غیر جمہوری قوتوں کے مدد گارمہرے
ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع اُسے 2018 تک نصیب نہیں ہوا تھا
ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم آزاد اور خود مختار جمہوریت کے نعرے تو بہت لگاتے رہتے ہیں لیکن ہر دور میں ہمارے سیاستدانوں میں ہی سے ایک فریق پس پردہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ملکر جمہوریت کے خلاف سازشیں اور ساز بازیاں بھی کرتا رہتا ہے۔
خوش قسمتی سے ہماری غیر جمہوری قوتوں کو ہمیشہ ہمارے اندر ہی سے ایک مہرہ ضرور مل جاتاہے یا وہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کی تشکیل کردیتی ہیں۔
جنرل ضیاء دور سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے ، سیاستدانوں کے میر جعفر اور میر صادق ہر دور میں موجود بھی رہے اور پروان بھی چڑھتے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کبھی بھی مکمل طور پر اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکی اور ہمیشہ خطرات سے دوچار ہوتی رہی۔
یہ خطرات آج بھی موجود ہیں گرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے زمانے کی ٹھوکریں کھا کر کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کرلیا ہے اور اب کسی حد تک غیر جمہوری قوتوں سے خود کو دور رکھنے کی حتی المقدور کوششیں کرتی رہتی ہیں ، مگر ایک نیا فریق جس نے سیاست میں ابھی تک وہ ٹھوکریں نہیں کھائی ہیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتیں کھا چکی ہیں اپنے غیر ذمے دارانہ طرز عمل کی وجہ سے جمہوریت کے لیے ہنوز خطرہ بنا ہوا ہے ، وہ غیر جمہوری قوتوں کے بجائے جمہوری اور سیاسی قوتوں ہی سے نبرد آزما ہے۔
وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے پر راضی اور رضا مند بھی نہیں ہے اور بس اپنی مرضی چلا کر صرف اپنے حق میں فیصلے حاصل کروانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔
وہ اپنے علاوہ ہر کسی کو چور اور ڈاکو سمجھتا ہے یا صرف سیاست میں محض بیان بازی کے طور اس بیانیہ کو اپنا طرہ امتیاز بنائے ہوئے ہے ، حالانکہ سیاست کے اس حمام میں وہ بھی اب اتنا ہی برہنہ ہوچکا ہے جتنا کہ دوسرے فریق۔ کہنے کو وہ 26 سالوں سے سیاسی جدوجہد کر رہا ہے لیکن 2011 تک تو وہ کسی بھی گنتی میں نہیں تھا۔
قومی انتخابات میں صرف ایک نشست جیت کر وہ اپنی پارسائی اور نیک نیتی کے دعوے بھی کرتا رہتا تھا اور اندرون خانہ مقتدر قوتوں کی سپورٹ اور حمایت بھی حاصل کرنے کی کوششیں کرتا رہتا تھا۔
ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقعہ اُسے 2018 تک نصیب نہیں ہوا تھا شاید اس لیے اس پر مالی بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں لگ پایا تھا ، مگر اس کا دامن بھی اقتدار ملتے ہی ویسے ہی داغدار ہوگیا جیسے دوسرے سیاستدانوں کا ہوچکا تھا۔
2011میں پس پردہ قوتوں کے بل ہوتے پر جب وہ عوامی پذیرائی سے لطف اندوز اور فیضیاب ہونے لگا تو اسے وہ اپنی ذاتی قابلیت اور کامیابی سمجھنے لگا۔
وہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ سب کچھ اُس کی اپنی کوششوں کا ثمر ہے۔ جس جدوجہد کا آغاز اس نے 1996 میں شروع کیا تھا وہ اب نتیجہ خیز ثابت ہونے لگی ہے ، حالانکہ اُسے اس مقام پر پہنچانے والے بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اگر نہ ہوتے تو یہ شخص ابھی تک ویرانوں اور بیابانوں میں ہی بھٹک رہا ہوتا۔
انھوں نے ایک ایسے شخص کو اقتدار دلوا کے خود کش بمبار بنادیا ہے جو اپنے علاوہ کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتا۔ خود اس کے بقول اس نے ہارنا سیکھا ہی نہیں ہے۔
