احمد عقیل روبی …’’ورق ورق ترا چہرہ‘‘
روبی صاحب کی شاعری میں محبت کے چراغ جلانے کا احساس ایک بنیادی موضوع ٹھہرا
احمد عقیل روبی کا شمار برصغیر پاک وہند کے اُن معروف دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور خاکہ نگاروں میں ہوتا ہے، جو اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے لیے کام کرتے ہیں، وہ ایک درویش صفت اور بلند پایہ تخلیق کار انسان تھے۔
وہ 1940 کو بھارت کے شہر سنگروز، لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام غلام حسین سوز تھا مگر وہ ادبی دنیامیں احمد عقیل روبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔
ان کی پیدائش کے سات سال بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے تقسیم ہند کے وقت اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی۔ بعدازاں میٹرک اور ایف اے کے امتحانات پاس کیے پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اُردوکیا اور زندگی بھر کے لیے شعبہ درس وتدریس سے وابستہ ہو گئے۔
روبی صاحب کی شاعری میں محبت کے چراغ جلانے کا احساس ایک بنیادی موضوع ٹھہرا۔ رومانیت کے پردے میں احتجاجی رویہ اپناتے ہوئے جس طرح اپنے خیالات وافکار کی ترجمانی کی ہے اُس بنا پر میں انھیں پیار اور محبت کے لطیف جذبوں کا شاعر کہوں گا کیونکہ ایسا آدمی جو ایک ایسی محبت جس کے لیے وہ ساری زندگی تڑپتا رہا اور یہی تڑپ اس کی شاعری میں وہ تاثیر پیدا کر دیتی ہے کہ روبی صاحب کا ذاتی غم بھی دوسروں کا غم بن جاتا ہے۔
اسی محبت کے حوالے سے عمر شریف مرحوم پوچھتے ہیں کہ روبی صاحب کیا کبھی زندگی میں آپ کو پیار ہوا؟ تو اس سوال کے جواب میں روبی صاحب کہتے ہیں'' جی بالکل ہوامگر اظہار نہیں ہوا، کیونکہ اُن کو خبر تب ہوئی جب میری چار پانچ عدد کتابیں شائع ہو چکی تھی، جو بات سامنے نہیں کہہ سکیںوہ ہم نے کتاب کی صورت میں کہہ دی۔ تب اُن پر میرا پہلا شعر کچھ یوں تھا کہ:
جو شخص دور سے دریا دکھائی دیتا ہے
قریب جائے تو پیاسا دکھائی دیتا ہے
محبت کی یہ ناکامی اس کی کامیابی ہے کہ درد و فراق کی یہ لے اس کی شاعری میں اس طرح رچ بس گئی ہے اور اس میں ایک میٹھی کسک پیدا ہوئی جو قاری کے دل ودماغ کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی یوں ایک آدمی غلام حسین سوز سے سب کا احمد عقیل روبی بن جاتا ہے اور اسی میں ہی اس کی بے پناہ مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔
احمد عقیل روبی''عشق'' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے کہ''جہاں تک عشق کا تعلق ہے ۔عشق کا جو کمرہ ہے اس کی دہلیز پر عقل کی جوتیاں اُتار کر اندر جانا پڑتا ہے۔
کیونکہ عشق کے سلسلے میں محبوب کا انتخاب بھی آدمی کا معیار مقرر کرتا ہے۔ ''اسی لیے ان کے حوالے سے ناصر کاظمی لکھتے ہیں کہ''عقیل روبی نے اپنی نظموں اور غزلوں میں فطرت کی بے جان چیزوں کو اس طرح برتا ہے کہ وہ دیکھتی، سوچتی اور کلام کرتی محسوس ہوتی ہیں اور یہی طرزِ احساس اسے اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے۔''روبی صاحب کی تخلیقا ت میں بطور مترجم ''چوتھی دنیا''(ناول)،''علی پور کا مفتی''Trans کی سوانح عمری جس میں ممتاز مفتی کی شخصیت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔
اعظم خان کے مارشل لاء دور میں انھوں نے فلم بادل کے ایک گانے کی طرز پہ اپنی ایک طویل نظم لکھی جس کا عنوان تھا ''کہانی ایک شہر کی'' جو اُس وقت کسی نوحہ سے کم نہ تھی۔ اس نظم کو انھوں نے ایک جلسے میں پڑھا اور پھر اس کے اعزاز میں انھیں جیل کی سلاخیں نصیب ہوئی۔
