زمان ومکاں خلائی سفر اور روزہ
متحدہ عرب امارات کے ایک شہری کے خلائی سفر کے حوالے سے کچھ خیالات
دنیا کے تقریباً تمام الہامی مذاہب نہ صرف اپنی اپنی صداقت کی مدعی ہیں بلکہ انہی کے ابدی اور ازلی ہونے کے بھی دعوے دار ہیں، جب کہ قرآن کریم کے مطابق،'' اللہ کے نزدیک حقیقی دین صرف اسلام ہے'' اور باقی دیگر مذاہب اسلام کی ہی تبدیل، منحرف یا مسخ شدہ صورتیں ہیں۔
اسلام نہ صرف فطری دین ہے بلکہ اس کی فطرت میں ''لچک'' قدرت نہ کچک بھی دی ہے۔ لچک کا مطلب کوئی صاحب عدم استقلال یا عدم استحکام نکالیں تو ان کی مرضی لیکن درحقیقت لچک کا مطلب زمان و مکاں اور حالات سے مطابقت سے موافقت پیدا کر لینا ہے۔
البتہ کچھ مسلم طبقات کا بے لچک ہونا غیرفطری اور اسلام مخالف عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب کی بھی ہو سکتی ہے جو کسی وقت خواتین کی ڈرائیونگ کے خلاف تھا اور اب ملک میں نام نہاد اصلاحات کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔
مطلب یہ کہ مملکت کی طرف سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ جو کہ زمان ومکاں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، فیصلہ اسلامی نہیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی سوچ تھا یا کوئی اور ہی نام نہاد رسم یا عقیدہ۔ اس سوچ کو صنفی امتیاز یا پھر اسلام سے عدم توجہی اور بے اعتنائی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اگر خواتین جانوروں یا جانوروں والی گاڑیوں کو چلا سکتی ہیں تو پھر ان کی ڈرائیونگ اور موٹر سائیکل سواری کو حرام یا ناجائز قرار دیا جانا ناقابل فہم ہے۔
حال ہی میں زما ن ومکاں سے متعلق ایک دل چسپ صورت حال سامنے آئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ایک شہری جو کہ 26 فروری کو ایک ششماہی خلائی مہم پر روانہ ہو رہے ہیں ان کی اس مہم کے دوران میں رمضان بھی آرہا ہے اور سوال یہ پیدا ہو رہ اہے کہ وہ خلا میں روزے کیوں کر رکھ سکیں گے؟
اس سلسلے میں خلاباز سلطان ال نیادی نے اپنی دینی معلومات کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ: چوں کہ روزے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھے جاتے ہیں لہٰذا ان کے خیال میں خلا میں طلوع وغروب کی زمینی صورت حال ناپید ہوگی۔
اس لیے وہ روزہ رکھنے سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ حالت سفر میں ہونے کے باعث بھی روزہ رکھنے کے پابند نہ ہوں گے، کیوں کہ سفر میں روزہ فرض نہیں۔
تاہم یہاں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سفر کے دوران چھوڑے گئے روزے بعد از سفر قضا کے طور پر رکھے جائیں گے یا کفارہ ادا کرنا لازم ہے، جب کہ ایک مقرر مدت کے بعد مسافر اپنی منزل کے لوگوں کے مطابق ہی تمام عبادات کا مکلف ہوگا۔
متحدہ عرب امارات کے یہ خلاباز سلطان ال نیادی 26 فروری کو اسپیس فالکن 9 نامی راکٹ پر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، جب کہ مارچ کے چوتھے ہفتے میں رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا،''خلائی اسٹیشن تیزی سے گردش میں ہوتا ہے اور 90 منٹوں میں زمین کے گرد ایک چکر پورا کر لیتا ہے۔
اس طرح اوسطاً وہ سولہ بار سورج کے ابھرنے اور ڈھلنے کا مشاہدہ کر سکیں گے۔ تاہم اگر حالات اجازت دیتے ہیں تو وہ جی ایم ٹی (گرینوچ میں ٹائم) کے مطابق روزہ رکھ سکیں گے، جو کہ خلائی اسٹیشن کا بھی معیاری وقت ہے۔''
