سارے رنگ

یومِ کشمیر کے پروگرام دِکھا جارہے تھے۔ کشمیر کے لوگوں کی حالت زار ان کے لٹے پٹے گھر دیکھنے والوں کو دل پگھلا دیتے

فوٹو :فائل

ہم تو ایسی ''جمہوریتوں'' کے ہاتھوں مر چلے!

خانہ پُری

ر۔ ط ۔ م

2 فروری 2023ء کے 'ایکسپریس' میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی 27.6 فی صد کی شرح کے ساتھ 47 سالہ ریکارڈ توڑ چکی ہے۔

اس بلند ترین گرانی کے نتیجے میں برپا ہونے والی مہنگائی کے لیے اب 'قیامت خیز' اور 'ہوش رُبا' کے سخت ترین سابقے بھی اب بہت تھوڑے اور ناکافی سے محسوس ہونے لگے ہیں۔۔۔!
عالم یہ ہے کہ آٹا، چینی اور دالوں سے لے کر، پانی، بجلی اور گیس تک کی قیمتیں ہیں کہ ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہیں۔۔۔ 100روپے کا نوٹ 10 روپے کا نوٹ بن چکا ہے۔۔۔

اب تو ہزار کا نوٹ چٹکیوں میں اڑا جاتا ہے! پھر سوئی گیس کا بدترین بحران ایک علاحدہ دردِسر اور اس کے لیے گیس سلینڈر بھروانا ایک اضافی خرچ ہے۔۔۔ سرکاری سطح پر سسٹے آٹے کے 'ڈرامے' کرائے جاتے ہیں، جس میں بھوک کے مارے غریب بھیڑ میں آکر کچلے جاتے ہیں!

ہم نے صرف رواں برس کے اخبارات پر ایک نظر ڈالی، تو 29 جنوری 2023ء کو پیٹرول پر 35 روپے، اور 15 فروری کو 22 روپے فی لیٹر بڑھے، یوں صرف 17 دن میں کُل 57 روپے اضافے کے ساتھ اب پیٹرول 215 روپے سے 272 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکا ہے۔۔۔!

اس سے قبل 26 جنوری کو ڈالر یک مشت 24 روپے اضافے سے 255 روپے تک جاپہنچا۔۔۔ اور ان سطور کے لکھے جانے تک امریکی ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں 260.40 روپے پر موجود ہے۔

جب کہ نہ پیٹرول کے بھائو کو کوئی لگام دیے جانے کا امکان ہے اور نہ ڈالر کی 'باگ' کھینچی جانے کی کوئی امید۔۔۔! اس لیے اس وقت خوف صرف موجودہ خوف ناک اور جان لیوا مہنگائی کا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ مہنگائی کا طوفان آخر کس جگہ جا کر تھمے گا۔۔۔!!

حکومت نے 10جنوری 2023ء کو گیس 74 فی صد مہنگی کی، جس کا اطلاق جولائی 2022 ء سے کر دیا گیا، 13 فروری کو گیس مزید 16 سے 124 فی صد مزید مہنگی کر دی گئی۔ 10 فروری 2023ء کو گھریلو صارفین کے لیے بجلی پر سات روپے فی یونٹ بڑھائے، 13 فروری کو بجلی پر فی یونٹ 3.39 روپے مزید ٹیکس لگایا گیا۔

14 فروری کو جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کر دیا گیا اور منی بجٹ کے نام پر پُرتعیش اشیا پر ٹیکس کا اعلان کیا اور ساتھ ساتھ خورنی تیل، سیمنٹ، مشروبات، صابن، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو اور کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سمیت برقی آلات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا۔

شاید حکومت ان سب کو بھی 'سامان تعیشات' میں شمار کرنے لگی ہو۔ اس پر ''وزیر خالی خزانہ'' اسحٰق ڈار نے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔۔۔!

وزیراعظم شہبازشریف کے 34 وفاقی وزرا، 40 معاون خصوصی، سات وزرائے مملکت اور چار مشیر ہیں۔ یعنی ہمارے ملک کی ''صرف'' 85 رکنی وفاقی کابینہ ہے، گویا ہمارے 'وفاقی ایوان ہائے پارلیمان ' میں اب بھی 355 سے زائد معزز اراکین ایسے ہیں، جو 'کمزور معیشت' اور ناموافق حالات کے سبب جنابِ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی کابینہ میں شمولیت سے محروم رہ گئے ہیں۔

اگرچہ کابینہ میں موجود 44 معاونین خصوصی اور مشیران موئی 'پارلیمان' کی رکنیت پائے بغیر یہ 'اعلیٰ درجہ' پائے ہوئے ہیں! تو جناب یہاں لوگ ایسے ہی تو ''جمہوریت'' کے نام کی مالا نہیں جپتے۔۔۔ کابینہ میں ہونا تو وہ 'رتبہ' ہے، کہ ''یہ منصب بلند ملا جس کو مل گیا!''

