اپنے گھر کی صفائی
پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب زمینی حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ آیندہ چند دنوں میں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا۔
دوست ممالک نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، اب بھی ایک دوست ملک نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی مدد کی ہے، دوستوں کا احسان تا قیامت نہیں بھولنا چاہیے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا، اگر گھر کے حالات ہم خود درست نہیں کریں گے تو پھر کوئی مدد کو نہیں آئے گا، اسی لیے حکومت نے کفایت شعاری کا آغاز کیا ہے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا، نواز شریف کے دور میں نیشنل ایکشن پلان پر تمام اتحادیوں کو متحد کیا گیا، سانحہ پشاور کے بعد کراچی میں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے۔
پشاور کے اندوہناک سانحہ کے بعد ایپکس کمیٹی کا یہ دوسرا اجلاس ہے، اس اجلاس میں سب کو شرکت کی دعوت دی لیکن اس کے باوجود ایک سیاسی جماعت نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اجلاس میں شریک ہو۔ ہم جتنی جلد اس معاملے کی نزاکت سمجھ لیں گے اتنا ہی آنے والی نسلوں کے لیے بہتری کا باعث ہو گی، اجتماعی سوچ اور کوششوں سے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا نیکٹا نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کیا گیا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جوانوں سمیت پوری قوم نے 83 ہزار افراد کی جانوں کی قربانی دی جو پوری دنیا میں امن کے لیے اہم ہے۔
اس اجلاس میں سیاسی رہنما، فوجی و سول حکام شریک ہیں۔ ریاست پاکستان سب سے پہلے ہے باقی سب بعد میں ہے۔سیکیورٹی فورسز ملکی سلامتی یقینی بنانے کے لیے پرعزم اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات خصوصاً 30 جنوری2023 کوپشاورپولیس لائنز مسجداور 19فروری کوکراچی پولیس چیف آفس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور اس کے بعد کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ حساس اداروں کے نمایندوں نے سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال ، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر بریفنگ دی۔
اجلاس نے کراچی پولیس اور سیکیورٹی کے لیے ماضی میں منظور ہونے والے فنڈز کی عدم دستیابی کے معاملے پر غور کیا اور ہدایت کی کہ پولیس، سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی سے متعلق تمام منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں بلا تاخیر دور کی جائیں۔ اجلاس نے دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے کردار پربھی غور کیاگیا۔
اجلاس میں تجویز کیاگیاکہ دنیا کے دیگر ممالک میں رائج سائبر سپیس اور دہشت گردی سے متعلق''ایس او پیز'' اور ضابطوں سے راہنمائی لی جائے۔ وفاقی وزیرقانون وانصاف کی سربراہی میں کمیٹی کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات، پراسیکیوشن اور سزا دلانے کے مراحل کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے پہلے بھی پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں غیرملکی مجاہدین کے حوالے سے اکادکا واقعات ہوتے رہے ہیں۔ شمال مغربی علاقے میں ایسے لوگ باقاعدہ طور پر آباد ہو گئے تھے، جو سوویت وار میں افغانستان میں آئے اور جب سوویت افواج واپس چلی گئیں تو ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان کے شمال مغربی حصے میں سکونت پذیر رہی۔ افغان مہاجرین کی آبادیاں بھی بڑی تعداد میں موجود رہیں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا اور نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کو تبدیل کر دیا تو افغانستان سے فرار ہونے والے لوگ پاکستان میں اس وقت کے سابقہ فاٹا میں داخل ہوئے اور یہاں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے روپوشی کی زندگی گزارنے لگے۔ یہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کا پھیلاؤ شروع ہوا۔ مختلف قسم کی جنگجو تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہوئیں۔ افغانستان میں طالبان نے امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔
افغان طالبان نے افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کیا اور انھیں امریکی ایجنٹ قرار دیا حالانکہ وہ سب بھی افغان تھے۔ بدلتے ہوئے حالات اور اپنے اپنے مفادات کے تحت پاکستان میں بھی اس سوچ اور فکر کو پروان چڑھایا گیا کہ طالبان اور دیگر انتہاپسند تنظیمیں امریکا اور بھارت کے خلاف ہیں جب کہ پاکستان کے ساتھ ان کی کوئی عداوت یا عناد نہیں ہے اور نہ ہی وہ پاکستان پر اپنے خیالات تھونپنا چاہتے ہیں۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں پاکستان کے اندر موجود ایک بااثر طبقے نے اہم رول ادا کیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں، پاکستانی شہری خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہوتے رہے لیکن پاکستان کے ایک مخصوص لیکن بااثر طبقے نے اپنے عوام اور ریاست کے اجتماعی مفادات کے برعکس دہشت گردی کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی۔
پاکستان کے عوام کو مسلسل یہ باور کرایا گیا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ جب معاملات زیادہ گھمبیر ہوئے تو پھر مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کی وجہ سے وہاں امریکی اور نیٹو افواج موجود ہیں اور بھارت کے کئی قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔
افغانستان میں جب طالبان اقتدار میں آئے تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی ہو گی لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مصداق افغان طالبان کی عبوری حکومت نے افغانستان کی جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے لوگوں کو رہا کر دیا۔ یوں پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہوا۔
سابق حکومت نے افغان طالبان کی بے جا حمایت کر کے عالمی سطح پر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ افغان طالبان کی حکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ ان مذاکرات میں افغان طالبان کی قیادت بنفس نفیس امریکی مذاکرات کاروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے معاملات طے کرتی رہی۔ جب معاملات طے ہو گئے تو طالبان نے افغانستان میں داخل ہو کر کابل پر کنٹرول کر لیا۔
امریکی فوجیوں کے انخلاء کو پرامن اور محفوظ رکھا گیا۔ جب کابل کے لوگ ایک ہجوم کی شکل میں ایئرپورٹ پر موجود امریکی اور یورپی جہازوں میں بیٹھ کر بیرون ملک فرار ہو رہے تھے تو اس وقت کابل کے اقتدار پر طالبان ہی قابض تھے۔ ایئرپورٹ کے باہر طالبان کے لوگ ہی سیکیورٹی سنبھالے ہوئے تھے جب کہ ایئرپورٹ کے اندر کی سیکیورٹی امریکی فوجیوں کے پاس تھی۔ اس وقت کسی کو امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
جب سب کچھ خوش اسلوبی سے ہو گیا تو افغان طالبان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے لوگوں پر اپنا سایہ برقرار رکھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے افغان طالبان کی پاکستان دوست ہونے کے پروپیگنڈے سے ہوا نکل گئی۔ اس کے باوجود پاکستان کی سابق حکومت نے عالمی سطح پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی حالانکہ اس حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک کی حکومتوں میں سے بھی کسی نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت پر یہی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کرے، اقوام عالم افغان طالبان عبوری حکومت کے زبانی وعدے وعید پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب عملاً دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب زمینی حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی تنظیم ہو، نام نہاد دانشوروں کا کوئی گروپ ہو یا کوئی افسر یا کوئی کاروباری گروپ ہو، انھیں کسی طرح بھی پاکستانی عوام کے مفادات سے متصادم مؤقف اختیار کرنے یا سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
کیا افغانستان میں کوئی ایسا سیاسی گروپ، دانشور یا بزنس گروپ کام کر سکتا ہے جو وہاں بیٹھ کر پاکستان کی وکالت کر رہا ہو حالانکہ پاکستان میں یہی تاثر پھیلایا گیا کہ افغان پاکستان کے دوست ہیں۔ کیا اپنے دوستوں اور بھائیوں کے دور اقتدار میں پاکستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری لوگ افغانستان میں آزادانہ اور بلاخوف وخطر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟
ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ریاست پاکستان کی حدود میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں، پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز، چاہے وہ سیاست دان ہوں، ادیب و دانشور ہوں، شاعر و ڈرامہ نگار ہوں، اداکار ہوں یا کھلاڑی ہوں، مذہبی رہنما ہوں، علماء و مشائخ ہوں، کاروباری گروپس ہوں، جنرل مرچنٹس ہوں، ریاست کے ملازم ہوں، کسی کو پاکستان کے مفادات کے برعکس کوئی بات یا کام کرنے کی ہمت وجرأت نہیں ہونی چاہیے۔