متحدہ عرب امارات کی فوج میں بیس برسوں تک خدمات انجام دینے والے 41 سالہ سلطان ال نیادی کا یہ پہلا طویل ترین اور خلائی سفر ہے۔ انہوں نے برطانیہ سے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور بعدازآں آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی سے ڈیٹا لیکیج کی روک تھام کی ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ سلطان ال نیادی متحدہ عرب امارات کے دوسرے خلاباز ہیں جو خلائی سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ قبل ازیں ستمبر 2019 میں متحدہ عرب امارات کے ایک شہری حزاع ال منصوری بھی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں 8 دن گزار چکے ہیں۔
اگرچہ سلطان ال نیادی بوجوہ خود کو روزہ رکھنے سے مستثنٰی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان سے پہلے ایک سعودی شہزادے، شہزادہ سلطان بن سلمان 1985ع/1405 ھ میں اپنے خلائی سفر کے دوران میں امریکی خلائی شٹل ڈسکوری کی ایک خلائی مہم میں ایک روزہ رکھ چکے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا،''مجھے مفتی عبدالعزیز بن باز (مرحوم) نے بتایا تھا کہ میں سحر وافطاار اس ملک کے مطابق کروں جہاں سفر کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اور میں نے اپنا سفر فلوریڈا، امریکا سے شروع کیا تھا۔''
اتفاق سے وہ آخری روزہ تھا۔ اور وہ روزہ انہوں نے امریکی ریاست میں سورج ڈھلنے کے حساب سے افطار کیا۔ سلطان بن سلمان نے یہ دل چسپ حقیقت بھی بتائی کہ انہوں نے خلا میں زمین کے وقت کے مطابق نماز پڑھی اور وضو کرنے کے لیے گیلا نیپکن استعمال کیا، کیوں کہ خلا میں کشش ِثقل کی عدم موجودگی کے باعث وضو کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ان دو مسلم خلابازوں کے حوالے سے ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے ناموں کا ایک حصہ سلطان بھی ہے۔
اور قرآن کرم میں سورہ رحمٰن کی آیت 33 میں آیا ہے:''اے گروہ جن وانس! اگر تمھیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، اور زور (سلطان) کے سوا تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔''
اس آیت کے مطالب کے مطابق اگر کوئی ز مین اور آسمان کی حدود سے باہر نکلنا چاہے تو اس کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس کے حصول کے بغیر کوئی بھی ان حدود سے باہر نہیں جاسکتا۔
یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ وہ دور جب خیال کیا جاتا تھا کہ زمین سپاٹ، مسطح اور ہموار ہے اور ایک بیل اسے اپنے ایک سینگ پر اٹھائے ہوئے ہے۔
جب وہ تھک کر سینگ بدلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زلزلہ آتا ہے۔ اسی دور میں قرآن شریف کی اسی سورہ رحمٰن کی 17ہویں آیت میں ''دونوں مشرقوں اور مغربوں کے رب '' کا ذکر کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم کی سورہ المعارج کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو سے بھی زیادہ ''مشارق و مغارب'' کی قسم کھائی ہے۔ مطلب یہ کہ جب زمین کے علاوہ انسان کسی اور سیارے یا نظام ہائے شمسی کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں رکھتا تھا اس وقت بھی قرآن شریف میں مغارب ومشارق کا ذکر پیش کیا جا رہا تھا۔
اگرچہ قرآن شریف میں ہی انسانوں کو زمین اور آسمانوں کو مسخر کرنے کا بھی کہا گیا ہے لیکن کم ازکم موجودہ دور میں کئی مسلم انفرادی اور اجتماعی طور مسخری زیادہ کر رہے ہیں۔
اور فی الحال تو ایسے بھی کوئی آثار نہیں کہ زمیں کی حدود سے نکلنے والے دیگر سنجیدہ انسان بھی کبھی کائنات کی حدود سے باہر نکل سکتے ہیں، کیوں کہ انسان کی عمر بھی محدود ہے اور صلاحیتیں بھی۔ اور کائنات نہ صرف لامحدود ہے بلکہ سائنس اور قرآن کریم کے ارشاد کی سورہ زاریات کی آیت 47 کے مطابق وسعت پذیر بھی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ،''ہم نے آسمان بنایا ہے اور بے شک ہم اسے وسعت دیتے جا رہے ہیں۔'' اور انسان تو فی الحال بمشکل زمین کی ہی حدود سے نکل سکا ہے۔ اور خوب سمجھتا ہے کی منزل ابھی دور ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق:''دَرحقیقت رُوسی ماہرِطبیعیات اور ریاضی داں الیگزینڈر فرائیڈ مین وہ ہستی تھی جنہوں نے 1922ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں 1929ء میں 'ایڈوِن ہبل' نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات 'آرنوپنزیاس'اور 'رابرٹ وِلسن' نے اسے ثابت کیا۔
یہ دونوں سائنس داں امریکا کی ریاست نیوجرسی میں واقع 'بیل فون لیبارٹریز' میں کام کرتے تھے، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔''
اسی طرح سے وکیپیڈیا کے مطابق بگ بینگ تھیوری بھی کائنات کے وسعت پذیری ہے کا نظریہ ہے: تقریباً 13 اعشاریہ 8 ارب سال قبل کائنات ایک نقطے میں سمٹی ہوئی تھی اور ایک دھماکے سے یہ نقطہ بکھرنے اور پھیلنے لگا جس کے باعث اس قدر زیادہ توانائی کا اخراج ہوا کہ اس کے اثر سے آج تک کائنات بکھرتی اور پھیلتی جا رہی ہے۔''
ہم اس موقع پر ایک حکایت بیان کرنا چاہتے ہیں جو کہ پوری طرح سے یاد نہیں ، اس حکایت کے مطابق،''ایک محفل میں شریک ایک شخص کو خاموش دیکھ کر کسی نے کہا، بھائی آپ کیوں خاموش ہیں؟ کچھ پوچھیں کچھ بتائیں۔
اس نے جواب دیا، ضرور کیوں نہیں؟ اور پھر استفسار کیا، بتائیے تو روزہ کب رکھا جائے؟ جواب ملا، جب سورج طلوع ہونے والا ہو۔ مزید استفسار کیا، اور افطار کب کریں؟ جواب ملا، جب سورج غروب ہوجائے، موصوف پھر مستفسر ہوئے، اور اگر سورج غروب ہی نہ ہو؟ اس سوال پر بولنے پر اصرار کرنے والے صاحب نے مشورہ دیا، صاحب! آپ خاموش ہی رہیں۔ آپ کے لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔
اس حکایت کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ اس دور میں اس قسم کا سوال پوچھا جانا اگرچہ عجیب اور بے وقوفانہ سمجھا گیا تھا، تاہم موجودہ دور میں یہ ایک اہم فقہی؟ مسئلہ ہے کیوں کہ دنیا کے کئی ایسے خطے ہیں کہ جہاں یا تو سورج بہت جلد یا پھر بیس بیس گھنٹوں کے وقفے سے یا پھر مہینوں کے وقفے سے طلوع وغروب ہوتا ہے اور ان خطوں کے لوگ نماز روزے جیسی عبادات کے حوالے سے الجھنوں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ اور نماز و روزے کے لیے مختلف خطوں کے لوگ مختلف طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مذکورہ حکایت اور سورج کی گردش اور طلوع و غروب کے حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ اہل علم ودانش کسی بھی سادہ لوح اور ان جان انسان کے احمق اور بے وقوف سمجھ کر اس کی بات کو نظرانداز نہ کیا کریں بلکہ اس کے ذہن کے مطابق کسی بھی مفروضے یا مفروضہ حالت کے مطابق سوچ کر اسے اور خود کو مطمئن کرلیں گے، کیوں کہ دانش مند ترین انسان بھی ہر بات اور ہر مسئلہ کو سمجھ یا حل نہیں کر سکتا اور کئی بار کسی کی بے وقوفانہ بات، مہم جوئی یا پھر اساطیر بھی انسانی ترقی اور ارتقا کا باعث بنی ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے کے بجائے کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس طرح اپنی اور لوگوں کے زندگی آسان بنانی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم آج کے دور میں بہ حیثیت قوم اور امت ہم دنیا کے صرف ایک صارف بنے ہوئے ہیں اور زراعت اور صنعت کی کچھ قلیل شعبوں کے علاوہ ہماری مصنوعات یا پیداوار پاکستانیوں اور اشیائے خورونوش تک ہی محدود ہے۔
