نسخۂ کیمیا دستور حیاتِ ابدی قرآن کریم
’’ یہ کتاب! اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ ﷲ سے) ڈرنے والوں کے لیے سامان ہدایت ہے۔‘‘
رمضان المبارک کی عظیم مقدس ساعتوں میں ﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید رسول کریم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔
ﷲ رب العالمین نے تخلیق آدم سے لے کر آخری انسان تک کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کہ انسان کو اس دنیا میں کس اسلوب پر اپنی حیات مستعار کی ساعتوں کو گزارنا ہے۔ اس کے لیل و نہار کس ڈھب پر گزرنے چاہییں، انسان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کس انداز پر استوار ہونا چاہیے۔
باہمی تعلقات و معاملات کیسے ہوں۔ اخلاق و آداب کے کیا سلیقے ہوں۔ اسی طرح انفرادی و اجتماعی زندگی کو دنیاوی و اخروی لحاظ سے کیوں کر کام یاب بنایا جا سکتا ہے؟
ان تمام امور کو ﷲ کی مرضیات کے مطابق خوش گوار انداز میں ڈھالنے کے لیے خالق کائنات نے حضرت انسان کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہ والسلام مبعوث فرمائے اور انسانی زندگی کو صحیح نہج پر گام زن رکھنے کے لیے کتب و صحائف بھی اتارے۔
جن میں ہر قوم کے ماحول و ضروریات کے مطابق لائحہ عمل دیے گئے تاکہ وہ قوم، بستی، علاقے اور ملک کے عوام و خواص ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں کے مصداق بن جائیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان خطا و نسیان کا مرقع ہے اور وہ بہت جلد پند و نصائح کو بھول جاتا ہے۔
اسی طرح اس کی فطرت میں ہٹ دھرمی و خود سری بھی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ لہٰذا اپنی انہی فطری کم زوریوں اور جبلتوں کی بنا پر انسان مختلف النوع نظریات کا حامل رہا ہے۔ جن میں منزل من ﷲ افکار و نظریات اور انبیاء و رسل کی پیروی کرنے والے ﷲ کے پسندیدہ بندے بھی ہیں اور خود ساختہ فلسفہ ہائے زندگی پر جان چھڑکنے اور انبیاء و رسلؑ کی دعوت حق اور آمدہ کتب و صحائف ربانی کی تکذیب کرنے والے ﷲ کے دشمن، نافرمان، کافر و مشرک، دیدہ دلیر بھی دنیا میں موجود ہیں۔
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر جناب عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی ﷲ کے فرستادہ انبیاء و رسل علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ سب کا دین اسلام تھا اور سب کی دعوت کا محور و مرکز ﷲ کی ذات والا صفات کا تعارف تھا۔ لیکن بدقسمتی سے انسان نے اپنے اپنے دور کے انبیاء کی جہاں تکذیب کی، وہیں معدودے چند لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان انبیاء کرامؑ کی دعوت پر لبیک کہا اور ان کے معاون و مددگار بھی بنے۔
البتہ انہی ماننے والوں میں سے اکثر نے یہ بھی ظلم ڈھایا کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات کو یکسر بُھلا دیا اور دعوت توحید کو شرک کی آمیزشوں سے آلودہ کر دیا اور ﷲ کی نازل کردہ کتابوں و صحیفوں میں من مانی تحریفات کر کے انہیں اپنی مرضی کے تابع فرمان کرنے کی ناپاک جسارت کرتے رہے۔ یہاں تک اپنے ادیان و کتب سماوی کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جو سراسر منشائے ربانی کے خلاف عمل تھا۔ نیز بعض شقی القلب افراد و اقوام ایسی بھی تھیں۔
جنہوں نے ناحق ﷲ کے برگزیدہ نبیوں، رسولوںؑ کو ناصرف ستایا بلکہ قتل بھی کر ڈالا۔ جن کی وجہ سے مختلف اقوام و ملل پر ﷲ کے عذاب بھی آئے اور منکرین حق کی بستیوں کی بستیاں مالک الملک نے خس و خاشاک کی طرح تباہ و برباد کر کے رکھ دیں اور انہیں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ جن کے مظاہر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح انسان اپنی فطرت و جبلت کے ماتحت خطا و نسیان میں غلطاں اپنی دنیا و آخرت برباد کیے چلا جا رہا تھا۔ بالخصوص سرزمین عرب روئے زمین پر سب سے زیادہ ظلم و ستم سے بھر چکی تھی۔ یہاں کے بسنے والے اگرچہ ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ذبیح اﷲ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
جنہوں نے توحید کی عظمت کے ترانے آتش نمرود میں بھی گنگنائے۔ ان عظیم ہستیوں سے نسبت و تعلق رکھنے والے ان کے ہاتھوں تعمیر کردہ ﷲ کے گھر کو تین سو ساٹھ معبودان باطلہ کے اصنام (کی نجاست) سے اس کی پاکیزگی و حرمت کو پامال کر چکے تھے۔
