فصلوں پر کیڑے مار سپرے ہمارے حواس کو کیسے متاثر کرتے ہیں
دنیا بھر میں 860 ملین کسانوں میں سے 44 فیصد سالانہ کیڑے مار زہر سے متاثر ہوتے ہیں
پندرہ سال پہلے سٹیفورڈ شائر، برطانیہ میں بریوڈ پارک فارم کے ایک مینیجر ٹم پارٹن نے قسمت آزمائی کے لیے حیاتیاتی کاشتکاری کا ایک تجربہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
مصنوعی کیڑے مار زہریلے سپرے (پیسٹی سائڈ) اور کھادیں استعمال کرنے کے بجائے انھوں نے اپنی فصلوں پر خود سے تیار شدہ حیاتیاتی طور پر فعال قدرتی مواد جیسے ٹرائیکوڈرما (فنگس کی ایک قسم) کو اپنی فصلوں پر استعمال کیا تاکہ ان دونوں کو اگانے کے ساتھ ساتھ مٹی میں نائٹروجن اور فاسفورس کا توازن ٹھیک کرنے میں مدد مل سکے۔
پارٹن ترقی کرتی ہوئی کاشت کار برادری کا حصہ ہیں، یہ برادری زراعت کی ازسرِنو تخلیق پر عمل پیرا ہے۔ وہ مصنوعی کیڑے مار زہر اور کھاد کا استعمال کم سے کم کرکے مٹی اور ماحولیاتی صحت کو ترجیح دیتی ہے۔ انھوں نے کیڑے مار ادویات کے استعمال سے سر درد اور جلد پر خارش سے گزرنے کے بعد حیاتیاتی طور پر فعال متبادلوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔
بھیڑوں کی کھال سے طفیلیے (ایسے جاندار جو دوسرے جسموں پر پرورش پاتے ہوں اور اْن ہی سے خوراک حاصل کرتے ہوں) نکالنے کے لیے جب وہ انھیں کیڑے مار زہر کے مرکب میں ڈبوتے تو اس سے اکثر ان کے بازوؤں پر گانٹھیں نظر آتی تھیں۔
یہ ردعمل کئی دنوں تک رہتا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میری حالت بہت خراب ہو جاتی لیکن اگر میں ڈاکٹروں کے پاس جاتا تو وہ کہتے کہ 'آپ کو ری ایکشن ہوا ہے اور وہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔'
حیاتیاتی کاشت کاری کے طریقہ کار کو اپنانے کے بعد سے پارٹن کی صحت پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوئے۔ انھیں 10 سال سے زائد عرصے سے اپنی فصلوں پر فاسفورس اور پوٹاشیم کھاد کا استعمال نہیں کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں ' میں پودے کو غذائیت کے لحاظ سے متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر پودے کو تمام صحیح غذائیت مل جائے تو وہ بیمار نہیں ہوتا۔'
ان کا کہنا ہے کہ جب سے انھوں نے کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں پر قابو پانے کے لیے کیڑے مار زہروں کا استعمال بند کر دیا ہے تب سے انھوں نے کیڑوں اور پرندوں کی نسلوں میں بڑا اضافہ دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ' مجھے یہاں پر پرندوں کی کہیں زیادہ تعداد مل گئی ہے۔ بہت سی خطرے سے دوچار نسلیں یہاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ کھانے کا ذریعہ یہاں ہے۔'
کیڑے مار زہر ایسے مادے یا کیمیکل ہیں جو ان کیڑوں یا دیگر جانداروں کو بھگانے، مارنے اور کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو پودوں کی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔ مؤثر ہونے کے باوجود، کیڑے مار زہروں میں نقصان دہ کیمیکل ہوتے ہیں جو انسان کے حواس اور اعصابی نظام پر وسیع، اور بعض اوقات دائمی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
1930ء کی دہائی میں پہلی بار انھیں امریکہ میں فصلوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے بعد بہت سی زرعی کمیونٹیز جلد ہی ان پر انحصار کرنے لگیں کیونکہ ان کی پیداوار پر ڈرامائی اثر پڑا۔ آج دنیا کی تقریباً ایک تہائی زرعی مصنوعات کیڑے مار زہروں پر مشتمل ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، دنیا بھر میں 1,000 سے زیادہ اقسام کے کیڑے مار زہر استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ سب سے زیادہ عام قسمیں جڑی بوٹیوں کی دوائیں (49 فیصد)، فنگسائڈز اور بیکٹیریسائڈز (27 فیصد) اور کیڑے مار (19 فیصد) ہیں۔ 1990 میں عالمی سطح پر کیڑے مار زہروں کی کھپت 3.72 بلین پونڈ (1.69 بلین کلوگرام) تھی۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ دو دہائیوں میں 57 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 2020 تک 5.86 بلین پونڈ (2.66 بلین کلوگرام) تک پہنچ گئے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کیڑے مار ادویات کے استعمال میں مسلسل اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جیسا کہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9.3 بلین افراد تک پہنچنے کی توقع ہے، خوراک کی پیداوار کی شرح میں 60 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔ اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے، محققین کا خیال ہے کہ کسانوں کو مزید پیسٹی سائڈ استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔
