کچھ شرارتی لکیریں جو الفاظ میں کھینچی گئیں
ہمارا کارٹون بازی کو من کر رہا ہے لیکن لکیریں تو ہمیں آتی نہیں ہیں اس لیے الفاظ ہی سے لکیریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں
آج ہمارا کارٹون بازی کو من کر رہا ہے لیکن لکیریں تو ہمیں آتی نہیں ہیں اس لیے الفاظ ہی سے لکیریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں تو اس میں رنگ بھریں اور لطف اٹھائیں، آپ خود سوچئے کہ جب کارٹون ساز لوگ اپنے کارٹون کو الفاظ کے ذریعے واضح کرتے ہیں تو ہم الفاظ میں لکیریں کیوں نہیں کھینچ سکتے بلکہ ہم نے تو یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ اس کے بعد بوڑھے بچوں کے لیے نقطے ملائیں جیسے پروگرام بھی شروع کریں گے کیونکہ اصلی اور اوریجنل بچے دراصل بوڑھے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔ پہلا کارٹون ایک کُشتی (ریسلنگ) رِنگ کا ہے ایک طرف ایک واجبی سا پہلوان کھڑا ہے اور دوسرے کونے میں کھڑے ہوئے پہلوان کو دیکھ رہا ہے جس کا چہرہ تو بہت چھوٹا ہے لیکن باقی سارا جسم پھولا ہوا ہے جیسے غبارہ۔
حقیقت میں اس نے جو لباس پہنا ہوا ہے اس سے ایک ربڑ کی نلی نیچے گئی ہوئی ہے جہاں اسٹیج کی آڑ میں ایک شخص ہینڈ پمپ سے ہوا بھر رہا ہے، اس ہینڈ پمپ والے کی بنیان پر ریال لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے، ۔۔۔ خوب ہوا بھرنے کے بعد پھولا پہلوان قدم قدم آگے بڑھتا ہے اور کونے میں کھڑے ڈالر پہلوان کو دبوچنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ڈالر پہلوان کو مروڑ کر اس کا کچومر نکال دیگا، دونوں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں لیکن پھر اچانک پھولا پہلوان سکڑنے لگتا ہے اور تھوڑی دیر میں اس کی ساری ہوا نکل جاتی ہے اور درمیان سے ایک بونا قد پہلوان دکھائی دینے لگتا ہے، ڈالر پہلوان قہقہے لگا رہا ہے اس کے ہاتھ میں ایک پن ہے جس پر ''نیپرا'' لکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے کارٹون میں کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ کھڑے ہیں کچھ بیٹھے ہیں اور کچھ جیسے مورچے میں نشانہ باندھے ہوئے ہوں، سامنے کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ لوگ ایسے کھڑے ہیں جیسے زبردست شکاری ہوں کسی کے ہاتھ میں بندوق ہے کسی کے ہاتھ میں تیر کمان، کوئی کوئی نیزہ لیے بھی کھڑا ہے ان کے درمیان جو سب سے بلند قامت شکاری ہے اس نے ہاتھ میں توپ تان رکھی ہے، سامنے ویسے تو کچھ ہے نہیں لیکن ہوا میں کہیں ''کر'' لکھا ہے کہیں کرپ اور کہیں پر ''شن'' دھندلے حروف میں لکھا ہے یہاں وہاں ک ر اور پ اور ش ن بھی تیر رہے ہیں ۔۔۔ اور ان سب شکاریوں کے کاندھوں پر چھوٹی چھوٹی بندریوں کی شکل میں جو مخلوق لٹکی ہوئی ہے ان سب کے سینوں پر کرپشن لکھا ہوا ہے یہ سب کی سب بندریاں منہ کھول کر ہنس رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا کارٹون ایک سڑک کا ہے سڑک کے دونوں اطراف سے کچھ ڈبے کچھ پیٹیاں اور طرح طرح کا سامان فٹ پاتھ پر رکھا ہوا ہے اس سامان میں بالٹیاں، پلاسٹک کے ڈرم، فریج پنکھے اور پانی کی ٹینکیاں رکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ فٹ پاتھ پر دکان دار اور اس کے ساتھ چند اور لوگ کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں فٹ پاتھ کے خاتمے پر سڑک کنارے ڈبل قطار میں ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں جن کے اوپر سبزیاں فروٹ منیاری کا سامان وغیرہ لدا ہوا ہے ہر ریڑھی کے پاس خریداروں کا ہجوم ہے اس سے پرے سڑک پر گاڑیاں کھڑی ہیں، جن کے بعد ایک موٹی زنجیر لٹکی ہوئی ہے ۔۔۔ دونوں اطراف کی رنجیروں کے درمیان سڑک صرف اتنی بچی ہے کہ اس میں گاڑیاں فلموں کی طرح ترچھی ہو کر چلتی دکھائی دیتی ہیں، اس کارٹون کے دو حصے ہیں ایک حصے میں ایک شخص جھکا ہوا ہے اور اس کے کاندھے پر ایک بڑی سی بوری رکھی ہوئی ہے اور بوری پر ایک بڑا سا ہاتھ اس انداز میں رکھا ہے جسے بوری اس ہاتھ نے اس شخص کے کاندھے پر رکھی ہوئی ہے، اس بڑے ہاتھ پر جلی حروف میں اسلام آباد لکھا ہوا ہے، کارٹون کے دوسرے حصے میں خالی بوری اس شخص کے کاندھے پر رکھی ہوئی ہے اور اس کی ہتھیلی پر گندم کا ایک دانہ ہے جو وہ ایک سوکھے ساکھے منحنی اور دبلے پتلے ہاتھ پر رکھ رہا ہے اس دبلے پتلے اور سوکھے ہاتھ کے اوپر ''تھر'' لکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دوسرا کارٹون بھی تقریباً اسی قبیل کا ہے لیکن اس میں پانی کی ایک موٹی دھار اوپر سے گر رہی ہے یہ دھار ایک پھیلی ہوئی جھولی میں گر رہی ہے، کارٹون کے دوسرے حصے میں وہی جھولی ہے اس کے نیچے کئی انجر پنجر لوگ ہاتھوں کے پیالے بنائے کھڑے ہیں اور جھولی سے صرف ایک بوند گر رہی ہے جس کو پانے کے لیے وہ سارے ہاتھ یوں گڈمڈ ہو رہے ہیں کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا ہاتھ کس کا ہے، کارٹون کے اوپر لکھا ہے
اس دل کے دریدہ دامن میں، دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
اگر آپ چاہیں تو پانی کی موٹی دھار پر ''مدد'' کا لفظ بھی لکھ سکتے ہیں اور جھولی پر انتظامیہ اور نیچے والے لوگوں پر متاثرین کا کیپشن بھی لگا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کارٹون ایک کلاس روم کا ہے اس کلاس روم کا جو پاکستان کا اصل اور اوریجنل کلاس روم ہے یعنی ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے ایک استاد ایک بلیک بورڈ ایک پانی کے مٹکے اور بہت سارے بوریا نشینوں پر مشتمل ۔۔۔ لیکن اس کلاس میں بوریا نشین بوریے کے اوپر بیٹھے نہیں ہیں بلکہ مرغے بنے ہوئے ہیں دس پندرہ مرغا بنے ہوئے شاگردوں سے تھوڑا ہٹ کر باقی کلاس گھٹنوں میں سر دیے سو رہی ہے کچھ لیٹ کر بھی سوئے ہوئے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر بھی محو خواب ہیں، جو لڑکے مرغا بنے ہوئے ہیں ان کی پیٹھ پر اپنا اپنا نام بھی لکھا ہوا ہے ۔۔۔ جو اتفاق سے پاکستان کے کچھ محکموں سے بھی ملتا جلتا ہے مثلاً لوڈ شیڈنگ، محکمہ انسداد صحت، محکمہ انسداد تعلیم، محکمہ انسداد زراعت، محکمہ تخریبات و عمارات و پل جات، محکمہ کرنے پختہ نالیاں، محکمہ لائے اسٹاک، محکمہ اب بربادی، محکمہ انسداد امن وغیرہ۔۔۔ ان مرغا بنے ہوئے محکموں یا لڑکوں کی آنکھیں ٹیچر پر لگی ہوئی ہیں جس کی پیٹھ پر منتخب نمایندہ لکھا ہوا ہے اور بورڈ پر لکھے ہوئے فنڈز، فنڈز، فنڈز کے الفاظ نظر آ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شطرنج کی بساط بچھی ہوئی ہے دو ہاتھ آمنے سامنے سے کھیل رہے ہیں شطرنج کے سارے مہروں پر ''وزیر'' لکھا ہوا ہے، شطرنج کی بساط کے نیچے کمزور منحنی اور لاغر بندوں کا ڈھیر پڑا ہوا ہے ایک کونے میں ''کے پی کے'' لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کارٹون میں ایک کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے میز پر پھولوں کے گل دستے ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر گل دستوں میں پھولوں کے بجائے لمبی پتلی گردنوں والی کھوپڑیاں سجی ہوئی ہیں ۔۔۔ کمیٹی کے ہر رکن کے سامنے منرل واٹر کی بڑی بوتل بھی رکھی ہوئی ۔۔۔ کمیٹی کے ایک طرف ارکان اسمبلی اور وزراء کے نیچے ہٹے کٹے لوگ کھڑے اپنے ہاتھوں میں نوٹوں کے بنڈل اٹھائے ہوئے ہیں ان کی جیبوں سے بھی نوٹوں کے بنڈل جھانک رہے ہیں، دوسری طرف دبلے پتلے کچھ لوگ کھڑے ہیں جو آدھے ننگے ہیں اور ان کے پیٹ کمر سے لگے ہوئے ہیں ان لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ مانگنے کے انداز میں بڑھا رکھے ہیں لیکن ان ہاتھوں پر کسی اور چیز کے بجائے بڑے بڑے صفر رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ نیچے لکھا ہے ''وزیراعلیٰ سمیت وزراء کی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے کی کمیٹی''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کارٹون ایک خوب صورت مزار کا ہے جس کے اوپر بڑے بڑے جھاڑ فانوس لگے ہوئے ہیں ادھر ادھر فاصلے پر بہت سارے لوگ کھڑے ہیں اور چار پانچ لوگ اپنے گلوں میں پھولوں کا ہار ڈالے ایک چادر پکڑے ہوئے مزار کے پاس کھڑے ہیں جیسے یہ لوگ مزار پر چادر چڑھا رہے ہوں، چادر کی اوٹ سے مزار کا جو حصہ دکھائی دے رہا ہے اس پر سنہری حروف میں ''میرٹ بابا'' کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور جو لوگ چادر چڑھا رہے ہیں ان کی پشت پر وزیر، مشیر اور منتخب نمایندہ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، ادھر ادھر دور کھڑے ہوئے لوگ سینہ کوبی کر رہے ہیں، اوپر ایک شعر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
حقیقت میں اس نے جو لباس پہنا ہوا ہے اس سے ایک ربڑ کی نلی نیچے گئی ہوئی ہے جہاں اسٹیج کی آڑ میں ایک شخص ہینڈ پمپ سے ہوا بھر رہا ہے، اس ہینڈ پمپ والے کی بنیان پر ریال لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے، ۔۔۔ خوب ہوا بھرنے کے بعد پھولا پہلوان قدم قدم آگے بڑھتا ہے اور کونے میں کھڑے ڈالر پہلوان کو دبوچنے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے ڈالر پہلوان کو مروڑ کر اس کا کچومر نکال دیگا، دونوں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں لیکن پھر اچانک پھولا پہلوان سکڑنے لگتا ہے اور تھوڑی دیر میں اس کی ساری ہوا نکل جاتی ہے اور درمیان سے ایک بونا قد پہلوان دکھائی دینے لگتا ہے، ڈالر پہلوان قہقہے لگا رہا ہے اس کے ہاتھ میں ایک پن ہے جس پر ''نیپرا'' لکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے کارٹون میں کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ کھڑے ہیں کچھ بیٹھے ہیں اور کچھ جیسے مورچے میں نشانہ باندھے ہوئے ہوں، سامنے کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ لوگ ایسے کھڑے ہیں جیسے زبردست شکاری ہوں کسی کے ہاتھ میں بندوق ہے کسی کے ہاتھ میں تیر کمان، کوئی کوئی نیزہ لیے بھی کھڑا ہے ان کے درمیان جو سب سے بلند قامت شکاری ہے اس نے ہاتھ میں توپ تان رکھی ہے، سامنے ویسے تو کچھ ہے نہیں لیکن ہوا میں کہیں ''کر'' لکھا ہے کہیں کرپ اور کہیں پر ''شن'' دھندلے حروف میں لکھا ہے یہاں وہاں ک ر اور پ اور ش ن بھی تیر رہے ہیں ۔۔۔ اور ان سب شکاریوں کے کاندھوں پر چھوٹی چھوٹی بندریوں کی شکل میں جو مخلوق لٹکی ہوئی ہے ان سب کے سینوں پر کرپشن لکھا ہوا ہے یہ سب کی سب بندریاں منہ کھول کر ہنس رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرا کارٹون ایک سڑک کا ہے سڑک کے دونوں اطراف سے کچھ ڈبے کچھ پیٹیاں اور طرح طرح کا سامان فٹ پاتھ پر رکھا ہوا ہے اس سامان میں بالٹیاں، پلاسٹک کے ڈرم، فریج پنکھے اور پانی کی ٹینکیاں رکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ فٹ پاتھ پر دکان دار اور اس کے ساتھ چند اور لوگ کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں فٹ پاتھ کے خاتمے پر سڑک کنارے ڈبل قطار میں ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں جن کے اوپر سبزیاں فروٹ منیاری کا سامان وغیرہ لدا ہوا ہے ہر ریڑھی کے پاس خریداروں کا ہجوم ہے اس سے پرے سڑک پر گاڑیاں کھڑی ہیں، جن کے بعد ایک موٹی زنجیر لٹکی ہوئی ہے ۔۔۔ دونوں اطراف کی رنجیروں کے درمیان سڑک صرف اتنی بچی ہے کہ اس میں گاڑیاں فلموں کی طرح ترچھی ہو کر چلتی دکھائی دیتی ہیں، اس کارٹون کے دو حصے ہیں ایک حصے میں ایک شخص جھکا ہوا ہے اور اس کے کاندھے پر ایک بڑی سی بوری رکھی ہوئی ہے اور بوری پر ایک بڑا سا ہاتھ اس انداز میں رکھا ہے جسے بوری اس ہاتھ نے اس شخص کے کاندھے پر رکھی ہوئی ہے، اس بڑے ہاتھ پر جلی حروف میں اسلام آباد لکھا ہوا ہے، کارٹون کے دوسرے حصے میں خالی بوری اس شخص کے کاندھے پر رکھی ہوئی ہے اور اس کی ہتھیلی پر گندم کا ایک دانہ ہے جو وہ ایک سوکھے ساکھے منحنی اور دبلے پتلے ہاتھ پر رکھ رہا ہے اس دبلے پتلے اور سوکھے ہاتھ کے اوپر ''تھر'' لکھا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دوسرا کارٹون بھی تقریباً اسی قبیل کا ہے لیکن اس میں پانی کی ایک موٹی دھار اوپر سے گر رہی ہے یہ دھار ایک پھیلی ہوئی جھولی میں گر رہی ہے، کارٹون کے دوسرے حصے میں وہی جھولی ہے اس کے نیچے کئی انجر پنجر لوگ ہاتھوں کے پیالے بنائے کھڑے ہیں اور جھولی سے صرف ایک بوند گر رہی ہے جس کو پانے کے لیے وہ سارے ہاتھ یوں گڈمڈ ہو رہے ہیں کہ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا ہاتھ کس کا ہے، کارٹون کے اوپر لکھا ہے
اس دل کے دریدہ دامن میں، دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