دوست ممالک نے مشکل حالات میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، اب بھی ایک دوست ملک نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کا انتظار کیے بغیر پاکستان کی مدد کی ہے، دوستوں کا احسان تا قیامت نہیں بھولنا چاہیے۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا، اگر گھر کے حالات ہم خود درست نہیں کریں گے تو پھر کوئی مدد کو نہیں آئے گا، اسی لیے حکومت نے کفایت شعاری کا آغاز کیا ہے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا تھا، نواز شریف کے دور میں نیشنل ایکشن پلان پر تمام اتحادیوں کو متحد کیا گیا، سانحہ پشاور کے بعد کراچی میں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوا ہے۔
پشاور کے اندوہناک سانحہ کے بعد ایپکس کمیٹی کا یہ دوسرا اجلاس ہے، اس اجلاس میں سب کو شرکت کی دعوت دی لیکن اس کے باوجود ایک سیاسی جماعت نے مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اجلاس میں شریک ہو۔ ہم جتنی جلد اس معاملے کی نزاکت سمجھ لیں گے اتنا ہی آنے والی نسلوں کے لیے بہتری کا باعث ہو گی، اجتماعی سوچ اور کوششوں سے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا نیکٹا نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کیا گیا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے جوانوں سمیت پوری قوم نے 83 ہزار افراد کی جانوں کی قربانی دی جو پوری دنیا میں امن کے لیے اہم ہے۔
اس اجلاس میں سیاسی رہنما، فوجی و سول حکام شریک ہیں۔ ریاست پاکستان سب سے پہلے ہے باقی سب بعد میں ہے۔سیکیورٹی فورسز ملکی سلامتی یقینی بنانے کے لیے پرعزم اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات خصوصاً 30 جنوری2023 کوپشاورپولیس لائنز مسجداور 19فروری کوکراچی پولیس چیف آفس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور اس کے بعد کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ حساس اداروں کے نمایندوں نے سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال ، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر بریفنگ دی۔
اجلاس نے کراچی پولیس اور سیکیورٹی کے لیے ماضی میں منظور ہونے والے فنڈز کی عدم دستیابی کے معاملے پر غور کیا اور ہدایت کی کہ پولیس، سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی سے متعلق تمام منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں بلا تاخیر دور کی جائیں۔ اجلاس نے دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا کے کردار پربھی غور کیاگیا۔
اجلاس میں تجویز کیاگیاکہ دنیا کے دیگر ممالک میں رائج سائبر سپیس اور دہشت گردی سے متعلق''ایس او پیز'' اور ضابطوں سے راہنمائی لی جائے۔ وفاقی وزیرقانون وانصاف کی سربراہی میں کمیٹی کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات، پراسیکیوشن اور سزا دلانے کے مراحل کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ نائن الیون کے واقعے سے پہلے بھی پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں غیرملکی مجاہدین کے حوالے سے اکادکا واقعات ہوتے رہے ہیں۔ شمال مغربی علاقے میں ایسے لوگ باقاعدہ طور پر آباد ہو گئے تھے، جو سوویت وار میں افغانستان میں آئے اور جب سوویت افواج واپس چلی گئیں تو ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان کے شمال مغربی حصے میں سکونت پذیر رہی۔ افغان مہاجرین کی آبادیاں بھی بڑی تعداد میں موجود رہیں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا اور نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کو تبدیل کر دیا تو افغانستان سے فرار ہونے والے لوگ پاکستان میں اس وقت کے سابقہ فاٹا میں داخل ہوئے اور یہاں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے روپوشی کی زندگی گزارنے لگے۔ یہیں سے پاکستان میں دہشت گردی کا پھیلاؤ شروع ہوا۔ مختلف قسم کی جنگجو تنظیمیں وجود میں آنا شروع ہوئیں۔ افغانستان میں طالبان نے امریکی افواج کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔
افغان طالبان نے افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کیا اور انھیں امریکی ایجنٹ قرار دیا حالانکہ وہ سب بھی افغان تھے۔ بدلتے ہوئے حالات اور اپنے اپنے مفادات کے تحت پاکستان میں بھی اس سوچ اور فکر کو پروان چڑھایا گیا کہ طالبان اور دیگر انتہاپسند تنظیمیں امریکا اور بھارت کے خلاف ہیں جب کہ پاکستان کے ساتھ ان کی کوئی عداوت یا عناد نہیں ہے اور نہ ہی وہ پاکستان پر اپنے خیالات تھونپنا چاہتے ہیں۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے میں پاکستان کے اندر موجود ایک بااثر طبقے نے اہم رول ادا کیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوتی رہیں، پاکستانی شہری خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہوتے رہے لیکن پاکستان کے ایک مخصوص لیکن بااثر طبقے نے اپنے عوام اور ریاست کے اجتماعی مفادات کے برعکس دہشت گردی کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی۔