اُس وقت ان کی والدہ کو بہت ساری مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ۔ ان کی والدہ اَن پڑھ تھی۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس حوالے سے جان کاشمیری کا ایک قول یاد آیا کہ''کسی اسکول کے نصیب میں میرے والدین کی زیارت نہیں تھی'' مگر انھوں نے اس کے باوجود ہر ماں کے خواب کی طرح انھیں پڑھانا لکھانا اپنی پہلی ترجیح سمجھا۔روبی صاحب اکثر اوقات اپنی تحریروں میں اپنی ماں کے متعلق کہتے کہ ''ماں دنیا کی سبھی نعمتوں سے بڑی نعمت ہیں جسے دنیا کے کسی کونے میں بھی تلاش کرنے نکلو تو نہیں ملتی۔
مجھے اپنی ماں بہت یاد آتی ہے میری ماں نے زندگی کے ہر محاذ پر لڑنے کی تربیت دی۔ میری ماں نے اَن پڑھ ہونے کے باوجود علم وہنر کے سبھی خزانے میری جھولی میں ڈال دیے۔'' انھوں نے ماں کی کہانی پہ ''زرمیہ عہد بہ عہد'' کے عنوان سے ایک ناول بھی لکھا۔جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے اپنی شاعری کے وہ جوہر دکھائے جسے دنیا بھر میں سراہا جانے لگا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''سوکھے پتے بکھرے پھول'' کے نام سے 1967 میں شائع ہوا۔ ان کی دوسری کتاب اکیس برس بعد ''سورج قید سے چھوٹ گیا'' 1988 کو شائع ہوئی۔
انھوں نے بے شمار ادیبوں کو پڑھا جن میں ہومر، سکائی لس، سوفیکیر، ارسٹوفینیر، سقراط، افلاطون، ارسطو، ورجل ، ہورلیس، دانتے، شیکسپیئر، ملٹن، شیلے، بائرن، ٹالسٹائی، گوئٹے، بانراک، فلایبر، کرشن چندر، بیدی، منٹو اور غلام عباس جیسی شخصیات سے متاثر تھے۔
یونان ان کی کمزوری تھی اسی لیے انھوں نے یونانی فلاسفر ڈرامہ نگار اور دانش ور ،ذہانت کا بازار لگایا۔وہ ان کے علاوہ علامہ اقبالؒ کی شاعری سے بہت متاثر تھے اکثر گفتگو کے دوران وہ اقبال کے اشعار پیش کرتے۔ روبی صاحب کو احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی جیسی شخصیات کا خراج حاصل ہوا۔2000 میں انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے صدر شعبہ اُردو ریٹائر ہوئے۔
انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بے شمار سیریل تحریر کیے۔ جن میں دو ایسے مقبول ہوئے جن میں ''پڑاؤ'' اور ''دھوپ'' جو ہمارے ارد گرد کے مسائل پہ حقیقی خاکوں پہ مبنی تھے۔ ''مجھے تو حیران کر گیا وہ'' یہ خاکے مجید امجد کی شخصیت پہ مبنی ہے اس عنوان کو ناصر کاظمی کے مشہور زمانہ شعر سے لیا گیا ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام الحمد پبلی کیشنز نے کیا۔ اس کتاب کو علمی وادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔روبی صاحب نے بہت سی فلموں کے گانے بھی لکھے، جس سے فلم انڈسٹری کو سانس لینے کا ایک اور موقع ملا۔ جس میں سید نور کی پہلی فلم''چوڑیاں'' سرفہرست ہے، جس کے گانے اس فلم کی مقبولیت کا حصہ بنے۔ اس کے علاوہ روبی صاحب نے قرآن مجید کے چند پاروں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔
اس حوالے سے روبی صاحب بتاتے ہیں کہ ''میںجب تیسرے پارے کا ترجمہ کرنے لگا تو پتہ نہیں اللہ میاں نے میرے اندر کیا بھر دیا۔ وہ سترہ دن میں تیسرا پارہ مکمل کر لیا اس دوران وہ دتسکین جو مجھے ملی ہے میں سمجھتا ہوں یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا باقی یہ لمحے تو سارے لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں۔''ان کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھے۔
ایک لمحے کی شناسائی قیامت ڈھا گئی
دے گیا وہ حسن فانی درد لافانی مجھے
