ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا
ملک میں یہ کہا تو ہمیشہ جاتا تھا کہ پاکستان میں حکومتیں امریکا کی مرضی سے آتی اور جاتی رہی ہیں
تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے نئے بیانیے میں کہا ہے کہ انھیں اب پتا چلا ہے کہ میری حکومت امریکا نے نہیں یہاں کی مقتدر قوت نے گرائی، جن کے جانے کے بعد اب پتا چلا کہ سازش پاکستان سے امریکا ایکسپورٹ ہوئی۔
یہ قوت سپر کنگ اور میں پنچنگ بیگ تھا۔ ساری طاقت اس کے پاس تھی اور خرابیوں کا ذمے دار مجھے ٹھہرایا جاتا تھا۔ اب میری نظریں عدلیہ پر مرکوز ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کے اپنے تمام بیانیے دفن ہوچکے اور اب وہ عدلیہ کے گھوڑے پر بیٹھ کر واپس آنا چاہتا ہے جو پہلے امریکا پر الزام لگاتا تھا اب جنرل باجوہ کے جانے کے بعد نیا الزام لگا رہا ہے اور امریکا سے معافی مانگ کر عمران خان نے نیا الزام بھی وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں لگایا ہے۔
ملک میں یہ کہا تو ہمیشہ جاتا تھا کہ پاکستان میں حکومتیں امریکا کی مرضی سے آتی اور جاتی رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہر حکومت کے آنے جانے میں مقتدر قوتوں کا کردار ہوا کرتا ہے۔ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ موجودہ حکومت امپورٹڈ ہے جو امریکا کی سازش سے آئی جس کا ثبوت سائفر ہے ۔
سینیٹ میں ایک مبینہ ریمارکس پر دوبارہ احتجاج ہوا کہ یہ ریمارکس ملک کی پارلیمنٹ اور جمہوریت کے لیے مناسب نہیں ۔ ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
اس بیان کے حوالے سے میڈیا میں کہا گیا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ نامکمل رکھاگیا ہے اور پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی متنازع ہورہی ہے۔ ملکی مسائل کا حل عوامی فیصلے سے ہی ممکن ہے۔ عمران عام فرد نہیں عوام کی بڑی تعداد اب بھی ان کے ساتھ ہے۔
سینیٹ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا چار روز بعد کہنا تھا کہ بیان میں ایسا نہیں کہا گیا۔ اٹارنی جنرل کے ایک خط کے حوالے سے وزیر قانون نے کہا کہ اے جی کورٹ میں موجود تھے اور بیان میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل کو یہ وضاحت چار روز بعد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔
عمران خان کی حکومت ختم ہوئے نو ماہ گزرچکے ہیں جس کے دوران انھوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کی متعدد وجوہ بیان کیں اور اب نو ماہ بعد انھیں پتا چلا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکا نہیں بلکہ کوئی دوسری قوت تھی۔
حکومت کے وزیروں کا مسلسل موقف رہا ہے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے ذمے دار وہ خود تھے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف تحریک عدم کی ووٹ شماری ہوئی اور پارلیمنٹ نے ان کے خلاف آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد منظور کر کے اقتدار سے باہر کیا تھا۔
عمران حکومت کے اتحادیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپوزیشن سے آکر مل گئے تھے۔ پی ٹی آئی کے کسی رکن قومی اسمبلی نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں نے عمران خان کو ہٹایا جو ایک مکمل آئینی عمل تھا۔
1973کے آئین میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم کا طریقہ موجود ہے جس کے تحت عمران خان اقتدار سے ہٹائے جانے والے پہلے وزیر اعظم تھے۔
عمران خان سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو مارشل لاء یا 58-2/Bکے تحت اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا اور صرف بھٹو مرحوم ہی کی طرف سے اپنے ہٹانے کا الزام امریکا پر لگایا گیا تھا۔