پاکستان کے عوام کو مسلسل یہ باور کرایا گیا کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکا، بھارت اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ جب معاملات زیادہ گھمبیر ہوئے تو پھر مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت کی وجہ سے وہاں امریکی اور نیٹو افواج موجود ہیں اور بھارت کے کئی قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں۔
افغانستان میں جب طالبان اقتدار میں آئے تو یہ دعویٰ کیا گیا کہ اب پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی ہو گی لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور کے مصداق افغان طالبان کی عبوری حکومت نے افغانستان کی جیلوں میں بند ٹی ٹی پی کے لوگوں کو رہا کر دیا۔ یوں پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز ہوا۔
سابق حکومت نے افغان طالبان کی بے جا حمایت کر کے عالمی سطح پر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ افغان طالبان کی حکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ ان مذاکرات میں افغان طالبان کی قیادت بنفس نفیس امریکی مذاکرات کاروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے معاملات طے کرتی رہی۔ جب معاملات طے ہو گئے تو طالبان نے افغانستان میں داخل ہو کر کابل پر کنٹرول کر لیا۔
امریکی فوجیوں کے انخلاء کو پرامن اور محفوظ رکھا گیا۔ جب کابل کے لوگ ایک ہجوم کی شکل میں ایئرپورٹ پر موجود امریکی اور یورپی جہازوں میں بیٹھ کر بیرون ملک فرار ہو رہے تھے تو اس وقت کابل کے اقتدار پر طالبان ہی قابض تھے۔ ایئرپورٹ کے باہر طالبان کے لوگ ہی سیکیورٹی سنبھالے ہوئے تھے جب کہ ایئرپورٹ کے اندر کی سیکیورٹی امریکی فوجیوں کے پاس تھی۔ اس وقت کسی کو امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
جب سب کچھ خوش اسلوبی سے ہو گیا تو افغان طالبان کی عبوری حکومت نے ٹی ٹی پی کے لوگوں پر اپنا سایہ برقرار رکھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے افغان طالبان کی پاکستان دوست ہونے کے پروپیگنڈے سے ہوا نکل گئی۔ اس کے باوجود پاکستان کی سابق حکومت نے عالمی سطح پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے مہم چلائی حالانکہ اس حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک کی حکومتوں میں سے بھی کسی نے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان کی عبوری حکومت پر یہی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد کرے، اقوام عالم افغان طالبان عبوری حکومت کے زبانی وعدے وعید پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اب عملاً دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب زمینی حقائق تسلیم کر لینے چاہئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت ہو یا مذہبی تنظیم ہو، نام نہاد دانشوروں کا کوئی گروپ ہو یا کوئی افسر یا کوئی کاروباری گروپ ہو، انھیں کسی طرح بھی پاکستانی عوام کے مفادات سے متصادم مؤقف اختیار کرنے یا سیاست کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
کیا افغانستان میں کوئی ایسا سیاسی گروپ، دانشور یا بزنس گروپ کام کر سکتا ہے جو وہاں بیٹھ کر پاکستان کی وکالت کر رہا ہو حالانکہ پاکستان میں یہی تاثر پھیلایا گیا کہ افغان پاکستان کے دوست ہیں۔ کیا اپنے دوستوں اور بھائیوں کے دور اقتدار میں پاکستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے کاروباری لوگ افغانستان میں آزادانہ اور بلاخوف وخطر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں؟
ان حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ریاست پاکستان کی حدود میں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں، پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز، چاہے وہ سیاست دان ہوں، ادیب و دانشور ہوں، شاعر و ڈرامہ نگار ہوں، اداکار ہوں یا کھلاڑی ہوں، مذہبی رہنما ہوں، علماء و مشائخ ہوں، کاروباری گروپس ہوں، جنرل مرچنٹس ہوں، ریاست کے ملازم ہوں، کسی کو پاکستان کے مفادات کے برعکس کوئی بات یا کام کرنے کی ہمت وجرأت نہیں ہونی چاہیے۔