ان کی وفات 23 نومبر 2014 کی شام جہد مسلسل کے ساتھ زندگی بسرکرتے ہوئے ہوئی۔اس طرح ادب کے آسمان پر چمکنے والا ستارہ کہیں ڈوب گیا۔ احمد عقیل روبی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازاگیا۔
وہ 1940 کو بھارت کے شہر سنگروز، لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام غلام حسین سوز تھا مگر وہ ادبی دنیامیں احمد عقیل روبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔
ان کی پیدائش کے سات سال بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد انھوں نے تقسیم ہند کے وقت اپنی والدہ کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی۔ بعدازاں میٹرک اور ایف اے کے امتحانات پاس کیے پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اُردوکیا اور زندگی بھر کے لیے شعبہ درس وتدریس سے وابستہ ہو گئے۔
روبی صاحب کی شاعری میں محبت کے چراغ جلانے کا احساس ایک بنیادی موضوع ٹھہرا۔ رومانیت کے پردے میں احتجاجی رویہ اپناتے ہوئے جس طرح اپنے خیالات وافکار کی ترجمانی کی ہے اُس بنا پر میں انھیں پیار اور محبت کے لطیف جذبوں کا شاعر کہوں گا کیونکہ ایسا آدمی جو ایک ایسی محبت جس کے لیے وہ ساری زندگی تڑپتا رہا اور یہی تڑپ اس کی شاعری میں وہ تاثیر پیدا کر دیتی ہے کہ روبی صاحب کا ذاتی غم بھی دوسروں کا غم بن جاتا ہے۔
اسی محبت کے حوالے سے عمر شریف مرحوم پوچھتے ہیں کہ روبی صاحب کیا کبھی زندگی میں آپ کو پیار ہوا؟ تو اس سوال کے جواب میں روبی صاحب کہتے ہیں'' جی بالکل ہوامگر اظہار نہیں ہوا، کیونکہ اُن کو خبر تب ہوئی جب میری چار پانچ عدد کتابیں شائع ہو چکی تھی، جو بات سامنے نہیں کہہ سکیںوہ ہم نے کتاب کی صورت میں کہہ دی۔ تب اُن پر میرا پہلا شعر کچھ یوں تھا کہ:
جو شخص دور سے دریا دکھائی دیتا ہے
قریب جائے تو پیاسا دکھائی دیتا ہے
محبت کی یہ ناکامی اس کی کامیابی ہے کہ درد و فراق کی یہ لے اس کی شاعری میں اس طرح رچ بس گئی ہے اور اس میں ایک میٹھی کسک پیدا ہوئی جو قاری کے دل ودماغ کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی یوں ایک آدمی غلام حسین سوز سے سب کا احمد عقیل روبی بن جاتا ہے اور اسی میں ہی اس کی بے پناہ مقبولیت کا راز پنہاں ہے۔
احمد عقیل روبی''عشق'' کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے کہ''جہاں تک عشق کا تعلق ہے ۔عشق کا جو کمرہ ہے اس کی دہلیز پر عقل کی جوتیاں اُتار کر اندر جانا پڑتا ہے۔
کیونکہ عشق کے سلسلے میں محبوب کا انتخاب بھی آدمی کا معیار مقرر کرتا ہے۔ ''اسی لیے ان کے حوالے سے ناصر کاظمی لکھتے ہیں کہ''عقیل روبی نے اپنی نظموں اور غزلوں میں فطرت کی بے جان چیزوں کو اس طرح برتا ہے کہ وہ دیکھتی، سوچتی اور کلام کرتی محسوس ہوتی ہیں اور یہی طرزِ احساس اسے اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے۔''روبی صاحب کی تخلیقا ت میں بطور مترجم ''چوتھی دنیا''(ناول)،''علی پور کا مفتی''Trans کی سوانح عمری جس میں ممتاز مفتی کی شخصیت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔
اعظم خان کے مارشل لاء دور میں انھوں نے فلم بادل کے ایک گانے کی طرز پہ اپنی ایک طویل نظم لکھی جس کا عنوان تھا ''کہانی ایک شہر کی'' جو اُس وقت کسی نوحہ سے کم نہ تھی۔ اس نظم کو انھوں نے ایک جلسے میں پڑھا اور پھر اس کے اعزاز میں انھیں جیل کی سلاخیں نصیب ہوئی۔
