روپے پر دباؤ کم کیسے ہو
ان حالات میں ملک کی طاقتور اشرافیہ کو فی الفور ملکی معیشت اور نظم حکمرانی کو درست سمت دینا ہوگی
پاکستان اپنے قیام سے اب تک کبھی بھی اتنی گھمبیر صورتحال سے دوچار نہیں ہوا جتنی اس وقت ہے۔
آج ملک واقعتا تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، جہاں اسے سیاسی عدم استحکام درپیش ہے پھر اس سے جنم لیتی اور دم توڑتی معیشت، کرپشن کی وجہ سے بدترین معاشی ابتری، روز بروز سنگین ہوتا آئینی بحران، نظام عدل پر اٹھتی ہوئی انگلیاں، دہشت گردی کا سر اٹھاتا ہوا عفریت اور ملک میں رائج بدتر نظم حکمرانی سمیت چھوٹے چھوٹے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
یوں تو ہر مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے لیکن اہل علم و دانش کے مطابق چونکہ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی لہٰذا ریاست کے آرڈر کو تسلسل کے ساتھ رواں دواں رکھنے کے لیے عوام کو عزت کے ساتھ کم از کم دو وقت کی روٹی باہم پہنچانے کے ضمن میں معیشت کی درستگی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
ورنہ بھوکے عوام کے غیظ و غضب سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں آئین، قانون اور ضابطوں کا خاتمہ ہوجائے اور اس کی جگہ انارکی، انتشار اور لاقانونیت رائج ہوجائے تو ایسے حالات صرف ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہی نہیں ہلاتے بلکہ ریاست کے اداروں اور معاشرے کے طاقتور افراد کو بھی نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔
تاریخ ہمیں یہ بھی سبق سکھاتی ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات کے بلند ترین منصب پر فائز ہے، اگر اسے اس طرح کے حالات درپیش آجائیں تو وہ بھی اس نہج تک پہنچ جاتا ہے کہ جہاں حلال و حرام اور صحیح و غلط کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔
بد قسمتی سے ملک کی طاقتور اشرافیہ نے اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک میں ظلم کی بنیاد پر غیر مساوی و غیر معتدل معاشی نظام مسلط کر رکھا ہے۔ اسی نظام کی بدولت ملک میں ایک جانب لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا دور دورہ ہے تو دوسری جانب غربت اپنے بام عروج پر ہے۔
ان حالات میں ملک کی طاقتور اشرافیہ کو فی الفور ملکی معیشت اور نظم حکمرانی کو درست سمت دینا ہوگی۔ ماہرین معاشیات کیمطابق ملک کو ڈالرز کی بے پناہ کمی کا سامنا ہے، جس کے باعث قومی خزانے میں محض چند ہفتوں کے اخراجات کی سکت باقی بچی ہے۔
ملکی برآمدات میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے جب کہ درآمدات میں کمی نہ ہو پانے کی وجہ سے ڈالرز کی شدید قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سالانہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں 27 ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔
ملک میں مسلسل زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے صرف اس برس اشیائے خورونوش کی درآمدات کی مد میں 7 ارب ڈالرز خرچ کیے گئے ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی ضروریات کی اشیائے خورونوش تک پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور زرعی پالیسیوں پر عدم توجہ جس کا بنیادی سبب ہے۔
ہمیں زراعت کے شعبے میں انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سب سے پہلے سونا اگلتی زرعی زمینوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔
دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کا کام زور وشور سے جاری ہے۔ زمیندار اور کاشتکار فوری بھاری رقوم دیکھ کر اپنی قیمتی زرعی زمینیں فروخت کررہے ہیں جب کہ خریدنیوالے اس زرعی زمین کو پلاٹس کی صورت فروخت کررہے ہیں۔
زرعی زمین کے کمرشل استعمال سے اجناس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے، جسے فی الفور روکنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے اپنے کاشتکار کو پیداوار بڑھانے کے لیے سستے زرعی قرضے، سستی کھاد اور بیج کے علاوہ ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چلانے کے لیے سبسڈائز پیٹرول و ڈیزل بھی فراہم کرنا ہوگا۔
اس کے بعد پیدا ہونے والی پوری فصل کاشتکار سے اچھے داموں خریدنا ہو گی تاکہ زمیندار اور کاشتکار کی زراعت میں دلچسپی قائم رہ سکے، پھر ان ہی تمام اقدامات کے نتیجے ہی میں ہم اپنی ضرورت سے زائد اشیائے خورونوش پیدا کرکے اس کی برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرسکیں گے۔