ہم ایک ملت اور امت کے طور سوئی سے لے کر سیاروں (یا راکٹ سائنس) تک زیادہ تر دوسروں کے محتاج ہیں۔ ہمیں اس روش کو بدلنا ہوگا۔
اسلام نہ صرف فطری دین ہے بلکہ اس کی فطرت میں ''لچک'' قدرت نہ کچک بھی دی ہے۔ لچک کا مطلب کوئی صاحب عدم استقلال یا عدم استحکام نکالیں تو ان کی مرضی لیکن درحقیقت لچک کا مطلب زمان و مکاں اور حالات سے مطابقت سے موافقت پیدا کر لینا ہے۔
البتہ کچھ مسلم طبقات کا بے لچک ہونا غیرفطری اور اسلام مخالف عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال سعودی عرب کی بھی ہو سکتی ہے جو کسی وقت خواتین کی ڈرائیونگ کے خلاف تھا اور اب ملک میں نام نہاد اصلاحات کا نفاذ کیا جا رہا ہے۔
مطلب یہ کہ مملکت کی طرف سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ جو کہ زمان ومکاں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، فیصلہ اسلامی نہیں بلکہ ان کی اپنی ذاتی سوچ تھا یا کوئی اور ہی نام نہاد رسم یا عقیدہ۔ اس سوچ کو صنفی امتیاز یا پھر اسلام سے عدم توجہی اور بے اعتنائی بھی کہہ سکتے ہیں۔
اگر خواتین جانوروں یا جانوروں والی گاڑیوں کو چلا سکتی ہیں تو پھر ان کی ڈرائیونگ اور موٹر سائیکل سواری کو حرام یا ناجائز قرار دیا جانا ناقابل فہم ہے۔
حال ہی میں زما ن ومکاں سے متعلق ایک دل چسپ صورت حال سامنے آئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ایک شہری جو کہ 26 فروری کو ایک ششماہی خلائی مہم پر روانہ ہو رہے ہیں ان کی اس مہم کے دوران میں رمضان بھی آرہا ہے اور سوال یہ پیدا ہو رہ اہے کہ وہ خلا میں روزے کیوں کر رکھ سکیں گے؟
اس سلسلے میں خلاباز سلطان ال نیادی نے اپنی دینی معلومات کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ: چوں کہ روزے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھے جاتے ہیں لہٰذا ان کے خیال میں خلا میں طلوع وغروب کی زمینی صورت حال ناپید ہوگی۔
اس لیے وہ روزہ رکھنے سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ حالت سفر میں ہونے کے باعث بھی روزہ رکھنے کے پابند نہ ہوں گے، کیوں کہ سفر میں روزہ فرض نہیں۔
تاہم یہاں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سفر کے دوران چھوڑے گئے روزے بعد از سفر قضا کے طور پر رکھے جائیں گے یا کفارہ ادا کرنا لازم ہے، جب کہ ایک مقرر مدت کے بعد مسافر اپنی منزل کے لوگوں کے مطابق ہی تمام عبادات کا مکلف ہوگا۔
متحدہ عرب امارات کے یہ خلاباز سلطان ال نیادی 26 فروری کو اسپیس فالکن 9 نامی راکٹ پر بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، جب کہ مارچ کے چوتھے ہفتے میں رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا،''خلائی اسٹیشن تیزی سے گردش میں ہوتا ہے اور 90 منٹوں میں زمین کے گرد ایک چکر پورا کر لیتا ہے۔
اس طرح اوسطاً وہ سولہ بار سورج کے ابھرنے اور ڈھلنے کا مشاہدہ کر سکیں گے۔ تاہم اگر حالات اجازت دیتے ہیں تو وہ جی ایم ٹی (گرینوچ میں ٹائم) کے مطابق روزہ رکھ سکیں گے، جو کہ خلائی اسٹیشن کا بھی معیاری وقت ہے۔''
متحدہ عرب امارات کی فوج میں بیس برسوں تک خدمات انجام دینے والے 41 سالہ سلطان ال نیادی کا یہ پہلا طویل ترین اور خلائی سفر ہے۔ انہوں نے برطانیہ سے الیکٹرانکس اور کمیونیکیشن انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور بعدازآں آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی سے ڈیٹا لیکیج کی روک تھام کی ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں۔
