ہمارے دل خالی ہوگئے ہیں
وہ اس میں داخل ہونے پر گھمنڈ نہیں کرتے ہیں جہاں دوسروں کو داخلہ نہیں دیا جاتا ہے
مہذب ہونے کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ ایک اچھا قاری ہونے یا ان کتابوں کے بارے میں بات کرنے کے بارے میں جو آپ نے نہیں پڑھی ہیں یا عام طور پر فکری خوبصورتی کا حامل ہونا۔ یہ ہی سوال روسی منصف چیخوف نے اپنے بڑے بھائی نکو لائی کو لکھے گئے خط میں کیا جو ایک فنکار تھا چیخوف 1886میں ماسکو سے اسے لکھتا ہے۔
''آپ نے اکثر مجھ سے شکایت کی ہے کہ لوگ آپ کو نہیں سمجھتے۔ گوئٹے اور نیو ٹن نے اس کی شکایت نہیں کی۔
صرف مذہبی رہنما نے اس کی شکایت کی، لیکن وہ اپنے نظرئیے کی بات کررہے تھے، نہ کہ اپنے بارے میں۔ لوگ آپ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اگر آپ خود کو نہیں سمجھتے تو اس میں ان کا قصور نہیں ۔
میں آپ کو ایک بھائی اور ایک دوست کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کو سمجھتا ہوں اور آپ کو پوری دل سے محسوس کرتا ہوں میں آپ کی خو بیوں کو جانتا ہوں جیسا کہ میں اپنی پانچ انگلیاں جانتا ہوں میں ان کی قدر کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام کرتاہوں اگر آپ چاہیں تو یہ ثابت کر نے کے لیے کہ میں آپ کو سمجھتا ہوں۔
میں آپ کی خوبیاں بتا سکتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ آپ نرمی کی انتہا پر ہیں آپ بے لوث اور اپنی ہر چیز بانٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں آپ کو کوئی حسد یا نفرت نہیں ہے ۔
آپ سادہ دل ہیں آپ انسانوں اور جانوروں پر رحم کرتے ہیں آپ بھروسے مند ہیں آپ کے پاس ہنر ہے، یہ ہنر آپ کو لاکھوں انسانوں سے اوپر رکھتاہے۔ آپ کی صرف ایک ہی ناکامی ہے اور آپ کی پوزیشن کا جھوٹ اور ناخوشی اور آپ کی آنتوں کی خرابی سب اسکی وجہ سے ہے کہ آپ میں کلچر کی سراسر کمی ہے مجھے معاف کر دیجیے گا لیکن زندگی کی اپنی شرائط ہوتی ہیں۔
پڑھے لکھے لوگوں میں سکون محسوس کرنے کے لیے گھر میں ایک ساتھ خوش رہنے کے لیے ایک حد تک تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے۔ مہذب لوگ میری رائے میں درج ذیل شرائط کو پوراکرتے ہیں (1) وہ انسانی شخصیت کا احترام کرتے ہیں اور اس لیے وہ ہمیشہ مہربان ، نرم مزاج، شائستہ اور دوسروں کو دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
وہ صف نہیں بناتے اگر وہ کسی کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ اسے احسان نہیں سمجھتے اور اگر نہیں بنتی تو چلے جاتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ کوئی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ وہ شور ، ٹھنڈا اور سوکھا ہوا گوشت، مذاق اور اپنے گھروں میں اجنبیوں کی موجودگی کو معا ف کر دیتے ہیں ۔
(2) انھیں اکیلے ہمدردی صرف بھکاریوں اوربلیوں سے نہیں ہے، ان کا دل اس بات کے لیے بھی دکھتا ہے جو آنکھ نہیں دیکھتی وہ رات کو یونیورسٹی میں بھائیوں کے لیے پیسے دینے اور اپنی ماں کے لیے کپڑے خریدنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔
(3) وہ دوسروں کی جائیداد کااحترام کرتے ہیں اور اس لیے اپنے قرض ادا کرتے ہیں (4) وہ مخلص ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹ سننے والے کی تو ہین کرتے ہیں وہ پوز نہیں کرتے وہ گلیوں میں ایسا بر تاؤ کرتے ہیں جیسا کہ وہ گھر میں کرتے ہیںوہ اپنے ساتھیوں کے سامنے دکھاؤا نہیں کرتے دوسرے لوگوں کے کانوں کے احترام کی وجہ سے وہ اکثر بات کرنے سے زیادہ خاموش رہتے ہیں۔
