نصیب کا قیدی
13 مئی کے انتخابات میں (ن) لیگ کو بھرپور مینڈیٹ ملا تو میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے۔۔۔۔
حضرت شیخ سعدیؒ کی ایک حکایت ہے کہ ایک اونٹ کا بچہ جو اونٹنی کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا سفر کے دوران اپنی ماں سے کہنے لگا امی بہت سفر کرلیا اب تو ذرا سا آرام کرلو، اونٹنی نے جواب دیا۔ بیٹا! میری مہار میرے ہاتھ میں نہیں ہے اس لیے میں اپنی مرضی سے نہیں ٹھہر سکتی، میں اگر خودمختار ہوتی تو بوجھ کبھی نہ کھینچتی۔ ہر شخص تقدیر کے آگے بے بس اور نصیب کا قیدی ہے۔ اپنی مرضی سے اور تقدیر کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا، کشتی وہیں جاکر رکتی ہے جہاں تقدیر چاہتی ہے۔ ناخدائی برہمی یا ناراضی اس پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ بقول شیخ سعدیؒ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا بیکار ہے۔ ہر چیز کا عطا کرنے والا تو اﷲ تعالیٰ ہے۔ حق کے عارفوں کو خدا کا دروازہ کافی ہے، کیونکہ اگر وہ کسی کو دھتکار دے تو اس کو کہیں بھی یار نہیں ملتا۔ اگر اﷲ کسی کو خوش بختی عطا کردے تو اس کے لیے باعث فخر ہے ورنہ نامرادی تو مقدر ہی ہے۔ آپ شیخ سعدیؒ کی اس حکایت کو سامنے رکھیں اور جنرل پرویز مشرف کے عروج و زوال پہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سابق صدر آرمی چیف آج کل ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں اور مکافات عمل سے گزر رہے ہیں۔
عزیزو! یہ مکافات عمل ہے کہ آج پرویز مشرف کی مہار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، آج ان کی ''آزادی'' اور ''خودمختاری'' کو گہن لگ چکا ہے، وہ اپنی مرضی و منشا سے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے، نہ کہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ وہ تقدیر کے آگے بے بس اور اپنے نصیب کے قیدی بن چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان کے اشارہ ابرو کے بغیر نظم حکومت کا کوئی افسر بھی ملک میں کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ پرویز مشرف بلامبالغہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ کم و بیش آٹھ نو سال تک مطلق العنان حکمران رہے اور 12 اکتوبر 1999 کے ''انقلاب'' کے بعد ایک منتخب جمہوری حکومت کے سربراہ کو اپنا قیدی بنائے رکھا۔ یہ تو سعودی فرمانروا کے ''اذن'' کا کرشمہ تھا کہ میاں برادران کو بمع خاندان جنرل صاحب کی قید سے رہائی نصیب ہوئی اور وہ عازم عرب ہوگئے۔
مشرف بڑے یقین اور فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قصہ پارینہ بن گئے، اب یہاں ان کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ پانچ سال بعد جب میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے بھی تو پرویز مشرف نے انھیں ایئرپورٹ سے ہی واپس سعودی عرب بھجوا دیا۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو پر ان کا '' جادو'' نہ چل سکا، بی بی ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے 18 اکتوبر کو وطن واپس آگئیں۔ جمہوریت کی بحالی کے خواہش مند عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے بی بی شہید کا فقید المثال استقبال کیا اور ثابت کردیا کہ آج بھی ملک میں ''بھٹو ازم'' کی سیاست ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ اگرچہ بی بی کی واپسی پرویز مشرف کے لیے پریشان کن تھی اور وہ خواہش کے باوجود بی بی کو واپس تو نہ بھجوا سکے لیکن اس قوم کی بدنصیبی کہ 27 دسمبر 2007 کو انتہاپسند عناصر نے بی بی کو شہید کردیا۔ اب مشرف کے لیے اکیلے میاں نواز شریف ہی چیلنج رہ گئے تھے۔
13 مئی کے انتخابات میں (ن) لیگ کو بھرپور مینڈیٹ ملا تو میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے اور اپنے دعوؤں کے مطابق آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ درج کرا دیا۔ اس حوالے سے قائم ہونے والی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کو بالآخر پیش ہونا پڑا اور عدالت نے ان پر فرد جرم عاید کردی۔ اگرچہ ہر ملزم کی طرح سابق صدر نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ لیکن عدالتی طریقہ کار کے مطابق اس مقدمے کی کارروائی آگے بڑھنے اور منطقی انجام تک پہنچنے کے امکانات کے حوالے سے حکمراں پرامید ہیں۔ سردست تو معاملہ ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) سے ان کے نام کے اخراج کا ہے تاکہ وہ اپنی علیل والدہ کی عیادت کے لیے دبئی روانہ ہوسکیں۔
بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے حکومت نے ان کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کردی ہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور چونکہ عدالت کے کہنے پر ہی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا لہٰذا عدلیہ کی ہدایت کے بغیر حکومت از خود ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکال سکتی۔ گویا حکومت نے گیند پھر ایوان عدل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اس ضمن میں مبصرین و تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق حکومت نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے معاملہ عدالت کے سپرد کردیا ہے۔ بہرحال چونکہ معاملہ قانونی ہے اور عدالت میں زیر سماعت بھی لہٰذا فریقین اور رائے دہندگان کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے جو ہر فریق کو یقیناً قابل قبول بھی ہوگا۔
اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ پرویز مشرف ایک تاریخ بنا رہے ہیں اور آنے والے مورخین اس کو رقم کریں گے کیونکہ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ انہونیاں ہو رہی ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قومی سیاست میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے آئین شکنی کے مرتکب اعلی عہدیدار کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے 3 نومبر کے اقدام کی توثیق نہیں کی اور یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے کسی آمر کو عدالت میں طلب کرکے اس پر فرد جرم عاید کی گئی ہو۔ اور اس حوالے سے پیش آمدہ مراحل بھی قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ رقم ہوں گے ۔ آپ اگر گزشتہ چھ دہائیوں کی قومی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 1958 سے 1999 تک چار مرتبہ آمروں نے آئین کو پامال کرتے ہوئے منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا۔
یحییٰ خان کے دور میں تو ہمارا مشرقی بازو بھی کٹ گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے نیا ملک معرض وجود میں آگیا لیکن کسی سول حکمراں نے ایوب خان اور یحییٰ خان پر آئین شکنی کا مقدمہ درج نہیں کیا بلکہ عدالت نے ان کے آمرانہ اقدام پر ''نظریہ ضرورت'' کی مہر تصدیق ثبت کردی۔ جنرل ضیا الحق نے تو انتہا کردی نہ صرف جمہوری حکومت کا تختہ الٹا بلکہ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی دے دی اور عدالت سے ''نظریہ ضرورت'' کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا۔ ضیا الحق بھی آرٹیکل 6 کی گرفت سے محفوظ رہے کہ ان کے نزدیک آئین محض کاغذ کا ٹکڑا تھا۔ اگرچہ پرویز مشرف بھی 12 اکتوبر 1999 کے آمرانہ اقدام پر ''عدالتی تحفظ'' اور ''پارلیمانی تصدیق'' حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن پھر ان کی بدنصیبی کہ عدلیہ کی آزادی کا سورج طلوع ہوگیا اور مشرف کے 3 نومبر کے اقدام پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں آرٹیکل 6 کے یارکر سے کلین بولڈ کرکے تاریخ بدل دی۔ اﷲ تعالیٰ نے میاں صاحب کو خوش بختی عطا کردی وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اور پرویز مشرف نصیب کے قیدی بن گئے۔
عزیزو! یہ مکافات عمل ہے کہ آج پرویز مشرف کی مہار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، آج ان کی ''آزادی'' اور ''خودمختاری'' کو گہن لگ چکا ہے، وہ اپنی مرضی و منشا سے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے، نہ کہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ وہ تقدیر کے آگے بے بس اور اپنے نصیب کے قیدی بن چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان کے اشارہ ابرو کے بغیر نظم حکومت کا کوئی افسر بھی ملک میں کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ پرویز مشرف بلامبالغہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ کم و بیش آٹھ نو سال تک مطلق العنان حکمران رہے اور 12 اکتوبر 1999 کے ''انقلاب'' کے بعد ایک منتخب جمہوری حکومت کے سربراہ کو اپنا قیدی بنائے رکھا۔ یہ تو سعودی فرمانروا کے ''اذن'' کا کرشمہ تھا کہ میاں برادران کو بمع خاندان جنرل صاحب کی قید سے رہائی نصیب ہوئی اور وہ عازم عرب ہوگئے۔