خیال رہے کہ سلطان ال نیادی متحدہ عرب امارات کے دوسرے خلاباز ہیں جو خلائی سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ قبل ازیں ستمبر 2019 میں متحدہ عرب امارات کے ایک شہری حزاع ال منصوری بھی بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں 8 دن گزار چکے ہیں۔
اگرچہ سلطان ال نیادی بوجوہ خود کو روزہ رکھنے سے مستثنٰی قرار دیتے ہیں۔ تاہم ان سے پہلے ایک سعودی شہزادے، شہزادہ سلطان بن سلمان 1985ع/1405 ھ میں اپنے خلائی سفر کے دوران میں امریکی خلائی شٹل ڈسکوری کی ایک خلائی مہم میں ایک روزہ رکھ چکے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا،''مجھے مفتی عبدالعزیز بن باز (مرحوم) نے بتایا تھا کہ میں سحر وافطاار اس ملک کے مطابق کروں جہاں سفر کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اور میں نے اپنا سفر فلوریڈا، امریکا سے شروع کیا تھا۔''
اتفاق سے وہ آخری روزہ تھا۔ اور وہ روزہ انہوں نے امریکی ریاست میں سورج ڈھلنے کے حساب سے افطار کیا۔ سلطان بن سلمان نے یہ دل چسپ حقیقت بھی بتائی کہ انہوں نے خلا میں زمین کے وقت کے مطابق نماز پڑھی اور وضو کرنے کے لیے گیلا نیپکن استعمال کیا، کیوں کہ خلا میں کشش ِثقل کی عدم موجودگی کے باعث وضو کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ان دو مسلم خلابازوں کے حوالے سے ایک دل چسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے ناموں کا ایک حصہ سلطان بھی ہے۔
اور قرآن کرم میں سورہ رحمٰن کی آیت 33 میں آیا ہے:''اے گروہ جن وانس! اگر تمھیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ، اور زور (سلطان) کے سوا تم نکل سکنے ہی کے نہیں۔''
اس آیت کے مطالب کے مطابق اگر کوئی ز مین اور آسمان کی حدود سے باہر نکلنا چاہے تو اس کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ اس کے حصول کے بغیر کوئی بھی ان حدود سے باہر نہیں جاسکتا۔
یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ وہ دور جب خیال کیا جاتا تھا کہ زمین سپاٹ، مسطح اور ہموار ہے اور ایک بیل اسے اپنے ایک سینگ پر اٹھائے ہوئے ہے۔
جب وہ تھک کر سینگ بدلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زلزلہ آتا ہے۔ اسی دور میں قرآن شریف کی اسی سورہ رحمٰن کی 17ہویں آیت میں ''دونوں مشرقوں اور مغربوں کے رب '' کا ذکر کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم کی سورہ المعارج کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو سے بھی زیادہ ''مشارق و مغارب'' کی قسم کھائی ہے۔ مطلب یہ کہ جب زمین کے علاوہ انسان کسی اور سیارے یا نظام ہائے شمسی کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں رکھتا تھا اس وقت بھی قرآن شریف میں مغارب ومشارق کا ذکر پیش کیا جا رہا تھا۔
اگرچہ قرآن شریف میں ہی انسانوں کو زمین اور آسمانوں کو مسخر کرنے کا بھی کہا گیا ہے لیکن کم ازکم موجودہ دور میں کئی مسلم انفرادی اور اجتماعی طور مسخری زیادہ کر رہے ہیں۔