اگر آپ چاہیں تو پانی کی موٹی دھار پر ''مدد'' کا لفظ بھی لکھ سکتے ہیں اور جھولی پر انتظامیہ اور نیچے والے لوگوں پر متاثرین کا کیپشن بھی لگا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کارٹون ایک کلاس روم کا ہے اس کلاس روم کا جو پاکستان کا اصل اور اوریجنل کلاس روم ہے یعنی ایک گھنے سایہ دار درخت کے نیچے ایک استاد ایک بلیک بورڈ ایک پانی کے مٹکے اور بہت سارے بوریا نشینوں پر مشتمل ۔۔۔ لیکن اس کلاس میں بوریا نشین بوریے کے اوپر بیٹھے نہیں ہیں بلکہ مرغے بنے ہوئے ہیں دس پندرہ مرغا بنے ہوئے شاگردوں سے تھوڑا ہٹ کر باقی کلاس گھٹنوں میں سر دیے سو رہی ہے کچھ لیٹ کر بھی سوئے ہوئے ہیں اور کچھ ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر بھی محو خواب ہیں، جو لڑکے مرغا بنے ہوئے ہیں ان کی پیٹھ پر اپنا اپنا نام بھی لکھا ہوا ہے ۔۔۔ جو اتفاق سے پاکستان کے کچھ محکموں سے بھی ملتا جلتا ہے مثلاً لوڈ شیڈنگ، محکمہ انسداد صحت، محکمہ انسداد تعلیم، محکمہ انسداد زراعت، محکمہ تخریبات و عمارات و پل جات، محکمہ کرنے پختہ نالیاں، محکمہ لائے اسٹاک، محکمہ اب بربادی، محکمہ انسداد امن وغیرہ۔۔۔ ان مرغا بنے ہوئے محکموں یا لڑکوں کی آنکھیں ٹیچر پر لگی ہوئی ہیں جس کی پیٹھ پر منتخب نمایندہ لکھا ہوا ہے اور بورڈ پر لکھے ہوئے فنڈز، فنڈز، فنڈز کے الفاظ نظر آ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شطرنج کی بساط بچھی ہوئی ہے دو ہاتھ آمنے سامنے سے کھیل رہے ہیں شطرنج کے سارے مہروں پر ''وزیر'' لکھا ہوا ہے، شطرنج کی بساط کے نیچے کمزور منحنی اور لاغر بندوں کا ڈھیر پڑا ہوا ہے ایک کونے میں ''کے پی کے'' لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کارٹون میں ایک کمیٹی بیٹھی ہوئی ہے میز پر پھولوں کے گل دستے ہیں لیکن غور سے دیکھنے پر گل دستوں میں پھولوں کے بجائے لمبی پتلی گردنوں والی کھوپڑیاں سجی ہوئی ہیں ۔۔۔ کمیٹی کے ہر رکن کے سامنے منرل واٹر کی بڑی بوتل بھی رکھی ہوئی ۔۔۔ کمیٹی کے ایک طرف ارکان اسمبلی اور وزراء کے نیچے ہٹے کٹے لوگ کھڑے اپنے ہاتھوں میں نوٹوں کے بنڈل اٹھائے ہوئے ہیں ان کی جیبوں سے بھی نوٹوں کے بنڈل جھانک رہے ہیں، دوسری طرف دبلے پتلے کچھ لوگ کھڑے ہیں جو آدھے ننگے ہیں اور ان کے پیٹ کمر سے لگے ہوئے ہیں ان لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ مانگنے کے انداز میں بڑھا رکھے ہیں لیکن ان ہاتھوں پر کسی اور چیز کے بجائے بڑے بڑے صفر رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ نیچے لکھا ہے ''وزیراعلیٰ سمیت وزراء کی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے کی کمیٹی''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کارٹون ایک خوب صورت مزار کا ہے جس کے اوپر بڑے بڑے جھاڑ فانوس لگے ہوئے ہیں ادھر ادھر فاصلے پر بہت سارے لوگ کھڑے ہیں اور چار پانچ لوگ اپنے گلوں میں پھولوں کا ہار ڈالے ایک چادر پکڑے ہوئے مزار کے پاس کھڑے ہیں جیسے یہ لوگ مزار پر چادر چڑھا رہے ہوں، چادر کی اوٹ سے مزار کا جو حصہ دکھائی دے رہا ہے اس پر سنہری حروف میں ''میرٹ بابا'' کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور جو لوگ چادر چڑھا رہے ہیں ان کی پشت پر وزیر، مشیر اور منتخب نمایندہ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، ادھر ادھر دور کھڑے ہوئے لوگ سینہ کوبی کر رہے ہیں، اوپر ایک شعر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا