کہانی آپا جان کی دوسراحصہ
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آپا جان نے جامعہ آکر اپنے رہنے کے طور طریقے بدل دیے
ہم ان لوگوں کو پڑھ چکے ہیں جو اب سے ستر اَسّی برس پہلے گزرے اور جنھوں نے سادہ اور بے لوث انسانوں کی ایک کھیپ تیار کی، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے برصغیر کی آزادی کے وقت بنیادی کردار ادا کیا اور ان سب کو آپا جان جیسے لوگوں کی رہنمائی حاصل تھی۔
جامعہ کے ایک اور استاد عبدالغفار مدھولی نے اپنی آپ بیتی ''ایک معلم کی زندگی'' میں ان کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ ''آپ کو بچوں کی خدمت سے مطلب تھا، چاہے وہ جرمنی کے ہوں یا ہندوستان کے۔ جرمنی میں ایسی عورتوںکی کیا کمی ہے۔
آپ نے سوچا ہندوستان کی عورتیں ابھی بچوںکو پڑھانے کے معاملے میں پیچھے ہیں، لہٰذا ان ہی کے درمیان رہ کر ان بچوںکی خدمت کرنا چاہیے۔ ان کے دماغ میں کوئی بات سما جائے کہ یہ کام اس طرح ہونا چاہیے، بس اس کے پیچھے پڑجائیں گی۔
بھوک اور پیاس کا کوئی خیال نہیں رہے گا۔ ساتھی کچھ کہیں یہ اپنی ضد پر اَڑی رہیں گی، اگر شہر میں کسی وقت کوئی بیماری عام ہوجائے تو انھیں ہر وقت یہ فکر رہے گی کہ مدرسے میں کوئی ایسی بات نہ ہوجائے جس سے یہ بیماری اِدھر کا رخ کرے۔ غرض بے چاری نے اپنے خلوص اور جوش کی وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔''
جامعہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے کام کرنے والے لوگ ایک خاندان کی طرح یہاں رہتے، کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ فلپس بورن بھی اس خاندان کا حصہ بن گئیں۔ انھیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ہندوستانی عورتیں گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی دنیا الگ الگ ہے۔
ان کا خیال تھا کہ تیمارداری کا کام عورتیں جس خوبی سے کرسکتی ہیں، مرد نہیں کرسکتے۔ اس لیے وہ گھر گھر جاکر عورتوں کو اس بات کو بتانے کی کوشش کرتیں، مگر اس طرح کہ انھیں برا نہ لگے، نہ اس طرح کہ عورتیں یہ سمجھیں کہ وہ اپنی بڑائی کا رعب جھاڑ رہی ہیں۔
انھوں نے جامعہ میں کام کرنے والے مردوںکو بھی اپنی ذہانت، محبت اورلگن سے متاثر کرلیا اور وہ سب بھی ان کا ادب کرتے تھے اور ان کی باتوں کو غور سے سنتے اور ان پر عمل کرتے تھے۔
وہ جامعہ آکر بہت سادگی سے رہنے لگیں۔ جامعہ سے جو برائے نام تنخواہ ملتی تھی، اس میں گزر بسر بہت مشکل سے ہی ہوتی تھی۔
وہ ایک جرمن فرم میں ٹائپنگ کا کام کرتیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی، وہ بھی جامعہ کو دے دیتیں کہ اس سے اسکول اور کنڈر گارٹن کلاس کے لیے سامان خریدا جاسکے۔ وہ اکثر طرح طرح کے کھانے پکاتیں اور جامعہ کے اپنے دوستوں کو بہت پیار سے کھلاتی تھیں۔
ان کے دل میں ہمدردی کا اتھاہ سمندر تھا۔ وہ اس کا انتظار نہیں کرتی تھیں کہ کوئی ان سے مدد طلب کرے۔ بس انھیں معلوم ہونا شرط تھا۔
وہ مدد کو اس طرح پہنچ جاتیں جیسے یہ ان کا فرض ہے۔ خاص طور سے بیمار کے پاس جاکر تیمارداری کرنا تو انھیں بہت پسند تھا اور ایسی دلسوزی سے تیمارداری کرتی تھیں کہ آدھی بیماری تو ان کی تیمارداری سے دور ہوجاتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو اپنی ماؤں سے دورجامعہ میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، بیمار پڑتے تو آپا جان ان کی اس پیار سے تیمارداری کرتیں کہ ان کو ماں کی دوری کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
