آخر کب تک۔۔۔۔
آمریتیں اب اسٹیبلشمنٹ کے اندر نہیں ہے، وہ اب باہر سے لڑ رہی ہے
ہم اس حال میں ایک دن میں تو نہیں پہنچے، اب جو پہنچے ہیں تو ہم مورخ سے ملنا نہیں چاہتے۔ تاریخ کے جھروکوں میں جانا نہیں چاہتے۔
کورٹ تشریح کیسے کرتی جب تک آزاد نہ ہو ، آزاد کیسے ہوتی کہ جہاں ابھی یہ نقطہ حل ہی نہیں ہوا کہ سول سپرمیسی ہوگی یا غیر سول۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا کوئی اور۔ یہ بات دو چار لوگوں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کے بحث کرنے سے اب بڑی ہوگئی ہے۔ یہ خانہ جنگی کی ایک شکل ہے۔
ہر خانہ جنگی اگر آرگنائز ہو تو وہ انقلاب کہلاتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہر انقلاب درست ہو، وہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے بحرانوں سے نئی لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ پھرآئین دیا جاتا ہے اور ریاست کو آگے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ امریکا میں سول وار ہوئی، پھر آئین ملا، پھر سول وار ہوئی، پھر آئین میں ترامیم ہوئیں۔ 1947 میں بھی ایک شدید سیاسی بحران پیدا ہوا۔
ہندوستان ٹوٹ گیا، 1971 میں شدید سیاسی بحران پیدا ہوا اور نتیجتا پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور اب پچاس سال بعد پھر وہی بحران پیدا ہوا ہے جب کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین آئین موجود ہے تمام مثبت اور منفی ترامیم کے بعد ، نظریہ ضرورت اور سپریم کورٹ کے انتہائی متضاد فیصلوں کے بعد بھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بھی ، بے نظیر بھٹو کے راولپنڈی کے تاریک راہوں پر مارے جانے کے بعد بھی، کئی ہجر و جلاوطنیوں کے بعد بھی۔ اگر ہمیں دوبارہ آئین بنانا بھی پڑ جائے تو اس میں بھی ہمیں یہی کچھ ڈالنا پڑجائے گا ورنہ ہر وہ آئین جو آئین کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، وہ ایوب کے دیے ہوئے آئین کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ کوئی سندھیوں، بلوچوں، پختونوں کی حق حکمرانی کی بحث یا لڑائی نہیں ہے۔ یہ دراصل ان قوتوں کا جھگڑا ہے جو 1971 کے سانحہ کی ذمے دار بھی ہیں اور اب مگرمچھ کے آنسو بھی روتی ہیں۔ بلآخر ولی خان کو کہنا پڑا کہ '' آخری جنگ پنجاب لڑے گا ، ان قوتوں سے جو آمریت پسند ہیں، جو آمریتوں کی پیداوار ہیں۔'' آج پنجاب یہی کام کررہا ہے۔
1973 سے پہلے رہنے دیتے ہیں، آئین کے بعد کی بات کرتے ہیں۔ کیا ہوتا اگر بھٹو کو چلنے دیا جاتا ، ضیاء الحق صاحب نہ آتے؟ جنرل مشرف آتا نہ عمران خان والا ہائبرڈ نظام آتا۔ اگر ہندوستان کے پاس آج چھ سو ارب روپے ہیں تو ہمارے پاس بھی دو سو ارب ڈالرکے بیرونی ذخائر ہوتے۔ ہم بیلٹ باکس کے تحت چلتے، فوج یا عدلیہ حکومتیں بناتے نہ بگاڑتے۔ ججز کی تعیناتی میں پارلیمینٹری کمیٹی کا بھی ایک فعال کردار ہوتا۔ہماری تاریخ میں شیخ مجیب ایک سبق کی مانند ہے۔