ﷲ کے مقابل اپنے تراشیدہ بتوں کو ﷲ کا ہمسر قرار دے کر رب کے جاہ و جلال اور غضب کو دعوت دے رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی جہاں دینی حالت پستی کا شکار تھی وہیں اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اقدار بھی زبوں حالی سے دوچار تھیں۔ قتل و غارت، چوری، ڈاکا زنی، ظلم و تعدی، کم زوروں پر طاقت وروں کی دھونس دھاندلی، شراب نوشی، جوا اور زنا جیسے امور معاشرہ کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے تھے۔
غلاموں، یتیموں بالخصوص عورتوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہ تھا۔ پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینا غیرت کی علامت بن چکا تھا۔ عورت محض دل لبھانے کی شے قرار دے دی گئی اور باپ کی کنیزیں ورثہ کی طرح بیٹوں میں تقسیم ہو جاتیں اور انہیں مباح سمجھا جاتا۔ بیت ﷲ کی حرمت جہاں بتوں کی نجاست سے پامال ہو رہی تھی وہیں اس کا برہنہ طواف بھی اس کی پاکیزگی کو گدلا رہا تھا۔
ایک عجیب کیفیت طاری تھی کہ اس خطۂ ارضی پر کوئی قوم حکومت کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھی۔ ہر طرف فتنہ و فساد برپا تھا۔ ﷲ کی بغاوت اور شرک کا دور دورہ تھا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ قبائلی تعصبات انتہائی عروج پر تھے۔ معمولی باتوں پر ایک دوسرے پر تلواریں نکل جانا کوئی معیوب نہ تھا۔
بیت ﷲ کی موجودی اور تولیت کی وجہ سے قریش کو دیگر قبائل پر فوقیت حاصل تھی اور انہیں احترام حاصل تھا۔
کوئی قانون نہ تھا، بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ درپیش تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی و بربادی کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب اہل عرب میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رچ بس چکے تھے اور قریب تھا کہ ﷲ انہیں کسی عذاب میں مبتلا کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا کہ اس کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنی آخری دعوت حق اور آخری چہیتے رسول جناب امام الانبیاء رحمت للعالمین ﷺ کو مکہ المکرمہ کے ایک معزز گھرانے میں عبدالمطلب سردار قریش کے بیٹے عبدﷲ کے گھر بی بی آمنہ کے بطن سے پیدا فرمایا۔ یہ پاک باز بچہ ناصرف بچپن بلکہ لڑکپن اور جوانی میں بھی سب سے ممتاز اور بلند مرتبت کا حامل تھا۔
یہاں تک کہ جب عمر مائل بہ بزرگی و بڑھاپا ہونے لگی تو آپ ﷺ پر عجیب کیفیت غالب آنے لگی اور آپ ﷺ گھر سے پانی، کھجوریں اور ستو لے کر مکہ سے قریب غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اپنے رب کی مناجات کرتے اور اس سے لو لگائے رہتے کہ ایک دن جبکہ آپؐ غار حرا میں مشغول عبادت تھے۔
ﷲ کا مقرب فرشتہ جبرئیل امین آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ پر کائنات کا سب سے عظیم بوجھ یعنی خلق کی راہ بری و راہ نمائی اور ہدایت کی ذمے داریوں کا منصب جلیلہ بہ صورت آخری نبوت و رسالت ﷲ رب العالمین نے رحمت للعالمین ﷺ کو عطا فرما دیا۔ یہ ﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔
قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چوں کہ رسالت محمدی ﷺ کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکارا کی گئی، مفہوم : '' یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ ﷲ سے) ڈرنے والوں کے لیے سامان ہدایت ہے۔'' (البقرہ)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
مفہوم: ''اوریہ قرآن ایسا نہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (ہاں یہ ﷲ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہُوا) ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور ﷲ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو) بلا بھی لو۔'' (سورۃ یونس)
ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من ﷲ اور مبنی بر حق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمد ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور ﷲ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھا دو۔
یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا کیوں کہ یہ رب رحمن کا کلام ہے۔ اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی ﷲ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرما دیں اور ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بے شکً! ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (و منزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔
(سو) شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لیے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔'' (القدر)
غور فرمائیے! یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہوگئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہوگئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کر سکتا ہے۔
ﷲ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اس کتاب کی حرمت و عظمت بہت بلند ہے اور پورے عالم انسانیت و عالم دنیا کے لیے خیر و سلامتی کا پیغام رکھتی ہے۔ قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق ﷲ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔
گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفاء کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گمشدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔
مفہوم: ''اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔'' (بنی اسرائیل)
نزول قرآن کا مقصد: ﷲ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''وہی تو ہے جس نے انہی میں سے (محمد ﷺ کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (ﷲ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گم راہی میں تھے۔ (سورۃ الجمعہ)
مفہوم: ''وہ ﷲ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمد صلی ﷲ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی ﷲ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے، آسمانوں اور زمین کی اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس (ﷲ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔'' (سورۃ الفرقان)
اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا، مفہوم: ''ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم! اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے۔ کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔
پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔'' (سورۃ الواقعہ)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہ راہ مستقیم پر گام زن کرانا ہے۔ تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے، جو اس کی اشاعت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔
ﷲ رب العالمین نے تخلیق آدم سے لے کر آخری انسان تک کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے کہ انسان کو اس دنیا میں کس اسلوب پر اپنی حیات مستعار کی ساعتوں کو گزارنا ہے۔ اس کے لیل و نہار کس ڈھب پر گزرنے چاہییں، انسان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کس انداز پر استوار ہونا چاہیے۔
باہمی تعلقات و معاملات کیسے ہوں۔ اخلاق و آداب کے کیا سلیقے ہوں۔ اسی طرح انفرادی و اجتماعی زندگی کو دنیاوی و اخروی لحاظ سے کیوں کر کام یاب بنایا جا سکتا ہے؟
ان تمام امور کو ﷲ کی مرضیات کے مطابق خوش گوار انداز میں ڈھالنے کے لیے خالق کائنات نے حضرت انسان کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسل علیہ والسلام مبعوث فرمائے اور انسانی زندگی کو صحیح نہج پر گام زن رکھنے کے لیے کتب و صحائف بھی اتارے۔
جن میں ہر قوم کے ماحول و ضروریات کے مطابق لائحہ عمل دیے گئے تاکہ وہ قوم، بستی، علاقے اور ملک کے عوام و خواص ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر دنیا و آخرت کی کام یابیوں کے مصداق بن جائیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان خطا و نسیان کا مرقع ہے اور وہ بہت جلد پند و نصائح کو بھول جاتا ہے۔
اسی طرح اس کی فطرت میں ہٹ دھرمی و خود سری بھی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ لہٰذا اپنی انہی فطری کم زوریوں اور جبلتوں کی بنا پر انسان مختلف النوع نظریات کا حامل رہا ہے۔ جن میں منزل من ﷲ افکار و نظریات اور انبیاء و رسل کی پیروی کرنے والے ﷲ کے پسندیدہ بندے بھی ہیں اور خود ساختہ فلسفہ ہائے زندگی پر جان چھڑکنے اور انبیاء و رسلؑ کی دعوت حق اور آمدہ کتب و صحائف ربانی کی تکذیب کرنے والے ﷲ کے دشمن، نافرمان، کافر و مشرک، دیدہ دلیر بھی دنیا میں موجود ہیں۔
سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر جناب عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی ﷲ کے فرستادہ انبیاء و رسل علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ سب کا دین اسلام تھا اور سب کی دعوت کا محور و مرکز ﷲ کی ذات والا صفات کا تعارف تھا۔ لیکن بدقسمتی سے انسان نے اپنے اپنے دور کے انبیاء کی جہاں تکذیب کی، وہیں معدودے چند لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے ان انبیاء کرامؑ کی دعوت پر لبیک کہا اور ان کے معاون و مددگار بھی بنے۔
البتہ انہی ماننے والوں میں سے اکثر نے یہ بھی ظلم ڈھایا کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات کو یکسر بُھلا دیا اور دعوت توحید کو شرک کی آمیزشوں سے آلودہ کر دیا اور ﷲ کی نازل کردہ کتابوں و صحیفوں میں من مانی تحریفات کر کے انہیں اپنی مرضی کے تابع فرمان کرنے کی ناپاک جسارت کرتے رہے۔ یہاں تک اپنے ادیان و کتب سماوی کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جو سراسر منشائے ربانی کے خلاف عمل تھا۔ نیز بعض شقی القلب افراد و اقوام ایسی بھی تھیں۔
جنہوں نے ناحق ﷲ کے برگزیدہ نبیوں، رسولوںؑ کو ناصرف ستایا بلکہ قتل بھی کر ڈالا۔ جن کی وجہ سے مختلف اقوام و ملل پر ﷲ کے عذاب بھی آئے اور منکرین حق کی بستیوں کی بستیاں مالک الملک نے خس و خاشاک کی طرح تباہ و برباد کر کے رکھ دیں اور انہیں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ جن کے مظاہر آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح انسان اپنی فطرت و جبلت کے ماتحت خطا و نسیان میں غلطاں اپنی دنیا و آخرت برباد کیے چلا جا رہا تھا۔ بالخصوص سرزمین عرب روئے زمین پر سب سے زیادہ ظلم و ستم سے بھر چکی تھی۔ یہاں کے بسنے والے اگرچہ ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ذبیح اﷲ کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
جنہوں نے توحید کی عظمت کے ترانے آتش نمرود میں بھی گنگنائے۔ ان عظیم ہستیوں سے نسبت و تعلق رکھنے والے ان کے ہاتھوں تعمیر کردہ ﷲ کے گھر کو تین سو ساٹھ معبودان باطلہ کے اصنام (کی نجاست) سے اس کی پاکیزگی و حرمت کو پامال کر چکے تھے۔
ﷲ کے مقابل اپنے تراشیدہ بتوں کو ﷲ کا ہمسر قرار دے کر رب کے جاہ و جلال اور غضب کو دعوت دے رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی جہاں دینی حالت پستی کا شکار تھی وہیں اخلاقی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اقدار بھی زبوں حالی سے دوچار تھیں۔ قتل و غارت، چوری، ڈاکا زنی، ظلم و تعدی، کم زوروں پر طاقت وروں کی دھونس دھاندلی، شراب نوشی، جوا اور زنا جیسے امور معاشرہ کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے تھے۔
غلاموں، یتیموں بالخصوص عورتوں کا تو کوئی پرسان حال ہی نہ تھا۔ پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دینا غیرت کی علامت بن چکا تھا۔ عورت محض دل لبھانے کی شے قرار دے دی گئی اور باپ کی کنیزیں ورثہ کی طرح بیٹوں میں تقسیم ہو جاتیں اور انہیں مباح سمجھا جاتا۔ بیت ﷲ کی حرمت جہاں بتوں کی نجاست سے پامال ہو رہی تھی وہیں اس کا برہنہ طواف بھی اس کی پاکیزگی کو گدلا رہا تھا۔
ایک عجیب کیفیت طاری تھی کہ اس خطۂ ارضی پر کوئی قوم حکومت کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھی۔ ہر طرف فتنہ و فساد برپا تھا۔ ﷲ کی بغاوت اور شرک کا دور دورہ تھا۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ قبائلی تعصبات انتہائی عروج پر تھے۔ معمولی باتوں پر ایک دوسرے پر تلواریں نکل جانا کوئی معیوب نہ تھا۔
بیت ﷲ کی موجودی اور تولیت کی وجہ سے قریش کو دیگر قبائل پر فوقیت حاصل تھی اور انہیں احترام حاصل تھا۔
کوئی قانون نہ تھا، بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ درپیش تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی قوم کی تباہی و بربادی کے جس قدر اسباب ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب اہل عرب میں اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رچ بس چکے تھے اور قریب تھا کہ ﷲ انہیں کسی عذاب میں مبتلا کر کے صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا کہ اس کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنی آخری دعوت حق اور آخری چہیتے رسول جناب امام الانبیاء رحمت للعالمین ﷺ کو مکہ المکرمہ کے ایک معزز گھرانے میں عبدالمطلب سردار قریش کے بیٹے عبدﷲ کے گھر بی بی آمنہ کے بطن سے پیدا فرمایا۔ یہ پاک باز بچہ ناصرف بچپن بلکہ لڑکپن اور جوانی میں بھی سب سے ممتاز اور بلند مرتبت کا حامل تھا۔
