اتحادی حکومتی کشتی میں سوراخ ہو رہے ہیں

کہا جارہا ہے کہ جنابِ صدر کا یہ انکار ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ عمران خان کی خوشنودی کے لیے ہے

tanveer.qaisar@express.com.pk

سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی مقبولیت بُری طرح ہچکولے کھا رہی تھی اور اُن کی حکومتی کشتی ڈُوب ہی رہی تھی کہ عین موقع پر جناب شہباز شریف' آصف زرداری' فضل الرحمن اور اُن کے اتحادیوں نے خان صاحب کی دستگیری کر ڈالی۔

بظاہر تو درجن بھر اتحادیوں نے(9 اپریل 2022 کو) تحریکِ عدم اعتماد کی طاقت سے عمران خان کی حکومت ختم کر کے ''زیادتی'' کی تھی لیکن بباطن اتحادیوں نے خان صاحب اور پی ٹی آئی حکومت پر احسانِ عظیم کیا۔

یوں شہباز شریف'زرداری اور حضرت مولانا دراصل عمران خان کے محسن ٹھہرے۔ نامقبولیت اور عوامی غیض و غضب کا جو لڑھکتا پتھر خان صاحب کی حکومت اور پارٹی کو کچلنے والا تھا، وہ پتھر اتحادی حکومت نے بخوشی اپنے کندھوں پراُٹھا لیا۔

حکومت اور حکمرانی کی کشش، چَس اور دلفریبی کے جال میں اتحادی حکومت بُری طرح پھنس چکی ہے۔ رُل تے گئے آں، پر چَس بڑی آئی اے۔

اتحادیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد نجی عوام اور ملک کا اِن سے بھلا نہیں ہو سکا ہے ۔ کئی سنگین مسائل نے انھیں گھیر رکھا ہے ۔ یہ مسائل بھاری بوجھ بن کر خاص طور پر نون لیگ اور شہباز شریف کی سیاست کو کچل رہے ہیں۔

اتحادی حکومت میں شریک جملہ سیاسی جماعتیں بیک زبان کہتی تو ہیں کہ ''ہم نے ریاست بچانے کے لیے سیاست قربان کر دی ہے '' تو اب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد اتحادیوں کی سیاست واقعی معنوں میں قربان گاہ پر رکھی جا چکی ہے ۔ اتحادی حکومت نے اگر ''قربانی'' دی ہے تو اِس کا صِلہ اللہ سے مانگنا چاہیے۔اتحادی اِس کا صِلہ عوام سے ووٹوں کی شکل میںمت مانگیں۔

عوام دشمن فیصلوں اور اقدامات کے برمے سے جو سوراخ کل عمران خان کی حکومتی کشتی میں ہو رہے تھے، آج اُسی برمے سے اتحادی حکومت کی کشتی میں سوراخ ہو رہے ہیں۔

کشتی کی شاید اِسی غرقابی سے بچنے کے لیے جملہ اتحادی عناصر کسی بھی انتخابی سمندر میں اُترنے سے کترا رہے ہیں۔حکومتی اتحاد نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اتحادی کس منہ سے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں؟

عمران خان اور عدالتی فیصلوں کے دَم بہ دَم بڑھتے دباؤ نے ویسے بھی اِس حکومت کو بے دَم کررکھا ہے ۔ ہلکان ہوتی یہ اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے مسلسل کستے شکنجے سے بھی بے جان ہو رہی ہے ۔ اوپر سے صدرِ مملکت کا خان صاحب کی طرف جھکا محبتی پلڑا اتحادی حکومت کو پریشان کیے ہُوئے ہے ۔

پچھلے 10ماہ کے دوران صدرِ مملکت کی طرف سے اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کو توقعات کے مطابق تعاون نہیں ملا ہے۔ اتحادی حکومت بارے میں صدر صاحب ہر وہ کام اور فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے عمران خان خوش ہوں ۔

تازہ ترین اقدام میں صدر صاحب نے اتحادی حکومت کے مالیاتی آرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکار کرکے اتحادی حکومت ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کو سخت مشکلات میں ڈال دیا۔گزشتہ روز وزیر خزانہ ، اسحاق ڈار، نے صدرِ مملکت سے ملاقات کی اور عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات میں پیش رفت سے آگاہ کرتے ہُوئے انھیں بتایا کہ حکومت آرڈیننس جاری کرکے ٹیکسوں کے ذریعے اضافی ریونیو اکٹھا کرنا چاہتی ہے، لیکن صدرِ مملکت نے حکومت کے حسبِ تمنا آرڈیننس پر سائن کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔

کہا جارہا ہے کہ جنابِ صدر کا یہ انکار ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ عمران خان کی خوشنودی کے لیے ہے۔ صدر صاحب کے انکار کے بعد وفاقی کابینہ کو آرڈیننس کی منظوری کے لیے بروئے کار آنا پڑا۔