لیکن ساتھ میں ہماری ''جمہوریت دشمنی'' ہی سمجھ کر یہ بھی سنتے چلیے کہ ہمارے 260 روپے کے ڈالر کے مقابلے میں کئی عشروں تک خانہ جنگیوں اور ہمہ قسم کی سیاسی وسماجی مصائب اور ناپختگیوں سے آراستہ اور ''جمہوریت'' اور ''آمریت'' کے جھگڑوں سے کوسوں دور 'برادر ہم سایہ ملک' افغانستان میں ڈالر کا بھائو صرف88.47 افغانی ہے۔۔۔! نصف صدی پہلے تک ہمارے وجود کا حصہ رہنے والے سابق مشرقی پاکستان یعنی آج کے بنگلادیش میں یہ ڈالر 104.85 ٹکے کا ہے۔

ہندوستانی روپیے میں ڈالر کا نرخ 82.77، بھوٹان میں 82، نیپال میں 131.30 اور مالدیپ میں 15.36 روپے کا ہے، صرف دیوالیہ ہوجانے والے سری لنکا میں ڈالر پاکستان سے مہنگا یعنی 362.23 روپے کا ہے۔

اس لرزہ براندام اور ڈولتی ہوئی معیشت کی لڑکھڑاہٹ میں بھی کچھ نام نہاد 'جمہوریت' کے متوالے، خام خیالی کی 'سول بالادستی' کے نشے میں چُور ہو کر موجودہ حکومت کی 'مجبوریوں' کے لیے عذر تراشنے ہی سے فرصت نہیں پاتے اور جیسے تحریک انصاف کی گذشتہ ساڑھے تین سالہ حکومت نے ''30 سال کے گند'' کی صفائی کے نام پر عوام کو خوب بے وقوف بنایا۔

ایسے ہی موجودہ حکومت کے ڈھنڈورچی اور 'مسخرے' بھی چند ماہ میں معیشت کو اپنے پیروں میں کھڑا کرنے کے جھوٹے دعوئوں کو پچھلی ساڑھے تین سالہ حکومت کی 'تاب کاری' کہہ کر اپنی بدترین ناکامیوں کی پردہ پوشی کی بھونڈی کوششوں میں مصروف ہیں!

ایک اور خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے وفاقی وزرا نے بغیر تنخواہ کے کام کرنے کا اعلان کیا ہے، یعنی ایک اور نوٹنکی۔۔۔! ورنہ ڈوبتی معیشت کو ایسے نمائشی اقدام کے بہ جائے ایک دوراندیش منصوبے اور کثیرالجہت بچت کی سنجیدہ مہم کی ضرورت ہوتی ہے۔

قرضوں سے ملک کبھی نہیں چلا کرتے۔۔۔ لیکن کیا کیجیے کہ موجودہ حکومت سے لے کر دوبارہ اگلی حکومت میں آنے کے خواب سجانے والوں اور ملک کے ''وغیرہ وغیرہ'' حلقوں تک، سب مکمل طور پر گھٹیا سیاست اور بدترین تماشوں میں مصروف ہیں۔۔۔! جو نہایت الم ناک اور مایوس کن صورت حال ہے۔

۔۔۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔۔۔
وریشا ذوالفقار، کراچی


آج آسمان کی طرف دیکھا، تو بہت سارے رنگ ایک ساتھ دکھائی دیے، کسی حصہ میں سرمئی بادلوں کے پیچھے چھپے نارنجی سورج کی جھلک دکھائی دے رہی تھی اور کہیں نیلے آسمان پر جا بہ جا بادل ایسے بکھرے ہوئے تھے، جیسے پھینٹے ہوئے انڈے کو جب گرما گرم سوپ میں ڈالا جاتا ہے، تو وہ ریشہ ریشہ ہو کر پک جاتا ہے اور ایسے ہی بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے کہیں کہیں سورج کی کرنیں پھوٹ رہیں تھیں تو نیلا اور نارنجی رنگ مل کر آسمان کے اس حصے کو گلابی کیے ہوئے تھا، لیکن میں نے پہلے کبھی اس نظریے سے سوچا نہیں تھا کے اس آسمان سے ہم انسانوں کا کتنا گہرا رشتہ ہے۔

