پاک روس تعلقات ایک نئے موڑ پر
پاک روس بزنس کونسل روس کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنے میں مصروف ہے
روس رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اِس کی سر زمین کرہ ارض کے گیارہویں حصہ پر محیط ہے۔ اِس کا سائز امریکا سے دْگنا ہے۔
روس کا اصل پھیلاؤ 16 ویں صدی کے آخری حصہ میں شروع ہوا جب اْس نے سائبیریا کے وسیع علاقہ کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اِس کی قوت اِس کے رقبہ ، اس کی آبادی اور اِس کی مسلح افواج میں مضمر ہے جس کے پاس 5977 ایٹمی ہتھیار اور 1588 میزائیل ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
تاہم روس کی بنیادی قوت کا سر چشمہ اِس کے بھاری توانائی کے وسائل ہیں کیونکہ روس دنیا کا سب سے بڑا گیس مہیا کرنے والا ملک ہے اِس کے ساتھ ہی روس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خام تیل مہیا کرنے والا ملک بھی ہے۔
اِس کی معاشی حکمتِ عملی اِس کے اختیاری آزاد منڈی کے مخلوط تصور پر قائم ہے۔ روسی معیشت یورپ کی چوتھی بڑی اور دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت ہے۔
پاکستان کو تمام علاقائی ممالک خاص طور سے روس سے جو توانائی کی سپر پاور ہے، بہترین سماجی اقتصادی ، سیاسی اور عسکری تعلقات رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔البتہ روس پاکستان تعلقات کو بڑا دھچکا تب لگا جب ہم اپنی آزادی کی ابتدائی دہائی میں اْس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکا اور سابقہ سوویت یونین سے متوازن اور بہترین سفارتی تعلقات رکھنے میں ناکام رہے۔
امریکی سوویت مخالف جاسوسی طیاروں کو بڈبیڑ پی اے ایف بیس(جو پشاور کے قریب واقع ہے) سے پرواز کرنے کی اجازت دے کر حالات کو مزید خراب کر دیا۔ تاہم سوویت یونین نے 1965 میں ہونے والی انڈو پاک جنگ میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کر کے دونوں ممالک کے مابین اعلامیہ تاشقند کو حتمی شکل دینے میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
تاہم بدقسمتی سے سابقہ سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں بھارت کی بھرپور حمایت جاری رکھتے ہوئے پاک انڈیا جنگ 1971 میں بھارت کی مدد کی۔سوویت یونین نے ستر کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں اسٹیل مِل قائم کرنے کے معاہدہ پر دستخط کر کے ایک مثبت پیش رفت کی تاہم دو طرفہ تعلقات میں پھر سے بگاڑ پیدا ہوا جب پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کا اختتام 1979)-1989) سوویت یونین کی شکست پر ہوا۔
سوویت یونین کے انہدام پر خاص طور سے اکیسویں صدی کے آغاز پر عالمی مالیاتی مرکز مغرب سے مشرق منتقل ہونا شروع ہوگیا اور اِس کے ساتھ ہی بین الاقوامی جغرافیائی حکمتِ عملی کے ماحول میں تبدیلی کے آغاز کو بھی دیکھا گیا۔
روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ایس سی او معرضِ وجود میں آئی۔ وقت نے ایک نئی کروٹ لی اور بھارت امریکا کے کیمپ میں چلا گیا اور بالآخر بھارت امریکا کا اتحادی بن گیا۔کووڈ نے دنیا کی معیشت کو بہت بری طرح متاثر کیا اور نیٹو کے مشرق کی طرف جھکاؤ کا انجام یوکرین کی جنگ کی صورت میں ہوا جس کے ساتھ ہی دنیا توانائی کے شدید بحران کی زد میں آگئی۔
روس نے اپنا اثر مشرق کی جانب بڑھانا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں پاکستان کو روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا۔
اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کو روس کی جانب سے 17 ایم آئی ہیلی کاپٹر ملے، مشترکہ فوجی مشقیں کی گئیں اور پاکستان کو بعد میں مزید 35 ایم آئی ہیلی کاپٹر ملے۔ اِس وقت $2.5 بلین مالیت کا پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن (PSGP) کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے جس کے نتیجہ میں کراچی سے قصور تک 1100 کلومیٹر کی گیس پائپ لائن ڈالی جائے گی۔
روس اور پاکستان کے مابین سرکاری سطح پر قائم کمیشن کا آٹھواں اجلاس گزشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
