اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے جسٹس اطہر من اللہ
کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے، جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی اور قانونی حیثیت دیکھنا نا گزیر ہے۔
انتخابات از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: انتخابات از خود نوٹس کیس؛ سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے 4 جج الگ ہوگئے
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔ ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے۔کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں۔ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے؟
انتخابات از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں دیا گیا آرڈر تحریری حکم نامے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسمبلیاں توڑنے کی آئینی وقانونی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیا صوبائی اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کر توڑی گئیں؟ ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔
مزید پڑھیں: انتخابات از خود نوٹس کیس؛ سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے 4 جج الگ ہوگئے
انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی سے متعلق ہیں۔ ہمارے سامنے آنے والا معاملہ پہلے ہی صوبائی آئینی عدالت کے سامنے موجود ہے۔ اس معاملے کا سپریم کورٹ آنا ابھی قبل از وقت ہے۔کسی اور معاملے کو دیکھنے سے پہلے چیف جسٹس نے مجھ سے اس معاملے پر سوالات مانگے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا صوبائی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیار ہے جس کی آئینی وجوہات کو دیکھنا ضروری نہیں۔ کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پر اسمبلی توڑ سکتا ہے یا کسی کی رائے پر؟ کیا کسی بنیاد پر وزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو آئینی طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے اور اسمبلی بحال کی جاسکتی ہے؟