ڈالرز کے خرچے کی بڑی مد پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات ہیں اور اس کی دو بڑی کھپت ہیں، ایک تو یہ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں استعمال کی جاتی ہیں اور دوسرا استعمال ٹرانسپورٹ کے مقصد میں کیا جاتا ہے۔
حکومت نے ابھی چند ہفتوں قبل ہی قومی توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت تجارتی مراکز، ہوٹلز، شادی ہال وغیرہ کے اوقات کار میں کمی کردی گئی ہے جو قابل ستائش ہے۔
مزید اس ضمن میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ دفاتر بھی ہفتے میں تین روز بند رکھیں جائیں گے تاکہ توانائی کی بچت کی جا سکے۔
یہ سب کچھ درحقیقت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں کمی کے مقصد کے حصول کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے، یعنی ہمیں آج زرمبادلہ کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اسی سبب ہمیں اپنی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی پالیسی مرتب کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری جانب قابل افسوس ہے یہ امر کہ کراچی کی بندرگاہ سے پورے ملک میں سامان کی منتقلی کے لیے یومیہ کئی ہزار ٹرک جاتے ہیں اور واپس کراچی کی بندرگاہ پر آتے ہیں، جس سے محض چند ہزار افراد ہی مالی فوائد حاصل کرتے ہوں گے جب کہ ملک اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرتا ہے، اگر پیٹرولیم مصنوعات میں بچت کے لیے ٹرکوں کے ذریعے مال کی ترسیلات پر پابندی عائد کرکے اسے ٹرین کی مال گاڑیوں کے ذریعے منتقلی تک محدود کردیا جائے تو اربوں ڈالرز کی بچت کی جاسکتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صرف کراچی شہر میں سڑکوں پر قائم تجاوزات اور قبضے کی وجہ سے ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے۔ ٹریفک کی روانی میں تعطل کی وجہ سے سڑکوں پر بے مقصد اربوں ڈالرز کا پیٹرول اور ڈیزل ضایع ہو جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ ایک اندازے کیمطابق کراچی کی نصف آبادی کو پانی کی فراہمی کراچی واٹر بورڈ کی لائنوں کے ذریعے نہیں کی جاتی بلکہ انھیں ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
اس نااہلی یا کرپشن کی وجہ سے ہم اربوں ڈالرز کا قیمتی زرمبادلہ ٹینکرز میں ڈیزل جلا کر ضایع کر دیتے ہیں اور افسوس یہ کہ کراچی کی نصف آبادی اربوں روپے کے عوض پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہے، یعنی کراچی کے کروڑوں شہری اربوں روپے کا پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں جب کہ محض چند ہزار افراد جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں صرف وہی اس کے فوائد سمیٹتے ہیں۔
اس کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ ٹینکرز کی بے جا آمدورفت کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کی روانی میں تعطل معمول بن چکا ہے جب کہ پانی بہاتے ٹینکرز شہر بھر کی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بنتے ہیں۔
چند ہزار افراد کے مالی فوائد کے لیے لاکھوں افراد کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے۔شہر کے انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ادارہ جاتی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہم سالانہ اربوں ڈالرز کا پیٹرول اور ڈیزل ضایع کر کے قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی بالادست و طاقتور اشرافیہ اور حکمران ریاست کو تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی پالیسی اپنائیں۔
عوام کے مسائل حل اور ان کے لیے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا حصول آسان بنائیں، اگر حکمراں طبقات ملک میں توانائی کی بچت میں سنجیدہ ہیں تو انھیں قومی سطح پر صنعتی، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بجائے فوری طور پر اپنی شاہ خرچیوں کی روک تھام کرنا ہوگی۔
بالادست طبقے کے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کے غریب، پسماندہ اور متوسط طبقے کے افراد کے مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ زرمبادلہ بچانے کے لیے ملک بھر میں ٹرکوں کے ذریعے مال کی ترسیلات کے نظام کو بند کرکے ریلوے کے نظام کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔
اسی طرح کراچی میں ٹریفک کی روانی میں تعطل کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ٹینکرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کے سلسلے کو فوری بند کرنا ہوگا۔ اسی طرح کے دیگر کئی اقدامات اٹھانے کی صورت میں ہم اربوں ڈالرز کی بچت کرکے معاشی دباؤ کا مقابلہ کرسکتے ہیں بصورتِ دیگر اب سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ ملک کے بالادست، طاقتور اشرافیہ اور حکمرانوں کو عوام کے جذبات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
آج ملک واقعتا تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، جہاں اسے سیاسی عدم استحکام درپیش ہے پھر اس سے جنم لیتی اور دم توڑتی معیشت، کرپشن کی وجہ سے بدترین معاشی ابتری، روز بروز سنگین ہوتا آئینی بحران، نظام عدل پر اٹھتی ہوئی انگلیاں، دہشت گردی کا سر اٹھاتا ہوا عفریت اور ملک میں رائج بدتر نظم حکمرانی سمیت چھوٹے چھوٹے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
یوں تو ہر مسئلہ فوری توجہ کا متقاضی ہے لیکن اہل علم و دانش کے مطابق چونکہ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی لہٰذا ریاست کے آرڈر کو تسلسل کے ساتھ رواں دواں رکھنے کے لیے عوام کو عزت کے ساتھ کم از کم دو وقت کی روٹی باہم پہنچانے کے ضمن میں معیشت کی درستگی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
ورنہ بھوکے عوام کے غیظ و غضب سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں آئین، قانون اور ضابطوں کا خاتمہ ہوجائے اور اس کی جگہ انارکی، انتشار اور لاقانونیت رائج ہوجائے تو ایسے حالات صرف ریاستی ڈھانچے کی بنیادوں کو ہی نہیں ہلاتے بلکہ ریاست کے اداروں اور معاشرے کے طاقتور افراد کو بھی نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔
تاریخ ہمیں یہ بھی سبق سکھاتی ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات کے بلند ترین منصب پر فائز ہے، اگر اسے اس طرح کے حالات درپیش آجائیں تو وہ بھی اس نہج تک پہنچ جاتا ہے کہ جہاں حلال و حرام اور صحیح و غلط کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔
بد قسمتی سے ملک کی طاقتور اشرافیہ نے اپنے طبقے کے مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک میں ظلم کی بنیاد پر غیر مساوی و غیر معتدل معاشی نظام مسلط کر رکھا ہے۔ اسی نظام کی بدولت ملک میں ایک جانب لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا دور دورہ ہے تو دوسری جانب غربت اپنے بام عروج پر ہے۔
ان حالات میں ملک کی طاقتور اشرافیہ کو فی الفور ملکی معیشت اور نظم حکمرانی کو درست سمت دینا ہوگی۔ ماہرین معاشیات کیمطابق ملک کو ڈالرز کی بے پناہ کمی کا سامنا ہے، جس کے باعث قومی خزانے میں محض چند ہفتوں کے اخراجات کی سکت باقی بچی ہے۔
ملکی برآمدات میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے جب کہ درآمدات میں کمی نہ ہو پانے کی وجہ سے ڈالرز کی شدید قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سالانہ صرف پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں 27 ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔
ملک میں مسلسل زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے صرف اس برس اشیائے خورونوش کی درآمدات کی مد میں 7 ارب ڈالرز خرچ کیے گئے ہیں۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی ضروریات کی اشیائے خورونوش تک پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور زرعی پالیسیوں پر عدم توجہ جس کا بنیادی سبب ہے۔
ہمیں زراعت کے شعبے میں انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سب سے پہلے سونا اگلتی زرعی زمینوں کے کمرشل استعمال پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔
دیکھا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کا کام زور وشور سے جاری ہے۔ زمیندار اور کاشتکار فوری بھاری رقوم دیکھ کر اپنی قیمتی زرعی زمینیں فروخت کررہے ہیں جب کہ خریدنیوالے اس زرعی زمین کو پلاٹس کی صورت فروخت کررہے ہیں۔
زرعی زمین کے کمرشل استعمال سے اجناس کی پیداواری صلاحیت متاثر ہورہی ہے، جسے فی الفور روکنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے اپنے کاشتکار کو پیداوار بڑھانے کے لیے سستے زرعی قرضے، سستی کھاد اور بیج کے علاوہ ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چلانے کے لیے سبسڈائز پیٹرول و ڈیزل بھی فراہم کرنا ہوگا۔
اس کے بعد پیدا ہونے والی پوری فصل کاشتکار سے اچھے داموں خریدنا ہو گی تاکہ زمیندار اور کاشتکار کی زراعت میں دلچسپی قائم رہ سکے، پھر ان ہی تمام اقدامات کے نتیجے ہی میں ہم اپنی ضرورت سے زائد اشیائے خورونوش پیدا کرکے اس کی برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرسکیں گے۔
ڈالرز کے خرچے کی بڑی مد پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات ہیں اور اس کی دو بڑی کھپت ہیں، ایک تو یہ بجلی پیدا کرنے کے کارخانوں میں استعمال کی جاتی ہیں اور دوسرا استعمال ٹرانسپورٹ کے مقصد میں کیا جاتا ہے۔
حکومت نے ابھی چند ہفتوں قبل ہی قومی توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت تجارتی مراکز، ہوٹلز، شادی ہال وغیرہ کے اوقات کار میں کمی کردی گئی ہے جو قابل ستائش ہے۔
مزید اس ضمن میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ دفاتر بھی ہفتے میں تین روز بند رکھیں جائیں گے تاکہ توانائی کی بچت کی جا سکے۔
یہ سب کچھ درحقیقت پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں کمی کے مقصد کے حصول کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جاسکے، یعنی ہمیں آج زرمبادلہ کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اسی سبب ہمیں اپنی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی پالیسی مرتب کرنا پڑ رہی ہے۔
دوسری جانب قابل افسوس ہے یہ امر کہ کراچی کی بندرگاہ سے پورے ملک میں سامان کی منتقلی کے لیے یومیہ کئی ہزار ٹرک جاتے ہیں اور واپس کراچی کی بندرگاہ پر آتے ہیں، جس سے محض چند ہزار افراد ہی مالی فوائد حاصل کرتے ہوں گے جب کہ ملک اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرتا ہے، اگر پیٹرولیم مصنوعات میں بچت کے لیے ٹرکوں کے ذریعے مال کی ترسیلات پر پابندی عائد کرکے اسے ٹرین کی مال گاڑیوں کے ذریعے منتقلی تک محدود کردیا جائے تو اربوں ڈالرز کی بچت کی جاسکتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ صرف کراچی شہر میں سڑکوں پر قائم تجاوزات اور قبضے کی وجہ سے ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے۔ ٹریفک کی روانی میں تعطل کی وجہ سے سڑکوں پر بے مقصد اربوں ڈالرز کا پیٹرول اور ڈیزل ضایع ہو جاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ ایک اندازے کیمطابق کراچی کی نصف آبادی کو پانی کی فراہمی کراچی واٹر بورڈ کی لائنوں کے ذریعے نہیں کی جاتی بلکہ انھیں ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
اس نااہلی یا کرپشن کی وجہ سے ہم اربوں ڈالرز کا قیمتی زرمبادلہ ٹینکرز میں ڈیزل جلا کر ضایع کر دیتے ہیں اور افسوس یہ کہ کراچی کی نصف آبادی اربوں روپے کے عوض پانی خرید کر استعمال کرنے پر مجبور ہے، یعنی کراچی کے کروڑوں شہری اربوں روپے کا پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں جب کہ محض چند ہزار افراد جو اس کاروبار سے وابستہ ہیں صرف وہی اس کے فوائد سمیٹتے ہیں۔
اس کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ ٹینکرز کی بے جا آمدورفت کی وجہ سے شہر میں ٹریفک کی روانی میں تعطل معمول بن چکا ہے جب کہ پانی بہاتے ٹینکرز شہر بھر کی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ بنتے ہیں۔
چند ہزار افراد کے مالی فوائد کے لیے لاکھوں افراد کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے۔شہر کے انفرا اسٹرکچر کی تباہی، ادارہ جاتی نااہلی اور کرپشن کی وجہ سے ہم سالانہ اربوں ڈالرز کا پیٹرول اور ڈیزل ضایع کر کے قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی بالادست و طاقتور اشرافیہ اور حکمران ریاست کو تمام خطرات سے محفوظ رکھنے کی پالیسی اپنائیں۔
عوام کے مسائل حل اور ان کے لیے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا حصول آسان بنائیں، اگر حکمراں طبقات ملک میں توانائی کی بچت میں سنجیدہ ہیں تو انھیں قومی سطح پر صنعتی، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بجائے فوری طور پر اپنی شاہ خرچیوں کی روک تھام کرنا ہوگی۔
بالادست طبقے کے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک کے غریب، پسماندہ اور متوسط طبقے کے افراد کے مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ زرمبادلہ بچانے کے لیے ملک بھر میں ٹرکوں کے ذریعے مال کی ترسیلات کے نظام کو بند کرکے ریلوے کے نظام کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنا ہوں گی۔
اسی طرح کراچی میں ٹریفک کی روانی میں تعطل کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ٹینکرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کے سلسلے کو فوری بند کرنا ہوگا۔ اسی طرح کے دیگر کئی اقدامات اٹھانے کی صورت میں ہم اربوں ڈالرز کی بچت کرکے معاشی دباؤ کا مقابلہ کرسکتے ہیں بصورتِ دیگر اب سیاسی نظام کے ساتھ ساتھ ملک کے بالادست، طاقتور اشرافیہ اور حکمرانوں کو عوام کے جذبات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