چاندنی راتوں میں تاروں کو گننا، چودہویں کے چاند کو دیکھنا، جسے ہم اب اپنے موبائل فون میں موجود کیمروں میں بہ آسانی قید بھی کر لیتے ہیں، یہ ہر انسان اپنے عمر کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور کرتا ہے۔

اداسی کے لمحوں میں آسمان کو تکنا شاید کچھ دیر کے لیے ذہن کو پر سکون کر دیتا ہے، اور ایسے میں اگر موسم ابر آلود ہو تو دل چاہتا ہے بادلوں کو چیرتے ہوئے خود ہی اس آسمان میں کہیں کھو جائیں، تاکہ تنہائی کی کچھ اور جہتوں کو پاسکیں۔

ہم جب پریشان ہوتے ہیں تب بھی ہاتھ اٹھا کر آسمان ہی کی جانب دیکھتے ہیں اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ان مسائل سے نجات دینے والا وہیں ہماری فریاد سن اور دیکھ رہا ہے اور وہ ہمیں مایوس نہیں کرے گا، جب کہ شکر بجا لانے کے لیے بے ساختہ سجدہ میں گر جاتے ہیں تو کبھی آسمان کی جانب شکر کی نگاہ کرتے ہیں۔

بچپن میں بزرگ کہتے تھے آسمان سے ایک پری آئی تھی اور تمھیں ہماری گود میں ڈال گئی، پریوں کی کہانیاں سن کر اس عمر میں کتنی بار اس پری کو آسمان پر ڈھونڈا، لیکن نہیں ملی، نہ چندا ماما پر بیٹھی چرخا کاتتی بڑھیا کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

آسمان پر بادلوں کو دیکھ کر انھیں اپنی مرضی کی شکل اور نام دینا بہت اچھا لگا۔۔۔ یہ آسمان ماہرین فلکیات اور علما کو بھی بہت ستاتا ہے، جب وقت عید کا چاند دیکھنے کا آتا ہے، بادلوں کے نہ ہونے پر بھی نہ جانے چاند کو کیسے اپنی اغوش میں چھپا لیتا ہے اور پھر سب اپنا اپنا چاند دیکھ کر عید مناتے ہیں۔

آسمان پر چاند ستارے محبت کرنے والوں کی دوریاں بھی مٹاتے ہیں، جب وہ مجھ سے کہتا ہے کے میں چاند دیکھ رہا ہوں، تم بھی دیکھو! اور یوں دو پیار کرنے والوں کے نظریں میلوں دور ہوکر بھی ایک جگہ مل جاتی ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ فاصلے مٹ گئے ہیں!

ہم سے بچھڑ کر جب کو اپنا دوسری دنیا میں چلا جاتا ہے، تب اسے بھی ہم ان تاروں میں ہی تو تلاش کرتے ہیں، اکثر اس تارے کو تو سب نے ہی دیکھا ہوگا، جو زمین سے دیکھیں تو چاند سے کچھ میٹر کے فاصلے پر دکھائی دیتا ہے، میں جب اس تارے کو دیکھتی ہوں، تو سوچتی ہوں کے یہ تھوڑا قریب آجائے جتنا پاکستانی پرچم پر ہے، تو یہ کتنا حسین لگے گا۔

بے گھر اور بے سہارا لوگوں کی چھت بھی یہی نیلا آسمان ہوتا ہے، جو انہیں زمانے کی ہر سختی کو جھیلنے لے لیے مضبوط بنتا ہے۔

کبھی بارش اور برف برسا کر ہمیں خوش گوار موسم اور کبھی اداس شامیں دینے والا آسمان جب سورج سے خفا ہو جاتا ہے، تب سورج کا بھی اپنا سارا غصہ ہم انسانوں ہی پر تو نکلتا ہے، دُم دار ستارے ، سورج اور چاند گرہن، گھٹتا بڑھتا چاند اور نہ جانے کتنے نشیب و فراز اس آسمان نے دنیا کے آغاز سے دیکھے، لیکن شاید یہ کائنات کا وہ حصہ ہے، جو ازل سے اب تک تبدیل نہیں ہوا۔

