ٹیکنالوجی کا جنون
ٹکنوکلجی کے جنون میں متبلا امریکی سوفٹ ویئر ڈیولپر نے اپنے جسم سے متعدد سینسرز اور آلات منسلک کر رکھے ہیں
45سالہ امریکی سوفٹ ویئرڈیولپر کرس ڈینسی کو ٹیکنالوجی کے استعمال کا اتنا جنون ہے کہ اس نے اپنے جسم سے متعدد سینسرز اور آلات منسلک کر رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی ہر جسمانی اور ذہنی سرگرمی اور گردوپیش کے بارے میں ریئل ٹائم ڈیٹا حاصل کرتا رہتا ہے۔
اس مقصد کے لیے سینسرز اور ڈیوائسز کے ساتھ ساتھ وہ مختلف انٹرنیٹ سروسز اور ایپس کا بھی استعمال کرتا ہے۔ مجموعی طور پر700 نظام اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈینسی کو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کرتے ہیں۔ اس عجیب و غریب جنون نے ڈینسی کو دنیا کا سب سے زیادہ 'کنیکٹڈ' انسان بنا دیا ہے۔ ڈینسی کو اپنے جسم سے یہ تمام آلات منسلک کرنے میں چار برس لگے۔
ان ڈیوائسز سے اپنے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات سے ڈینسی نے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ مثلاً اپنی حرکات و سکنات اور کھانے کی عادات کو مستقل طور پر مانیٹر کرتے ہوئے اس نے اپنا وزن 100پاؤنڈز تک گھٹالیا ہے۔ ڈینسی کا کہنا ہے،'' اب مجھے معلوم ہے کہ کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، کب سونا ہے اور کب بیدار ہونا ہے۔ آپ اسے جسم اور دماغ کی ہیکنگ کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہم کمپیوٹر اور کسی بھی قسم کے ڈیٹا کو ہیک کرتے ہیں، بالکل اسی طرح دماغ اور جسم کو بھی ہیک کیا جاسکتا ہے جو کہ عظیم ترین انفارمیشن سسٹم ہے۔ اس نظام کو سمجھنا ہی دراصل اسے ہیک کرنا ہے۔''
ڈینسی کو اپنے جسم سے کنیکٹ رہنے کا تصوراس حقیقت کاادراک کرنے کے بعد آیا کہ وہ خود معلومات کی آن لائن دست یابی ممکن بنا رہا تھا، اور اگر ان سروسز میں سے کوئی بھی کارآمد نہیں رہتی تو متعلقہ معلومات ضایع ہوجائیں گی۔ ڈینسی کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کوسمجھ جانے کے بعد، جو کچھ میں تخلیق کرہا تھا، اسے ڈیجیٹل طور پر جمع کرنے کا خیال آیا ۔
ڈینسی کے پاس ہمہ وقت دو اسمارٹ فون ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ متعدد آلات بھی پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ کلائی پر بندھی ہوئی اسمارٹ واچ اسے موبائل فونز سے حاصل ہونے والی اپ ڈیٹس سے آگاہ رکھتی ہے۔ دوسری کلائی پر Fitbit Flex پہنتا ہے۔ یہ گھڑی نما آلہ مستقل طور پر اس کی جسمانی حرکات اور سونے اور جاگنے کے انداز اور اوقات پر نظر رکھتا ہے۔ ڈینسی کے سینے پر دل کے دھڑکنے کی رفتار کو مانیٹر کرنے والا آلہ Blue HR بندھا ہوا ہے۔ اس کے بازو سے ایک فٹنس ٹریکر اور کمر سے ایک posture sensor لپٹا رہتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ گوگل گلاس اور اس سے متعلق کئی آلات سے بھی کام لیتا ہے۔
ڈینسی Netatmo نامی آلے کے ذریعے آواز ، ہوا کی کیفیت اور درجۂ حرارت کو مانیٹر کرتا ہے، جب کہ Wemo نامی آلہ مختلف جذبات پر نگاہ رکھتا ہے۔ گھر کے درجۂ حرارت کو معتدل رکھنے اور کاربن مونو آکسائیڈ اور دھویں سے خبردار کرنے والے آلات بھی ڈینسی نے نصب کر رکھے ہیں۔ Estimotes نامی ایک ایپلی کیشن اسے آس پاس موجود شے جیسے کار کی چابیوں سے واقف رکھتی ہے تاکہ وہ بھول نہ جائے۔ اپنے وجود اورگھر کے علاوہ ڈینس نے اپنے دو پالتو کتوں کو بھی ٹیکنالوجی سے دور نہیں رہنے دیا۔ وہ Tagg نامی جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ان کی روزمرّہ مصروفیات پر نظر رکھتا ہے۔