ہمارے ملک کے بیانیے میں خود ایک اور بیانیہ موجود ہے، جو یہ کہتا ہے کہ جب آپ عوام کے فیصلوں کو نہیں مانو گے تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔ بنگالی نہیں گئے بلکہ ایک جمہوری قوت تھی جو چلی گئی تھی۔ وہ جمہوری قوت جو ایوب کے سامنے فاطمہ جناح کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کھڑی تھی جب کہ بھٹو ایوب کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس وقت ایوب کے خلاف جدوجہد اس طرح تھی جس طرح وکلا ء جنرل مشرف کے خلاف نکل آئے تھے۔ جس کو جنرل کیانی کا بھی آشیرواد تھا۔ بھٹو کے خلاف بھی پی این اے نکل آئی تھی جن کو سی آئی اے کا آشیرواد تھا۔
جنرل ضیاء الحق کو بھی ان کا آشیر واد تھا۔ ایک بین الاقوامی تناظر میں سرد جنگ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہماری عکسری قیادت پھر سیاست سے نہ نکل سکی۔ جنرل حمید گل چیف آف آرمی اسٹاف نہ بن سکے لیکن نظریہ ان کا چلتا رہا۔ عمران خان صاحب ان کے ہی جانشین ہیںب، یہ تو خان صاحب ٹرمپ سے ملاقات میں مان کے آئے تھے ، ہم نے افغان مجاہدین و طالبان سے تعلق برقرار رکھے 9/11 کے بعد بھی۔ اسامہ بن لادن بھی یہیں ہمارے ملک میں مارا گیا۔
ہماری معیشت کا کیا ؟ وہ توگئی کیونکہ ہم امداد کی معیشت رکھتے تھے ، جنگوں کا کاروبارکرتے تھے۔ ہمیں دراصل اس دلدل سے نکلنا تھا اور ہم نکل نہیں پا رہے۔ اب بھی افغان مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، وہ جنگ اب ہمارے وجود میں آچکی ہے۔ ایک طرف سیاسی انارکی پیدا کی جارہی ہے، دہشت گردی پرانے زخموں کی طرح پھر سے کھل پڑی ہے، معیشت ہمارے کنٹرول میں نہیں، عدلیہ کی ترجیحات میں یہ مسائل شامل نہیں۔
بھلے وہ طاقتیں اس نظام کو نہ چلنے دیں، بھلے آپ کہتے رہیں خان صاحب مقبول ہیں مگر وہ 2018 میں زیر دست دھاندلی کی پیداوار ہیں۔ بھلے یہ جو کچھ بھی ہے وہ اچانک نہیں ہوا لیکن خان صاحب کا دور حکومت ایک تباہ کن زلزلے کی طرح تھا۔ وہ سب جو کل تک آمریتوں کے ساتھ تھے، وہ سب ان کے ساتھ ہیں۔
اب اپر میڈل کلاس کا مخصوص گروپ بھی آگے ہے، یہ مہنگے نجی اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا پیدا کردہ گروپ ہے، اپنے لباس اور عادات و معاشرت میں یورپی ہے لیکن سوچ و فکر کے اعتبار سے انتہاپسند اور بدتمیز ہے، اس اپر مڈل کلاس گروپ میں ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کی اولاد یں، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ان کے خاندان کے افراد، شوبز کے لوگ شامل ہیں، یہ گروپ عمران کا سیاسی حامی نہیں ہے بلکہ اس کا دیوانہ ہے۔
اس بیانیہ کی تیارکردہ فصل ہے جو آمریتوں نے سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے سے بنی ہے کہ جو ان جیسا نہیں ہے، وہ کرپٹ،کم عقل اور جاہل ہے۔ کچھ دنوں پہلے کے ایل ایف کے پروگرام میں مفتاح اسماعیل نے منہ توڑ جواب دیا جب کسی نے اس سے سوال کرتے پوچھا کہ '' آپ نے بھی رشوت میں بی ایم ڈبلیو لی تھی۔''
لیکن ان دو صوبوں میں بہرحال انتخابات ہونے چاہئیں اور وہ بھی نوے دنوں کے اندر، مگر سوال یہ آیا ہے کہ کیا یہ اسمبلی فطری طور پر ختم ہوئی ہے کہ نہیں؟ یہ آئینی طور پر تو ختم ہوئی ہیں کہ جو dissolve ہوئیں۔ کیا اس آئین پر آئین کی وہ ڈاکٹرائن لاگو ہوتی ہے کہ کوئی بھی مرتا ہوا آدمی اپنے آپ کو زندگی نہیں دے سکتا۔