یورپی کاشتکاری کے نظام پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، کیڑے مار زہر کو یکسر ترک کرنے سے پھلوں کی پیداوار میں 78 فیصد، سبزیوں میں 54 فیصد کمی اور اناج کی پیداوار میں 32 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے لیکن کیڑے مار زہر پر ہمارا انحصار ماحولیات پر اثرانداز ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق کیڑے مار زہر شہد کی مکھیوں اور سامن مچھلی میں بو کی کمی کے لیے ذمہ دار ہو سکتی ہیں، اور انھوں نے آبی ذخائر کو آلودہ کیا ہے، جس سے آبی ماحولیاتی نظام کو خطرہ ہے۔
پیسٹی سائڈ فوڈ چین یعنی غذائی سلسلے میں بھی داخل ہو سکتے ہیں، اس عمل کے ذریعے جسے بایو اکیومولیشن کہا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مادہ ہمارے جسم میں اس لیے بننا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ہم اسے توڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔
چونکہ بہت سے مصنوعی کیڑے مار زہروں کو جانوروں یا انسانوں کے ذریعے توڑا نہیں جا سکتا، اس لیے وہ جسم کی چربی میں جمع ہو سکتے ہیں۔
اس سے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیڑے مار زہروں کے استعمال سے متعلق عالمی ضابطوں کے باوجود ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ہر سال کھیتی باڑی کرنے والوں میں غیر ارادی، شدید کیٹناشک زہر کے تقریباً 385 ملین واقعات ہوتے ہیں۔
جب سپرے کیا جاتا ہے تو کیڑے مار زہر بخارات پیدا کرتے ہیں جو فضائی آلودگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں زرعی کارکنوں میں کیڑے مار زہروں سے متعلق 37-54 فیصد بیماریاں سپرے سے منسوب ہیں۔ علامات سر درد اور متلی سے لے کر جلد پر جلن تک ہوسکتی ہیں۔
مشیل پیرو، ایک سابق ماہر امراض اطفال جنھوں نے غیر منافع بخش GMO سائنس کی مشترکہ بنیاد رکھی (ایک عوامی پلیٹ فارم جہاں معالجین جینیاتی طور پر انجینئرڈ فصلوں اور خوراک کے اثرات پر بحث اور تجزیہ کرتے ہیں) کے مطابق کیڑے مار زہر کے استعمال کی ابتدائی علامات میں سر درد، متلی، چکر آنا اور سانس کی رطوبت شامل ہو سکتی ہے۔
شدید صحت کے اثرات میں دوروں سے لے کر سانس کے مسائل تک شامل ہیں۔ استعمال ہونے پیسٹی سائڈ کی قسم کے زیرِ اثر رہنے کا دورانیہ، یہ سب ہمارے حواس اور اعصابی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ پیرو کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پھیپھڑوں کے ذریعے کیڑے مار زہر کو سانس کے ذریعے لے جانا زیادہ زہریلا ہو سکتا ہے، کیونکہ ہماری آنتوں میں جرثومے ہوتے ہیں جو آلودگیوں کو ختم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔'
پیسٹی سائڈ کے اثرات میں حواس کا بگاڑ بھی شامل ہے۔ قدیم ترین واقعات میں سے ایک 1960 کی دہائی میں جاپان کے ساکو زرعی علاقے میں پیش آیا۔ علاقے کے رہائشیوں میں آرگن فاسفیٹس کے استعمال کے بعد قوتِ بصارت (دیکھنے کی صلاحیت) میں خرابی کے زیادہ واقعات سامنے آئے۔
ساکو کی بیماری کے اثرات میں بینائی کا دھندلا پن، آنکھوں کی حرکت کی خرابی، مایوپیا اور astigmatism شامل ہیں۔ علاقے کے مکینوں پر تحقییق سے پتا چلا ہے کہ کسانوں کے علاوہ کسانوں کی بیویاں جنھیں گھر میں لے جانے والی آلودگی یا قریبی کھیتوں سے سپرے کی وجہ سے متاثر کیا، بھی بصارت میں کمی اور بینائی کا شکار ہوئیں۔
مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں ایپیڈیمولوجی اور بایوسٹیٹسٹکس کے پروفیسر ہونگلی چن کہتے ہیں 'جب کیڑے مار زہر استعمال کرنے والوں کی جلد یا کپڑوں پر کیڑے مار دوا کی باقیات رہ جاتی ہیں، تو ان کے آس پاس کے لوگ ان باقیات کو سانس سے اندر لے جا سکتے ہیں۔'
