ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
جب دھتکارے ہوئے بچوں نے پاکستان کو سربلند کردیا
وہ گڈری کے لعل ہیں، ایسے جواہر جنہیں سنبھالنے کی بجائے کچرے میں پھینک دیا گیا تھا۔ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دردمند لوگوں کی ایک تنظیم کی اُن پر نظر پڑی اور پھر ان بچوں نے معجزہ کر دکھایا۔ وہ جنہیں کبھی گلیوں کی خاک سمجھا جا تا تھا، ان بچوں کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجانے اور بے مقصد زندگی کی بجائے محنت کے ذریعے زندگی میں کام یابیاں حاصل کرنے کی طرف گام زن کرنے کا سہرا ایک غیرسرکاری تنظیم ''آزاد فاونڈیشن'' کے سر جاتا ہے۔ یہ تنظیم سڑکوں پر رہنے والے بچوں یعنی ''اسٹریٹ چلڈرن'' کی بحالی اور ان کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی تنظیم نے ان بچوں کو برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں بھیجنے کا انتظام کیا تھا۔ اور سڑکوں کے باسی یہ آوارہ بچے اب ''اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ 2014 '' کے ہیرو ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں نو اسٹریٹ چلڈرن شامل تھے، جن میں سے آٹھ بچوں کا تعلق کراچی اور ایک کوئٹہ سے ہے۔
ماضی میں سڑکوں پر بھٹکنے والے بچوں کے لیے عالمی کپ کا آغاز سن 2010 میں کیا گیا تھا۔ اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فیفا ورلڈ کپ سے تین ماہ قبل اسی شہر میں کہ جہاں ورلڈ کپ کے مقابلے منعقد ہونا ہوں، بچوں کے فٹ بال عالمی کپ کا انعقاد ہوگا۔ 2010 میں جنوبی افریقہ میں ان بچوں کا پہلا عالمی کپ منعقد ہوا، لیکن اس میں پاکستان شرکت نہیں کرسکا تھا۔ تاہم اس دوسرے عالمی کپ میں پاکستان پہلی بار شریک ہوا ہے۔
آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق ان مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے ان بچوں کو دعوت دی جاتی ہے، جن کا بچپن سڑکوں پر گزرا ہو۔ اس فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کا معیار یہ مقرر تھا کہ اس مقابلے میں وہ بچے شرکت کر سکتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے میں شامل ہو چکے ہوں۔ اس لیے ان کے لیے ایک کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس سے یہ بچے پورے ایک باقاعدہ طریقۂ کار سے گزرنے کے بعد منتخب ہوئے، عالمی سطح پر پاکستان کے سفیر بن کر گئے اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں صرف کراچی کی سڑکوں پر20 لاکھ سے زاید بچے آوارہ بھٹک رہے ہیں، جن میں سے اکثر جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہو کر یا منشیات کی لت میں پڑ کر زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ ان بچوں کی اگر بہتر راہ نمائی کی جائے تو یہ عالمی سطح ہر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں شامل بچوں کے چنائو کے حوالے سے آزاد فائونڈیشن نے بتایا: ''ہماری کوشش یہ رہی کہ اس عالمی مقابلے کے لیے قومی سطح کی ٹیم بھیجی جا سکے۔ اس لیے ہم نے مختلف جگہوں پر اپنا کیمپ لگایا تھا۔ ان میں سے ایک بچہ کوئٹہ سے چنا گیا، اور باقی کراچی سے منتخب ہوئے۔ ایک ٹیم سات بچوں پر مشتمل تھی جب کہ دو بچے ریزرو میں تھے۔ ان بچوں کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے، جن میں ابراہیم حیدری، لیاری، ماڑی پور، نیو کراچی، کورنگی اور منگھوپیر شامل ہیں۔''
28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچوں نے شرکت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے یہ آوارہ بچے عالمی سطح پر ایک بہت بڑے معرکے میں شرکت کر نے گئے۔ خود کو منوانے کے لیے پْرجوش ان بچوں نے بہت محنت کی اور یہ جیتنے کے لیے بھی پُرعزم تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ یہ بچے کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کے لیے بہت سخت ثابت ہوں گے اور ہوا بھی ایسا ہی۔
فٹ بال کے اِس عالمی کپ کا آغاز 28 مارچ کو برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہوا۔ روانگی سے قبل ٹیم کے ایک کھلاڑی اویس علی نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا: ''اﷲ بہتر جانتا ہے، ہم نے بہت محنت کی ہے، میں بہت خوش ہوں کہ میں باہر جارہا ہوں، میں وہاں کھیلوں گا اور پاکستان کی نمایندگی کروں گا۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہم جیت کر آئیں۔''