برطانیہ میں جب شب خون آج سے ڈھائی سو سال پہلے جنرل کرام ویل نے مارا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی پارلیمینٹ اپنی مدت پورا کرنے کے بعد بھی جا نہیں رہی تھی اور قانون پاس کر کے اپنی مدت بڑھا رہی تھی ، ہمارے پاس بھی گورنر غلام محمد کے زمانوں میں یہی ہوا ، بلکہ لیاقت علی خان بھی آئین دینے سے کترا گئے اور اب یہ حکومت یا الیکشن کمیشن دو صوبوں میں انتخابات وقت پر نہیں کروانا چاہتے۔
اور اگر انتخابات ہو بھی گئے اور اگر خان صاحب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی طرح ہار بھی گئے تو پھر کیا ہوگا ؟ اب جیل بھرو تحریک ناکام گئی ہے توکیا اس کو ایک طرح سے اشارہ نہ سمجھیں کہ خان صاحب الیکشن ہاریں گے ، مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب پھر دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹیں گے، پنکچروں کی بات کرینگے۔
آمریتیں اب اسٹیبلشمنٹ کے اندر نہیں ہے، وہ اب باہر سے لڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کو اب بھی کچھ لوگ اندر سے مدد کر رہے ہوں لیکن ایسی مدد خان صاحب کو واپس نہیں لاسکتی البتہ اس ملک کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ جب جسٹس ثاقب نثار حرکت میں تھے اور جمہوریت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ،ایک اقامہ کے نام پر اور جو 2018 میں دھاندلی کرکے خان صاحب کو لائے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ معیشت کو مضبوط کریں کہ وہ اپنے تجوریاں بھر کے چلے گئے اور پاکستان کا غریب ، بھوک و افلاس کے ہاتھوں مارا گیا۔
تب ہی تو حبیب جالب نے کہا تھا۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
کورٹ تشریح کیسے کرتی جب تک آزاد نہ ہو ، آزاد کیسے ہوتی کہ جہاں ابھی یہ نقطہ حل ہی نہیں ہوا کہ سول سپرمیسی ہوگی یا غیر سول۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا کوئی اور۔ یہ بات دو چار لوگوں کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کے بحث کرنے سے اب بڑی ہوگئی ہے۔ یہ خانہ جنگی کی ایک شکل ہے۔
ہر خانہ جنگی اگر آرگنائز ہو تو وہ انقلاب کہلاتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہر انقلاب درست ہو، وہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے بحرانوں سے نئی لیڈر شپ پیدا ہوتی ہے۔ پھرآئین دیا جاتا ہے اور ریاست کو آگے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ امریکا میں سول وار ہوئی، پھر آئین ملا، پھر سول وار ہوئی، پھر آئین میں ترامیم ہوئیں۔ 1947 میں بھی ایک شدید سیاسی بحران پیدا ہوا۔
ہندوستان ٹوٹ گیا، 1971 میں شدید سیاسی بحران پیدا ہوا اور نتیجتا پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور اب پچاس سال بعد پھر وہی بحران پیدا ہوا ہے جب کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین آئین موجود ہے تمام مثبت اور منفی ترامیم کے بعد ، نظریہ ضرورت اور سپریم کورٹ کے انتہائی متضاد فیصلوں کے بعد بھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بھی ، بے نظیر بھٹو کے راولپنڈی کے تاریک راہوں پر مارے جانے کے بعد بھی، کئی ہجر و جلاوطنیوں کے بعد بھی۔ اگر ہمیں دوبارہ آئین بنانا بھی پڑ جائے تو اس میں بھی ہمیں یہی کچھ ڈالنا پڑجائے گا ورنہ ہر وہ آئین جو آئین کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، وہ ایوب کے دیے ہوئے آئین کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ کوئی سندھیوں، بلوچوں، پختونوں کی حق حکمرانی کی بحث یا لڑائی نہیں ہے۔ یہ دراصل ان قوتوں کا جھگڑا ہے جو 1971 کے سانحہ کی ذمے دار بھی ہیں اور اب مگرمچھ کے آنسو بھی روتی ہیں۔ بلآخر ولی خان کو کہنا پڑا کہ '' آخری جنگ پنجاب لڑے گا ، ان قوتوں سے جو آمریت پسند ہیں، جو آمریتوں کی پیداوار ہیں۔'' آج پنجاب یہی کام کررہا ہے۔
1973 سے پہلے رہنے دیتے ہیں، آئین کے بعد کی بات کرتے ہیں۔ کیا ہوتا اگر بھٹو کو چلنے دیا جاتا ، ضیاء الحق صاحب نہ آتے؟ جنرل مشرف آتا نہ عمران خان والا ہائبرڈ نظام آتا۔ اگر ہندوستان کے پاس آج چھ سو ارب روپے ہیں تو ہمارے پاس بھی دو سو ارب ڈالرکے بیرونی ذخائر ہوتے۔ ہم بیلٹ باکس کے تحت چلتے، فوج یا عدلیہ حکومتیں بناتے نہ بگاڑتے۔ ججز کی تعیناتی میں پارلیمینٹری کمیٹی کا بھی ایک فعال کردار ہوتا۔ہماری تاریخ میں شیخ مجیب ایک سبق کی مانند ہے۔
ہمارے ملک کے بیانیے میں خود ایک اور بیانیہ موجود ہے، جو یہ کہتا ہے کہ جب آپ عوام کے فیصلوں کو نہیں مانو گے تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں۔ بنگالی نہیں گئے بلکہ ایک جمہوری قوت تھی جو چلی گئی تھی۔ وہ جمہوری قوت جو ایوب کے سامنے فاطمہ جناح کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پر کھڑی تھی جب کہ بھٹو ایوب کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس وقت ایوب کے خلاف جدوجہد اس طرح تھی جس طرح وکلا ء جنرل مشرف کے خلاف نکل آئے تھے۔ جس کو جنرل کیانی کا بھی آشیرواد تھا۔ بھٹو کے خلاف بھی پی این اے نکل آئی تھی جن کو سی آئی اے کا آشیرواد تھا۔
جنرل ضیاء الحق کو بھی ان کا آشیر واد تھا۔ ایک بین الاقوامی تناظر میں سرد جنگ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہماری عکسری قیادت پھر سیاست سے نہ نکل سکی۔ جنرل حمید گل چیف آف آرمی اسٹاف نہ بن سکے لیکن نظریہ ان کا چلتا رہا۔ عمران خان صاحب ان کے ہی جانشین ہیںب، یہ تو خان صاحب ٹرمپ سے ملاقات میں مان کے آئے تھے ، ہم نے افغان مجاہدین و طالبان سے تعلق برقرار رکھے 9/11 کے بعد بھی۔ اسامہ بن لادن بھی یہیں ہمارے ملک میں مارا گیا۔
ہماری معیشت کا کیا ؟ وہ توگئی کیونکہ ہم امداد کی معیشت رکھتے تھے ، جنگوں کا کاروبارکرتے تھے۔ ہمیں دراصل اس دلدل سے نکلنا تھا اور ہم نکل نہیں پا رہے۔ اب بھی افغان مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، وہ جنگ اب ہمارے وجود میں آچکی ہے۔ ایک طرف سیاسی انارکی پیدا کی جارہی ہے، دہشت گردی پرانے زخموں کی طرح پھر سے کھل پڑی ہے، معیشت ہمارے کنٹرول میں نہیں، عدلیہ کی ترجیحات میں یہ مسائل شامل نہیں۔
بھلے وہ طاقتیں اس نظام کو نہ چلنے دیں، بھلے آپ کہتے رہیں خان صاحب مقبول ہیں مگر وہ 2018 میں زیر دست دھاندلی کی پیداوار ہیں۔ بھلے یہ جو کچھ بھی ہے وہ اچانک نہیں ہوا لیکن خان صاحب کا دور حکومت ایک تباہ کن زلزلے کی طرح تھا۔ وہ سب جو کل تک آمریتوں کے ساتھ تھے، وہ سب ان کے ساتھ ہیں۔