عمران خان ملک کے واحد سیاسی رہنما ہیں جنھیں بعض اداروں نے صادق و امین قرار دیا تھا جس پر پانچ سال بعد بھی اعتراضات ہورہے ہیں کیونکہ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے کسی وزیر اعظم کو ایماندار قرار نہیں دیا گیا تھا اور پہلی بار ایسا ہوا کہ متنازعہ شہرت کے حامل عمران خان صادق و امین قرار پائے اور صرف ایک وزیر اعظم کو مبینہ طور پر ایماندار کہاگیا جو اگر محمد خان جونیجو تھے تو یہ کہا گیا ریمارکس غلط بھی نہیں ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی کو چور، ڈاکو، بدعنوان یا مجرم قرار دینے کا مکمل اختیار عدلیہ کا ہے عمران خان یا کسی اور سیاستدان کو یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ خود جج بن کر اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو، کرپٹ یا غدار قرار دے مگر ملک میں پہلی بار ہوا کہ عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز ہی اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو کہہ کر کیا اور اپنے اقتدار کے پونے چار سالوں میں انھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرایا مگر کسی پر عدالت میں کرپشن ثابت نہ کی جاسکی اور سب ضمانتوں پر کچھ عدالتی فیصلوں سے چھوٹ گئے۔
ملک میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی رہنما صادق و امین قرار پایا ہو اور کسی وزیر اعظم کو پاناما میں نام نہ ہونے کے باوجود اقامہ میں تاحیات نااہل کیاگیا ہو اور پہلی بار کسی ادارے کی جانب سے کسی سابق وزیر اعظم کو ان کے انتقال کے بعد ایماندار قرار دیاگیا ہو۔ بہتر ہوتا کہ اس ایماندار وزیراعظم کا نام بھی بتا دیا جاتا۔
75سالوں میں ملک کے تمام وزرائے اعظم ملک کے گورنر جنرل غیر سویلین یا سویلین صدور کے ہاتھوں برطرف یا تبدیل ہوئے اور 2013 سے 2017تک منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف عدالت کے ذریعے نااہل قرار پائے ہوں جب کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ملک میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا حکم دیا اور سالوں میں کوئی دوسرا اس عدالتی فیصلے پر عمل نہ کراسکا یہ تو ہوا کہ ہر رہنما نے اپنی مرضی کے فیصلے کو انصاف کے مطابق اور مخالف آنے والے فیصلے کو چمک یا دباؤ کا یکطرفہ فیصلہ قرار دیا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا اس قدر بوجھ بڑھا ہوا۔ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہوں اور فیصلوں پر جانب داری کے الزامات نہ لگتے ہوں۔
یہ قوت سپر کنگ اور میں پنچنگ بیگ تھا۔ ساری طاقت اس کے پاس تھی اور خرابیوں کا ذمے دار مجھے ٹھہرایا جاتا تھا۔ اب میری نظریں عدلیہ پر مرکوز ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو جواب دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کے اپنے تمام بیانیے دفن ہوچکے اور اب وہ عدلیہ کے گھوڑے پر بیٹھ کر واپس آنا چاہتا ہے جو پہلے امریکا پر الزام لگاتا تھا اب جنرل باجوہ کے جانے کے بعد نیا الزام لگا رہا ہے اور امریکا سے معافی مانگ کر عمران خان نے نیا الزام بھی وائس آف امریکا کو دیے گئے انٹرویو میں لگایا ہے۔
ملک میں یہ کہا تو ہمیشہ جاتا تھا کہ پاکستان میں حکومتیں امریکا کی مرضی سے آتی اور جاتی رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہر حکومت کے آنے جانے میں مقتدر قوتوں کا کردار ہوا کرتا ہے۔ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ موجودہ حکومت امپورٹڈ ہے جو امریکا کی سازش سے آئی جس کا ثبوت سائفر ہے ۔
سینیٹ میں ایک مبینہ ریمارکس پر دوبارہ احتجاج ہوا کہ یہ ریمارکس ملک کی پارلیمنٹ اور جمہوریت کے لیے مناسب نہیں ۔ ادارے ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
اس بیان کے حوالے سے میڈیا میں کہا گیا کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ نامکمل رکھاگیا ہے اور پارلیمنٹ میں قانون سازی بھی متنازع ہورہی ہے۔ ملکی مسائل کا حل عوامی فیصلے سے ہی ممکن ہے۔ عمران عام فرد نہیں عوام کی بڑی تعداد اب بھی ان کے ساتھ ہے۔
سینیٹ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا چار روز بعد کہنا تھا کہ بیان میں ایسا نہیں کہا گیا۔ اٹارنی جنرل کے ایک خط کے حوالے سے وزیر قانون نے کہا کہ اے جی کورٹ میں موجود تھے اور بیان میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل کو یہ وضاحت چار روز بعد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔
عمران خان کی حکومت ختم ہوئے نو ماہ گزرچکے ہیں جس کے دوران انھوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کی متعدد وجوہ بیان کیں اور اب نو ماہ بعد انھیں پتا چلا کہ ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکا نہیں بلکہ کوئی دوسری قوت تھی۔
حکومت کے وزیروں کا مسلسل موقف رہا ہے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے ذمے دار وہ خود تھے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ان کے خلاف تحریک عدم کی ووٹ شماری ہوئی اور پارلیمنٹ نے ان کے خلاف آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد منظور کر کے اقتدار سے باہر کیا تھا۔
عمران حکومت کے اتحادیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپوزیشن سے آکر مل گئے تھے۔ پی ٹی آئی کے کسی رکن قومی اسمبلی نے نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں نے عمران خان کو ہٹایا جو ایک مکمل آئینی عمل تھا۔
1973کے آئین میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم کا طریقہ موجود ہے جس کے تحت عمران خان اقتدار سے ہٹائے جانے والے پہلے وزیر اعظم تھے۔
عمران خان سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو مارشل لاء یا 58-2/Bکے تحت اقتدار سے برطرف کیا گیا تھا اور صرف بھٹو مرحوم ہی کی طرف سے اپنے ہٹانے کا الزام امریکا پر لگایا گیا تھا۔
عمران خان ملک کے واحد سیاسی رہنما ہیں جنھیں بعض اداروں نے صادق و امین قرار دیا تھا جس پر پانچ سال بعد بھی اعتراضات ہورہے ہیں کیونکہ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے کسی وزیر اعظم کو ایماندار قرار نہیں دیا گیا تھا اور پہلی بار ایسا ہوا کہ متنازعہ شہرت کے حامل عمران خان صادق و امین قرار پائے اور صرف ایک وزیر اعظم کو مبینہ طور پر ایماندار کہاگیا جو اگر محمد خان جونیجو تھے تو یہ کہا گیا ریمارکس غلط بھی نہیں ہے۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی کو چور، ڈاکو، بدعنوان یا مجرم قرار دینے کا مکمل اختیار عدلیہ کا ہے عمران خان یا کسی اور سیاستدان کو یہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ خود جج بن کر اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو، کرپٹ یا غدار قرار دے مگر ملک میں پہلی بار ہوا کہ عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز ہی اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو کہہ کر کیا اور اپنے اقتدار کے پونے چار سالوں میں انھوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرایا مگر کسی پر عدالت میں کرپشن ثابت نہ کی جاسکی اور سب ضمانتوں پر کچھ عدالتی فیصلوں سے چھوٹ گئے۔
ملک میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی رہنما صادق و امین قرار پایا ہو اور کسی وزیر اعظم کو پاناما میں نام نہ ہونے کے باوجود اقامہ میں تاحیات نااہل کیاگیا ہو اور پہلی بار کسی ادارے کی جانب سے کسی سابق وزیر اعظم کو ان کے انتقال کے بعد ایماندار قرار دیاگیا ہو۔ بہتر ہوتا کہ اس ایماندار وزیراعظم کا نام بھی بتا دیا جاتا۔
75سالوں میں ملک کے تمام وزرائے اعظم ملک کے گورنر جنرل غیر سویلین یا سویلین صدور کے ہاتھوں برطرف یا تبدیل ہوئے اور 2013 سے 2017تک منتخب وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف عدالت کے ذریعے نااہل قرار پائے ہوں جب کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ملک میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کا حکم دیا اور سالوں میں کوئی دوسرا اس عدالتی فیصلے پر عمل نہ کراسکا یہ تو ہوا کہ ہر رہنما نے اپنی مرضی کے فیصلے کو انصاف کے مطابق اور مخالف آنے والے فیصلے کو چمک یا دباؤ کا یکطرفہ فیصلہ قرار دیا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا اس قدر بوجھ بڑھا ہوا۔ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات زیر سماعت ہوں اور فیصلوں پر جانب داری کے الزامات نہ لگتے ہوں۔