سریا نہ خریدنے کی مہم 9 کھرب کے 300 تعمیراتی منصوبوں پر کام رک گیا
فی اسکوائر فٹ تعمیراتی لاگت بڑھنے سے ’’لو کاسٹ ہاؤسنگ‘‘ متاثر ہو رہی ہے، آباد کے پیٹرن انچیف محسن شیخانی
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے ممبران کی سریا نہ خریدنے کی مہم پیر کو 12ویں دن بھی جاری رہنے سے 9کھرب روپے مالیت کے 300 تعمیراتی منصوبوں پر کام رک گیا ہے جس سے ان رہائشی و تجارتی منصوبوں کے الاٹیز کو مقررہ مدت میں قبضہ دینے کا عمل متاثر ہوگا۔
سریا کی بطور احتجاج خریداری سرگرمیاں رکنے سے شعبہ تعمیرات کے صرف ان منصوبوں پر فنشنگ کام جاری ہے جہاں انفرا اسٹرکچرل کام مکمل ہوچکا ہے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے پیٹرن انچیف محسن شیخانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں فی ٹن سریا کی قیمت 3لاکھ روپے سے تجاوز کرگیا ہے جس سے فی اسکوائر فٹ تعمیراتی لاگت بڑھنے سے ''لو کاسٹ ہاؤسنگ'' متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پڑوس ملک ایران میں فی ٹن سریا 555ڈالر میں دستیاب ہے لہٰذا حکومت تعمراتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور رہائشی یونٹوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایران سے باٹر سسٹم پر آباد ممبران کو اسٹیل درآمد کرنے کی اجازت دے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ ایرانی اسٹیل 72000 پی ایس آئی حامل بلند معیار کا ہے جبکہ پاکستانی اسٹیل کا معیار 68000 پی ایس آئی کا حامل ہے۔ تعمیراتی شعبے میں 25 سے 30فیصد اسٹیل کا استعمال ہوتا ہے۔ دو سال قبل فی ٹن مقامی سریے کی قیمت ایک لاکھ 30ہزار روپے تھی جو فی الوقت 3لاکھ روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تعمیراتی شعبے کی وصولیاں بھی متاثر ہیں اور حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہ ہونے سے تعمیراتی شعبہ اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔
محسن شیخانی نے کہا کہ ملک میں آئرن اوور کے وسیع ذخائر موجود ہیں جنہیں استعمال میں لاکر مقامی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعمیراتی شعبے کو نجی اسٹیل پروڈیوسرز کی من مانیوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے پاکستان اسٹیل مل کے آئرن اوور پلانٹ کو آپریشنل کرے کیونکہ نجی اسٹیل ملز جاری بحرانی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیار سریا روک کر مہنگا کرکے فروخت کر رہے ہیں لہٰذا خطرہ ہے کہ صرف سریا مہنگا ہونے سے غیرمنظم کچی آبادیاں پروان چڑھیں گی۔
سریا کی بطور احتجاج خریداری سرگرمیاں رکنے سے شعبہ تعمیرات کے صرف ان منصوبوں پر فنشنگ کام جاری ہے جہاں انفرا اسٹرکچرل کام مکمل ہوچکا ہے۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے پیٹرن انچیف محسن شیخانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں فی ٹن سریا کی قیمت 3لاکھ روپے سے تجاوز کرگیا ہے جس سے فی اسکوائر فٹ تعمیراتی لاگت بڑھنے سے ''لو کاسٹ ہاؤسنگ'' متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پڑوس ملک ایران میں فی ٹن سریا 555ڈالر میں دستیاب ہے لہٰذا حکومت تعمراتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے اور رہائشی یونٹوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایران سے باٹر سسٹم پر آباد ممبران کو اسٹیل درآمد کرنے کی اجازت دے۔
محسن شیخانی نے بتایا کہ ایرانی اسٹیل 72000 پی ایس آئی حامل بلند معیار کا ہے جبکہ پاکستانی اسٹیل کا معیار 68000 پی ایس آئی کا حامل ہے۔ تعمیراتی شعبے میں 25 سے 30فیصد اسٹیل کا استعمال ہوتا ہے۔ دو سال قبل فی ٹن مقامی سریے کی قیمت ایک لاکھ 30ہزار روپے تھی جو فی الوقت 3لاکھ روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تعمیراتی شعبے کی وصولیاں بھی متاثر ہیں اور حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہ ہونے سے تعمیراتی شعبہ اپنے مستقبل کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔
محسن شیخانی نے کہا کہ ملک میں آئرن اوور کے وسیع ذخائر موجود ہیں جنہیں استعمال میں لاکر مقامی ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعمیراتی شعبے کو نجی اسٹیل پروڈیوسرز کی من مانیوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے پاکستان اسٹیل مل کے آئرن اوور پلانٹ کو آپریشنل کرے کیونکہ نجی اسٹیل ملز جاری بحرانی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیار سریا روک کر مہنگا کرکے فروخت کر رہے ہیں لہٰذا خطرہ ہے کہ صرف سریا مہنگا ہونے سے غیرمنظم کچی آبادیاں پروان چڑھیں گی۔