نایاب مرض جس میں انسان انجان لہجے میں گفتگو کرنے لگتا ہے
آواز کی تبدیلی پیرانیو پلاسٹک نیورولوجیکل ڈس آرڈر (PND) نامی کیفیت کے سبب ہوتی ہے
محققین کا کہنا ہے کہ ایک امریکی شخص پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے بعد 'آئرش لہجے' میں بات کرنے لگا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ شخص کبھی آئرلینڈ نہیں گیا تھا۔
برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق، نارتھ کیرولائنا کا رہائشی، جو 50 کی دہائی میں تھا، غالباً فارن ایکسنٹ سنڈروم (FAS) کا شکار تھا اور اسے اپنے لہجے پر اختیار نہیں رہا تھا۔ اس نایاب سنڈروم نے اس آدمی کو، جس کا آئرلینڈ سے کوئی قریبی تعلق نہیں تھا، ایک 'لہجہ ' دیا جو اس کی موت تک برقرار رہا۔
حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر اسی طرح کے کئی کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ شمالی کیرولینا میں ڈیوک یونیورسٹی اور جنوبی کیرولینا میں کیرولینا یورولوجک ریسرچ سینٹر نے مشترکہ طور پر اس کیس کا مطالعہ کیا اور رپورٹ کیا۔
رپورٹ کے مصنفین نے کہا، 'ہمارے علم کے مطابق، یہ پروسٹیٹ کینسر کے مریض میں بیان کردہ ایف اے ایس کا پہلا کیس ہے۔' اس شخص کی شناخت، بشمول اس کا نام اور قومیت، کو رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ شخص 20 کی دہائی میں انگلینڈ میں رہتا تھا اور اس کے دوست اور دور دراز کے خاندان کے افراد آئرلینڈ سے تھے۔
لیکن ان کا مزید کہنا ہے کہ اس نے پہلے کبھی غیر ملکی لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ محققین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 'اس شخص کا لہجہ بے قابو تھا اور دھیرے دھیرے مستقل ہوتا گیا۔' انھوں نے مزید کہا کہ ان کی حالت کا آغاز ان کا علاج شروع ہونے کے 20 ماہ بعد ہوا۔ یہاں تک کہ ان کی حالت خراب ہوتی گئی پھر بھی یہ لہجہ نہیں بدلا جو ان کی موت تک برقرار رہا۔
'کیموتھراپی کے باوجود، ان کا نیورو اینڈوکرائن پروسٹیٹ کینسر بڑھتا رہا جس کے نتیجے میں کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلتا رہا اور ممکنہ طور پر پیرانیو پلاسٹک اسینڈنگ فالج کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔' محققین کو شبہ ہے کہ آواز کی تبدیلی پیرانیو پلاسٹک نیورولوجیکل ڈس آرڈر (PND) نامی حالت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ پی این ڈی اس وقت ہوتا ہے جب کینسر کے مریضوں کا مدافعتی نظام ان کے دماغ کے حصوں کے ساتھ ساتھ پٹھوں، اعصاب اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے۔
فارن ایکسنٹ سنڈروم یا ایف اے ایس کا شکار ہونے والے دیگر افراد نے بتایا ہے کہ جب بھی وہ بولتے ہیں تو انھیں 'گھر میں اجنبی' کے ہونے جیسا احساس ہوتا ہے۔
سنہ 2006 میں، برطانیہ کی خاتون لنڈا واکر کو فالج کا دورہ پڑا اور انھوں پایا کہ ان کے مقامی لہجے کی جگہ جمیکا کے لہجے والی آواز نے لے لی۔ سب سے پہلے رپورٹ ہونے والے کیسوں میں سے ایک 1941 میں تھا جب ایک نوجوان نارویجن خاتون نے دوسری جنگ عظیم کے فضائی حملے کے دوران بم کا ٹکڑا لگنے کے بعد جرمن لہجہ اختیار کر لیا تھا۔ مقامی لوگ ان سے دور رہنے لگے کیونکہ وہ انھیں نازی جاسوس سمجھتے تھے۔
پروفیسر سوفی سکاٹ کا کہنا تھا کہ 'غیر ملکی لہجہ عام طور پر دماغی نقصان کی بہت کم مقدار سے بطی ہو جاتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں اس کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ اب اس حالت کے بارے میں زیادہ پیمانے پر آگاہی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دماغ کو پہنچنے والے نقصان سے مریض اس انداز میں بات نہیں کر پاتا جس کی ہمیں ہمیشہ سے عادت ہوتی ہے اور ہمارا دماغ اس شخص کے لہجے کی ٹوٹ پھوٹ کو ایک غیر ملکی یا انجان لہجہ قرار دیتا ہے۔
