چھٹیوں میں گھر نہ جانے کا فیصلہ عربی سے شغف کی بنیاد بن گیا
محمد کاظم نے جماعت اسلامی سے اپنے تعلق کے زمانے میں مولانا مودودی کی چھ کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا
LODHRAN:
عربی کے معروف اسکالر اور نامور اردو ادیب محمدکاظم آٹھ اپریل کو 88 برس کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ان کے وقیع ترعلمی کام کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔انھوں نے قران پاک کا سلیس اور رواں ترجمہ بھی کیا جو کچھ ہی عرصہ قبل شائع ہوا۔
''عربی ادب میں مطالعے''، ''اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین'' ''عربی ادب کی تاریخ'' اور ''مسلم فکر و فلسفہ: عہد بہ عہد'' ان کی معروف تصانیف ہیں۔ محمد کاظم نے جماعت اسلامی سے اپنے تعلق کے زمانے میں مولانا مودودی کی چھ کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا، جو بلاد عرب میں شائع ہوئیں۔ ان کے سفر نامے ''مغربی جرمنی میں ایک برس'' کواردو کے بہترین سفر ناموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ محمد کاظم نے اسلامی فکر کے ممتاز شارح ڈاکٹر فضل الرحمان کی تین کتابوں کو انگریزی سے اردو کے قالب میں بھی ڈھالا۔ خاکوں اور متفرق مضامین پر مشتمل ان کی کتاب،''یادیں اور باتیں'' اور تبصرے،''کل کی بات'' کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔ وہ آخری دنوں میں مقدمۂ ابن خلدون کے بارے میں کتاب لکھ رہے تھے جس کے بارے میں اطلاع ہے کہ مکمل ہوگئی تھی۔ایکسپریس کے لیے ہم نے ان کا انٹرویوبھی کیا، جس کو قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کے سلسلے ''بھلانہ سکے''کے لیے بھی ان سے گزارش کی کہ کوئی سے بھی دو ایک واقعات جو ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوپائے ہوں، ہمارے ساتھ شیئر کریں تو وہ رضامند ہوگئے اور دو ایسے واقعات کے بارے میں ہمیں بتایا جن میں سے ایک انھیں عربی سے دور لے گیا تودوسرا واقعہ ان کے عربی اسکالر بننے کی بنیاد بن گیا۔ ایک انجینئر عربی کا عالم کیسے بن گیا؟ اس بابت بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
اس بارے میں بعض ان لوگوں کو بھی پتا نہیں، جن سے کاظم صاحب کی سالہا سال ملاقات رہی، جیسا کہ معروف ادیب امجد اسلام امجد نے جمعرات کو اپنے کالم میں لکھا ''کاظم صاحب کا تعلق بہاولپورکی مردم خیز مٹی سے تھا، وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی سے اپنے تعلق کو کس طرح قائم اوراستوار رکھ پائے، یہ اپنی جگہ پرایک انوکھی صورت حال ہے، جس کی تفصیلات کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرورجانتاہوں کہ جدید عربی زبان کے بارے میں ان کا مطالعہ اوردسترس بہت وسیع اور غیرمعمولی تھے۔'' مندرجہ ذیل تحریرسے البتہ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عربی زبان سے ان کا ربط کس طرح سے استوار ہوا۔
محمد کاظم کے بقول: ''انسان کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ ایسا پیش آتا ہے، جو اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل کے رکھ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ مجھے اس وقت پیش آیا جب میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرکے نویں جماعت میں داخل ہوا۔ ہمارا سکول واقع احمد پور شرقیہ میں آٹھویں جماعت کا امتحان ریاست بہاولپور کا ایک بورڈ لیتا تھا۔ میں اس امتحان میں اونچے نمبر لے کر کامیاب ہوا تھا اور اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ نویں جماعت میں اختیاری مضمون کے طور پر میں نے عربی کا انتخاب کیا۔ اردو کے ساتھ عربی اس زمانے میں ایک عام Combination تھا۔ انہی دنوں میرے گھر والوں کو کسی وجہ سے بہاولپور جانا پڑا۔ آٹھویں جماعت میں میری اعلیٰ کارکردگی کی اطلاع وہاں میرے بزرگوں کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ میرے اہل خانہ جب مجھے ایک ماموں سے ملانے کے لیے لے گئے جو بہاولپور کی عدالت میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ماموں نے میری پیٹھ تھپکی اور مجھے شاباشی دی۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا، اچھا تو اب نویں جماعت میں کون سا مضمون لینے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا عربی کا مضمون میں نے لے بھی لیا ہے۔ اس پر وہ جلال میں آگئے اور سرائیکی میں اپنی گونج دار آواز میں پکارے، ''کینا کیناں (بالکل نہیں، بالکل نہیں) تمہیں سائنس کا مضمون لینا ہوگا۔ اب براہ مہربانی واپس جاکر عربی کی بجائے سائنس کا مضمون لو۔ تمہیں آگے بھی سائنس ہی پڑھنی ہے۔'' میرے یہ ماموں بڑے دبدبے والے تھے۔ انہوں نے جس طرح مجھے عربی کا مضمون لینے سے روکا، مجھے یوں لگا جیسے میرے متعلق یہ حکم ان کی عدالت سے صادر ہوا ہے، جس سے سرتابی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
میں نے احمد پور شرقیہ واپس آکر میٹرک میں سائنس کا مضمون لے لیا۔ اگرچہ میں طبعاً اس مضمون کو پسند نہیں کرتا تھا، لیکن مجبوری تھی۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس میں بھی یہی مضمون لینا تھا اور اس میں زیادہ رغبت نہ ہونے کی وجہ سے ایف ایس سی کے امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن نہ آسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آگے انجینئرنگ میں داخلے کے لیے بہاولپور میں جو مقابلہ ہوا میں اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ میرے بزرگ مجھے انجینئرنگ میںبھیجنے پر بضد تھے۔ انہوں نے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیا، تاکہ وہاں انجینئرنگ میںداخلے کے لیے امتحان میں شامل ہوکر اپنی قسمت آزمائی کروں۔ یہ آج کل کی اصطلاح میں انٹری ٹیسٹ تھا۔ اس امتحان میں خوش قسمتی سے میری کارکردگی اچھی رہی اور اس پر میں انجینئرنگ کی کلاس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اب میں سوچتاہوں کہ اگر ہم لوگ ان دنوں ماموں سے ملنے نہ جاتے اور میٹرک میں اختیاری مضمون کے بارے میں ان کا حکم نہ سنتے تو یہی ہونا تھا کہ میں میٹرک اور ایف اے اور اس کے بعد بی اے میں عربی پڑھتا چلا جاتا اور شاید بی اے یا ایم اے کے بعد کسی سکول کا ہیڈماسٹر یا کسی کالج میں لیکچرار کے عہدے پر تعینات ہوجاتا۔ اس ایک واقعہ نے میری زندگی کا دھارا ہی بدل دیا اور مجھے ایک ٹیچر کی بجائے انجینئر بنادیا۔
ایک عجیب اتفاق ہے اور اتفاق سب عجیب ہی ہوتے ہیں۔ میرے عربی زبان سیکھنے کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ یہ اتفاق یوں ہوا کہ ہمارے انجینئرنگ کورس کے دوسرے سیشن میں ہمیں موسم گرما کی صرف دس چھٹیاں دی گئیں۔ میں نے سوچا کہ اتنی محدود تعطیلات میں دور دراز کا سفر کرکے بہاولپور جانا اور واپس آنا، اس میں زحمت زیادہ ہوگی اور گھر والوں کے ساتھ چند ہی روز گزارنے میں کوئی زیادہ طمانیت حاصل نہیں ہوگی۔ چناں چہ میں نے ان چھٹیوں میں ہوسٹل ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہی دنوں میں نے کسی اخبار میں ندوۃ العماء لکھنؤ کے کسی ادارے کی طرف سے عربی سکھانے کے لیے ایک کتابچے کا اشتہار دیکھا۔ کتابچے کا نام تھا ''عربی زبان کے دس سبق'' میں فارغ تو تھا ہی سوچا کہ لاؤ ان دنوں میں عربی کے یہ دس سبق ہی پڑھ لیتے ہیں۔ کتابچہ میں نے منگوا لیا، اور اس کے ہاتھ میں آتے ہی اسے تن دہی سے پڑھنا شروع کردیا۔ میں نے دو دو سبق روزانہ پڑھ کے اور ان کی مشقیں حل کرکے اسے پانچ ہی روز میں ختم کردیا۔ یہ رسالہ ختم کرکے میں نے اپنے اندر ایک عجیب چیز محسوس کی۔ میں نے محسوس کیا کہ عربی زبان میرے لیے کسی طرح بھی اجنبی نہیں ہے۔ اس کے جراثیم میرے اندر کہیں موجود ہیں۔ چناں چہ اسے پڑھتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنی مقامی زبان میں سے کوئی زبان پڑھ رہا ہوں۔ اس رسالہ کی پشت پر چند دوسری کتابوں کا اشتہار تھا۔ قرآن مجید کی پہلی کتاب، قرآن مجید کی دوسری کتاب اور تسہیل العربیہ وغیرہ۔ میں نے یہ کتابیں بھی منگوالیں اور انہیں پڑھنا شروع کردیا۔
یہ تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں میرے اندر اتنی استعداد پیدا ہوگئی کہ میں یونیورسٹی لائبریری میں جاکر خلیجی ریاستوں کا ایک رسالہ ''العرب'' پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں اسے پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا تھا، لیکن اس میں سے بعض خبریں اور فیچر میں عربی اردو لغت کی مدد سے پڑھ کر سمجھ لیتا تھا، اور خوش ہوتا تھا کہ میں ایک عربی رسالہ پڑھنے کے قابل ہوگیا ہوں۔ انہی دنوں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک سلسلۂ کتب ''قصص النبین الاطفال'' (بچوں کے لیے انبیاء کے قصے) بہت ہی آسان زبان میں لکھا ہوا میرے ہاتھ لگا۔ میں نے یہ سلسلہ بھی بڑے شوق اور انہماک سے پڑھ ڈالا۔ ایک خاص چیز جس نے مجھے متاثر کیا اور میرے عربی ذوق کی صحیح سمت میں راہ نمائی کی، یہ تھی کہ اس سلسلے کے شروع میں مولانا مسعود عالم ندوی کے قلم سے ایک مقدمہ عربی زبان میں دیا ہوا تھا۔ میں نے یہ مقدمہ خدا جانے کتنی بار پڑھا، یہ پوری طرح میری سمجھ میں تو نہیں آتا تھا، لیکن اس کی زبان میں جو خالص عربیت اور جو حلاوت اور بلاغت تھی، اس نے مجھے اسیر کرلیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ''العرب'' رسالے کی خشک اور بے جان عربی زبان کے مقابلے میں اس مقدمے کی زبان میں عجیب چاشنی اور رسیلا پن تھا۔ یہ زبان خالص عربیت کا ایک عمدہ نمونہ تھی اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
مجھے عربی زبان شروع کیے ہوئے تین چار مہینے ہی ہوئے ہوں گے کہ اللہ کے فضل و احسان سے میرے اندر اچھی عربی اور بری عربی میں امتیاز قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ اب عربی زبان میرے دل میں گھر کرگئی تھی اور میں اسے کسی حال میں نہ چھوڑ سکا۔ انجینئرنگ کے آخری امتحان کے دنوں میں بھی میرا دستور العمل یہ رہا کہ جب میں ایک پرچہ دے کر ہوسٹل آتا، تو سب سے پہلے ایک دو گھنٹے عربی پڑھتا اور اس کے بعد اگلے دن کے پرچے کی تیاری شروع کرتا۔ ایک دن میرے روم میٹ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بارے میں آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا جب تک واپس آکر میں کچھ دیر کے لیے عربی نہ پڑھوں اگلے مطالعے کے لیے میرا ذہن ہی نہیں کھلتا۔ وہ میری عجیب سی منطق سن کر حیران ہوا اور خاموش ہوگیا۔
علی گڑھ میں عربی زبان سیکھنے کی یہ ابتدا مجھے آئندہ برسوں میں کہاں تک لے گئی اور میں نے یہ نئی زبان سیکھ کر زندگی میں کیا کیا کام کیے۔ یہ ایک دوسری کہانی ہے اور اس کی طرف مختصر اشارے میری بعض کتابوں کے شروع میں دیئے ہوئے سوانحی خاکے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ میں اگر چھٹیوں میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گھر چلا جاتا تو نہ تو عربی سیکھنے سے متعلق اشتہار میری نظر سے گزرتا اور نہ ہی شاید عربی زبان میں میری دلچسپی قائم ہوتی۔''
