روسی صدر کا یوکرین جنگ جاری رکھنے کا عزم

امریکا اور یورپی یونین کھل کر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں

امریکا اور یورپی یونین کھل کر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں (فوٹو: فائل)

روس اور یو کرین کے درمیان جنگ ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہی بلکہ اس کا مزید پھیلاؤ ہونے کے خدشات موجود ہیں' امریکا اور یورپی یونین کھل کر یوکرین کے ساتھ کھڑے ہو چکے ہیں جب کہ روس بھی کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور ردعمل میں امریکا کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو معطل کر دیاہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یوکرین پر حملے کا ایک سال مکمل ہونے پرروسی پارلیمنٹ سے خطاب کیا ہے۔اس خطاب میںانھوں نے یوکرین کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میدان جنگ میں ہمیں شکست دینا ناممکن ہے۔

انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ جنگ انھوں نے شروع کی تھی لیکن اسے ختم، ہم کریں گے۔روسی قانون سازوں سے خطاب میں صدر پیوٹن نے یوکرین تنازع کو بڑھانے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ جوہری ہتھیاروں میں کمی کے لیے کیے گئے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان بھی کیا۔

انھوں نے کہا کہ مغربی قوتوں کے اقدامات نے اس معاہدے کی معطلی پر مجبور کیاہے۔روسی صدر نے یوکرین جنگ کے بڑھاؤ، متاثرین کی تعداد میں اضافے اور تنازع کو ہوا دینے کا الزام مغربی ممالک پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی ایما پر یوکرین نے جنگ کا ماحول پیدا کیا اور روس کی سلامتی کے خلاف گیا۔

صدر پیوٹن کے اس الزام کے جواب میں ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ مغربی ممالک نے روس کو یوکرین میں فوج بھیجنے سے باز رہنے کے لیے کہا تھا اور اب تک کسی نے روس پر حملہ نہیں کیا۔

روس اور یو کرین کے درمیان جنگ شروع ہوئے ایک برس بیت گیا ہے' یہ جنگ کس نے شروع کی یا یہ جنگ کس کے مفاد کا تقاضا تھی 'یہ حقیقت بھی تقریباً عیاں ہو چکی ہے۔ طاقتور ملکوں اور قوموں کے درمیان باہمی آویزش کا میدان ہمیشہ کمزور قومیں اور ملک بنتے رہے ہیں۔

سرد جنگ کے دور میں دنیا دو بلاکوں میں تقسیم رہی ' یہ تقسیم بنیادی طور پر سوشل ازم اور کیپٹل ازم کے ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھی' سوشلسٹ بلاک کی قیادت سابق سوویت یونین کر رہا تھا جب کہ کیپٹلسٹ بلاک امریکا کی سربراہی میں متحد تھا ' ان دو نظاموں کے درمیان چپقلش کو کولڈ وار یا سرد جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سرد جنگ کے میدان بھی چھوٹے اور کمزور ملک بنتے رہے ہیں' یہ جنگ ایشیا 'افریقہ اور لاطینی امریکا میں لڑی گئی کیونکہ دونوں متحارب قوتوں نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ یورپ کو جنگ کا میدان نہیں بنایا جائے گا 'کم و بیش 70برس تک جاری رہنے والی سرد جنگ میں ایشیا 'افریقہ اور لاطینی امریکا کے درجنوں ملک عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہوئے 'مجموعی طور پر ان جنگوں میں مرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔

افریقہ میں کانگو 'انگولا 'ویسٹ افریقہ' سوڈان 'مصراور دیگر ملکوں میں عدم استحکام اور انارکی کی وجہ سرد جنگ ہی تھی اور یہ ممالک آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے۔

لاطینی امریکا میں نکارا گووا'چلی 'گوئٹے مالا'کیوبا اور وینز ویلا اس جنگ کا میدان بنے اور عدم استحکام کا شکار ہوئے ' یہ ممالک بھی ابھی تک اس جنگ کے اثرات سے نہیں نکلے ' ایشیا میں شمالی یمن اور جنوبی یمن کا تنازع پیدا ہو گیا' عراق اور شام میں بعث پارٹی اور مذہبی طبقے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو گئے'اس کے اثرات آج بھی اس خطے میں نظر آ رہے ہیں۔

ترکیہ بھی سرد جنگ کا شکار رہا ہے۔انڈونیشیا 'کمبوڈیا' لاؤس'برما اور ویت نام میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے 'ان ممالک میں لاکھوں لوگ دو طاقتور عالمی بلاکوں کی چپقلش کے نتیجے میں مارے گئے۔


سرد جنگ کا آخری میدان افغانستان بنا' افغانستان کے میدان میں سابق سوویت یونین اور امریکا کی سربراہی میں سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ملکوں کے درمیان فائنل شوڈاؤن میں سوویت یونین شکست کھا گیا ہے' سوویت یونین تحلیل کر دیا گیا اور وسط ایشیائی اوربالٹک ریاستیں آزاد ہو گئیں لیکن سوویت یونین کی جگہ رشین فیڈریشن نے لے لی اور آج روس کا صدر ولادیمیر پیوٹن اسی تسلسل کو لے کر آگے چل رہا ہے۔