اب اپر میڈل کلاس کا مخصوص گروپ بھی آگے ہے، یہ مہنگے نجی اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا پیدا کردہ گروپ ہے، اپنے لباس اور عادات و معاشرت میں یورپی ہے لیکن سوچ و فکر کے اعتبار سے انتہاپسند اور بدتمیز ہے، اس اپر مڈل کلاس گروپ میں ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کی اولاد یں، ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور ان کے خاندان کے افراد، شوبز کے لوگ شامل ہیں، یہ گروپ عمران کا سیاسی حامی نہیں ہے بلکہ اس کا دیوانہ ہے۔
اس بیانیہ کی تیارکردہ فصل ہے جو آمریتوں نے سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈے سے بنی ہے کہ جو ان جیسا نہیں ہے، وہ کرپٹ،کم عقل اور جاہل ہے۔ کچھ دنوں پہلے کے ایل ایف کے پروگرام میں مفتاح اسماعیل نے منہ توڑ جواب دیا جب کسی نے اس سے سوال کرتے پوچھا کہ '' آپ نے بھی رشوت میں بی ایم ڈبلیو لی تھی۔''
لیکن ان دو صوبوں میں بہرحال انتخابات ہونے چاہئیں اور وہ بھی نوے دنوں کے اندر، مگر سوال یہ آیا ہے کہ کیا یہ اسمبلی فطری طور پر ختم ہوئی ہے کہ نہیں؟ یہ آئینی طور پر تو ختم ہوئی ہیں کہ جو dissolve ہوئیں۔ کیا اس آئین پر آئین کی وہ ڈاکٹرائن لاگو ہوتی ہے کہ کوئی بھی مرتا ہوا آدمی اپنے آپ کو زندگی نہیں دے سکتا۔
برطانیہ میں جب شب خون آج سے ڈھائی سو سال پہلے جنرل کرام ویل نے مارا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی پارلیمینٹ اپنی مدت پورا کرنے کے بعد بھی جا نہیں رہی تھی اور قانون پاس کر کے اپنی مدت بڑھا رہی تھی ، ہمارے پاس بھی گورنر غلام محمد کے زمانوں میں یہی ہوا ، بلکہ لیاقت علی خان بھی آئین دینے سے کترا گئے اور اب یہ حکومت یا الیکشن کمیشن دو صوبوں میں انتخابات وقت پر نہیں کروانا چاہتے۔
اور اگر انتخابات ہو بھی گئے اور اگر خان صاحب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی طرح ہار بھی گئے تو پھر کیا ہوگا ؟ اب جیل بھرو تحریک ناکام گئی ہے توکیا اس کو ایک طرح سے اشارہ نہ سمجھیں کہ خان صاحب الیکشن ہاریں گے ، مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب پھر دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹیں گے، پنکچروں کی بات کرینگے۔
آمریتیں اب اسٹیبلشمنٹ کے اندر نہیں ہے، وہ اب باہر سے لڑ رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ ان کو اب بھی کچھ لوگ اندر سے مدد کر رہے ہوں لیکن ایسی مدد خان صاحب کو واپس نہیں لاسکتی البتہ اس ملک کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ جب جسٹس ثاقب نثار حرکت میں تھے اور جمہوریت کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ،ایک اقامہ کے نام پر اور جو 2018 میں دھاندلی کرکے خان صاحب کو لائے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ معیشت کو مضبوط کریں کہ وہ اپنے تجوریاں بھر کے چلے گئے اور پاکستان کا غریب ، بھوک و افلاس کے ہاتھوں مارا گیا۔
تب ہی تو حبیب جالب نے کہا تھا۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا