اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا
معاہدے کے تحت اسرائیل آئندہ 6 ماہ تک نئی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری نہیں دے گا
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت اسرائیل آئندہ 6 ماہ تک کسی بھی نئی بستی کی آبادکای کی منظوری نہیں دے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق معاہدے میں یہ طے بھی پایا ہے کہ 4 ماہ کے لیے کسی بھی نئے سیٹلمنٹ یونٹس کے قیام پر بات چیت نہیں ہوگی جب کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو چھ ماہ کے لیے روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
اردن میں ہونے والے مذاکرات میں اسرائیل اور فلسطینی حکام نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کو کم کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر عمل درآمد کا عہد بھی کیا اور رمضان میں ہونے والی ممکنہ کشیدگی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ خبر پڑھیں : رمضان کے آخری عشرے میں یہودیوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی
یاد رہے کہ ماہ رمضان میں دنیا بھر سے مسلمان بڑی تعداد میں عبادت کے لیے مسجد اقصیٰ آتے ہیں اس لیے آخری عشرے میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے تاہم انتہاپسند یہودی اس پابندی کو تسلیم نہیں کرتے اور مسجد میں داخل ہوجاتے ہیں جس سے کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ ہوجا تا ہے۔
مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ میزبان ملک اردن نے مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر ان مفاہمتوں کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے اور گہرا کرنے کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا۔
ادھر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ امریکا کے نزدیک اسرائیل اور فلسطین کے حکام کی ملاقات اور معاہدے پر اتفاق کو مستحکم امن کا نقطہ آغاز تسلیم کرتا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : امریکی صدر نے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اسرائیلی مؤقف مسترد کردیا
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین نے یکساں طور پر ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کے لیے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بہت کچھ کرنا ہے جس کے لیے فریقین نے اگلے ماہ دوبارہ ملاقات پر بھی اتفاق کیا۔
تاہم حماس نے فلسطین اتھارٹی کے اسرائیل سے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ بے ثمر ثابت ہوگا۔ اس معاہدے سے خطے کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کی حکمراں جماعت فتح نے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کے درد اور قتل عام کے باوجود عقبہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ خونریزی کو ختم کرنے کی خواہش کا مظہر ہے۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالیل اسموٹریچ جو مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے نگراں بھی ہیں نے فوری طور پر کہا کہ وہ بستیوں کی تعمیر کو منجمد کرنے کے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔
بیزالیل اسموٹریچ نے مزید کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اردن میں کیا بات ہوئی لیکن ایک چیز جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ بستیوں کی تعمیر اور ترقی کا کام ایک دن کے لیے بھی نہیں روکے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق معاہدے میں یہ طے بھی پایا ہے کہ 4 ماہ کے لیے کسی بھی نئے سیٹلمنٹ یونٹس کے قیام پر بات چیت نہیں ہوگی جب کہ اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو چھ ماہ کے لیے روکنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
اردن میں ہونے والے مذاکرات میں اسرائیل اور فلسطینی حکام نے ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کو کم کرنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر عمل درآمد کا عہد بھی کیا اور رمضان میں ہونے والی ممکنہ کشیدگی سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ خبر پڑھیں : رمضان کے آخری عشرے میں یہودیوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر پابندی
یاد رہے کہ ماہ رمضان میں دنیا بھر سے مسلمان بڑی تعداد میں عبادت کے لیے مسجد اقصیٰ آتے ہیں اس لیے آخری عشرے میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی ہوتی ہے تاہم انتہاپسند یہودی اس پابندی کو تسلیم نہیں کرتے اور مسجد میں داخل ہوجاتے ہیں جس سے کشیدگی اور تناؤ میں اضافہ ہوجا تا ہے۔
مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ میزبان ملک اردن نے مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر ان مفاہمتوں کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کو دوبارہ قائم کرنے اور گہرا کرنے کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا۔
ادھر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ امریکا کے نزدیک اسرائیل اور فلسطین کے حکام کی ملاقات اور معاہدے پر اتفاق کو مستحکم امن کا نقطہ آغاز تسلیم کرتا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : امریکی صدر نے مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اسرائیلی مؤقف مسترد کردیا
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین نے یکساں طور پر ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کے لیے آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں بہت کچھ کرنا ہے جس کے لیے فریقین نے اگلے ماہ دوبارہ ملاقات پر بھی اتفاق کیا۔
تاہم حماس نے فلسطین اتھارٹی کے اسرائیل سے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ بے ثمر ثابت ہوگا۔ اس معاہدے سے خطے کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کی حکمراں جماعت فتح نے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کے درد اور قتل عام کے باوجود عقبہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ خونریزی کو ختم کرنے کی خواہش کا مظہر ہے۔
اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالیل اسموٹریچ جو مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے نگراں بھی ہیں نے فوری طور پر کہا کہ وہ بستیوں کی تعمیر کو منجمد کرنے کے کسی معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔
بیزالیل اسموٹریچ نے مزید کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ اردن میں کیا بات ہوئی لیکن ایک چیز جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ بستیوں کی تعمیر اور ترقی کا کام ایک دن کے لیے بھی نہیں روکے گا۔