عربی کے معروف اسکالر اور نامور اردو ادیب محمدکاظم آٹھ اپریل کو 88 برس کی عمر میں رحلت فرما گئے۔ان کے وقیع ترعلمی کام کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔انھوں نے قران پاک کا سلیس اور رواں ترجمہ بھی کیا جو کچھ ہی عرصہ قبل شائع ہوا۔
''عربی ادب میں مطالعے''، ''اخوان الصفاء اور دوسرے مضامین'' ''عربی ادب کی تاریخ'' اور ''مسلم فکر و فلسفہ: عہد بہ عہد'' ان کی معروف تصانیف ہیں۔ محمد کاظم نے جماعت اسلامی سے اپنے تعلق کے زمانے میں مولانا مودودی کی چھ کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا، جو بلاد عرب میں شائع ہوئیں۔ ان کے سفر نامے ''مغربی جرمنی میں ایک برس'' کواردو کے بہترین سفر ناموں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ محمد کاظم نے اسلامی فکر کے ممتاز شارح ڈاکٹر فضل الرحمان کی تین کتابوں کو انگریزی سے اردو کے قالب میں بھی ڈھالا۔ خاکوں اور متفرق مضامین پر مشتمل ان کی کتاب،''یادیں اور باتیں'' اور تبصرے،''کل کی بات'' کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔ وہ آخری دنوں میں مقدمۂ ابن خلدون کے بارے میں کتاب لکھ رہے تھے جس کے بارے میں اطلاع ہے کہ مکمل ہوگئی تھی۔ایکسپریس کے لیے ہم نے ان کا انٹرویوبھی کیا، جس کو قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ایکسپریس سنڈے میگزین کے سلسلے ''بھلانہ سکے''کے لیے بھی ان سے گزارش کی کہ کوئی سے بھی دو ایک واقعات جو ان کے ذہن سے کبھی محو نہ ہوپائے ہوں، ہمارے ساتھ شیئر کریں تو وہ رضامند ہوگئے اور دو ایسے واقعات کے بارے میں ہمیں بتایا جن میں سے ایک انھیں عربی سے دور لے گیا تودوسرا واقعہ ان کے عربی اسکالر بننے کی بنیاد بن گیا۔ ایک انجینئر عربی کا عالم کیسے بن گیا؟ اس بابت بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
اس بارے میں بعض ان لوگوں کو بھی پتا نہیں، جن سے کاظم صاحب کی سالہا سال ملاقات رہی، جیسا کہ معروف ادیب امجد اسلام امجد نے جمعرات کو اپنے کالم میں لکھا ''کاظم صاحب کا تعلق بہاولپورکی مردم خیز مٹی سے تھا، وہ انجینئرنگ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی سے اپنے تعلق کو کس طرح قائم اوراستوار رکھ پائے، یہ اپنی جگہ پرایک انوکھی صورت حال ہے، جس کی تفصیلات کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرورجانتاہوں کہ جدید عربی زبان کے بارے میں ان کا مطالعہ اوردسترس بہت وسیع اور غیرمعمولی تھے۔'' مندرجہ ذیل تحریرسے البتہ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عربی زبان سے ان کا ربط کس طرح سے استوار ہوا۔
محمد کاظم کے بقول: ''انسان کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ ایسا پیش آتا ہے، جو اس کی زندگی کا دھارا ہی بدل کے رکھ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ مجھے اس وقت پیش آیا جب میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کرکے نویں جماعت میں داخل ہوا۔ ہمارا سکول واقع احمد پور شرقیہ میں آٹھویں جماعت کا امتحان ریاست بہاولپور کا ایک بورڈ لیتا تھا۔ میں اس امتحان میں اونچے نمبر لے کر کامیاب ہوا تھا اور اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ نویں جماعت میں اختیاری مضمون کے طور پر میں نے عربی کا انتخاب کیا۔ اردو کے ساتھ عربی اس زمانے میں ایک عام Combination تھا۔ انہی دنوں میرے گھر والوں کو کسی وجہ سے بہاولپور جانا پڑا۔ آٹھویں جماعت میں میری اعلیٰ کارکردگی کی اطلاع وہاں میرے بزرگوں کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ میرے اہل خانہ جب مجھے ایک ماموں سے ملانے کے لیے لے گئے جو بہاولپور کی عدالت میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ ماموں نے میری پیٹھ تھپکی اور مجھے شاباشی دی۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا، اچھا تو اب نویں جماعت میں کون سا مضمون لینے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا عربی کا مضمون میں نے لے بھی لیا ہے۔ اس پر وہ جلال میں آگئے اور سرائیکی میں اپنی گونج دار آواز میں پکارے، ''کینا کیناں (بالکل نہیں، بالکل نہیں) تمہیں سائنس کا مضمون لینا ہوگا۔ اب براہ مہربانی واپس جاکر عربی کی بجائے سائنس کا مضمون لو۔ تمہیں آگے بھی سائنس ہی پڑھنی ہے۔'' میرے یہ ماموں بڑے دبدبے والے تھے۔ انہوں نے جس طرح مجھے عربی کا مضمون لینے سے روکا، مجھے یوں لگا جیسے میرے متعلق یہ حکم ان کی عدالت سے صادر ہوا ہے، جس سے سرتابی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
میں نے احمد پور شرقیہ واپس آکر میٹرک میں سائنس کا مضمون لے لیا۔ اگرچہ میں طبعاً اس مضمون کو پسند نہیں کرتا تھا، لیکن مجبوری تھی۔ میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس میں بھی یہی مضمون لینا تھا اور اس میں زیادہ رغبت نہ ہونے کی وجہ سے ایف ایس سی کے امتحان میں میری فرسٹ ڈویژن نہ آسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آگے انجینئرنگ میں داخلے کے لیے بہاولپور میں جو مقابلہ ہوا میں اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ میرے بزرگ مجھے انجینئرنگ میںبھیجنے پر بضد تھے۔ انہوں نے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی بھیج دیا، تاکہ وہاں انجینئرنگ میںداخلے کے لیے امتحان میں شامل ہوکر اپنی قسمت آزمائی کروں۔ یہ آج کل کی اصطلاح میں انٹری ٹیسٹ تھا۔ اس امتحان میں خوش قسمتی سے میری کارکردگی اچھی رہی اور اس پر میں انجینئرنگ کی کلاس میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اب میں سوچتاہوں کہ اگر ہم لوگ ان دنوں ماموں سے ملنے نہ جاتے اور میٹرک میں اختیاری مضمون کے بارے میں ان کا حکم نہ سنتے تو یہی ہونا تھا کہ میں میٹرک اور ایف اے اور اس کے بعد بی اے میں عربی پڑھتا چلا جاتا اور شاید بی اے یا ایم اے کے بعد کسی سکول کا ہیڈماسٹر یا کسی کالج میں لیکچرار کے عہدے پر تعینات ہوجاتا۔ اس ایک واقعہ نے میری زندگی کا دھارا ہی بدل دیا اور مجھے ایک ٹیچر کی بجائے انجینئر بنادیا۔
ایک عجیب اتفاق ہے اور اتفاق سب عجیب ہی ہوتے ہیں۔ میرے عربی زبان سیکھنے کی ابتدا علی گڑھ سے ہوئی۔ یہ اتفاق یوں ہوا کہ ہمارے انجینئرنگ کورس کے دوسرے سیشن میں ہمیں موسم گرما کی صرف دس چھٹیاں دی گئیں۔ میں نے سوچا کہ اتنی محدود تعطیلات میں دور دراز کا سفر کرکے بہاولپور جانا اور واپس آنا، اس میں زحمت زیادہ ہوگی اور گھر والوں کے ساتھ چند ہی روز گزارنے میں کوئی زیادہ طمانیت حاصل نہیں ہوگی۔ چناں چہ میں نے ان چھٹیوں میں ہوسٹل ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ انہی دنوں میں نے کسی اخبار میں ندوۃ العماء لکھنؤ کے کسی ادارے کی طرف سے عربی سکھانے کے لیے ایک کتابچے کا اشتہار دیکھا۔ کتابچے کا نام تھا ''عربی زبان کے دس سبق'' میں فارغ تو تھا ہی سوچا کہ لاؤ ان دنوں میں عربی کے یہ دس سبق ہی پڑھ لیتے ہیں۔ کتابچہ میں نے منگوا لیا، اور اس کے ہاتھ میں آتے ہی اسے تن دہی سے پڑھنا شروع کردیا۔ میں نے دو دو سبق روزانہ پڑھ کے اور ان کی مشقیں حل کرکے اسے پانچ ہی روز میں ختم کردیا۔ یہ رسالہ ختم کرکے میں نے اپنے اندر ایک عجیب چیز محسوس کی۔ میں نے محسوس کیا کہ عربی زبان میرے لیے کسی طرح بھی اجنبی نہیں ہے۔ اس کے جراثیم میرے اندر کہیں موجود ہیں۔ چناں چہ اسے پڑھتے ہوئے مجھے لگتا ہے جیسے میں اپنی مقامی زبان میں سے کوئی زبان پڑھ رہا ہوں۔ اس رسالہ کی پشت پر چند دوسری کتابوں کا اشتہار تھا۔ قرآن مجید کی پہلی کتاب، قرآن مجید کی دوسری کتاب اور تسہیل العربیہ وغیرہ۔ میں نے یہ کتابیں بھی منگوالیں اور انہیں پڑھنا شروع کردیا۔
یہ تین چار کتابیں پڑھنے کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں میرے اندر اتنی استعداد پیدا ہوگئی کہ میں یونیورسٹی لائبریری میں جاکر خلیجی ریاستوں کا ایک رسالہ ''العرب'' پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں اسے پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا تھا، لیکن اس میں سے بعض خبریں اور فیچر میں عربی اردو لغت کی مدد سے پڑھ کر سمجھ لیتا تھا، اور خوش ہوتا تھا کہ میں ایک عربی رسالہ پڑھنے کے قابل ہوگیا ہوں۔ انہی دنوں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا ایک سلسلۂ کتب ''قصص النبین الاطفال'' (بچوں کے لیے انبیاء کے قصے) بہت ہی آسان زبان میں لکھا ہوا میرے ہاتھ لگا۔ میں نے یہ سلسلہ بھی بڑے شوق اور انہماک سے پڑھ ڈالا۔ ایک خاص چیز جس نے مجھے متاثر کیا اور میرے عربی ذوق کی صحیح سمت میں راہ نمائی کی، یہ تھی کہ اس سلسلے کے شروع میں مولانا مسعود عالم ندوی کے قلم سے ایک مقدمہ عربی زبان میں دیا ہوا تھا۔ میں نے یہ مقدمہ خدا جانے کتنی بار پڑھا، یہ پوری طرح میری سمجھ میں تو نہیں آتا تھا، لیکن اس کی زبان میں جو خالص عربیت اور جو حلاوت اور بلاغت تھی، اس نے مجھے اسیر کرلیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ''العرب'' رسالے کی خشک اور بے جان عربی زبان کے مقابلے میں اس مقدمے کی زبان میں عجیب چاشنی اور رسیلا پن تھا۔ یہ زبان خالص عربیت کا ایک عمدہ نمونہ تھی اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
مجھے عربی زبان شروع کیے ہوئے تین چار مہینے ہی ہوئے ہوں گے کہ اللہ کے فضل و احسان سے میرے اندر اچھی عربی اور بری عربی میں امتیاز قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ اب عربی زبان میرے دل میں گھر کرگئی تھی اور میں اسے کسی حال میں نہ چھوڑ سکا۔ انجینئرنگ کے آخری امتحان کے دنوں میں بھی میرا دستور العمل یہ رہا کہ جب میں ایک پرچہ دے کر ہوسٹل آتا، تو سب سے پہلے ایک دو گھنٹے عربی پڑھتا اور اس کے بعد اگلے دن کے پرچے کی تیاری شروع کرتا۔ ایک دن میرے روم میٹ نے حیران ہوکر پوچھا کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے بارے میں آپ کا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا جب تک واپس آکر میں کچھ دیر کے لیے عربی نہ پڑھوں اگلے مطالعے کے لیے میرا ذہن ہی نہیں کھلتا۔ وہ میری عجیب سی منطق سن کر حیران ہوا اور خاموش ہوگیا۔
علی گڑھ میں عربی زبان سیکھنے کی یہ ابتدا مجھے آئندہ برسوں میں کہاں تک لے گئی اور میں نے یہ نئی زبان سیکھ کر زندگی میں کیا کیا کام کیے۔ یہ ایک دوسری کہانی ہے اور اس کی طرف مختصر اشارے میری بعض کتابوں کے شروع میں دیئے ہوئے سوانحی خاکے میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ میں اگر چھٹیوں میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گھر چلا جاتا تو نہ تو عربی سیکھنے سے متعلق اشتہار میری نظر سے گزرتا اور نہ ہی شاید عربی زبان میں میری دلچسپی قائم ہوتی۔''