(5) وہ ہمدردی پیداکرنے کے لیے خود کو حقیر نہیں سمجھتے۔ وہ دوسرے لوگوں کے دلوں کی تاروں پر نہیں کھیلتے تاکہ وہ سسک سسک کر ان میں زیادہ تر کو اپنابنا سکیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ '' مجھے غلط فہمی ہوتی ہے یا میں دوسرے درجے کا ہوگیاہوں ''کیونکہ یہ سب سستے اثر کی کوشش ہوتا ہو بیہودہ ،جھوٹا (6) وہ کم ظرف یا مغرور نہیں ہوتے وہ جعلی اور جھوٹے ہیروں کی پروا نہیں کرتے جیسے جان کر مشہور شخصیات سے ہاتھ نہیں ملاتے ہیں ۔
وہ اس میں داخل ہونے پر گھمنڈ نہیں کرتے ہیں جہاں دوسروں کو داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ لوگوں کے درمیان غیر واضح رہتے ہیں۔ بھیڑ، اشتہار سے جہاں تک ممکن ہو (7) اگر ان کے پاس کوئی ہنر ہے تو وہ اس کا احترام کرتے ہیں وہ اس پر آرام ، عورت، شراب اور باطل کو قربان کرتے ہیں ۔ انھیں اپنی صلاحیتوں پر فخر ہے اس کے علاو ہ وہ پر ہیز گار ہوتے ہیں (8) وہ اپنے اندر جمالیاتی احساس پیدا کرتے ہیں ۔
دیواروں پر کیڑوں سے بھری ہوئی دراڑیں دیکھ سکتے ہیں ۔ بری ہوا کاسانس لے سکتے ہیں اس فرش پر چل سکتے ہیں جس پر تھوک دیا گیا ہو۔ اپنا کھانا تیل کے چولہے پر پکا سکتے ہیں وہ جنسی جبلت کو روکنے اور اس کو فروغ دینے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں وہ عورت میں کیا چاہتے ہیں ؟ وہ بیڈ فیلو نہیں ہے وہ اس چالاکی کا مطالبہ نہیں کرتے جو مسلسل جھوٹ بولنے میں خود کو ظاہر کرتی ہے وہ خاص طورپر چاہتے ہیں اگر وہ فنکار ہوں ،تازگی، خوبصورتی ۔وہ دن اور رات کے ہرو قت ووڈ کا نہیں سونگھتے، الماریوں کونہیں سونگھتے ، وہ صرف اس وقت پیتے ہیں جب وہ آزاد ہوتے ہیں ۔''
آج ہمیں بحیثیت انسان اپنی دولت و حیثیت میں عارضی سی کمی یا لاکھوں انسانوں کی موت سے کہیں زیادہ گہرے مسئلے کا سامنا ہے ۔ کہ ہمارے '' دل '' خالی ہوگئے ہیں۔ ہم تھکاوٹ اور یاسیت کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگئے ہیں جیسا دور کبھی کسی مذہبی رہنما اور نجات دہندہ کا منتظر تھا۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال ہر دور میں انسان کے ذہن میں گونجتا رہا ہے ،اسی سوال نے ہمیشہ اسے بے چین رکھا ہے۔
ہر دور کے فلسفیوں ، دانشوروں ، بھکشوں ، مذہبی رہنماؤں اور سائنس دانوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح کی ہے، لیکن کوئی بھی ایک ایسا جامع جواب آج تک نہیں ملا جو ہر ایک کو قابل قبول ہو ۔ ایک نکتے پر سب کو اتفا ق رہا ہے کہ زندگی کا مقصد ایک بامقصد زندگی بسر کر نا ہے ۔ با مقصد زندگی بسر کرنے کا مطلب دوسروں کو غلط ثابت کر نا نہیں بلکہ خودکو صحیح ثابت کرنا ہے ۔
جب یونانی فلسفی میتر وڈیرس سے پوچھا گیا کہ دنیامیں سب سے مشکل کام کیا ہے؟ تواس نے جواب دیا '' خود شناسی '' کم و بیش یہ ہی بات سقراط نے بھی کہی تھی '' اپنی ذات کو پہچانیے '' گو تم بدھا کی تعلیمات کا محور بھی یہ ہی ہے کہ '' Mindfulness''جب آپ کی زندگی کاکوئی مقصدنہ تو پھر آپکا دل خالی ہوجاتاہے ۔
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ خود کو پہچان نہیں پاتے ہیں ۔ خود کو تلاش نہیں کرپاتے ہیں ۔ زندگی گذارنے کے اصول طے نہیںکر پاتے ہیں ۔