2019 کی مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں شامل چن، کیڑے مار دوا کے استعمال کے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تحقیق کے دوران 20 سالوں میں 11,232 کسانوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان کسانوں میں سے 10.6 فیصد کیڑے مار ادویات کے زیِر اثر رہے۔ HPEE کی سرکاری طور پر تعریف نہیں کی گئی ہے اور یہ کسانوں کی ان کے کیڑے مار ادویات کے استعمال کی شدت کی تشریح پر منحصر ہے۔ HPEE والے کسانوں میں سونگھنے کی کمزوری کا امکان 49 فیصد زیادہ تھا۔
2020 کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دنیا بھر میں اندازے کے مطابق 860 ملین کسانوں میں سے 44 فیصد سالانہ کیڑے مار زہر سے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ حفاظتی آلات کی کمی یا ناقص آلات کی وجہ سے ہے، جو جلد میں جذب، سانس وغیرہ سے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ چن کہتے ہیں کہ جب جراثیم کش زہر سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ ہمارے اعصابی افعال کو خراب کرتے ہیں۔ بہت سی تحقیقات کیڑے مار زہروں کے استعمال اور نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں کے درمیان تعلق بھی ظاہر کرتی ہیں۔
کینیڈا میں یونیورسٹی آف گیلف کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیڑے مار ادویات جانوروں کے خلیات کو اس طرح تبدیل کرنے کا سبب بنتی ہیں جو پارکنسنز کا سبب بنتے ہیں۔ ایک اور تحقیق میں پائیرتھرایڈ کیڑے مار ادویات چوہوں میں DAT (ڈوپامائن ٹرانسپورٹر ایکسپریشن) میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ ڈی اے ٹی ایک قسم کا جین ہے جو ADHD والے افراد میں بھی دیکھا گیا ہے۔
حمل یا ابتدائی زندگی کے دوران کیڑے مار ادویات کا اثر بچوں میں آٹزم کی نشوونما پر دیکھا گیا ہے۔ چونکہ وہ کسی جاندار کی اعصابی بافتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، اس لیے کیڑے مار زہر جیسے کہ آرگن فاسفیٹس، کاربامیٹس اور آرگنوکلورین کیڑے مار ادویات جڑی بوٹیوں سے زیادہ زہریلی ہیں۔
چن کا کہنا ہے کہ کیڑے مار ادویات اور بگڑتی ہوئی طبی حالت کے درمیان واضح وجہ کا تعلق قائم کرنا ایک چیلنج ہے کیونکہ ماحول میں بہت سے ماحولیاتی زہریلے مادے ہیں، جیسے فضائی آلودگی، وائرس اور غیر مستحکم نامیاتی مرکبات... جو سب مضر صحت ہیں۔
بچے اپنی فزیالوجی، تیز میٹابولک ریٹ اور طرز عمل کی وجہ سے خاص طور پر کیڑے مار زہروں کا شکار ہوتے ہیں۔
پیرو کا کہنا ہے کہ بچے اپنے قد کی وجہ سے اکثر زمین کے قریب ہوتے ہیں، وہ اکثر ہاتھ سے منہ کو چھوتے ہیں، اس لیے ان میں بالغوں کے مقابلے حادثاتی طور پر کیڑے مار دوا کھانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جرنل اینوائرمینٹل ٹیکسالوجی میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق، جسم کے وزن کے فی پاؤنڈ خوراک یا مائعات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے بچوں میں کیڑے مار ادویات کی زیادہ مقدار جذب کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
2014 میں فرانس کے بورڈو کے علاقے میں پرائمری سکول کے 23 بچوں کو انگور کے باغ میں فنگسائڈز کے چھڑکاؤ کے بعد متلی، سر درد اور جلد کی جلن کی شکایت ہوئی۔ دو فرانسیسی ماحولیاتی تنظیموں کی طرف سے ایک نجی مقدمہ دائر کرنے کے بعد، اس معاملے میں ملوث انگور کے دو باغوں پر30,000 یورو کا جرمانہ ہوا۔
ہوائی سے نیوزی لینڈ تک دنیا بھر میں کیڑے مار زہر کے استعمال سے بچوں کے بیمار ہونے کے کیسز موجود ہیں۔
انڈیا میں، بچوں میں کیڑے مار زہر کا استعمال کئی دہائیوں سے صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ شمالی انڈیا کے بچوں پر زرعی کیڑے مار زہر ALP کے اثرات کا جائزہ لینے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ انتہائی نگہداشت میں داخل 30 بچوں میں سے 14 بچے کیڑے مار زہر کے نتیجے میں زندہ نہیں رہے۔
بوڑھے لوگ بھی اپنی پتلی جلد کی وجہ سے خاص طور پر کمزور ہوتے ہیں، جس سے جلد کے رابطے سے زہر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے اعضا کے افعال بگڑتے ہیں، جگر اور گردے زہریلے مادوں کو نکالنے میں زیادہ وقت لے سکتے ہیں ، جس سے ان کے جسم میں کیڑے مار زہروں کے جمع ہونے اور جسمانی یا اعصابی نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
اگرچہ شدید یا دائمی اثرات کے دوران کیڑے مار زہر کا امکان زیادہ ہوتا ہے، صارفین حادثاتی طور پر یا جلد کے رابطے کے ذریعے اس کا شکار بن جاتے ہوتے ہیں۔ تازہ پیداوار پر کیڑے مار زہروں کی باقیات کا رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