پاک روس بزنس کونسل روس کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنے میں مصروف ہے، تاہم خام تیل اور گیس کی فراہمی کے لیے جی ٹو جی کا طے پانے والا ایم او یو اِس سلسلہ میں بہت بڑی پیش رفت ہے جس کو جلد ہی معاہدہ کی شکل دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کی 70 ملین بیرل کی 35 فیصد خام تیل کی سالانہ ضرورت کو روس سے امدادی قیمت پر تیل برآمد کرنے سے پورا کیا جاسکے گا۔پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے روس کے حالیہ دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کو بڑی تقویت ملی ہے۔ روس کے ساتھ تعاون بڑھانے کے اور بھی مواقع موجود ہیں۔
اوّل یہ کہ کرنسی کی تبدیلی اور بارٹر ٹریڈ کے مسائل پر گفت و شنید کی جائے اور اِس کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ اِس کے ساتھ ہی افغانستان کے ذریعہ سے ایک محفوظ تجارتی راستہ نکالنے کا انتظام کیا جائے جو ایک سرنگ کے ذریعہ سے واخان راہداری کے نیچے سے نکال کر بنایا جائے۔ اِس کے لیے افغان حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔
یہ روس کے لیے بھی سْود مند ہوگا کیونکہ اْس کی گرم پانیوں تک رسائی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
جہاں تک روسی خام تیل کو صاف کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں، کیونکہ ہم اِس کی صفائی کے لیے اپنی پانچ میں سے دو ریفائنریز کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔
علاقائی ماحول کو سازگار بنانے اور مطلوبہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے روس سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی ثالثی کا کردار ادا کرے۔ مزید برآں روس سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سی پیک میں شمولیت اختیار کرے تاکہ اْس کی رسائی گرم پانیوں کی دیگر بندرگاہوں تک بھی رسائی حاصل کرسکے۔
روس پاکستان کے تعاون سے دفاع ، پیداوار ، ریلوے ، آئی ٹی، زرعی تحقیق، سیاحت اور اسٹیل کی صنعتوں میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔
روس کا اصل پھیلاؤ 16 ویں صدی کے آخری حصہ میں شروع ہوا جب اْس نے سائبیریا کے وسیع علاقہ کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اِس کی قوت اِس کے رقبہ ، اس کی آبادی اور اِس کی مسلح افواج میں مضمر ہے جس کے پاس 5977 ایٹمی ہتھیار اور 1588 میزائیل ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
تاہم روس کی بنیادی قوت کا سر چشمہ اِس کے بھاری توانائی کے وسائل ہیں کیونکہ روس دنیا کا سب سے بڑا گیس مہیا کرنے والا ملک ہے اِس کے ساتھ ہی روس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خام تیل مہیا کرنے والا ملک بھی ہے۔
اِس کی معاشی حکمتِ عملی اِس کے اختیاری آزاد منڈی کے مخلوط تصور پر قائم ہے۔ روسی معیشت یورپ کی چوتھی بڑی اور دنیا کی گیارہویں بڑی معیشت ہے۔
پاکستان کو تمام علاقائی ممالک خاص طور سے روس سے جو توانائی کی سپر پاور ہے، بہترین سماجی اقتصادی ، سیاسی اور عسکری تعلقات رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔البتہ روس پاکستان تعلقات کو بڑا دھچکا تب لگا جب ہم اپنی آزادی کی ابتدائی دہائی میں اْس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکا اور سابقہ سوویت یونین سے متوازن اور بہترین سفارتی تعلقات رکھنے میں ناکام رہے۔
امریکی سوویت مخالف جاسوسی طیاروں کو بڈبیڑ پی اے ایف بیس(جو پشاور کے قریب واقع ہے) سے پرواز کرنے کی اجازت دے کر حالات کو مزید خراب کر دیا۔ تاہم سوویت یونین نے 1965 میں ہونے والی انڈو پاک جنگ میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کر کے دونوں ممالک کے مابین اعلامیہ تاشقند کو حتمی شکل دینے میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی۔