صرف اپنے نام سے واقفیت اپنے آپ کو جاننا نہیں ہے اگرآپ ایک آوارہ گرد انسان کی طرح بھٹکنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھٹکتے رہنے سے کوئی نہیں روکے گا ، لیکن اگر آپ با مقصد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار پھر چیخوف کے لکھے خط کو دوبارہ پڑھ لینا چاہیے تاکہ آپ کو زندگی کا حقیقی مقصد معلوم ہو سکے۔
''آپ نے اکثر مجھ سے شکایت کی ہے کہ لوگ آپ کو نہیں سمجھتے۔ گوئٹے اور نیو ٹن نے اس کی شکایت نہیں کی۔
صرف مذہبی رہنما نے اس کی شکایت کی، لیکن وہ اپنے نظرئیے کی بات کررہے تھے، نہ کہ اپنے بارے میں۔ لوگ آپ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اگر آپ خود کو نہیں سمجھتے تو اس میں ان کا قصور نہیں ۔
میں آپ کو ایک بھائی اور ایک دوست کی حیثیت سے یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کو سمجھتا ہوں اور آپ کو پوری دل سے محسوس کرتا ہوں میں آپ کی خو بیوں کو جانتا ہوں جیسا کہ میں اپنی پانچ انگلیاں جانتا ہوں میں ان کی قدر کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام کرتاہوں اگر آپ چاہیں تو یہ ثابت کر نے کے لیے کہ میں آپ کو سمجھتا ہوں۔
میں آپ کی خوبیاں بتا سکتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ آپ نرمی کی انتہا پر ہیں آپ بے لوث اور اپنی ہر چیز بانٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں آپ کو کوئی حسد یا نفرت نہیں ہے ۔
آپ سادہ دل ہیں آپ انسانوں اور جانوروں پر رحم کرتے ہیں آپ بھروسے مند ہیں آپ کے پاس ہنر ہے، یہ ہنر آپ کو لاکھوں انسانوں سے اوپر رکھتاہے۔ آپ کی صرف ایک ہی ناکامی ہے اور آپ کی پوزیشن کا جھوٹ اور ناخوشی اور آپ کی آنتوں کی خرابی سب اسکی وجہ سے ہے کہ آپ میں کلچر کی سراسر کمی ہے مجھے معاف کر دیجیے گا لیکن زندگی کی اپنی شرائط ہوتی ہیں۔
پڑھے لکھے لوگوں میں سکون محسوس کرنے کے لیے گھر میں ایک ساتھ خوش رہنے کے لیے ایک حد تک تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے۔ مہذب لوگ میری رائے میں درج ذیل شرائط کو پوراکرتے ہیں (1) وہ انسانی شخصیت کا احترام کرتے ہیں اور اس لیے وہ ہمیشہ مہربان ، نرم مزاج، شائستہ اور دوسروں کو دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
وہ صف نہیں بناتے اگر وہ کسی کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ اسے احسان نہیں سمجھتے اور اگر نہیں بنتی تو چلے جاتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ کوئی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ وہ شور ، ٹھنڈا اور سوکھا ہوا گوشت، مذاق اور اپنے گھروں میں اجنبیوں کی موجودگی کو معا ف کر دیتے ہیں ۔
(2) انھیں اکیلے ہمدردی صرف بھکاریوں اوربلیوں سے نہیں ہے، ان کا دل اس بات کے لیے بھی دکھتا ہے جو آنکھ نہیں دیکھتی وہ رات کو یونیورسٹی میں بھائیوں کے لیے پیسے دینے اور اپنی ماں کے لیے کپڑے خریدنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔
(3) وہ دوسروں کی جائیداد کااحترام کرتے ہیں اور اس لیے اپنے قرض ادا کرتے ہیں (4) وہ مخلص ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹ سننے والے کی تو ہین کرتے ہیں وہ پوز نہیں کرتے وہ گلیوں میں ایسا بر تاؤ کرتے ہیں جیسا کہ وہ گھر میں کرتے ہیںوہ اپنے ساتھیوں کے سامنے دکھاؤا نہیں کرتے دوسرے لوگوں کے کانوں کے احترام کی وجہ سے وہ اکثر بات کرنے سے زیادہ خاموش رہتے ہیں۔