2022 میں ایک امریکی تنظیم کی تحقیق میں سامنے آیا کہ 70 فیصد سے زیادہ غیر نامیاتی تازہ پیداوار میں ممکنہ طور پر نقصان دہ کیڑے مار زہر کی باقیات ہوتی ہیں۔ 2020 کی یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی رپورٹ میں خوراک میں کیڑے مار زہر کی باقیات کے بارے میں پتا چلا کہ 29.7 فیصد پیداوار میں ایک یا زیادہ باقیات کی اجازت دی گئی حد کے برابر یا اس سے کم ہے، جب کہ 1.7 فیصد قانونی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔
ڈبلیو ایچ او اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر حکومتیں اور بین الحکومتی ادارے خوراک کے معیارات مرتب کریں گے اور مختلف قسم کے کھانے میں کیڑے مار ادویات کے لیے زیادہ سے زیادہ باقیات کی حدیں قائم کریں گے۔
صارفین اپنی غذاؤں پر استعمال ہونے والے کیڑے مار زہروں کی تعدد اور مقدار پر محدود کنٹرول رکھتے ہیں، لیکن ان کی جلد یا کھانے کو دھونے اور صاف کرنے کے بنیادی عمل سے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کھانا پکانے اور پروسیسنگ کے طریقوں جیسے بلینچنگ، ابالنے اور تلنے کے ذریعے کیڑے مار زہروں کی سطح کو 10-80 فیصد تک کم کرنا ممکن ہے۔
2022 کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کیڑے مار زہروں کی باقیات کو دور کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ پانی سے دھونا یا ابالنا ہے۔
چھ خطوں اور ممالک نے مخصوص کیڑے مار سپرے پر پابندی لگا دی ہے۔ 1962 میں ماہر حیاتیات ریچل کارسن کی کتاب سائلنٹ سپرنگ ماحول پر کیڑے مار ادویات کے منفی اثرات کو عوام کے سامنے لائی۔
اس کی وجہ سے امریکہ میں ایک قومی ماحولیاتی تحریک شروع ہوئی، جس نے DDT پر پابندی لگائی ، جو عام طور پر زراعت میں استعمال ہونے والا کیڑے مار زہر ہے۔
2001 کے سٹاک ہوم کنونشن آن پرسسٹنٹ آرگینک پولوٹنٹس نے، جس پر 90 ممالک نے دستخط کیے، بھی ماحول کے تحفظ اور انسانی صحت کے تحفظ کے لیے 20 سے زیادہ مادوں پر پابندی لگا دی۔
کئی مادے، جن میں کیڑے مار زہر جیسے کہ الڈرین اور ڈی ڈی ٹی شامل ہیں، کو ان کے زہریلے پن، جانوروں اور ماحولیاتی نظام میں بایو جمع کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے منتخب کیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ممالک بھی ہیں جو قانونی طور پر فصلوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے مخصوص کیڑے مار زہر کے استعمال کی ضرورت رکھتے ہیں۔
2014 میں، فرانس کے شراب پیدا کرنے والے علاقے برگنڈی نے ایک شراب بنانے والے پر 500 یورو جرمانہ عائد کیا کیونکہ وہ اپنے نامیاتی انگور کے باغ کو کیڑے مار ادویات کے ساتھ چھڑکنے کے لیے حکومتی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ اس ضرورت کا اعلان اس علاقے میں بیل کی ایک بیماری Florescence dorée کے پھیلنے کے بعد کیا گیا۔
یورپی یونین کی زیادہ پائیدار خوراک کے نظام کی طرف منتقل کرنے والی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، یورپی کمیشن نے 2030 تک کیڑے مار زہروں کے استعمال اور خطرے دونوں کو آدھا کرنے کا عہد کیا ہے۔
لیکن کچھ زرعی برادریوں کو یہ ہدف اب بھی ناکافی لگتا ہے۔ زرعی کارکنوں اور صارفین کے ایک گروپ نے 'شہد کی مکھیوں اور کسانوں کو بچائیں' جیسی مہم شروع کی ہے ، جس میں 2030 تک کیڑے مار زہروں کے استعمال میں 80 فیصد کمی اور 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پارٹنز جیسی کامیابی کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ مصنوعی ادویات کے بغیر کاشتکاری ممکن ہے۔ 2020 کے برٹش فارمنگ ایوارڈز میں پارٹن کو اس کے بغیر اور حیاتیاتی نقطہ نظر کے لیے ' فارم انوویٹر آف دی ایئر' کا نام دیا گیا۔ کیڑے مار زہر کو نائٹروجن ٹھیک کرنے والے بیکٹیریا سے بدلنے کے بعد سے، وہ کہتے ہیں کہ اس کی پیداوار وہی رہی ہے یا پچھلے سالوں سے زیادہ ہے۔
فارم کو 10 سال پہلے کے مقابلے کیڑے مار ادویات پر سالانہ 90,000 پاؤنڈ بچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلی صدی کیمیائی صدی تھی، یہ صدی حیاتیاتی صدی ہونے جا رہی ہے کیونکہ ہم اس سیارے کو آلودہ نہیں کر سکتے جس میں ہم رہتے ہیں۔