اُس وقت ان کی والدہ کو بہت ساری مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ۔ ان کی والدہ اَن پڑھ تھی۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ اس حوالے سے جان کاشمیری کا ایک قول یاد آیا کہ''کسی اسکول کے نصیب میں میرے والدین کی زیارت نہیں تھی'' مگر انھوں نے اس کے باوجود ہر ماں کے خواب کی طرح انھیں پڑھانا لکھانا اپنی پہلی ترجیح سمجھا۔روبی صاحب اکثر اوقات اپنی تحریروں میں اپنی ماں کے متعلق کہتے کہ ''ماں دنیا کی سبھی نعمتوں سے بڑی نعمت ہیں جسے دنیا کے کسی کونے میں بھی تلاش کرنے نکلو تو نہیں ملتی۔
مجھے اپنی ماں بہت یاد آتی ہے میری ماں نے زندگی کے ہر محاذ پر لڑنے کی تربیت دی۔ میری ماں نے اَن پڑھ ہونے کے باوجود علم وہنر کے سبھی خزانے میری جھولی میں ڈال دیے۔'' انھوں نے ماں کی کہانی پہ ''زرمیہ عہد بہ عہد'' کے عنوان سے ایک ناول بھی لکھا۔جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے اپنی شاعری کے وہ جوہر دکھائے جسے دنیا بھر میں سراہا جانے لگا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ''سوکھے پتے بکھرے پھول'' کے نام سے 1967 میں شائع ہوا۔ ان کی دوسری کتاب اکیس برس بعد ''سورج قید سے چھوٹ گیا'' 1988 کو شائع ہوئی۔
انھوں نے بے شمار ادیبوں کو پڑھا جن میں ہومر، سکائی لس، سوفیکیر، ارسٹوفینیر، سقراط، افلاطون، ارسطو، ورجل ، ہورلیس، دانتے، شیکسپیئر، ملٹن، شیلے، بائرن، ٹالسٹائی، گوئٹے، بانراک، فلایبر، کرشن چندر، بیدی، منٹو اور غلام عباس جیسی شخصیات سے متاثر تھے۔
یونان ان کی کمزوری تھی اسی لیے انھوں نے یونانی فلاسفر ڈرامہ نگار اور دانش ور ،ذہانت کا بازار لگایا۔وہ ان کے علاوہ علامہ اقبالؒ کی شاعری سے بہت متاثر تھے اکثر گفتگو کے دوران وہ اقبال کے اشعار پیش کرتے۔ روبی صاحب کو احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، قتیل شفائی، ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی جیسی شخصیات کا خراج حاصل ہوا۔2000 میں انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے صدر شعبہ اُردو ریٹائر ہوئے۔
انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے بے شمار سیریل تحریر کیے۔ جن میں دو ایسے مقبول ہوئے جن میں ''پڑاؤ'' اور ''دھوپ'' جو ہمارے ارد گرد کے مسائل پہ حقیقی خاکوں پہ مبنی تھے۔ ''مجھے تو حیران کر گیا وہ'' یہ خاکے مجید امجد کی شخصیت پہ مبنی ہے اس عنوان کو ناصر کاظمی کے مشہور زمانہ شعر سے لیا گیا ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام الحمد پبلی کیشنز نے کیا۔ اس کتاب کو علمی وادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔روبی صاحب نے بہت سی فلموں کے گانے بھی لکھے، جس سے فلم انڈسٹری کو سانس لینے کا ایک اور موقع ملا۔ جس میں سید نور کی پہلی فلم''چوڑیاں'' سرفہرست ہے، جس کے گانے اس فلم کی مقبولیت کا حصہ بنے۔ اس کے علاوہ روبی صاحب نے قرآن مجید کے چند پاروں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔
اس حوالے سے روبی صاحب بتاتے ہیں کہ ''میںجب تیسرے پارے کا ترجمہ کرنے لگا تو پتہ نہیں اللہ میاں نے میرے اندر کیا بھر دیا۔ وہ سترہ دن میں تیسرا پارہ مکمل کر لیا اس دوران وہ دتسکین جو مجھے ملی ہے میں سمجھتا ہوں یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ وہی لمحہ تھا باقی یہ لمحے تو سارے لوگوں کی زندگی میں آتے ہیں۔''ان کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھے۔
ایک لمحے کی شناسائی قیامت ڈھا گئی
دے گیا وہ حسن فانی درد لافانی مجھے
ان کی وفات 23 نومبر 2014 کی شام جہد مسلسل کے ساتھ زندگی بسرکرتے ہوئے ہوئی۔اس طرح ادب کے آسمان پر چمکنے والا ستارہ کہیں ڈوب گیا۔ احمد عقیل روبی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازاگیا۔