چاند ستارے سورج سیارے سب اپنے محور میں گھوم رہیں ہیں اور ان سب کے بیچ آسمان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھنے والا آسمان ، قوم لوط پر سنگ باری کرنے والا آسمان، ابرہہ کو شکست دینے کے لیے اپنی آغوش سے ابابیل نمودار کرنے والا آسمان، جہاں سدرہ المنتہیٰ ہے، جس کا سینا چیرتے ہوئے براق ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں تک لے گیا جہاں دو عالم کے رسول کو دوسرا جہاں دکھایا گیا، معراج کی رات اس ہی آسمان کے کسی مقام پر یہ آسمان ان سب واقعات کا نظیر ہے، جو صرف تاریخی واقعات ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کا عقیدے کا جزو ہیں۔

کرسمس کے موقع پر سانتاکلاز اپنے بونوں کے ہمراہ ہرنوں کی سواری پر بیٹھ کے بچوں کو تحائف دینے آسمان سے آتا ہے۔ یہ مسیحی بچوں کو بتایا جاتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی تو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے، شیطان کو بھی نافرمانی کرنے پر آسمان سے جنت سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

کہانیوں اور تصورات سے پرے اب آسمان میں چھپے رازوں کو کھوجنے کے لیے حضرت انسان نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ آسمانوں کے آگے جہانوں کا کھوج لگایا جا رہا ہے، لیکن یہ ایک اتنا وسیع علم ہے کے یہاں موجود راز کبھی عیاں ہو ہی نہیں سکتے، کیوں کہ وہ صرف خدا ہی ہے جو سب جانتا ہے۔

ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کے ایک مزے دار سی کافی یا چائے کی گرما گرم پیالی ہاتھ میں لے کر آسمان کی طرف دیکھیں، ڈھلتے سورج کا نظارہ کریں، مسکرائیں اور ان خوب صورت لمحات سے لطف اندوز ہوں، جو آپ کی کھڑکی سے بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔

اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ، اپنا پسندیدہ گانا گنگنائیں اور اتنی گہرائی میں نہ سوچیں، کیوں کہ ہم سب بہت سطحی سے لوگ ہیں، ہم آسمان کی طرح صاف اور وسیع دل کے مالک نہیں، جو نہ جانے کیا کیا دیکھتا اور سہتا رہا ہے۔ الغرض بہت ساری کہانیاں اور بہت ساری حقیقتیں خود میں سمویا ہوا آسمان بہت خوب صورت ہے اور میرا من پسند ہے۔

۔۔۔

''یوم کشمیر''
کرن صدیقی، کراچی
''بھا ئیو! ہم نے ہمیشہ آپ کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ ایک دن آ گا جب آپ جبر و استبداد سے نجات پالیں گے!''

فرمان حسین ایک جوشیلے انداز میں تقریر کر رہا تھا۔ مجمع جوش میں آکر نعرے بازی کر رہا تھا، یوں لگ رہا تھا، جیسے یہ لوگ ابھی جا کے کشمیر کو آزادی دلادیں گے۔ فرمان حسین نے اپنی 'این جی او' کے تحت 'یوم کشمیر' پر ریلی نکالی تھی۔

اس کی تنظیم کی فنڈنگ کرنے والے سرپرستوں نے ہدایت کی تھی کہ ریلی بھرپور ہونی چاہیے۔ نعرے لگاتے اور جگہ جگہ رک کے تقریریں کرتے ہو دوپہر کو ریلی کا اختتام ہوا۔ فرمان حسین گھر پہنچا۔ کھانے پینے اور آرام کرنے کے بعد اس نے ٹی وی آن کر دیا۔

یومِ کشمیر کے پروگرام دِکھا جارہے تھے۔ کشمیر کے لوگوں کی حالت زار ان کے لٹے پٹے گھر دیکھنے والوں کو دل پگھلا دیتے۔

تبھی فرمان کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس کے 'اسپانسر' کی کال تھی، جو اسے بتارہے تھے کہ ایک دو دن میں رقم اسے منتقل کر دی جائے گی۔ فرمان نے شکریہ ادا کیا اور ٹی وی سے نظر ہٹا کے اپنے عالی شان گھر کو دیکھا اور سوچا اگر مسئلہ کشمیر نہ ہوتا تو آج میں کہاں ہوتا۔
Load Next Story