اب چونکہ دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اس حساب سے طاقتور ملک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور پالیسیاں تشکیل دے رہے ہیں'لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اب بھی کمزور قومیں طاقت کے مراکز کے درمیان آویزش کا میدان بن رہی ہیں ' یورپ میں پہلے سابق یوگوسلاویہ بکھر گیا اور اس سے الگ ہونے والی ریاست بوسنیا ہرزگووینیا میں خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ اس جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔

اسی طرح رومانیہ میں چاؤ سسکو حکومت کا خاتمہ ہوا اور یہاں بھی لڑائی میں سیکڑوں لوگ مارے گئے 'برما میں بھی یہی چپقلش ہو رہی ہے جب کہ شمالی کوریا میں بھی اسی آویزش کے اثرات موجود ہیں 'ان خطوں میں امریکا اور چین کے مابین آویزش کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں 'یوکرین کا تنازع بھی اسی چپقلش کا نتیجہ ہے ۔

یوکرین جنگ نے دنیا بھر میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں 'آج دنیا میں جو مہنگائی اور کساد بازاری نظر آ رہی ہے ' اس کی تہہ میں جہاں کورونا وبا کے اثرات ہیں وہیں یوکرین جنگ کے اثرات بھی موجود ہیں۔

روسی معیشت بھی اس جنگ کے نتیجے میں خاصے دباؤ میں ہے 'روس اپنا تیل سستا بیچنے پر مجبور ہے 'روسی مصنوعات کی برآمد متاثر ہو رہی ہے 'روس چونکہ بہت بڑی معیشت ہے اور وہ اس جنگ کے اثرات کو اپنے اندر جذب کرنے کی سکت رکھتی ہے لیکن یوکرین کی معیشت روس کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے 'اس جنگ میں یوکرین نے عوام کے مسائل میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ' یوکرین کے کئی شہروں میں روسی بمباری کی وجہ سے انفرااسٹرکچر کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔

انسانی جانوں کا ضیاع بھی بہت زیادہ ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس ایک برس کی جنگ نے یوکرین کے عوام کو معاشی اور نفسیاتی طور پر بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور اس اثرات سے نکلنے کے لیے برسوں درکار ہوں گے۔

پاکستان پر بھی کسی نہ کسی حوالے سے یوکرین جنگ کے اثرات آئے ہیں ۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے عین اس وقت ماسکو کا دورہ کیا جب روس نے یوکرین پر حملے کا آغاز کر دیا 'اس دورے نے ان کی حکومت کو ڈانواںڈول کرنے میں اہم کردارادا کیا'پاکستان جو پہلے ہی عالمی تنہائی کا شکار تھا ' اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔

مبہم خارجہ پالیسی کی بدولت ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا اور ملکی معیشت دباؤ کا شکار ہوئی 'ادھر یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں اناج خصوصاً گندم کی قلت میں اضافہ ہوا 'پاکستان بھی یوکرین سے گندم خریدنے والے ممالک میں شامل ہے۔

اس لیے پاکستان کی معیشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں' بہرحال یہ حقیقت واضح ہے کہ کمزور اور پسماندہ ممالک کے پالیسی سازوں کو اپنے داخلی تضادات کو پوری طرح اسٹڈی کر کے خارجہ پالیسی کے اصول طے کرنے چاہئیں 'ایسا نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک کی حکومت انٹرنیشنل جیو اسٹرٹیجک پوزیشن میں مبہم خارجہ پالیسی لے کر چلے 'خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت ریاست کو اپنے عوام کے وائٹل انٹرسٹ کو سامنے رکھنا چاہیے۔

خاص طور پر بڑی طاقتوں کے درمیان چپقلش کا حصہ بننے سے گریز کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے 'آج کی دنیا معاشی اہداف اور مفادات کو لے کر چل رہی ہے ' عسکری پالیسی بھی اپنے عوام کے مفادات کے تحفظ کے گرد گھومنی چاہیے۔

یوکرین کی حکومت اگر اپنے ملک کی جغرافیائی پوزیشن اور معاشی مفادات کو اولیت دیتی ' امریکا 'یورپی یونین اور نیٹو کے بھاری بھرکم مفادات کے ساتھ حقائق پر مبنی سفارتی پالیسی اختیار کرتی تاکہ روس کے وائٹل انٹرسٹ متاثر نہ ہو سکیں۔

اگر روس کی حکومت خصوصاً صدر پیوٹن اور ان کے قریبی ساتھی جنگ میں الجھنے کے بجائے کوئی مثبت راستہ اختیار کرتے تو شاید یوکرین پر جنگ مسلط نہ ہوتی ' دوسری جانب امریکا 'یورپی یونین اور نیٹو کے پالیسی سازوں نے جنگ سے پہلے کوئی راست قدم نہیں اٹھایا' حالانکہ انھیں یہ اطلاع مل چکی تھی کہ معاملات جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور صدر پیوٹن کسی بھی وقت یوکرین پر حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔

اگر یوکرین پر حملے سے پہلے روس کو مطمئن کر لیا جاتا تو آج یوکرین کے عوام ترقی کے سفر میں کئی برس پیچھے جانے کے بجائے کئی برس آگے جا چکے ہوتے۔
Load Next Story