برٹش میڈیکل جرنل کی رپورٹ کے مطابق، نارتھ کیرولائنا کا رہائشی، جو 50 کی دہائی میں تھا، غالباً فارن ایکسنٹ سنڈروم (FAS) کا شکار تھا اور اسے اپنے لہجے پر اختیار نہیں رہا تھا۔ اس نایاب سنڈروم نے اس آدمی کو، جس کا آئرلینڈ سے کوئی قریبی تعلق نہیں تھا، ایک 'لہجہ ' دیا جو اس کی موت تک برقرار رہا۔
حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر اسی طرح کے کئی کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ شمالی کیرولینا میں ڈیوک یونیورسٹی اور جنوبی کیرولینا میں کیرولینا یورولوجک ریسرچ سینٹر نے مشترکہ طور پر اس کیس کا مطالعہ کیا اور رپورٹ کیا۔
رپورٹ کے مصنفین نے کہا، 'ہمارے علم کے مطابق، یہ پروسٹیٹ کینسر کے مریض میں بیان کردہ ایف اے ایس کا پہلا کیس ہے۔' اس شخص کی شناخت، بشمول اس کا نام اور قومیت، کو رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ شخص 20 کی دہائی میں انگلینڈ میں رہتا تھا اور اس کے دوست اور دور دراز کے خاندان کے افراد آئرلینڈ سے تھے۔
لیکن ان کا مزید کہنا ہے کہ اس نے پہلے کبھی غیر ملکی لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ محققین نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 'اس شخص کا لہجہ بے قابو تھا اور دھیرے دھیرے مستقل ہوتا گیا۔' انھوں نے مزید کہا کہ ان کی حالت کا آغاز ان کا علاج شروع ہونے کے 20 ماہ بعد ہوا۔ یہاں تک کہ ان کی حالت خراب ہوتی گئی پھر بھی یہ لہجہ نہیں بدلا جو ان کی موت تک برقرار رہا۔
'کیموتھراپی کے باوجود، ان کا نیورو اینڈوکرائن پروسٹیٹ کینسر بڑھتا رہا جس کے نتیجے میں کینسر جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلتا رہا اور ممکنہ طور پر پیرانیو پلاسٹک اسینڈنگ فالج کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔' محققین کو شبہ ہے کہ آواز کی تبدیلی پیرانیو پلاسٹک نیورولوجیکل ڈس آرڈر (PND) نامی حالت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ پی این ڈی اس وقت ہوتا ہے جب کینسر کے مریضوں کا مدافعتی نظام ان کے دماغ کے حصوں کے ساتھ ساتھ پٹھوں، اعصاب اور ریڑھ کی ہڈی پر حملہ کرتا ہے۔
فارن ایکسنٹ سنڈروم یا ایف اے ایس کا شکار ہونے والے دیگر افراد نے بتایا ہے کہ جب بھی وہ بولتے ہیں تو انھیں 'گھر میں اجنبی' کے ہونے جیسا احساس ہوتا ہے۔
سنہ 2006 میں، برطانیہ کی خاتون لنڈا واکر کو فالج کا دورہ پڑا اور انھوں پایا کہ ان کے مقامی لہجے کی جگہ جمیکا کے لہجے والی آواز نے لے لی۔ سب سے پہلے رپورٹ ہونے والے کیسوں میں سے ایک 1941 میں تھا جب ایک نوجوان نارویجن خاتون نے دوسری جنگ عظیم کے فضائی حملے کے دوران بم کا ٹکڑا لگنے کے بعد جرمن لہجہ اختیار کر لیا تھا۔ مقامی لوگ ان سے دور رہنے لگے کیونکہ وہ انھیں نازی جاسوس سمجھتے تھے۔
پروفیسر سوفی سکاٹ کا کہنا تھا کہ 'غیر ملکی لہجہ عام طور پر دماغی نقصان کی بہت کم مقدار سے بطی ہو جاتا ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں اس کے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں، یہ شاید اس لیے بھی ہے کہ اب اس حالت کے بارے میں زیادہ پیمانے پر آگاہی موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دماغ کو پہنچنے والے نقصان سے مریض اس انداز میں بات نہیں کر پاتا جس کی ہمیں ہمیشہ سے عادت ہوتی ہے اور ہمارا دماغ اس شخص کے لہجے کی ٹوٹ پھوٹ کو ایک غیر ملکی یا انجان لہجہ قرار دیتا ہے۔