ایک طرف صدرِ مملکت مالیاتی آرڈیننس پر دستخط کرنے سے انکاری ہیں تو دوسری جانب گورنر پنجاب، جناب بلیغ الرحمن، کی جانب سے صوبے میں انتخابات کی تاریخ دینے سے حرفِ انکار ہے ۔ وہ کہتے ہیں: جب مَیں نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر دستخط ہی نہیںکیے تو الیکشن کی تاریخ کیسے دے سکتا ہُوں؟گویا پاکستان دو بڑے انکاروں کے درمیان گھِر کر رہ گیا ہے۔

پی ٹی آئی اور عمران خان نے اپنے تئیں پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے بڑی چالاکی اور ہوشیاری کی تھی لیکن گورنر پنجاب کا انکار خان صاحب کی چالاکیوں پر پانی پھیر رہا ہے ۔یوں سیاسی حالات بھی گمبھیر ہیں اور معاشی حالات گمبھیر تر۔ غریب اور عسرت زدہ عوام اِن حاکموں اور حکمرانوں کی چکیوں کے درمیان پِس کررہ گئے ہیں۔

حکمران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے آپس میں بھِڑ رہے ہیں لیکن بے قصور عوام اِن متصادم ''بھینسوں'' کے پاؤں تلے گھاس کی طرح کچلے جا رہے ہیں ۔

اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی چھری سے ایک بار پھر بے زبان عوام کو ذبح کر دیا ہے۔15فروری2023 کا منی بجٹ مہنگائی اور گرانی کا پھر نیا طوفان لایا ہے ۔

مہنگائی کرنا اگر کوئی آرٹ ہے تو یہ کام مفتاح اسماعیل بھی'' بخوبی'' کررہے تھے ۔ پھر اسحاق ڈار کو لانے کا کیا فائدہ ہُوا ؟تلخ سچ یہ ہے کہ اتحادی حکومت نے عوام کی زندگیاں اجیرن اور عذاب بنا دی ہیں۔شہباز شریف کی 83رکنی حکومت اور کابینہ مگر اپنے مفادات اورمراعات میں رتی بھر کمی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

16فروری2023 کو ''ایکسپریس ٹربیون'' نے خبر دی کہ شہباز شریف کی حکومت میں FBR ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کی155 لگژری گاڑیاں خرید رہا ہے ۔ یہ مہنگی اور لگژری گاڑیاں ورلڈ بینک کے قرض سے خریدی جارہی ہیں ۔

اور یہ قرض بعد ازاں پاکستان کے غریب عوام ادا کریں گے اور عیاشیاں پاکستان کے بیوروکریٹ کریں گے۔ اتحادی حکومت نے پٹرول اور اشیائے خورونوش پر نئے ٹیکس(GST) عائد کرکے گرانی کا جو نیا طوفان برپا کیا ہے۔

اِس کا فوری نتیجہ حکومتی کشتی میں نامقبولیت کے کئی مزید سوراخوں کی شکل میں نکلے گا۔ اِن سوراخوں کے ساتھ اتحادی حکومت کی کشتی انتخابات کا سمندر کیسے عبور کر پائے گی ؟

اِس سنگین اور اعصاب شکن سوال نے اتحادی حکومت ( خصوصاً نون لیگ کو) پریشان کررکھا ہے ۔ نون لیگی نائب صدر اور چیف آرگنائزر، محترمہ مریم نواز، نے اِسی پریشانی کے عالم میں یہ کہا ہے:'' یہ میری حکومت نہیں ہے۔''گزشتہ روز محترمہ مریم نواز نے ایک نجی ٹی وی کو جو تفصیلی انٹرویو دیا ہے۔

اس میں بھی اُن کی پریشانیاں جھلک رہی تھیں۔ اتحادی حکومت کو زِچ کرنے کے لیے عمران خان اپنے کارکنوں کے ساتھ 22فروری کو ملک بھر کی جیلیں بھرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اتحادی حکومت اِن دھمکیوں کو ''گیدڑ بھبکیاں'' کہہ کر اپنے دل کو تسلّی دے رہی ہے۔

عمران خان کے بڑھتے متنوع دباؤ اور آئی ایم ایف کے شکنجے نے اتحادی حکومت اور ملکی معیشت کا گراف نیچے گرا دیا ہے ۔

اتحادی حکومت کے اقتصادی فیصلوں کا منفی نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ ملک میں کاروں، ٹریکٹروں، ٹرکوں ، رکشوں اورموٹر سائیکلوں کی فروخت میں43فیصد کمی واقع ہو چکی ہے ۔ پاکستان کی بدحال معیشت کے پیشِ نظر عالمی کریڈٹ ایجنسی (Fitch) نے پاکستان کی درجہ بندی ٹرپل سی منفی(CCC-)کر دی ہے ۔ اسحق ڈار پاکستانی عوام اور پاکستانی معیشت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں ۔
Load Next Story