پارٹن کا کہنا ہے کہ 'میں کھیتی باڑی کرتا ہوں اور آنے والی نسلوں کے لیے فارم پر ایک صحت مند ماحولیاتی نظام بناتا ہوں۔ ہم مل کر اس سیارے کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری تبدیلیاں کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ رہنے کے لیے اور کوئی متبادل سیارہ نہیں ہے۔'
( بشکریہ بی بی سی )
مصنوعی کیڑے مار زہریلے سپرے (پیسٹی سائڈ) اور کھادیں استعمال کرنے کے بجائے انھوں نے اپنی فصلوں پر خود سے تیار شدہ حیاتیاتی طور پر فعال قدرتی مواد جیسے ٹرائیکوڈرما (فنگس کی ایک قسم) کو اپنی فصلوں پر استعمال کیا تاکہ ان دونوں کو اگانے کے ساتھ ساتھ مٹی میں نائٹروجن اور فاسفورس کا توازن ٹھیک کرنے میں مدد مل سکے۔
پارٹن ترقی کرتی ہوئی کاشت کار برادری کا حصہ ہیں، یہ برادری زراعت کی ازسرِنو تخلیق پر عمل پیرا ہے۔ وہ مصنوعی کیڑے مار زہر اور کھاد کا استعمال کم سے کم کرکے مٹی اور ماحولیاتی صحت کو ترجیح دیتی ہے۔ انھوں نے کیڑے مار ادویات کے استعمال سے سر درد اور جلد پر خارش سے گزرنے کے بعد حیاتیاتی طور پر فعال متبادلوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔
بھیڑوں کی کھال سے طفیلیے (ایسے جاندار جو دوسرے جسموں پر پرورش پاتے ہوں اور اْن ہی سے خوراک حاصل کرتے ہوں) نکالنے کے لیے جب وہ انھیں کیڑے مار زہر کے مرکب میں ڈبوتے تو اس سے اکثر ان کے بازوؤں پر گانٹھیں نظر آتی تھیں۔
یہ ردعمل کئی دنوں تک رہتا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میری حالت بہت خراب ہو جاتی لیکن اگر میں ڈاکٹروں کے پاس جاتا تو وہ کہتے کہ 'آپ کو ری ایکشن ہوا ہے اور وہ اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے۔'
حیاتیاتی کاشت کاری کے طریقہ کار کو اپنانے کے بعد سے پارٹن کی صحت پر کوئی منفی اثرات نہیں ہوئے۔ انھیں 10 سال سے زائد عرصے سے اپنی فصلوں پر فاسفورس اور پوٹاشیم کھاد کا استعمال نہیں کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں ' میں پودے کو غذائیت کے لحاظ سے متوازن رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر پودے کو تمام صحیح غذائیت مل جائے تو وہ بیمار نہیں ہوتا۔'
ان کا کہنا ہے کہ جب سے انھوں نے کیڑے مکوڑوں اور جڑی بوٹیوں پر قابو پانے کے لیے کیڑے مار زہروں کا استعمال بند کر دیا ہے تب سے انھوں نے کیڑوں اور پرندوں کی نسلوں میں بڑا اضافہ دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ' مجھے یہاں پر پرندوں کی کہیں زیادہ تعداد مل گئی ہے۔ بہت سی خطرے سے دوچار نسلیں یہاں بڑھ رہی ہیں کیونکہ کھانے کا ذریعہ یہاں ہے۔'
کیڑے مار زہر ایسے مادے یا کیمیکل ہیں جو ان کیڑوں یا دیگر جانداروں کو بھگانے، مارنے اور کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو پودوں کی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔ مؤثر ہونے کے باوجود، کیڑے مار زہروں میں نقصان دہ کیمیکل ہوتے ہیں جو انسان کے حواس اور اعصابی نظام پر وسیع، اور بعض اوقات دائمی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
1930ء کی دہائی میں پہلی بار انھیں امریکہ میں فصلوں کی حفاظت کے لیے استعمال کیا گیا، جس کے بعد بہت سی زرعی کمیونٹیز جلد ہی ان پر انحصار کرنے لگیں کیونکہ ان کی پیداوار پر ڈرامائی اثر پڑا۔ آج دنیا کی تقریباً ایک تہائی زرعی مصنوعات کیڑے مار زہروں پر مشتمل ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، دنیا بھر میں 1,000 سے زیادہ اقسام کے کیڑے مار زہر استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے کچھ سب سے زیادہ عام قسمیں جڑی بوٹیوں کی دوائیں (49 فیصد)، فنگسائڈز اور بیکٹیریسائڈز (27 فیصد) اور کیڑے مار (19 فیصد) ہیں۔ 1990 میں عالمی سطح پر کیڑے مار زہروں کی کھپت 3.72 بلین پونڈ (1.69 بلین کلوگرام) تھی۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ دو دہائیوں میں 57 فیصد سے زیادہ بڑھ کر 2020 تک 5.86 بلین پونڈ (2.66 بلین کلوگرام) تک پہنچ گئے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کیڑے مار ادویات کے استعمال میں مسلسل اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جیسا کہ 2050 تک دنیا کی آبادی 9.3 بلین افراد تک پہنچنے کی توقع ہے، خوراک کی پیداوار کی شرح میں 60 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔ اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے، محققین کا خیال ہے کہ کسانوں کو مزید پیسٹی سائڈ استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔
یورپی کاشتکاری کے نظام پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، کیڑے مار زہر کو یکسر ترک کرنے سے پھلوں کی پیداوار میں 78 فیصد، سبزیوں میں 54 فیصد کمی اور اناج کی پیداوار میں 32 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے لیکن کیڑے مار زہر پر ہمارا انحصار ماحولیات پر اثرانداز ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق کیڑے مار زہر شہد کی مکھیوں اور سامن مچھلی میں بو کی کمی کے لیے ذمہ دار ہو سکتی ہیں، اور انھوں نے آبی ذخائر کو آلودہ کیا ہے، جس سے آبی ماحولیاتی نظام کو خطرہ ہے۔
پیسٹی سائڈ فوڈ چین یعنی غذائی سلسلے میں بھی داخل ہو سکتے ہیں، اس عمل کے ذریعے جسے بایو اکیومولیشن کہا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی مادہ ہمارے جسم میں اس لیے بننا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ہم اسے توڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔
چونکہ بہت سے مصنوعی کیڑے مار زہروں کو جانوروں یا انسانوں کے ذریعے توڑا نہیں جا سکتا، اس لیے وہ جسم کی چربی میں جمع ہو سکتے ہیں۔
اس سے انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیڑے مار زہروں کے استعمال سے متعلق عالمی ضابطوں کے باوجود ایک تحقیق میں معلوم ہوا کہ ہر سال کھیتی باڑی کرنے والوں میں غیر ارادی، شدید کیٹناشک زہر کے تقریباً 385 ملین واقعات ہوتے ہیں۔
جب سپرے کیا جاتا ہے تو کیڑے مار زہر بخارات پیدا کرتے ہیں جو فضائی آلودگی میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں زرعی کارکنوں میں کیڑے مار زہروں سے متعلق 37-54 فیصد بیماریاں سپرے سے منسوب ہیں۔ علامات سر درد اور متلی سے لے کر جلد پر جلن تک ہوسکتی ہیں۔
مشیل پیرو، ایک سابق ماہر امراض اطفال جنھوں نے غیر منافع بخش GMO سائنس کی مشترکہ بنیاد رکھی (ایک عوامی پلیٹ فارم جہاں معالجین جینیاتی طور پر انجینئرڈ فصلوں اور خوراک کے اثرات پر بحث اور تجزیہ کرتے ہیں) کے مطابق کیڑے مار زہر کے استعمال کی ابتدائی علامات میں سر درد، متلی، چکر آنا اور سانس کی رطوبت شامل ہو سکتی ہے۔
شدید صحت کے اثرات میں دوروں سے لے کر سانس کے مسائل تک شامل ہیں۔ استعمال ہونے پیسٹی سائڈ کی قسم کے زیرِ اثر رہنے کا دورانیہ، یہ سب ہمارے حواس اور اعصابی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ پیرو کا کہنا ہے کہ 'ہمارے پھیپھڑوں کے ذریعے کیڑے مار زہر کو سانس کے ذریعے لے جانا زیادہ زہریلا ہو سکتا ہے، کیونکہ ہماری آنتوں میں جرثومے ہوتے ہیں جو آلودگیوں کو ختم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔'
پیسٹی سائڈ کے اثرات میں حواس کا بگاڑ بھی شامل ہے۔ قدیم ترین واقعات میں سے ایک 1960 کی دہائی میں جاپان کے ساکو زرعی علاقے میں پیش آیا۔ علاقے کے رہائشیوں میں آرگن فاسفیٹس کے استعمال کے بعد قوتِ بصارت (دیکھنے کی صلاحیت) میں خرابی کے زیادہ واقعات سامنے آئے۔
ساکو کی بیماری کے اثرات میں بینائی کا دھندلا پن، آنکھوں کی حرکت کی خرابی، مایوپیا اور astigmatism شامل ہیں۔ علاقے کے مکینوں پر تحقییق سے پتا چلا ہے کہ کسانوں کے علاوہ کسانوں کی بیویاں جنھیں گھر میں لے جانے والی آلودگی یا قریبی کھیتوں سے سپرے کی وجہ سے متاثر کیا، بھی بصارت میں کمی اور بینائی کا شکار ہوئیں۔
مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں ایپیڈیمولوجی اور بایوسٹیٹسٹکس کے پروفیسر ہونگلی چن کہتے ہیں 'جب کیڑے مار زہر استعمال کرنے والوں کی جلد یا کپڑوں پر کیڑے مار دوا کی باقیات رہ جاتی ہیں، تو ان کے آس پاس کے لوگ ان باقیات کو سانس سے اندر لے جا سکتے ہیں۔'
2019 کی مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں شامل چن، کیڑے مار دوا کے استعمال کے اثرات پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تحقیق کے دوران 20 سالوں میں 11,232 کسانوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان کسانوں میں سے 10.6 فیصد کیڑے مار ادویات کے زیِر اثر رہے۔ HPEE کی سرکاری طور پر تعریف نہیں کی گئی ہے اور یہ کسانوں کی ان کے کیڑے مار ادویات کے استعمال کی شدت کی تشریح پر منحصر ہے۔ HPEE والے کسانوں میں سونگھنے کی کمزوری کا امکان 49 فیصد زیادہ تھا۔