اویس کا تعلق کراچی کے علاقے یوپی موڑ سے ہے۔ بچپن میں ماں باپ کے ڈر سے گھر سے بھاگ کر اس بچے نے کئی برس سڑکوں پر گزارے۔ اویس کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی عالمی کھیل کے بارے میں نہیں سوچا۔ ''ہم تو سڑکوں اور گلیوں میں رہتے اور کھیلتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے کوچ نے ہم میں اعتماد پیدا کیا اور بتایا کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔''
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بے گھر بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نہ جانے کتنے ہی ایسے باصلاحیت بچے ہیں، جنہیں اگر راہ نمائی اور تربیت دی جائے، تو یہ ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی بچوں کی مثال یہ فٹ بال ٹیم ہے، جو کراچی کی سڑکوں سے اٹھی، برازیل پہنچی، اور خود کو منوایا۔
برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں کھیلے گئے ابتدائی رائونڈ کے میچ میں پاکستانی بچوں نے دفاعی چیمپیئن، بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اور پے درپے گول کرکے مخالف ٹیم کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ پاکستان نے بھارت کو ایک کے مقابلے میں 13 گول سے شکست دے کر سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا۔
اس ٹیم نے کام رانی کا سلسلہ جاری رکھا، اور سیمی فائنل تک جاپہنچی، جہاں مقابلہ بورونڈی کی مضبوط ٹیم سے تھا۔ یہاں ان بچوں کو شکست ہوئی۔ پاکستان فائنل میں نہیں پہنچ سکا تھا، تاہم پاکستانی ٹیم کو نہ صرف وہاں موجود ٹیموں سے بے تحاشہ پزیرائی اور عزت ملی، بلکہ دنیا بھر کے فٹ بال کے پرستاروں نے بھی اس ٹیم کو سراہا ہے۔
تیسری پوزیشن کے لیے ان کا مقابلہ امریکی ٹیم سے تھا۔ کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ پینالٹی ککس پر پاکستان فاتح ٹھہرا اور تیسری پوزیشن اپنے نام کر لی۔ اِس میچ میں پاکستانی گول کیپر نے اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا۔ نوعمر پاکستانی گول کیپر نے امریکیوں کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ اور فتح اپنے نام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
''اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ 2014'' کے لیے کراچی سے برازیل روانہ ہونے والے ایک بچے کھلاڑی، سلمان نے غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا؛ ہم اس کھیل سے پاکستان کا مثبت امیج دنیا کو دکھائیں گے، ہم دنیا کو بتائیں گے کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں، بلکہ امن دوست ملک ہے۔'' اس باہمت بچے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو دنیا میں پیش کرنے اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سلمان کا تعلق کراچی کے علاقے کورنگی سے ہے۔ برازیل جانے سے قبل وہ کئی برس کراچی کی سڑکوں پر فٹ بال کھیلتا رہا ہے۔
سڑکوں پر رہنے والے اِن پاکستانی بچوں نے اس عالمی مقابلے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ ساتھ ہی دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں، ضرورت فقط مواقع کی ہے۔
واضح رہے کہ اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ عالمی ادارہ برائے اطفال اور یونیسیف کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ سے پہلے منعقد کرایا جاتا ہے، جس کا مقصد غریب بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اور اس برس یہ مقابلہ واقعی پاکستانی قوم کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ پاکستان جسے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے، جہاں شہریوں کو ہر وقت قتل و غارت کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں، ایسے میں ایسی شان دار خوش خبری دے کر ان باصلاحیت بچوں نے نہ صرف عوام کے دل جیتے بلکہ ان کے مایوس چہروں پر مسکراہٹیں بھی بکھیری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اب ان باحوصلہ بچوں کی ہر سطح پر پزیرائی اور حوصلہ افزائی کرے اور انہیں سماج میں باعزت مقام دلانے کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں، جو ان بچوں کا حق بھی ہے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دردمند لوگوں کی ایک تنظیم کی اُن پر نظر پڑی اور پھر ان بچوں نے معجزہ کر دکھایا۔ وہ جنہیں کبھی گلیوں کی خاک سمجھا جا تا تھا، ان بچوں کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجانے اور بے مقصد زندگی کی بجائے محنت کے ذریعے زندگی میں کام یابیاں حاصل کرنے کی طرف گام زن کرنے کا سہرا ایک غیرسرکاری تنظیم ''آزاد فاونڈیشن'' کے سر جاتا ہے۔ یہ تنظیم سڑکوں پر رہنے والے بچوں یعنی ''اسٹریٹ چلڈرن'' کی بحالی اور ان کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی تنظیم نے ان بچوں کو برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں بھیجنے کا انتظام کیا تھا۔ اور سڑکوں کے باسی یہ آوارہ بچے اب ''اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ 2014 '' کے ہیرو ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں نو اسٹریٹ چلڈرن شامل تھے، جن میں سے آٹھ بچوں کا تعلق کراچی اور ایک کوئٹہ سے ہے۔
ماضی میں سڑکوں پر بھٹکنے والے بچوں کے لیے عالمی کپ کا آغاز سن 2010 میں کیا گیا تھا۔ اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فیفا ورلڈ کپ سے تین ماہ قبل اسی شہر میں کہ جہاں ورلڈ کپ کے مقابلے منعقد ہونا ہوں، بچوں کے فٹ بال عالمی کپ کا انعقاد ہوگا۔ 2010 میں جنوبی افریقہ میں ان بچوں کا پہلا عالمی کپ منعقد ہوا، لیکن اس میں پاکستان شرکت نہیں کرسکا تھا۔ تاہم اس دوسرے عالمی کپ میں پاکستان پہلی بار شریک ہوا ہے۔
آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق ان مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے ان بچوں کو دعوت دی جاتی ہے، جن کا بچپن سڑکوں پر گزرا ہو۔ اس فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کا معیار یہ مقرر تھا کہ اس مقابلے میں وہ بچے شرکت کر سکتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے میں شامل ہو چکے ہوں۔ اس لیے ان کے لیے ایک کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس سے یہ بچے پورے ایک باقاعدہ طریقۂ کار سے گزرنے کے بعد منتخب ہوئے، عالمی سطح پر پاکستان کے سفیر بن کر گئے اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔
یاد رہے کہ پاکستان میں صرف کراچی کی سڑکوں پر20 لاکھ سے زاید بچے آوارہ بھٹک رہے ہیں، جن میں سے اکثر جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہو کر یا منشیات کی لت میں پڑ کر زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ ان بچوں کی اگر بہتر راہ نمائی کی جائے تو یہ عالمی سطح ہر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں شامل بچوں کے چنائو کے حوالے سے آزاد فائونڈیشن نے بتایا: ''ہماری کوشش یہ رہی کہ اس عالمی مقابلے کے لیے قومی سطح کی ٹیم بھیجی جا سکے۔ اس لیے ہم نے مختلف جگہوں پر اپنا کیمپ لگایا تھا۔ ان میں سے ایک بچہ کوئٹہ سے چنا گیا، اور باقی کراچی سے منتخب ہوئے۔ ایک ٹیم سات بچوں پر مشتمل تھی جب کہ دو بچے ریزرو میں تھے۔ ان بچوں کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے، جن میں ابراہیم حیدری، لیاری، ماڑی پور، نیو کراچی، کورنگی اور منگھوپیر شامل ہیں۔''
28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچوں نے شرکت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے یہ آوارہ بچے عالمی سطح پر ایک بہت بڑے معرکے میں شرکت کر نے گئے۔ خود کو منوانے کے لیے پْرجوش ان بچوں نے بہت محنت کی اور یہ جیتنے کے لیے بھی پُرعزم تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ یہ بچے کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کے لیے بہت سخت ثابت ہوں گے اور ہوا بھی ایسا ہی۔
فٹ بال کے اِس عالمی کپ کا آغاز 28 مارچ کو برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہوا۔ روانگی سے قبل ٹیم کے ایک کھلاڑی اویس علی نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا: ''اﷲ بہتر جانتا ہے، ہم نے بہت محنت کی ہے، میں بہت خوش ہوں کہ میں باہر جارہا ہوں، میں وہاں کھیلوں گا اور پاکستان کی نمایندگی کروں گا۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہم جیت کر آئیں۔''