تاہم بدقسمتی سے سابقہ سوویت یونین نے مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں بھارت کی بھرپور حمایت جاری رکھتے ہوئے پاک انڈیا جنگ 1971 میں بھارت کی مدد کی۔سوویت یونین نے ستر کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں اسٹیل مِل قائم کرنے کے معاہدہ پر دستخط کر کے ایک مثبت پیش رفت کی تاہم دو طرفہ تعلقات میں پھر سے بگاڑ پیدا ہوا جب پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کی جارحیت کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا جس کا اختتام 1979)-1989) سوویت یونین کی شکست پر ہوا۔
سوویت یونین کے انہدام پر خاص طور سے اکیسویں صدی کے آغاز پر عالمی مالیاتی مرکز مغرب سے مشرق منتقل ہونا شروع ہوگیا اور اِس کے ساتھ ہی بین الاقوامی جغرافیائی حکمتِ عملی کے ماحول میں تبدیلی کے آغاز کو بھی دیکھا گیا۔
روس اور چین ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ایس سی او معرضِ وجود میں آئی۔ وقت نے ایک نئی کروٹ لی اور بھارت امریکا کے کیمپ میں چلا گیا اور بالآخر بھارت امریکا کا اتحادی بن گیا۔کووڈ نے دنیا کی معیشت کو بہت بری طرح متاثر کیا اور نیٹو کے مشرق کی طرف جھکاؤ کا انجام یوکرین کی جنگ کی صورت میں ہوا جس کے ساتھ ہی دنیا توانائی کے شدید بحران کی زد میں آگئی۔
روس نے اپنا اثر مشرق کی جانب بڑھانا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں پاکستان کو روس کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آگیا۔
اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کو روس کی جانب سے 17 ایم آئی ہیلی کاپٹر ملے، مشترکہ فوجی مشقیں کی گئیں اور پاکستان کو بعد میں مزید 35 ایم آئی ہیلی کاپٹر ملے۔ اِس وقت $2.5 بلین مالیت کا پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن (PSGP) کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے جس کے نتیجہ میں کراچی سے قصور تک 1100 کلومیٹر کی گیس پائپ لائن ڈالی جائے گی۔
روس اور پاکستان کے مابین سرکاری سطح پر قائم کمیشن کا آٹھواں اجلاس گزشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
پاک روس بزنس کونسل روس کی بزنس کمیونٹی کے ساتھ باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنے میں مصروف ہے، تاہم خام تیل اور گیس کی فراہمی کے لیے جی ٹو جی کا طے پانے والا ایم او یو اِس سلسلہ میں بہت بڑی پیش رفت ہے جس کو جلد ہی معاہدہ کی شکل دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کی 70 ملین بیرل کی 35 فیصد خام تیل کی سالانہ ضرورت کو روس سے امدادی قیمت پر تیل برآمد کرنے سے پورا کیا جاسکے گا۔پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے روس کے حالیہ دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں کو بڑی تقویت ملی ہے۔ روس کے ساتھ تعاون بڑھانے کے اور بھی مواقع موجود ہیں۔
اوّل یہ کہ کرنسی کی تبدیلی اور بارٹر ٹریڈ کے مسائل پر گفت و شنید کی جائے اور اِس کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ اِس کے ساتھ ہی افغانستان کے ذریعہ سے ایک محفوظ تجارتی راستہ نکالنے کا انتظام کیا جائے جو ایک سرنگ کے ذریعہ سے واخان راہداری کے نیچے سے نکال کر بنایا جائے۔ اِس کے لیے افغان حکومت کے ساتھ معاملات طے کرنا ہوں گے۔
یہ روس کے لیے بھی سْود مند ہوگا کیونکہ اْس کی گرم پانیوں تک رسائی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
جہاں تک روسی خام تیل کو صاف کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں، کیونکہ ہم اِس کی صفائی کے لیے اپنی پانچ میں سے دو ریفائنریز کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔
علاقائی ماحول کو سازگار بنانے اور مطلوبہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے روس سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی ثالثی کا کردار ادا کرے۔ مزید برآں روس سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سی پیک میں شمولیت اختیار کرے تاکہ اْس کی رسائی گرم پانیوں کی دیگر بندرگاہوں تک بھی رسائی حاصل کرسکے۔
روس پاکستان کے تعاون سے دفاع ، پیداوار ، ریلوے ، آئی ٹی، زرعی تحقیق، سیاحت اور اسٹیل کی صنعتوں میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