ممنوعہ فنڈنگ کیس ایف آئی اے ایسا مقدمہ چلا رہی ہے جس میں کوئی جرم نہیں ہوا عمران خان

ایف آئی اے تمام کوششوں کے باوجود منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت منظر عام پر نہیں لاسکی، عمران خان کا ایف آئی اے کو جواب

فوٹو؛ فائل

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کو جواب جمع کرادیا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے تمام کوششوں کے باوجود منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت منظر عام پر نہیں لا سکی، ایف آئی اے ایسا مقدمہ چلا رہی ہے جس میں کوئی جرم نہیں ہوا، انکوائری اور ایف آئی آر درج کرکے تفتیشی اتھارٹی کو حاصل اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔

عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے عمران خان کا بیان ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کو جمع کرایا ہے جس میں انہوں نے اس مقدمے کو سیاسی اور بے بنیاد قرار دیا ہے، بینکنگ کورٹ کی جج رخشندہ شاہین کل ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کریں گی۔

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے مجھے اور پی ٹی آئی رہنماؤں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے، مجھ پر اور پی ٹی آئی رہنماؤں پر دہشت گردی، بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے کیسز بنائے گئے، پی ڈی ایم سرکاری اداروں میں اپنے من پسند افسران بھرتی کرکے پی ٹی آئی اور مجھ سے انتقام لے رہی ہے، ایف آئی اے کو استعمال کرکے مجھے ہراساں کرنے کیلئے میرے خلاف مفروضوں کی بنیاد پر مقدمہ بنایا گیا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ووٹن کرکٹ کلب اور ابراج گروپ کا کیس میں نام و نشان نہیں، 21 جون 2022 کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مجھ پر اس مقدمے کی انکوائری شروع کی گئی، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے لیے جانبدار ادارہ ہے جس نے ہائیکورٹ کے فیصلے کی خلاف وزری کی۔ پی ٹی آئی کی تمام فنڈنگ الیکشن کمیشن کے سامنے رکھی گئی، پی ٹی آئی کی فنڈنگ میں منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں، کوششوں کے بعد بھی ایف آئی اے پی ٹی آئی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں سامنے لاسکا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف قائم کی، تحریک انصاف 2018 میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اور مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں حکومتیں بنائیں، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی۔


مزید پڑھیں: عمران خان کل اسلام آباد بینکنگ کورٹ اور اسلام آباد کچہری میں پیش ہوں گے

عمران خان نے کہا کہ میری بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر تمام سیاسی مخالفین نے پی ڈی ایم کی چھتری تلے اتحاد قائم کیا، پی ڈی ایم نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے منصوبہ بنایا، پی ڈی ایم نے اپریل 2022 میں وفاقی حکومت بنائی جس نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ریاستی اداروں کے ذریعے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت، کارکنوں کے خلاف ظلم و ستم کی لہر شروع کردی۔

عمران خان نے کہا کہ بہت سے صحافیوں کو اپنی جان کے خوف سے ملک چھوڑنا پڑا، پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا، پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور ارکان پارلیمنٹ کو دوران حراست جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ مجھے فوجداری مقدمے میں پھنسانے کیلئے صرف اسلام آباد کی حدود میں 17 ایف آئی آرز درج کی گئیں، یہ تمام مقدمات صرف ہراساں کرنے اور دھمکانے کیلئے درج کیے گئے۔

عمران خان نے کہا کہ واضح طور پر یہ ایف آئی آر انکوائری کیے بغیر ہی درج کی گئی ہے۔ مبینہ مرکزی ملزم عارف مسعود نقوی نہ تو انکوائری میں پیش ہوا اور نہ ہی تفتیش میں شامل ہوا، مفروضوں کی بنیاد پر شروع کیا گیا مقدمہ نہ صرف بدقسمتی بلکہ انتہائی قابل مذمت بھی ہے، سب سے پہلے ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی رقم کی حقیقت کو قائم کرنا ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ حتمی نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، انکوائری اور تحقیقات دائرہ اختیار کے بغیر ہیں اور بدنیتی پر مبنی ہیں، الزامات نہ صرف غلط فہمی پر مبنی ہیں بلکہ غلط حقائق اور حالات پر مبنی ہیں، افسوس کہ ایف آئی اے حکام کی جانب سے کیس کے حقائق کو سیاسی انتقام اور اسکور سیٹنگ کے لیے چھپایا گیا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کا پی ٹی آئی اور اس کے اراکین کیخلاف تعصب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، پی ٹی آئی واحد سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناطے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں بہت سے خیر خواہ، اراکین اور حمایتی رکھتی ہے، دوسری سیاسی قوتوں کی طرح پی ٹی آئی کو بھی فنڈز ملے، ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تمام تفصیلات ای سی پی کو فراہم کی جا رہی ہیں، فنڈنگ بینکنگ چینلز کے ذریعے کی گئی، کبھی بھی کوئی غیر قانونی طریقہ استعمال نہیں کیا گیا۔

عمران خان کا مزید کہنا ہے کہ ایف آئی اے تمام کوششوں کے باوجود منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت منظر عام پر نہیں لاسکی، ایف آئی اے ایسا مقدمہ چلا رہی ہے جس میں کوئی جرم نہیں ہوا، انکوائری اور ایف آئی آر درج کرکے تفتیشی اتھارٹی کو حاصل اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔
Load Next Story