں جو جرمانہ اکٹھا کیا جاتا ہے، وہ کہاں جمع ہوتا ہے وہ کسی کو نہیں پتہ ہے۔
پرائس کنٹرول اختیارات ضلعی انتظامیہ کوملنے پرسروے کرتے ہیں،علی آرائیں
ڈائریکٹر جنرل بیورو آف سپلائی اینڈ رپرائسزمعمر سالک مرزا نے بتایا کہ کہ یہ چارج انھوں نے ابھی لیا ہے اس لیے تفصیلات ان کے ایک ذمے دار افسر علی حیدر آرائیں سے لی جائیں۔
علی حیدر آرائیں نے ایکسپریس کو بتایا کہ2002 سے قبل یہ محکمہ سندھ حکومت کے تحت کام کرتا تھا اس وقت یہ محکمہ ایس ڈی یم حضرات کے تعاون سے پرائس کنٹرول کرتا تھا ایس ڈی ایم کے پاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے ہیں جو منافع خوروں اور ذخیراندوزوں خلاف بروقت کارروائی کرتے تھے، بعدازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کردہ شہری حکومت کے ماتحت یہ محکمہ کام کرتا رہا، 2012-13 میں پرائس کنٹرول کے اختیارات کمشنر ز و ڈپٹی کمشنرز کو دیدیے گئے اب یہ محکمہ صرف بازاروں کے سروے کرتا ہے اور اس کی رپورٹ متعلقہ شہر اور ضلع کے کمشنرزاور ڈپٹی کمشنرز کو بھیجوادی جاتی ہے جس کی بنیاد پر منافع خوروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔
ایکسپریس نے کمشنر کراچی اقبال میمن سے کئی بار رابطے کی کوشش کی انھیں سیل فون پر پیغام بھی بھیجا تاہاہم انھوں نے فون موصول کرنے کی زحمت نہیں کی۔