2020 کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دنیا بھر میں اندازے کے مطابق 860 ملین کسانوں میں سے 44 فیصد سالانہ کیڑے مار زہر سے متاثر ہوتے ہیں۔
یہ حفاظتی آلات کی کمی یا ناقص آلات کی وجہ سے ہے، جو جلد میں جذب، سانس وغیرہ سے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ چن کہتے ہیں کہ جب جراثیم کش زہر سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ ہمارے اعصابی افعال کو خراب کرتے ہیں۔ بہت سی تحقیقات کیڑے مار زہروں کے استعمال اور نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں کے درمیان تعلق بھی ظاہر کرتی ہیں۔
کینیڈا میں یونیورسٹی آف گیلف کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کیڑے مار ادویات جانوروں کے خلیات کو اس طرح تبدیل کرنے کا سبب بنتی ہیں جو پارکنسنز کا سبب بنتے ہیں۔ ایک اور تحقیق میں پائیرتھرایڈ کیڑے مار ادویات چوہوں میں DAT (ڈوپامائن ٹرانسپورٹر ایکسپریشن) میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ ڈی اے ٹی ایک قسم کا جین ہے جو ADHD والے افراد میں بھی دیکھا گیا ہے۔
حمل یا ابتدائی زندگی کے دوران کیڑے مار ادویات کا اثر بچوں میں آٹزم کی نشوونما پر دیکھا گیا ہے۔ چونکہ وہ کسی جاندار کی اعصابی بافتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں، اس لیے کیڑے مار زہر جیسے کہ آرگن فاسفیٹس، کاربامیٹس اور آرگنوکلورین کیڑے مار ادویات جڑی بوٹیوں سے زیادہ زہریلی ہیں۔
چن کا کہنا ہے کہ کیڑے مار ادویات اور بگڑتی ہوئی طبی حالت کے درمیان واضح وجہ کا تعلق قائم کرنا ایک چیلنج ہے کیونکہ ماحول میں بہت سے ماحولیاتی زہریلے مادے ہیں، جیسے فضائی آلودگی، وائرس اور غیر مستحکم نامیاتی مرکبات... جو سب مضر صحت ہیں۔
بچے اپنی فزیالوجی، تیز میٹابولک ریٹ اور طرز عمل کی وجہ سے خاص طور پر کیڑے مار زہروں کا شکار ہوتے ہیں۔
پیرو کا کہنا ہے کہ بچے اپنے قد کی وجہ سے اکثر زمین کے قریب ہوتے ہیں، وہ اکثر ہاتھ سے منہ کو چھوتے ہیں، اس لیے ان میں بالغوں کے مقابلے حادثاتی طور پر کیڑے مار دوا کھانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ جرنل اینوائرمینٹل ٹیکسالوجی میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق، جسم کے وزن کے فی پاؤنڈ خوراک یا مائعات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے بچوں میں کیڑے مار ادویات کی زیادہ مقدار جذب کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
2014 میں فرانس کے بورڈو کے علاقے میں پرائمری سکول کے 23 بچوں کو انگور کے باغ میں فنگسائڈز کے چھڑکاؤ کے بعد متلی، سر درد اور جلد کی جلن کی شکایت ہوئی۔ دو فرانسیسی ماحولیاتی تنظیموں کی طرف سے ایک نجی مقدمہ دائر کرنے کے بعد، اس معاملے میں ملوث انگور کے دو باغوں پر30,000 یورو کا جرمانہ ہوا۔
ہوائی سے نیوزی لینڈ تک دنیا بھر میں کیڑے مار زہر کے استعمال سے بچوں کے بیمار ہونے کے کیسز موجود ہیں۔
انڈیا میں، بچوں میں کیڑے مار زہر کا استعمال کئی دہائیوں سے صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ شمالی انڈیا کے بچوں پر زرعی کیڑے مار زہر ALP کے اثرات کا جائزہ لینے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ انتہائی نگہداشت میں داخل 30 بچوں میں سے 14 بچے کیڑے مار زہر کے نتیجے میں زندہ نہیں رہے۔
بوڑھے لوگ بھی اپنی پتلی جلد کی وجہ سے خاص طور پر کمزور ہوتے ہیں، جس سے جلد کے رابطے سے زہر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے اعضا کے افعال بگڑتے ہیں، جگر اور گردے زہریلے مادوں کو نکالنے میں زیادہ وقت لے سکتے ہیں ، جس سے ان کے جسم میں کیڑے مار زہروں کے جمع ہونے اور جسمانی یا اعصابی نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
اگرچہ شدید یا دائمی اثرات کے دوران کیڑے مار زہر کا امکان زیادہ ہوتا ہے، صارفین حادثاتی طور پر یا جلد کے رابطے کے ذریعے اس کا شکار بن جاتے ہوتے ہیں۔ تازہ پیداوار پر کیڑے مار زہروں کی باقیات کا رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