وہ جب بھی کھیلتا ہے صرف جیتنے کے لیے ہی کھیلتا ہے۔ ہار کو تسلیم کرنا اس کی صفت میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جیت کی طرح ہار بھی ہر کھیل کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اُسے تسلیم کرنے والے ہی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے والے گردانے جاتے ہیں ، جس شخص میں یہ اسپرٹ نہ ہو اُسے اچھا کھلاڑی سمجھا ہی نہیں جاتا۔
ہم سب آج بھی ایک ایسے ہی شخص کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ وہ جب چاہتا ہے ساری قوم کو اپنی انگلیوں پر نچانے لگتا ہے۔
وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیکر باہر نکل آئے تو اس کو اپنا لیڈر ماننے والے واہ واہ کرتے ہوئے اس کے اس عمل کو زبردست اسٹروک اور سر پرائز قرار دینے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد وہ استعفیٰ واپس لے کر پھر اسمبلی میں جانے کا اعلان کر بیٹھے تو بھی لوگ اُسے اس کی ذہانت اور قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔
وہ چار مہینوں سے ایک ٹانگ میں پلاسٹر چڑھا کر نوٹنکیاں کرتا رہے تو بھی لوگ اس کو اس حرکت کو سچ مانتے ہوئے اسے مظلوم اور بیچارہ کہتے رہتے ہیں۔ معزز عدلیہ بھی اسے کسی دوسرے اسپتال سے معائنہ کروانے کے بجائے اس کی اِن ڈرامہ بازیوں پر یقین کرتے ہوئے اسے ہر پیشی پر مہلت پر مہلت دیتی رہتی ہے۔
یہ ہے اس ملک کا اصل المیہ۔ یہاں ایک فریق کو کسی قسم کی کوئی مہلت دینا بھی عدلیہ کو گوارہ نہیں اور جب کہ وہ کسی دوسرے فریق کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار بیٹھی رہے۔
وہ اگر کسی جنرل کو اپنا ہمدرد اور ہمنوا کہے تو بھی سچ ہے اور وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن کہنے لگے تو بھی درست اور صحیح ۔ وہ کبھی اسے تاحیات ایکسٹینشن دینے کی باتیں کرنے لگے اور دوسرے ہی لمحہ اسے مغلظات سے نوازنے لگے تو بھی اس کے پیروکار اسے دیوانہ قرار دینے کے بجائے انتہائی ذہین اور فطین سمجھتے رہتے ہیں۔
وہ کبھی لانگ مارچ ، کبھی لاک ڈاؤن اور کبھی ڈی چوک پر دھرنا یا پھر کبھی جیل بھرو تحریک شروع کرکے قوم کا بلاوجہ وقت ضایع کرتا رہے اور اسے ہیجان میں بھی مبتلا کرتا رہے تو کوئی اسے روکنے اور ٹوکنے والا بھی نہیں۔
وہ اس ملک کے کسی ادارے کو نہیں مانتا ہو ، نہ پارلیمنٹ کو ، نہ عدلیہ کو اور نہ الیکشن کمیشن کو ، مگر پھر بھی انھی اداروں کے تحت نئے الیکشن کا مطالبہ بھی کرتا رہتا ہو تو ایسے شخص کو ہم کیا کوئی سنجیدہ اور صاحب بصیرت سیاستدان قرار دے سکتے ہیں۔ اس شخص نے دراصل اپنے سارے آپشنز کھول رکھے ہیں۔
الیکشن میں جیت جائے تو بھلے بھلے ، اور اگر ہار جائے تو نتائج ماننے سے انکار۔ الیکشن کمیشن جانبدار اور مبینہ دھاندلی کا غلغلہ اور شور۔ قوم کا الیکشن پر اربوں روپیہ ضایع کروا کے بھی بحران جوں کا توں برقرار۔
اس کے اس طرز عمل سے مختلف حلقوں میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ شخص الیکشن کے بعد بھی ہارنے کی صورت میں ملک میں سیاسی استحکام قائم ہونے نہیں دے گا۔
اس کا ایجنڈا کچھ اور ہی ہے، وہ سادہ اکثریت سے جیت گیا تو دو تہائی اکثریت کا مطالبہ اور ہار گیا تو احتجاج کا ایک نیا سلسلہ پھر سے شروع۔ مقصد انارکی اور انتشار پھیلاتے رہنا ہی ہے۔ قوم اگر سکون سے بیٹھ گئی تو اس شخص کی ساری سیاست ختم ہوکر رہ جائے گی۔
اس کا روز روز میڈیا پر آکر خطاب کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کہیں عوام اسے اپنے ذہنوں سے نکال نہیں دیں۔ ویسے ہر روز ایک ہی قسم کا طرز تخاطب اور پرانی باتوں کا دہرانا قوم کی عدم دلچسپی کا باعث بھی بننے لگا ہے۔
رفتہ رفتہ عوام اس کے اس طرز عمل سے اب اکتانے بھی لگے ہیں ، جیل بھرو تحریک کی ناکامی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام کی طرف سے عدم دلچسپی اور عدم توجہ ہی ان جیسے سیاستدانوں کا واحد علاج ہے۔