نہ صرف بچوں کی بلکہ استادوں کی تیمارداری بھی کرتی تھیں۔ جامعہ کے ایک استاد عبدالغفار مدھولی ے اپنی سوانح عمری میں اپنی بیماری کا حال لکھا ہے اور ساتھ ہی اس کا ذکر بھی ہے کہ آپا جان نے کس طرح ان کی دن رات ایک کر کے تیمارداری کی اور کس طرح سختی سے پرہیز کرایا۔ ''پانی جیسی چیزیں پیتے پیتے کئی مہینے ہوگئے تھے۔
نمکین چیز اور کھچڑی کو جی ترستا تھا۔ کبھی کبھی آپا جان سے کہتا، کھچڑی کھلادیجیے۔ یہ زور سے چلاتیں نائی... نائی ہرگز نائیں... کبھی نائیں... مجھ سے کہتی تھیں، ضدی بچہ۔ میں بھی کہتا، ضدی بہن۔'' مگر انھوں نے تکلیف کو سہنے کی ہمت دلائی۔
مزے مزے کی باتیں کر کے ان کا دل بہلاتی رہتیں اور ان کو بچوںکی طرح دلاسا دیتیں اور اس طرح ان کی بیماری کی تکلیف آدھی ہوگئی،اور ان کی محبت کا گہرا نقش ہمیشہ کے لیے ان کے دل پر بیٹھ گیا۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آپا جان نے جامعہ آکر اپنے رہنے کے طور طریقے بدل دیے اور اس طرح رہنے لگیں جیسے اور سب لوگ رہتے تھے۔
کبھی کبھی جامعہ والوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ وہ یہاں کس قدر تکلیفیں اٹھارہی ہیں اور وہ لوگ ان کے لیے کچھ آسانیاں فراہم کرادیتے تو ان کو برا لگتا۔ وہ کہا کرتی تھیں ''آپ لوگ مجھے اپنا نہیں سمجھتے۔'' اور وہ ان آسانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی تھیں۔
ان کے اوپر جس زمانے میں کام کا بار کم ہوتا تو پریشان ہوجاتیں اور نئے کاموں اور ذمے داریوں کی تلاش میں رہتیں اور جب کبھی ان کے ذمے کئی قسم کے مشکل کام ہوتے تو وہ اس زمانے میںبہت خوش اور مطمئن نظر آتیں۔ اسی لیے بقول پروفیسر مجیب ''جتنے نمونے کے کام آپا جان نے جامعہ میں کیے اور کسی نے نہ کیے ہوں گے۔
وہ جامعہ کے کارکنوں کے گھرو ںمیں بے تکلفی سے جاتی تھیں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتی تھیں اور ان کے گھر کی خواتین کو یہ احساس دلاتی تھیں کہ جامعہ کس قدر اہم ادارہ ہے اور اس میں کام کرنے والے کس قدر اہم اور کیسی قربانی کر کے اس ادارے کو چلارہے ہیں اور اس میں ان لوگوں کو بھی حصہ لینا چاہیے۔
اسی کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھاتی تھیں کہ مسلمان عورتیں پردے میں رہ کر سب کام کرسکتی ہیں۔ خاص طور سے سماجی فلاح و بہبود کے کام جس کی ہندوستان میں، بالخصوص مسلمانوں میں سخت ضرورت ہے۔
اسلام میں ان کاموں کی اور مذاہب کی طرح بہت تاکید کی گئی ہے اور عورتوں پر بھی ان کاموں کے کرنے کی اتنی ہی ذمے داری ہے جتنی مردوں پر۔ آپا جان عورتوں کو اس پر اکسایا کرتی تھیں کہ وہ بھی جامعہ کے خاص خاص جلسوں میں شرکت کریں اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئیں۔
ان خواتین کے دل میں بھی ان غیرملکی عورت کی بہت عزت تھی جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر پرائے ملک کی خدمت خلق کے لیے چلی آئی ہے، جب کہ ان کے ذہن میں تو ان غیرملکی میموں کی دوسری ہی تصویر تھی۔ بے حیا، فیشن پرست، گھربار اور میاں بچوں سے لاپروا۔ آپا جان اس کے بالکل برعکس تھیں۔ اس لیے جامعہ کی خواتین رفتہ رفتہ انھیں اپنا ہی سمجھنے لگتی تھیں۔''
ذاکر صاحب ان کے خاص دوست تھے اور وہ ان کی بڑی قدر کرتی تھیں۔ اس لیے وہ ان کے گھر زیادہ بے تکلفی سے جاتی تھیں۔ ان کی بیوی بچیوں سے بھی ان کی دوستی تھی۔
بچیوں کو پڑھاتی تھیں۔ انھیں یہ احساس تھا کہ ذاکر صاحب کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح قوم کی خدمت کرسکیں۔ ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اکسانے میں ذاکر صاحب کا بڑا حصہ تھا، اس لیے وہ ان کی خدمت کوجامعہ کی خدمت جانتی تھیں۔