اویس کا تعلق کراچی کے علاقے یوپی موڑ سے ہے۔ بچپن میں ماں باپ کے ڈر سے گھر سے بھاگ کر اس بچے نے کئی برس سڑکوں پر گزارے۔ اویس کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی عالمی کھیل کے بارے میں نہیں سوچا۔ ''ہم تو سڑکوں اور گلیوں میں رہتے اور کھیلتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے کوچ نے ہم میں اعتماد پیدا کیا اور بتایا کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔''
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بے گھر بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نہ جانے کتنے ہی ایسے باصلاحیت بچے ہیں، جنہیں اگر راہ نمائی اور تربیت دی جائے، تو یہ ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی بچوں کی مثال یہ فٹ بال ٹیم ہے، جو کراچی کی سڑکوں سے اٹھی، برازیل پہنچی، اور خود کو منوایا۔
برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں کھیلے گئے ابتدائی رائونڈ کے میچ میں پاکستانی بچوں نے دفاعی چیمپیئن، بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اور پے درپے گول کرکے مخالف ٹیم کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ پاکستان نے بھارت کو ایک کے مقابلے میں 13 گول سے شکست دے کر سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا۔
اس ٹیم نے کام رانی کا سلسلہ جاری رکھا، اور سیمی فائنل تک جاپہنچی، جہاں مقابلہ بورونڈی کی مضبوط ٹیم سے تھا۔ یہاں ان بچوں کو شکست ہوئی۔ پاکستان فائنل میں نہیں پہنچ سکا تھا، تاہم پاکستانی ٹیم کو نہ صرف وہاں موجود ٹیموں سے بے تحاشہ پزیرائی اور عزت ملی، بلکہ دنیا بھر کے فٹ بال کے پرستاروں نے بھی اس ٹیم کو سراہا ہے۔
تیسری پوزیشن کے لیے ان کا مقابلہ امریکی ٹیم سے تھا۔ کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ پینالٹی ککس پر پاکستان فاتح ٹھہرا اور تیسری پوزیشن اپنے نام کر لی۔ اِس میچ میں پاکستانی گول کیپر نے اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا۔ نوعمر پاکستانی گول کیپر نے امریکیوں کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ اور فتح اپنے نام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
''اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ 2014'' کے لیے کراچی سے برازیل روانہ ہونے والے ایک بچے کھلاڑی، سلمان نے غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا؛ ہم اس کھیل سے پاکستان کا مثبت امیج دنیا کو دکھائیں گے، ہم دنیا کو بتائیں گے کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں، بلکہ امن دوست ملک ہے۔'' اس باہمت بچے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو دنیا میں پیش کرنے اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سلمان کا تعلق کراچی کے علاقے کورنگی سے ہے۔ برازیل جانے سے قبل وہ کئی برس کراچی کی سڑکوں پر فٹ بال کھیلتا رہا ہے۔
سڑکوں پر رہنے والے اِن پاکستانی بچوں نے اس عالمی مقابلے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ ساتھ ہی دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں، ضرورت فقط مواقع کی ہے۔
واضح رہے کہ اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ عالمی ادارہ برائے اطفال اور یونیسیف کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ سے پہلے منعقد کرایا جاتا ہے، جس کا مقصد غریب بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
اور اس برس یہ مقابلہ واقعی پاکستانی قوم کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ پاکستان جسے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے، جہاں شہریوں کو ہر وقت قتل و غارت کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں، ایسے میں ایسی شان دار خوش خبری دے کر ان باصلاحیت بچوں نے نہ صرف عوام کے دل جیتے بلکہ ان کے مایوس چہروں پر مسکراہٹیں بھی بکھیری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اب ان باحوصلہ بچوں کی ہر سطح پر پزیرائی اور حوصلہ افزائی کرے اور انہیں سماج میں باعزت مقام دلانے کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں، جو ان بچوں کا حق بھی ہے۔