زبردستی نااہل قرار دلوانا یا قید میں ڈالنا اُن جیسوں کے لیے تو بڑا سود مند ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس آپشن پر عمل کرنے سے ضرور اور لازمی اجتناب برتے۔
خوش قسمتی سے ہماری غیر جمہوری قوتوں کو ہمیشہ ہمارے اندر ہی سے ایک مہرہ ضرور مل جاتاہے یا وہ خود اپنے ہاتھوں سے اس کی تشکیل کردیتی ہیں۔
جنرل ضیاء دور سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا آیا ہے ، سیاستدانوں کے میر جعفر اور میر صادق ہر دور میں موجود بھی رہے اور پروان بھی چڑھتے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کبھی بھی مکمل طور پر اپنی جڑیں مضبوط نہیں کرسکی اور ہمیشہ خطرات سے دوچار ہوتی رہی۔
یہ خطرات آج بھی موجود ہیں گرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے زمانے کی ٹھوکریں کھا کر کچھ نہ کچھ سبق ضرور حاصل کرلیا ہے اور اب کسی حد تک غیر جمہوری قوتوں سے خود کو دور رکھنے کی حتی المقدور کوششیں کرتی رہتی ہیں ، مگر ایک نیا فریق جس نے سیاست میں ابھی تک وہ ٹھوکریں نہیں کھائی ہیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتیں کھا چکی ہیں اپنے غیر ذمے دارانہ طرز عمل کی وجہ سے جمہوریت کے لیے ہنوز خطرہ بنا ہوا ہے ، وہ غیر جمہوری قوتوں کے بجائے جمہوری اور سیاسی قوتوں ہی سے نبرد آزما ہے۔
وہ کسی کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے پر راضی اور رضا مند بھی نہیں ہے اور بس اپنی مرضی چلا کر صرف اپنے حق میں فیصلے حاصل کروانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔
وہ اپنے علاوہ ہر کسی کو چور اور ڈاکو سمجھتا ہے یا صرف سیاست میں محض بیان بازی کے طور اس بیانیہ کو اپنا طرہ امتیاز بنائے ہوئے ہے ، حالانکہ سیاست کے اس حمام میں وہ بھی اب اتنا ہی برہنہ ہوچکا ہے جتنا کہ دوسرے فریق۔ کہنے کو وہ 26 سالوں سے سیاسی جدوجہد کر رہا ہے لیکن 2011 تک تو وہ کسی بھی گنتی میں نہیں تھا۔
قومی انتخابات میں صرف ایک نشست جیت کر وہ اپنی پارسائی اور نیک نیتی کے دعوے بھی کرتا رہتا تھا اور اندرون خانہ مقتدر قوتوں کی سپورٹ اور حمایت بھی حاصل کرنے کی کوششیں کرتا رہتا تھا۔
ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کا موقعہ اُسے 2018 تک نصیب نہیں ہوا تھا شاید اس لیے اس پر مالی بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں لگ پایا تھا ، مگر اس کا دامن بھی اقتدار ملتے ہی ویسے ہی داغدار ہوگیا جیسے دوسرے سیاستدانوں کا ہوچکا تھا۔
2011میں پس پردہ قوتوں کے بل ہوتے پر جب وہ عوامی پذیرائی سے لطف اندوز اور فیضیاب ہونے لگا تو اسے وہ اپنی ذاتی قابلیت اور کامیابی سمجھنے لگا۔
وہ یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ سب کچھ اُس کی اپنی کوششوں کا ثمر ہے۔ جس جدوجہد کا آغاز اس نے 1996 میں شروع کیا تھا وہ اب نتیجہ خیز ثابت ہونے لگی ہے ، حالانکہ اُسے اس مقام پر پہنچانے والے بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اگر نہ ہوتے تو یہ شخص ابھی تک ویرانوں اور بیابانوں میں ہی بھٹک رہا ہوتا۔
انھوں نے ایک ایسے شخص کو اقتدار دلوا کے خود کش بمبار بنادیا ہے جو اپنے علاوہ کسی اور کو خاطر میں نہیں لاتا۔ خود اس کے بقول اس نے ہارنا سیکھا ہی نہیں ہے۔
وہ جب بھی کھیلتا ہے صرف جیتنے کے لیے ہی کھیلتا ہے۔ ہار کو تسلیم کرنا اس کی صفت میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جیت کی طرح ہار بھی ہر کھیل کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اُسے تسلیم کرنے والے ہی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرنے والے گردانے جاتے ہیں ، جس شخص میں یہ اسپرٹ نہ ہو اُسے اچھا کھلاڑی سمجھا ہی نہیں جاتا۔