اس کا خیال کرتیں کہ لوگ بے وجہ ان کو پریشان نہ کریں اور سب لوگ آپا جان کے اس جذبے کو جانتے تھے۔ اس کی قدر کرتے تھے۔ اس لیے کوئی اس کا برا بھی نہیں مانتا تھا۔
(جاری ہے)
جامعہ کے ایک اور استاد عبدالغفار مدھولی نے اپنی آپ بیتی ''ایک معلم کی زندگی'' میں ان کا ذکر اس طرح کیا ہے۔ ''آپ کو بچوں کی خدمت سے مطلب تھا، چاہے وہ جرمنی کے ہوں یا ہندوستان کے۔ جرمنی میں ایسی عورتوںکی کیا کمی ہے۔
آپ نے سوچا ہندوستان کی عورتیں ابھی بچوںکو پڑھانے کے معاملے میں پیچھے ہیں، لہٰذا ان ہی کے درمیان رہ کر ان بچوںکی خدمت کرنا چاہیے۔ ان کے دماغ میں کوئی بات سما جائے کہ یہ کام اس طرح ہونا چاہیے، بس اس کے پیچھے پڑجائیں گی۔
بھوک اور پیاس کا کوئی خیال نہیں رہے گا۔ ساتھی کچھ کہیں یہ اپنی ضد پر اَڑی رہیں گی، اگر شہر میں کسی وقت کوئی بیماری عام ہوجائے تو انھیں ہر وقت یہ فکر رہے گی کہ مدرسے میں کوئی ایسی بات نہ ہوجائے جس سے یہ بیماری اِدھر کا رخ کرے۔ غرض بے چاری نے اپنے خلوص اور جوش کی وجہ سے بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں۔''
جامعہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہاں کے کام کرنے والے لوگ ایک خاندان کی طرح یہاں رہتے، کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے۔ فلپس بورن بھی اس خاندان کا حصہ بن گئیں۔ انھیں یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ ہندوستانی عورتیں گھر کی چہار دیواری میں رہتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی دنیا الگ الگ ہے۔
ان کا خیال تھا کہ تیمارداری کا کام عورتیں جس خوبی سے کرسکتی ہیں، مرد نہیں کرسکتے۔ اس لیے وہ گھر گھر جاکر عورتوں کو اس بات کو بتانے کی کوشش کرتیں، مگر اس طرح کہ انھیں برا نہ لگے، نہ اس طرح کہ عورتیں یہ سمجھیں کہ وہ اپنی بڑائی کا رعب جھاڑ رہی ہیں۔
انھوں نے جامعہ میں کام کرنے والے مردوںکو بھی اپنی ذہانت، محبت اورلگن سے متاثر کرلیا اور وہ سب بھی ان کا ادب کرتے تھے اور ان کی باتوں کو غور سے سنتے اور ان پر عمل کرتے تھے۔
وہ جامعہ آکر بہت سادگی سے رہنے لگیں۔ جامعہ سے جو برائے نام تنخواہ ملتی تھی، اس میں گزر بسر بہت مشکل سے ہی ہوتی تھی۔
وہ ایک جرمن فرم میں ٹائپنگ کا کام کرتیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی، وہ بھی جامعہ کو دے دیتیں کہ اس سے اسکول اور کنڈر گارٹن کلاس کے لیے سامان خریدا جاسکے۔ وہ اکثر طرح طرح کے کھانے پکاتیں اور جامعہ کے اپنے دوستوں کو بہت پیار سے کھلاتی تھیں۔
ان کے دل میں ہمدردی کا اتھاہ سمندر تھا۔ وہ اس کا انتظار نہیں کرتی تھیں کہ کوئی ان سے مدد طلب کرے۔ بس انھیں معلوم ہونا شرط تھا۔
وہ مدد کو اس طرح پہنچ جاتیں جیسے یہ ان کا فرض ہے۔ خاص طور سے بیمار کے پاس جاکر تیمارداری کرنا تو انھیں بہت پسند تھا اور ایسی دلسوزی سے تیمارداری کرتی تھیں کہ آدھی بیماری تو ان کی تیمارداری سے دور ہوجاتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بچے جو اپنی ماؤں سے دورجامعہ میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، بیمار پڑتے تو آپا جان ان کی اس پیار سے تیمارداری کرتیں کہ ان کو ماں کی دوری کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
نہ صرف بچوں کی بلکہ استادوں کی تیمارداری بھی کرتی تھیں۔ جامعہ کے ایک استاد عبدالغفار مدھولی ے اپنی سوانح عمری میں اپنی بیماری کا حال لکھا ہے اور ساتھ ہی اس کا ذکر بھی ہے کہ آپا جان نے کس طرح ان کی دن رات ایک کر کے تیمارداری کی اور کس طرح سختی سے پرہیز کرایا۔ ''پانی جیسی چیزیں پیتے پیتے کئی مہینے ہوگئے تھے۔