اور فی الحال تو ایسے بھی کوئی آثار نہیں کہ زمیں کی حدود سے نکلنے والے دیگر سنجیدہ انسان بھی کبھی کائنات کی حدود سے باہر نکل سکتے ہیں، کیوں کہ انسان کی عمر بھی محدود ہے اور صلاحیتیں بھی۔ اور کائنات نہ صرف لامحدود ہے بلکہ سائنس اور قرآن کریم کے ارشاد کی سورہ زاریات کی آیت 47 کے مطابق وسعت پذیر بھی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ،''ہم نے آسمان بنایا ہے اور بے شک ہم اسے وسعت دیتے جا رہے ہیں۔'' اور انسان تو فی الحال بمشکل زمین کی ہی حدود سے نکل سکا ہے۔ اور خوب سمجھتا ہے کی منزل ابھی دور ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق:''دَرحقیقت رُوسی ماہرِطبیعیات اور ریاضی داں الیگزینڈر فرائیڈ مین وہ ہستی تھی جنہوں نے 1922ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں 1929ء میں 'ایڈوِن ہبل' نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات 'آرنوپنزیاس'اور 'رابرٹ وِلسن' نے اسے ثابت کیا۔
یہ دونوں سائنس داں امریکا کی ریاست نیوجرسی میں واقع 'بیل فون لیبارٹریز' میں کام کرتے تھے، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔''
اسی طرح سے وکیپیڈیا کے مطابق بگ بینگ تھیوری بھی کائنات کے وسعت پذیری ہے کا نظریہ ہے: تقریباً 13 اعشاریہ 8 ارب سال قبل کائنات ایک نقطے میں سمٹی ہوئی تھی اور ایک دھماکے سے یہ نقطہ بکھرنے اور پھیلنے لگا جس کے باعث اس قدر زیادہ توانائی کا اخراج ہوا کہ اس کے اثر سے آج تک کائنات بکھرتی اور پھیلتی جا رہی ہے۔''
ہم اس موقع پر ایک حکایت بیان کرنا چاہتے ہیں جو کہ پوری طرح سے یاد نہیں ، اس حکایت کے مطابق،''ایک محفل میں شریک ایک شخص کو خاموش دیکھ کر کسی نے کہا، بھائی آپ کیوں خاموش ہیں؟ کچھ پوچھیں کچھ بتائیں۔
اس نے جواب دیا، ضرور کیوں نہیں؟ اور پھر استفسار کیا، بتائیے تو روزہ کب رکھا جائے؟ جواب ملا، جب سورج طلوع ہونے والا ہو۔ مزید استفسار کیا، اور افطار کب کریں؟ جواب ملا، جب سورج غروب ہوجائے، موصوف پھر مستفسر ہوئے، اور اگر سورج غروب ہی نہ ہو؟ اس سوال پر بولنے پر اصرار کرنے والے صاحب نے مشورہ دیا، صاحب! آپ خاموش ہی رہیں۔ آپ کے لیے خاموشی ہی بہتر ہے۔
اس حکایت کے حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ اس دور میں اس قسم کا سوال پوچھا جانا اگرچہ عجیب اور بے وقوفانہ سمجھا گیا تھا، تاہم موجودہ دور میں یہ ایک اہم فقہی؟ مسئلہ ہے کیوں کہ دنیا کے کئی ایسے خطے ہیں کہ جہاں یا تو سورج بہت جلد یا پھر بیس بیس گھنٹوں کے وقفے سے یا پھر مہینوں کے وقفے سے طلوع وغروب ہوتا ہے اور ان خطوں کے لوگ نماز روزے جیسی عبادات کے حوالے سے الجھنوں اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ اور نماز و روزے کے لیے مختلف خطوں کے لوگ مختلف طریقے اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مذکورہ حکایت اور سورج کی گردش اور طلوع و غروب کے حوالے سے ہمارا خیال ہے کہ اہل علم ودانش کسی بھی سادہ لوح اور ان جان انسان کے احمق اور بے وقوف سمجھ کر اس کی بات کو نظرانداز نہ کیا کریں بلکہ اس کے ذہن کے مطابق کسی بھی مفروضے یا مفروضہ حالت کے مطابق سوچ کر اسے اور خود کو مطمئن کرلیں گے، کیوں کہ دانش مند ترین انسان بھی ہر بات اور ہر مسئلہ کو سمجھ یا حل نہیں کر سکتا اور کئی بار کسی کی بے وقوفانہ بات، مہم جوئی یا پھر اساطیر بھی انسانی ترقی اور ارتقا کا باعث بنی ہیں۔
ہمیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنے کے بجائے کائنات کو مسخر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس طرح اپنی اور لوگوں کے زندگی آسان بنانی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم آج کے دور میں بہ حیثیت قوم اور امت ہم دنیا کے صرف ایک صارف بنے ہوئے ہیں اور زراعت اور صنعت کی کچھ قلیل شعبوں کے علاوہ ہماری مصنوعات یا پیداوار پاکستانیوں اور اشیائے خورونوش تک ہی محدود ہے۔
ہم ایک ملت اور امت کے طور سوئی سے لے کر سیاروں (یا راکٹ سائنس) تک زیادہ تر دوسروں کے محتاج ہیں۔ ہمیں اس روش کو بدلنا ہوگا۔