مشرف بڑے یقین اور فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قصہ پارینہ بن گئے، اب یہاں ان کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں۔ پانچ سال بعد جب میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے بھی تو پرویز مشرف نے انھیں ایئرپورٹ سے ہی واپس سعودی عرب بھجوا دیا۔ تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو پر ان کا '' جادو'' نہ چل سکا، بی بی ہر قسم کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے 18 اکتوبر کو وطن واپس آگئیں۔ جمہوریت کی بحالی کے خواہش مند عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے بی بی شہید کا فقید المثال استقبال کیا اور ثابت کردیا کہ آج بھی ملک میں ''بھٹو ازم'' کی سیاست ہی سکہ رائج الوقت ہے۔ اگرچہ بی بی کی واپسی پرویز مشرف کے لیے پریشان کن تھی اور وہ خواہش کے باوجود بی بی کو واپس تو نہ بھجوا سکے لیکن اس قوم کی بدنصیبی کہ 27 دسمبر 2007 کو انتہاپسند عناصر نے بی بی کو شہید کردیا۔ اب مشرف کے لیے اکیلے میاں نواز شریف ہی چیلنج رہ گئے تھے۔
13 مئی کے انتخابات میں (ن) لیگ کو بھرپور مینڈیٹ ملا تو میاں نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے اور اپنے دعوؤں کے مطابق آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ درج کرا دیا۔ اس حوالے سے قائم ہونے والی خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کو بالآخر پیش ہونا پڑا اور عدالت نے ان پر فرد جرم عاید کردی۔ اگرچہ ہر ملزم کی طرح سابق صدر نے بھی صحت جرم سے انکار کردیا ہے۔ لیکن عدالتی طریقہ کار کے مطابق اس مقدمے کی کارروائی آگے بڑھنے اور منطقی انجام تک پہنچنے کے امکانات کے حوالے سے حکمراں پرامید ہیں۔ سردست تو معاملہ ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) سے ان کے نام کے اخراج کا ہے تاکہ وہ اپنی علیل والدہ کی عیادت کے لیے دبئی روانہ ہوسکیں۔
بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے حوالے سے حکومت نے ان کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کردی ہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور چونکہ عدالت کے کہنے پر ہی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا لہٰذا عدلیہ کی ہدایت کے بغیر حکومت از خود ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکال سکتی۔ گویا حکومت نے گیند پھر ایوان عدل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ اس ضمن میں مبصرین و تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق حکومت نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے معاملہ عدالت کے سپرد کردیا ہے۔ بہرحال چونکہ معاملہ قانونی ہے اور عدالت میں زیر سماعت بھی لہٰذا فریقین اور رائے دہندگان کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے جو ہر فریق کو یقیناً قابل قبول بھی ہوگا۔
اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ پرویز مشرف ایک تاریخ بنا رہے ہیں اور آنے والے مورخین اس کو رقم کریں گے کیونکہ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ انہونیاں ہو رہی ہیں جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قومی سیاست میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے آئین شکنی کے مرتکب اعلی عہدیدار کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے 3 نومبر کے اقدام کی توثیق نہیں کی اور یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے کسی آمر کو عدالت میں طلب کرکے اس پر فرد جرم عاید کی گئی ہو۔ اور اس حوالے سے پیش آمدہ مراحل بھی قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ رقم ہوں گے ۔ آپ اگر گزشتہ چھ دہائیوں کی قومی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 1958 سے 1999 تک چار مرتبہ آمروں نے آئین کو پامال کرتے ہوئے منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹا۔
یحییٰ خان کے دور میں تو ہمارا مشرقی بازو بھی کٹ گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے نیا ملک معرض وجود میں آگیا لیکن کسی سول حکمراں نے ایوب خان اور یحییٰ خان پر آئین شکنی کا مقدمہ درج نہیں کیا بلکہ عدالت نے ان کے آمرانہ اقدام پر ''نظریہ ضرورت'' کی مہر تصدیق ثبت کردی۔ جنرل ضیا الحق نے تو انتہا کردی نہ صرف جمہوری حکومت کا تختہ الٹا بلکہ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی دے دی اور عدالت سے ''نظریہ ضرورت'' کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا۔ ضیا الحق بھی آرٹیکل 6 کی گرفت سے محفوظ رہے کہ ان کے نزدیک آئین محض کاغذ کا ٹکڑا تھا۔ اگرچہ پرویز مشرف بھی 12 اکتوبر 1999 کے آمرانہ اقدام پر ''عدالتی تحفظ'' اور ''پارلیمانی تصدیق'' حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن پھر ان کی بدنصیبی کہ عدلیہ کی آزادی کا سورج طلوع ہوگیا اور مشرف کے 3 نومبر کے اقدام پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں آرٹیکل 6 کے یارکر سے کلین بولڈ کرکے تاریخ بدل دی۔ اﷲ تعالیٰ نے میاں صاحب کو خوش بختی عطا کردی وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے اور پرویز مشرف نصیب کے قیدی بن گئے۔