نمکین چیز اور کھچڑی کو جی ترستا تھا۔ کبھی کبھی آپا جان سے کہتا، کھچڑی کھلادیجیے۔ یہ زور سے چلاتیں نائی... نائی ہرگز نائیں... کبھی نائیں... مجھ سے کہتی تھیں، ضدی بچہ۔ میں بھی کہتا، ضدی بہن۔'' مگر انھوں نے تکلیف کو سہنے کی ہمت دلائی۔
مزے مزے کی باتیں کر کے ان کا دل بہلاتی رہتیں اور ان کو بچوںکی طرح دلاسا دیتیں اور اس طرح ان کی بیماری کی تکلیف آدھی ہوگئی،اور ان کی محبت کا گہرا نقش ہمیشہ کے لیے ان کے دل پر بیٹھ گیا۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آپا جان نے جامعہ آکر اپنے رہنے کے طور طریقے بدل دیے اور اس طرح رہنے لگیں جیسے اور سب لوگ رہتے تھے۔
کبھی کبھی جامعہ والوں کو اس بات کا احساس ہوتا کہ وہ یہاں کس قدر تکلیفیں اٹھارہی ہیں اور وہ لوگ ان کے لیے کچھ آسانیاں فراہم کرادیتے تو ان کو برا لگتا۔ وہ کہا کرتی تھیں ''آپ لوگ مجھے اپنا نہیں سمجھتے۔'' اور وہ ان آسانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی تھیں۔
ان کے اوپر جس زمانے میں کام کا بار کم ہوتا تو پریشان ہوجاتیں اور نئے کاموں اور ذمے داریوں کی تلاش میں رہتیں اور جب کبھی ان کے ذمے کئی قسم کے مشکل کام ہوتے تو وہ اس زمانے میںبہت خوش اور مطمئن نظر آتیں۔ اسی لیے بقول پروفیسر مجیب ''جتنے نمونے کے کام آپا جان نے جامعہ میں کیے اور کسی نے نہ کیے ہوں گے۔
وہ جامعہ کے کارکنوں کے گھرو ںمیں بے تکلفی سے جاتی تھیں، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتی تھیں اور ان کے گھر کی خواتین کو یہ احساس دلاتی تھیں کہ جامعہ کس قدر اہم ادارہ ہے اور اس میں کام کرنے والے کس قدر اہم اور کیسی قربانی کر کے اس ادارے کو چلارہے ہیں اور اس میں ان لوگوں کو بھی حصہ لینا چاہیے۔
اسی کے ساتھ وہ یہ بھی سمجھاتی تھیں کہ مسلمان عورتیں پردے میں رہ کر سب کام کرسکتی ہیں۔ خاص طور سے سماجی فلاح و بہبود کے کام جس کی ہندوستان میں، بالخصوص مسلمانوں میں سخت ضرورت ہے۔
اسلام میں ان کاموں کی اور مذاہب کی طرح بہت تاکید کی گئی ہے اور عورتوں پر بھی ان کاموں کے کرنے کی اتنی ہی ذمے داری ہے جتنی مردوں پر۔ آپا جان عورتوں کو اس پر اکسایا کرتی تھیں کہ وہ بھی جامعہ کے خاص خاص جلسوں میں شرکت کریں اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئیں۔
ان خواتین کے دل میں بھی ان غیرملکی عورت کی بہت عزت تھی جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر پرائے ملک کی خدمت خلق کے لیے چلی آئی ہے، جب کہ ان کے ذہن میں تو ان غیرملکی میموں کی دوسری ہی تصویر تھی۔ بے حیا، فیشن پرست، گھربار اور میاں بچوں سے لاپروا۔ آپا جان اس کے بالکل برعکس تھیں۔ اس لیے جامعہ کی خواتین رفتہ رفتہ انھیں اپنا ہی سمجھنے لگتی تھیں۔''
ذاکر صاحب ان کے خاص دوست تھے اور وہ ان کی بڑی قدر کرتی تھیں۔ اس لیے وہ ان کے گھر زیادہ بے تکلفی سے جاتی تھیں۔ ان کی بیوی بچیوں سے بھی ان کی دوستی تھی۔
بچیوں کو پڑھاتی تھیں۔ انھیں یہ احساس تھا کہ ذاکر صاحب کو اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح قوم کی خدمت کرسکیں۔ ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اکسانے میں ذاکر صاحب کا بڑا حصہ تھا، اس لیے وہ ان کی خدمت کوجامعہ کی خدمت جانتی تھیں۔
اس کا خیال کرتیں کہ لوگ بے وجہ ان کو پریشان نہ کریں اور سب لوگ آپا جان کے اس جذبے کو جانتے تھے۔ اس کی قدر کرتے تھے۔ اس لیے کوئی اس کا برا بھی نہیں مانتا تھا۔
(جاری ہے)