ہم سب آج بھی ایک ایسے ہی شخص کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ وہ جب چاہتا ہے ساری قوم کو اپنی انگلیوں پر نچانے لگتا ہے۔
وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیکر باہر نکل آئے تو اس کو اپنا لیڈر ماننے والے واہ واہ کرتے ہوئے اس کے اس عمل کو زبردست اسٹروک اور سر پرائز قرار دینے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد وہ استعفیٰ واپس لے کر پھر اسمبلی میں جانے کا اعلان کر بیٹھے تو بھی لوگ اُسے اس کی ذہانت اور قابلیت سمجھنے لگتے ہیں۔
وہ چار مہینوں سے ایک ٹانگ میں پلاسٹر چڑھا کر نوٹنکیاں کرتا رہے تو بھی لوگ اس کو اس حرکت کو سچ مانتے ہوئے اسے مظلوم اور بیچارہ کہتے رہتے ہیں۔ معزز عدلیہ بھی اسے کسی دوسرے اسپتال سے معائنہ کروانے کے بجائے اس کی اِن ڈرامہ بازیوں پر یقین کرتے ہوئے اسے ہر پیشی پر مہلت پر مہلت دیتی رہتی ہے۔
یہ ہے اس ملک کا اصل المیہ۔ یہاں ایک فریق کو کسی قسم کی کوئی مہلت دینا بھی عدلیہ کو گوارہ نہیں اور جب کہ وہ کسی دوسرے فریق کو ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار بیٹھی رہے۔
وہ اگر کسی جنرل کو اپنا ہمدرد اور ہمنوا کہے تو بھی سچ ہے اور وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن کہنے لگے تو بھی درست اور صحیح ۔ وہ کبھی اسے تاحیات ایکسٹینشن دینے کی باتیں کرنے لگے اور دوسرے ہی لمحہ اسے مغلظات سے نوازنے لگے تو بھی اس کے پیروکار اسے دیوانہ قرار دینے کے بجائے انتہائی ذہین اور فطین سمجھتے رہتے ہیں۔
وہ کبھی لانگ مارچ ، کبھی لاک ڈاؤن اور کبھی ڈی چوک پر دھرنا یا پھر کبھی جیل بھرو تحریک شروع کرکے قوم کا بلاوجہ وقت ضایع کرتا رہے اور اسے ہیجان میں بھی مبتلا کرتا رہے تو کوئی اسے روکنے اور ٹوکنے والا بھی نہیں۔
وہ اس ملک کے کسی ادارے کو نہیں مانتا ہو ، نہ پارلیمنٹ کو ، نہ عدلیہ کو اور نہ الیکشن کمیشن کو ، مگر پھر بھی انھی اداروں کے تحت نئے الیکشن کا مطالبہ بھی کرتا رہتا ہو تو ایسے شخص کو ہم کیا کوئی سنجیدہ اور صاحب بصیرت سیاستدان قرار دے سکتے ہیں۔ اس شخص نے دراصل اپنے سارے آپشنز کھول رکھے ہیں۔
الیکشن میں جیت جائے تو بھلے بھلے ، اور اگر ہار جائے تو نتائج ماننے سے انکار۔ الیکشن کمیشن جانبدار اور مبینہ دھاندلی کا غلغلہ اور شور۔ قوم کا الیکشن پر اربوں روپیہ ضایع کروا کے بھی بحران جوں کا توں برقرار۔
اس کے اس طرز عمل سے مختلف حلقوں میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ شخص الیکشن کے بعد بھی ہارنے کی صورت میں ملک میں سیاسی استحکام قائم ہونے نہیں دے گا۔
اس کا ایجنڈا کچھ اور ہی ہے، وہ سادہ اکثریت سے جیت گیا تو دو تہائی اکثریت کا مطالبہ اور ہار گیا تو احتجاج کا ایک نیا سلسلہ پھر سے شروع۔ مقصد انارکی اور انتشار پھیلاتے رہنا ہی ہے۔ قوم اگر سکون سے بیٹھ گئی تو اس شخص کی ساری سیاست ختم ہوکر رہ جائے گی۔
اس کا روز روز میڈیا پر آکر خطاب کرنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ کہیں عوام اسے اپنے ذہنوں سے نکال نہیں دیں۔ ویسے ہر روز ایک ہی قسم کا طرز تخاطب اور پرانی باتوں کا دہرانا قوم کی عدم دلچسپی کا باعث بھی بننے لگا ہے۔
رفتہ رفتہ عوام اس کے اس طرز عمل سے اب اکتانے بھی لگے ہیں ، جیل بھرو تحریک کی ناکامی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوام کی طرف سے عدم دلچسپی اور عدم توجہ ہی ان جیسے سیاستدانوں کا واحد علاج ہے۔
زبردستی نااہل قرار دلوانا یا قید میں ڈالنا اُن جیسوں کے لیے تو بڑا سود مند ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس آپشن پر عمل کرنے سے ضرور اور لازمی اجتناب برتے۔