(5) وہ ہمدردی پیداکرنے کے لیے خود کو حقیر نہیں سمجھتے۔ وہ دوسرے لوگوں کے دلوں کی تاروں پر نہیں کھیلتے تاکہ وہ سسک سسک کر ان میں زیادہ تر کو اپنابنا سکیں ۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ '' مجھے غلط فہمی ہوتی ہے یا میں دوسرے درجے کا ہوگیاہوں ''کیونکہ یہ سب سستے اثر کی کوشش ہوتا ہو بیہودہ ،جھوٹا (6) وہ کم ظرف یا مغرور نہیں ہوتے وہ جعلی اور جھوٹے ہیروں کی پروا نہیں کرتے جیسے جان کر مشہور شخصیات سے ہاتھ نہیں ملاتے ہیں ۔
وہ اس میں داخل ہونے پر گھمنڈ نہیں کرتے ہیں جہاں دوسروں کو داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ لوگوں کے درمیان غیر واضح رہتے ہیں۔ بھیڑ، اشتہار سے جہاں تک ممکن ہو (7) اگر ان کے پاس کوئی ہنر ہے تو وہ اس کا احترام کرتے ہیں وہ اس پر آرام ، عورت، شراب اور باطل کو قربان کرتے ہیں ۔ انھیں اپنی صلاحیتوں پر فخر ہے اس کے علاو ہ وہ پر ہیز گار ہوتے ہیں (8) وہ اپنے اندر جمالیاتی احساس پیدا کرتے ہیں ۔
دیواروں پر کیڑوں سے بھری ہوئی دراڑیں دیکھ سکتے ہیں ۔ بری ہوا کاسانس لے سکتے ہیں اس فرش پر چل سکتے ہیں جس پر تھوک دیا گیا ہو۔ اپنا کھانا تیل کے چولہے پر پکا سکتے ہیں وہ جنسی جبلت کو روکنے اور اس کو فروغ دینے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں وہ عورت میں کیا چاہتے ہیں ؟ وہ بیڈ فیلو نہیں ہے وہ اس چالاکی کا مطالبہ نہیں کرتے جو مسلسل جھوٹ بولنے میں خود کو ظاہر کرتی ہے وہ خاص طورپر چاہتے ہیں اگر وہ فنکار ہوں ،تازگی، خوبصورتی ۔وہ دن اور رات کے ہرو قت ووڈ کا نہیں سونگھتے، الماریوں کونہیں سونگھتے ، وہ صرف اس وقت پیتے ہیں جب وہ آزاد ہوتے ہیں ۔''
آج ہمیں بحیثیت انسان اپنی دولت و حیثیت میں عارضی سی کمی یا لاکھوں انسانوں کی موت سے کہیں زیادہ گہرے مسئلے کا سامنا ہے ۔ کہ ہمارے '' دل '' خالی ہوگئے ہیں۔ ہم تھکاوٹ اور یاسیت کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگئے ہیں جیسا دور کبھی کسی مذہبی رہنما اور نجات دہندہ کا منتظر تھا۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یہ سوال ہر دور میں انسان کے ذہن میں گونجتا رہا ہے ،اسی سوال نے ہمیشہ اسے بے چین رکھا ہے۔
ہر دور کے فلسفیوں ، دانشوروں ، بھکشوں ، مذہبی رہنماؤں اور سائنس دانوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح کی ہے، لیکن کوئی بھی ایک ایسا جامع جواب آج تک نہیں ملا جو ہر ایک کو قابل قبول ہو ۔ ایک نکتے پر سب کو اتفا ق رہا ہے کہ زندگی کا مقصد ایک بامقصد زندگی بسر کر نا ہے ۔ با مقصد زندگی بسر کرنے کا مطلب دوسروں کو غلط ثابت کر نا نہیں بلکہ خودکو صحیح ثابت کرنا ہے ۔
جب یونانی فلسفی میتر وڈیرس سے پوچھا گیا کہ دنیامیں سب سے مشکل کام کیا ہے؟ تواس نے جواب دیا '' خود شناسی '' کم و بیش یہ ہی بات سقراط نے بھی کہی تھی '' اپنی ذات کو پہچانیے '' گو تم بدھا کی تعلیمات کا محور بھی یہ ہی ہے کہ '' Mindfulness''جب آپ کی زندگی کاکوئی مقصدنہ تو پھر آپکا دل خالی ہوجاتاہے ۔
یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ خود کو پہچان نہیں پاتے ہیں ۔ خود کو تلاش نہیں کرپاتے ہیں ۔ زندگی گذارنے کے اصول طے نہیںکر پاتے ہیں ۔
صرف اپنے نام سے واقفیت اپنے آپ کو جاننا نہیں ہے اگرآپ ایک آوارہ گرد انسان کی طرح بھٹکنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو بھٹکتے رہنے سے کوئی نہیں روکے گا ، لیکن اگر آپ با مقصد زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار پھر چیخوف کے لکھے خط کو دوبارہ پڑھ لینا چاہیے تاکہ آپ کو زندگی کا حقیقی مقصد معلوم ہو سکے۔