2022 میں ایک امریکی تنظیم کی تحقیق میں سامنے آیا کہ 70 فیصد سے زیادہ غیر نامیاتی تازہ پیداوار میں ممکنہ طور پر نقصان دہ کیڑے مار زہر کی باقیات ہوتی ہیں۔ 2020 کی یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی کی رپورٹ میں خوراک میں کیڑے مار زہر کی باقیات کے بارے میں پتا چلا کہ 29.7 فیصد پیداوار میں ایک یا زیادہ باقیات کی اجازت دی گئی حد کے برابر یا اس سے کم ہے، جب کہ 1.7 فیصد قانونی حد سے تجاوز کر چکی ہے۔
ڈبلیو ایچ او اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر حکومتیں اور بین الحکومتی ادارے خوراک کے معیارات مرتب کریں گے اور مختلف قسم کے کھانے میں کیڑے مار ادویات کے لیے زیادہ سے زیادہ باقیات کی حدیں قائم کریں گے۔
صارفین اپنی غذاؤں پر استعمال ہونے والے کیڑے مار زہروں کی تعدد اور مقدار پر محدود کنٹرول رکھتے ہیں، لیکن ان کی جلد یا کھانے کو دھونے اور صاف کرنے کے بنیادی عمل سے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ کھانا پکانے اور پروسیسنگ کے طریقوں جیسے بلینچنگ، ابالنے اور تلنے کے ذریعے کیڑے مار زہروں کی سطح کو 10-80 فیصد تک کم کرنا ممکن ہے۔
2022 کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کیڑے مار زہروں کی باقیات کو دور کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ پانی سے دھونا یا ابالنا ہے۔
چھ خطوں اور ممالک نے مخصوص کیڑے مار سپرے پر پابندی لگا دی ہے۔ 1962 میں ماہر حیاتیات ریچل کارسن کی کتاب سائلنٹ سپرنگ ماحول پر کیڑے مار ادویات کے منفی اثرات کو عوام کے سامنے لائی۔
اس کی وجہ سے امریکہ میں ایک قومی ماحولیاتی تحریک شروع ہوئی، جس نے DDT پر پابندی لگائی ، جو عام طور پر زراعت میں استعمال ہونے والا کیڑے مار زہر ہے۔
2001 کے سٹاک ہوم کنونشن آن پرسسٹنٹ آرگینک پولوٹنٹس نے، جس پر 90 ممالک نے دستخط کیے، بھی ماحول کے تحفظ اور انسانی صحت کے تحفظ کے لیے 20 سے زیادہ مادوں پر پابندی لگا دی۔
کئی مادے، جن میں کیڑے مار زہر جیسے کہ الڈرین اور ڈی ڈی ٹی شامل ہیں، کو ان کے زہریلے پن، جانوروں اور ماحولیاتی نظام میں بایو جمع کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے منتخب کیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ممالک بھی ہیں جو قانونی طور پر فصلوں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے مخصوص کیڑے مار زہر کے استعمال کی ضرورت رکھتے ہیں۔
2014 میں، فرانس کے شراب پیدا کرنے والے علاقے برگنڈی نے ایک شراب بنانے والے پر 500 یورو جرمانہ عائد کیا کیونکہ وہ اپنے نامیاتی انگور کے باغ کو کیڑے مار ادویات کے ساتھ چھڑکنے کے لیے حکومتی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ اس ضرورت کا اعلان اس علاقے میں بیل کی ایک بیماری Florescence dorée کے پھیلنے کے بعد کیا گیا۔
یورپی یونین کی زیادہ پائیدار خوراک کے نظام کی طرف منتقل کرنے والی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، یورپی کمیشن نے 2030 تک کیڑے مار زہروں کے استعمال اور خطرے دونوں کو آدھا کرنے کا عہد کیا ہے۔
لیکن کچھ زرعی برادریوں کو یہ ہدف اب بھی ناکافی لگتا ہے۔ زرعی کارکنوں اور صارفین کے ایک گروپ نے 'شہد کی مکھیوں اور کسانوں کو بچائیں' جیسی مہم شروع کی ہے ، جس میں 2030 تک کیڑے مار زہروں کے استعمال میں 80 فیصد کمی اور 2035 تک مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پارٹنز جیسی کامیابی کی کہانیاں بتاتی ہیں کہ مصنوعی ادویات کے بغیر کاشتکاری ممکن ہے۔ 2020 کے برٹش فارمنگ ایوارڈز میں پارٹن کو اس کے بغیر اور حیاتیاتی نقطہ نظر کے لیے ' فارم انوویٹر آف دی ایئر' کا نام دیا گیا۔ کیڑے مار زہر کو نائٹروجن ٹھیک کرنے والے بیکٹیریا سے بدلنے کے بعد سے، وہ کہتے ہیں کہ اس کی پیداوار وہی رہی ہے یا پچھلے سالوں سے زیادہ ہے۔
فارم کو 10 سال پہلے کے مقابلے کیڑے مار ادویات پر سالانہ 90,000 پاؤنڈ بچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلی صدی کیمیائی صدی تھی، یہ صدی حیاتیاتی صدی ہونے جا رہی ہے کیونکہ ہم اس سیارے کو آلودہ نہیں کر سکتے جس میں ہم رہتے ہیں۔
پارٹن کا کہنا ہے کہ 'میں کھیتی باڑی کرتا ہوں اور آنے والی نسلوں کے لیے فارم پر ایک صحت مند ماحولیاتی نظام بناتا ہوں۔ ہم مل کر اس سیارے کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری تبدیلیاں کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ رہنے کے لیے اور کوئی متبادل سیارہ نہیں ہے۔'
( بشکریہ بی بی سی )