یہاں تک کہ جب عمر مائل بہ بزرگی و بڑھاپا ہونے لگی تو آپ ﷺ پر عجیب کیفیت غالب آنے لگی اور آپ ﷺ گھر سے پانی، کھجوریں اور ستو لے کر مکہ سے قریب غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اپنے رب کی مناجات کرتے اور اس سے لو لگائے رہتے کہ ایک دن جبکہ آپؐ غار حرا میں مشغول عبادت تھے۔
ﷲ کا مقرب فرشتہ جبرئیل امین آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ پر کائنات کا سب سے عظیم بوجھ یعنی خلق کی راہ بری و راہ نمائی اور ہدایت کی ذمے داریوں کا منصب جلیلہ بہ صورت آخری نبوت و رسالت ﷲ رب العالمین نے رحمت للعالمین ﷺ کو عطا فرما دیا۔ یہ ﷲ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔
قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چوں کہ رسالت محمدی ﷺ کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکارا کی گئی، مفہوم : '' یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ ﷲ سے) ڈرنے والوں کے لیے سامان ہدایت ہے۔'' (البقرہ)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
مفہوم: ''اوریہ قرآن ایسا نہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (ہاں یہ ﷲ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہُوا) ہے۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور ﷲ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو) بلا بھی لو۔'' (سورۃ یونس)
ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من ﷲ اور مبنی بر حق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمد ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور ﷲ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھا دو۔
یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا کیوں کہ یہ رب رحمن کا کلام ہے۔ اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی ﷲ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرما دیں اور ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بے شکً! ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (و منزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔
(سو) شب قدر (خیر و برکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لیے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔'' (القدر)
غور فرمائیے! یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہوگئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہوگئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کر سکتا ہے۔
ﷲ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اس کتاب کی حرمت و عظمت بہت بلند ہے اور پورے عالم انسانیت و عالم دنیا کے لیے خیر و سلامتی کا پیغام رکھتی ہے۔ قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق ﷲ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔
گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفاء کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گمشدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔
مفہوم: ''اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔'' (بنی اسرائیل)
نزول قرآن کا مقصد: ﷲ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''وہی تو ہے جس نے انہی میں سے (محمد ﷺ کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (ﷲ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گم راہی میں تھے۔ (سورۃ الجمعہ)
مفہوم: ''وہ ﷲ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمد صلی ﷲ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی ﷲ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے، آسمانوں اور زمین کی اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس (ﷲ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔'' (سورۃ الفرقان)
اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا، مفہوم: ''ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم! اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے۔ کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔
پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔'' (سورۃ الواقعہ)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہ راہ مستقیم پر گام زن کرانا ہے۔ تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے، جو اس کی اشاعت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