ڈینسی کا کہنا ہے کہ میرا گھر اب میرے رویوں کو سمجھتا ہے۔ اگر مجھے نیند اچھی طرح نہ آئے تو بیدار ہونے پر کمرے میں مخصوص رنگ کی روشنی پھیلی نظر آتی ہے، کمرے کا درجۂ حرارت بھی تبدیل ہوتا ہے، اور مخصوص موسیقی کمرے میں گونجنے لگتی ہے۔ ڈینسی کے مطابق اس تمام سسٹم نے اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی تقلید کریں۔
اس مقصد کے لیے سینسرز اور ڈیوائسز کے ساتھ ساتھ وہ مختلف انٹرنیٹ سروسز اور ایپس کا بھی استعمال کرتا ہے۔ مجموعی طور پر700 نظام اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈینسی کو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کرتے ہیں۔ اس عجیب و غریب جنون نے ڈینسی کو دنیا کا سب سے زیادہ 'کنیکٹڈ' انسان بنا دیا ہے۔ ڈینسی کو اپنے جسم سے یہ تمام آلات منسلک کرنے میں چار برس لگے۔
ان ڈیوائسز سے اپنے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات سے ڈینسی نے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ مثلاً اپنی حرکات و سکنات اور کھانے کی عادات کو مستقل طور پر مانیٹر کرتے ہوئے اس نے اپنا وزن 100پاؤنڈز تک گھٹالیا ہے۔ ڈینسی کا کہنا ہے،'' اب مجھے معلوم ہے کہ کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، کب سونا ہے اور کب بیدار ہونا ہے۔ آپ اسے جسم اور دماغ کی ہیکنگ کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہم کمپیوٹر اور کسی بھی قسم کے ڈیٹا کو ہیک کرتے ہیں، بالکل اسی طرح دماغ اور جسم کو بھی ہیک کیا جاسکتا ہے جو کہ عظیم ترین انفارمیشن سسٹم ہے۔ اس نظام کو سمجھنا ہی دراصل اسے ہیک کرنا ہے۔''
ڈینسی کو اپنے جسم سے کنیکٹ رہنے کا تصوراس حقیقت کاادراک کرنے کے بعد آیا کہ وہ خود معلومات کی آن لائن دست یابی ممکن بنا رہا تھا، اور اگر ان سروسز میں سے کوئی بھی کارآمد نہیں رہتی تو متعلقہ معلومات ضایع ہوجائیں گی۔ ڈینسی کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کوسمجھ جانے کے بعد، جو کچھ میں تخلیق کرہا تھا، اسے ڈیجیٹل طور پر جمع کرنے کا خیال آیا ۔
ڈینسی کے پاس ہمہ وقت دو اسمارٹ فون ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ متعدد آلات بھی پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ کلائی پر بندھی ہوئی اسمارٹ واچ اسے موبائل فونز سے حاصل ہونے والی اپ ڈیٹس سے آگاہ رکھتی ہے۔ دوسری کلائی پر Fitbit Flex پہنتا ہے۔ یہ گھڑی نما آلہ مستقل طور پر اس کی جسمانی حرکات اور سونے اور جاگنے کے انداز اور اوقات پر نظر رکھتا ہے۔ ڈینسی کے سینے پر دل کے دھڑکنے کی رفتار کو مانیٹر کرنے والا آلہ Blue HR بندھا ہوا ہے۔ اس کے بازو سے ایک فٹنس ٹریکر اور کمر سے ایک posture sensor لپٹا رہتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ گوگل گلاس اور اس سے متعلق کئی آلات سے بھی کام لیتا ہے۔
ڈینسی Netatmo نامی آلے کے ذریعے آواز ، ہوا کی کیفیت اور درجۂ حرارت کو مانیٹر کرتا ہے، جب کہ Wemo نامی آلہ مختلف جذبات پر نگاہ رکھتا ہے۔ گھر کے درجۂ حرارت کو معتدل رکھنے اور کاربن مونو آکسائیڈ اور دھویں سے خبردار کرنے والے آلات بھی ڈینسی نے نصب کر رکھے ہیں۔ Estimotes نامی ایک ایپلی کیشن اسے آس پاس موجود شے جیسے کار کی چابیوں سے واقف رکھتی ہے تاکہ وہ بھول نہ جائے۔ اپنے وجود اورگھر کے علاوہ ڈینس نے اپنے دو پالتو کتوں کو بھی ٹیکنالوجی سے دور نہیں رہنے دیا۔ وہ Tagg نامی جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ان کی روزمرّہ مصروفیات پر نظر رکھتا ہے۔
ڈینسی کا کہنا ہے کہ میرا گھر اب میرے رویوں کو سمجھتا ہے۔ اگر مجھے نیند اچھی طرح نہ آئے تو بیدار ہونے پر کمرے میں مخصوص رنگ کی روشنی پھیلی نظر آتی ہے، کمرے کا درجۂ حرارت بھی تبدیل ہوتا ہے، اور مخصوص موسیقی کمرے میں گونجنے لگتی ہے۔ ڈینسی کے مطابق اس تمام سسٹم نے اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی تقلید کریں۔