پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز

پارلیمانی جمہوریت اجزاکی ترکیب کانام ہے، اگریہ اجزاکمزور ہوجائیں یاٹیڑھے ہوجائیں توپارلیمانی جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی

پارلیمانی جمہوریت اجزاکی ترکیب کانام ہے، اگریہ اجزاکمزور ہوجائیں یاٹیڑھے ہوجائیں توپارلیمانی جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی (فوٹو فائل)

صدر پاکستان عارف علوی نے نو اپریل کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کردیا ، جب کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے ساتھ مشاورت سے معذرت کر لی، دوسری جانب وفاقی وزراء نے صدر کے انتخابی تاریخ کے اعلان کو آئین توڑنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

صدر مملکت کا یہ اقدام کتنا آئینی ہے اور کتنا نہیں ہے، اس پر بحث جاری ہے اور اختیارات کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا پتہ آیندہ دنوں میں چل جائے گا۔ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اصولوں اور اقدار کی سربلندی اور ان پر عمل پیرا ہونے کی گردان تمام اسٹیک ہولڈرز کرتے ہیں لیکن عملاً صورتحال مختلف ہے۔

پارلیمانی جمہوریت اجزا کی ترکیب کا نام ہے، اگر یہ اجزا کمزور ہوجائیں یا ٹیڑھے ہوجائیں تو پارلیمانی جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی۔

پاکستان میں آئینی طور پر پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے۔ یہ نظام پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اورجیوڈیشری کے ستونون پر کھڑا ہے۔صحافت اس کا چوتھا ستون اس لیے کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام آزادی اظہار رائے کا احترام کرتا ہے اور اسے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ویسے تو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی جہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا تھا لیکن بعد میں جمہوریت کے لبادے میں آمریت ہی حکمران رہی ہے ۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے ستونوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ کمزور ثابت ہوا ہے تو پارلیمنٹ ہے۔

آمریت اور غیر جمہوری قوتیں جب بھی برسراقتدار آئیں، انھیں عدلیہ نے تحفظ دیا اور پارلیمنٹ نے آمروں کے تمام فیصلوں کو آئین کا حصہ بنایا۔ پارلیمنٹیرینز نے پارلیمنٹ کے وقار اور اختیار پر ہمیشہ سمجھوتہ کیا یا سر تسلیم خم کیا۔

یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک کوئی بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکا ، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ تین بار مارشل لا ء لگایا گیا، جمہوریت اور آئین کا قتل کیا گیا لیکن جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان ہی ان حکومتوں کا حصہ بن گئے۔

سیاسی قیادت اور ارکان اسمبلی اپنے مفادات کا اسیر بن کر پارلیمانی جمہوریت کی گاڑی پر سوار ہوتے ہیں لیکن اس گاڑی کی مینٹس کا معاملہ ہو تو اس سے اتر کر آمریت کی گاڑی پر سوار ہوجاتے ہیں۔

چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران معزز عدالت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں کس طرح مداخلت کرسکتی ہے جب کہ پارلیمنٹ پاکستان کے آئین کی رو سے سپریم ادارہ ہے جس کے بنائے ہوئے قوانین اور اصولوں کے تحت عدالتیں اپنے فیصلے دیتی ہیں۔

بات سو فی صد درست ہے۔ پارلمنٹیرینز جب گھگو گھوڑے بن جائیں تو پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ کوئی اور کیوں لڑے گا۔پارلیمنٹ کی بالادستی پارلیمنٹیرینز کے کردار و عمل کے ساتھ منسلک ہے، اپنے بنائے ہوئے قوانین کا تحفظ کرنا پارلیمنٹیرینز کا فرض اولین ہیں اور ایسا کرنے سے ہی پارلیمنٹ کی بالادستی کا تصور عملی شکل اختیار کرسکے گا۔

پاکستان میں موجودہ سیاسی انارکی کے دور میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو ملک کے آئین اور پارلیمنٹ کے کردار کی کوئی فکر نہیں ہے۔

سیاسی ناپختگی ، انا اور ذاتی مفادات کے بوجھ تلے دبی ہوئی سیاست اور جمہوریت سڑکوں پہ بھٹکتی پھر رہی ہے یا عدلیہ کے سامنے سائل بن کر کھڑی ہے، اگرچہ اظہار رائے آئینی حق ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی کوئی حدود و قیود نہیں ہیں۔

اس وقت ہماری سیاسی قوتوں کا انتشار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی جو ریاست کو اس بحرانی کیفیت سے نکال سکے۔

جمہوریت کے حقیقی معنی، عوام کو عوام کے ذریعے عوام پر حکمرانی اور قانون سازی کا مکمل اور غیر مشروط حق ہے، پارلیمنٹ کسی بھی جمہوری ریاست کا اولین ستون ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ ایک ایسا جمہوری اور آئینی ادارہ ہے جس میں عوامی نمایندے قانون سازی کرتے ہیں ۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے بھی پارلیمنٹ کی بے توقیری کا سبب بن جاتے ہیں۔کبھی کہتے ہیں کہ ہم مستعفی ہوچکے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ ہم نے استعفے نہیں دیے۔


قوم اسمبلی کے اسپیکر ان کے استعفے منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بھیجتے ، الیکشن انھیں قانون کے مطابق ڈی نوٹیفائی کردیتا تو وہ عدلیہ میں سائل بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہماری رکنیت بحال کریں۔کیا دنیا کی کسی اور پارلیمنٹ کے ارکان ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

