شعیب اختر چیئرمین بورڈ بننے کا خواب دیکھنے لگے
ٹاپ سیٹ پر بیٹھ کر ملک کا قرض چکانا چاہتا ہوں، 50 سپراسٹارز متعارف کراؤں گا، سابق اسپیڈ اسٹار
سابق اسپیڈ اسٹار شعیب اختر پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے کے خواب دیکھنے لگے۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر بھی پی سی بی کا چیئرمین بننے کا ارادہ رکھتے ہیں، 47 سالہ شعیب اختر نے اپنے 14 سالہ کیریئر کے دوران 46 ٹیسٹ، 163 ون ڈے اور 15 ٹی 20 میچز میں حصہ لیا، انٹرنیشنل کرکٹ میں تیزترین گیند کرنے کا اعزاز بھی ان کے نام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2002 میں مجھے کپتانی کی پیشکش کی گئی تھی، شعیب اختر
ایک انٹرویو میں شعیب اختر نے کہا کہ میں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان کیلیے سپر اسٹارز متعارف کراسکوں، میں اپنے ملک کیلیے 50 سپر اسٹارز سامنے لانا چاہتا ہوں، پھر ان کی تعداد 100، 200 اور 2 ہزار تک لے جانے کی خواہش ہے، میرے ملک کا مجھ پر بہت زیادہ قرض اور یہ میری خواہش ہے کہ اب اس کی خدمت کروں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی20 ورلڈکپ 2022؛ ''گھٹنا ٹوٹ بھی جاتا تو اسپیل مکمل کرتا''، شعیب اختر
شعیب اختر نے مزید کہاکہ کھلاڑیوں کو کھیل کے ساتھ اپنی بول چال کی صلاحیت کو بھی بہتر بنانا ہوگا، ابھی آپ دیکھیں کہ ٹیم کو کوئی بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا، انگریزی سیکھنا اور بولنا کون سا مشکل کام ہے، میڈیا کا سامنا کرنا بھی اہم بات ہے، اگر آپ بات نہیں کرسکتے تو پھر ٹی وی پر کبھی اظہار خیال نہیں کرسکیں گے۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر بھی پی سی بی کا چیئرمین بننے کا ارادہ رکھتے ہیں، 47 سالہ شعیب اختر نے اپنے 14 سالہ کیریئر کے دوران 46 ٹیسٹ، 163 ون ڈے اور 15 ٹی 20 میچز میں حصہ لیا، انٹرنیشنل کرکٹ میں تیزترین گیند کرنے کا اعزاز بھی ان کے نام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2002 میں مجھے کپتانی کی پیشکش کی گئی تھی، شعیب اختر
ایک انٹرویو میں شعیب اختر نے کہا کہ میں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان کیلیے سپر اسٹارز متعارف کراسکوں، میں اپنے ملک کیلیے 50 سپر اسٹارز سامنے لانا چاہتا ہوں، پھر ان کی تعداد 100، 200 اور 2 ہزار تک لے جانے کی خواہش ہے، میرے ملک کا مجھ پر بہت زیادہ قرض اور یہ میری خواہش ہے کہ اب اس کی خدمت کروں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی20 ورلڈکپ 2022؛ ''گھٹنا ٹوٹ بھی جاتا تو اسپیل مکمل کرتا''، شعیب اختر
شعیب اختر نے مزید کہاکہ کھلاڑیوں کو کھیل کے ساتھ اپنی بول چال کی صلاحیت کو بھی بہتر بنانا ہوگا، ابھی آپ دیکھیں کہ ٹیم کو کوئی بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا، انگریزی سیکھنا اور بولنا کون سا مشکل کام ہے، میڈیا کا سامنا کرنا بھی اہم بات ہے، اگر آپ بات نہیں کرسکتے تو پھر ٹی وی پر کبھی اظہار خیال نہیں کرسکیں گے۔