ایسی صورت میں پارلیمنٹ کی عزت و وقار کا تحفظ کون کرسکتا ہے۔ایگزیکٹیو اور عدلیہ تو اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق کام کریں گے، وہ پارلیمنٹرینز کو ہدایات تو نہیں دے سکتے اور نہ انھیں جمہوریت اور قانون کا سبق پڑھا سکتے ہیں۔

حزب اختلاف جمہوری نظام کا اہم ترین عنصر ہوتا ہے اور ایک موثر حزب اختلاف کے بغیر جمہوریت بے اثر ہوتی ہے جب کہ ہمارے ملک میں حزب اختلاف سڑکوں پر اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے یا عدالتوں میں جاکر پارلیمنٹ کی اہمیت کم کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔

صدر مملکت کا ادارہ بھی پارلیمنٹ کا حصہ ہے'ان کے اختیارات اور دائرہ کارآئین میں درج ہے'اسی طرح عدلیہ کا دائرہ اختیار بھی آئین میں درج ہے'پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے' پارلیمنٹ کو اپنے اس حق اور اختیار پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

ملک کی سیاسی قیادت بھی ایک طرح سے پارلیمنٹ سے جڑی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ سیاستدان ہی منتخب ہو کرقومی اسمبلی اور سینیٹ میں جاتے ہیں۔ایسی صورت میں سیاسی قیادت کو بھی میچورٹی کے لیول کو بلندمعیار پر لانا ہو گا۔

سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لیے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین متنازع بنانے کی سیاست سے گریز کرنا ہو گا' پارلیمنٹ اگرکوئی ایسا قانون بناتی ہے جواپوزیشن کے ویژن مطابق مبہم ہے یا اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی ہے تو اس کا بہترین حل پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہی نکالا جانا چاہیے۔

کوئی مسودہ قانون منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے تو اس پر پارلیمنٹیرینز کوبحث کرنی چاہیے'مسودہ قانون کی کاپیاں ارکان اسمبلی کے پاس پہلے ہی چلی جاتی ہیں۔ اگرپارلیمنٹ کے ارکان مسودہ قانون کوپڑھ کر ایوان میں آئیں اور اس پر بحث کریں تو پارلیمنٹ کے عزت و وقار میں اضافہ ہو گا۔

اگر سیاسی قیادت پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو لے کر عدلیہ کے پاس جائے گی تو لازم ہے کہ معزز عدالت اس پر کوئی نہ کوئی فیصلہ دے' اس لیے سب سے بڑی ذمے داری ملک کی سیاسی قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کی ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا تحفظ بھی خود کریں۔

جمہوریت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود ملک کے عوام کے بہتر مفاد کے لیے مل کر کام کریں کیونکہ ملک کا آئین اسی لیے مرتب کیا گیا تھا کہ اس پر عمل کیا جائے گا اور اسی کے طفیل ملک ترقی کی راہوں پر استوار ہو سکے گا۔

ہم معاشی طور پر ایک بڑے گرداب میں پھنس چکے ہیں، بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور قومی اداروں کے پاس پاکستان کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ہمارے جمہوری رویوں میں انانیت اور نا اتفاقی کے نتیجے میں ملک کو بحران در بحران مسائل کا سامنا ہے۔ موجودہ حالات میں کہ جب ایک طرف حکومت یہ چاہتی ہے کہ مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے اس کی مقبولیت کو جو نقصان ہوا ہے حالات کو بہتر بنا کر وہ اس کی تلافی کر سکے۔

اس سارے منظر نامے میں ملک کے 22 کروڑ عوام بے چارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، انھیں روزانہ ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جو ان کا رہا سہا خون بھی خشک کر دیتی ہیں مثلا بجلی کے یونٹ میں آیندہ نومبر تک آٹھ روپے اضافہ اور پٹرول کی قیمتوں میں بتدریج لیوی کی مد میں 40 روپے تک اضافے کی خبریں انھیں آنے والے دنوں کی ایک ایسی تصویر سے روشناس کراتی ہیں جس میں مایوسی ہی مایوسی ہے اور امید کی کوئی کرن موجود نہیں۔

معاشی بحران، تیل، بجلی، گیس کی کمی اور ریٹس، مہنگائی اور امن عامہ کی صورتحال کو کس طور بھی اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔

معیشت کی حالت یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کی تنزلی رک نہیں پا رہی، بجٹ خسارہ بے قابو ہے، درآمدات پر جبری کنٹرول کے باوجود ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہوا ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

برآمدات مایوس کن ہیں، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز ایل سیز نہ کھلنے کے مسائل سے دوچار ہیں اور بینکوں کے قرضوں پر ناقابل برداشت بلند شرح سود نے زرعی، صنعتی اور کاروباری شعبے کی بس کرا دی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہنگامی طور پر انتظامی اخراجات پر کٹ لگایا جائے، کابینہ کے سائز کو فوری ممکنہ حد تک کم کیا جائے، اشد ضرورت کے علاوہ وزراء اور اعلٰی حکام کے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائی جائے اور بچت کر کے عام شہری کو ممکنہ ریلیف فراہم کیا جائے۔
Load Next Story