’’ فونٹ بدل ڈالیں‘‘
دستاویزات کی چھپائی میں استعمال ہونے والے ٹائمزنیو رومن فونٹ کو گیرامنڈ فونٹ سے بدلنےسے25فیصدکم روشنائی خرچ ہوتی ہے،
ایک امریکی ٹین ایجر کی تجویز نے وہ کچھ کردکھایا ہے جس کے لیے اقتصادی ماہرین عشروں سے جدوجہد کر رہے تھے یعنی سرکاری اخراجات کو محدود رکھنا۔
چودہ سالہ Suvir Mirchandani کی تجویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں امریکی حکومت کو ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ سالانہ 40 کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی۔ Suvir کی پیش کردہ تجویز بہت سادہ ہے۔ اس نے بس حکومت سے یہ کہا ہے کہ سرکاری دستاویزات کی چھپائی میں استعمال ہونے والے ٹائمز نیو رومن فونٹ کو گیرامنڈ فونٹ سے بدل دیا جائے۔ گیرامنڈ فونٹ میں ہر حرف ہلکا اور باریک پرنٹ ہوتا ہے۔ اس لیے اس فونٹ میں ٹائمز نیو رومن کے مقابلے میں 25 فی صد کم روشنائی خرچ ہوتی ہے، جس سے چھپائی پر آنے والی لاگت بھی محدود ہوجاتی ہے۔
Suvir کو یہ خیال اسکول میں منعقدہ سائنسی میلے کے لیے پروجیکٹ تیار کرتے ہوئے آیا۔ یہ پروجیکٹ کمپیوٹر سائنس کے ماحول دوست استعمال کا طریقہ وضع کرنے سے متعلق تھا۔ خاصی ریسرچ کرنے کے بعد اس نے کاغذ اور روشنائی کا استعمال محدود کرنے کی تیکنیک تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے Suvir نے اپنے اسکول کے اساتذہ کے تیار کردہ ہینڈآؤٹس لیے۔ ان کا بہ غور مطالعہ کرنے پر پتا چلا کہ تحریر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ e، t، a، o اور r ہیں۔ اس کے بعد Suvir نے چار مختلف فونٹس کا مطالعہ کیا۔ پھر اس نے ایک سوفٹ ویئر کی مدد سے معلوم کیا کہ ہر فونٹ میں کتنی روشنائی استعمال ہوتی ہے۔ بالآخر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر اس کی کاؤنٹی کے تمام اسکولوں کی دستاویزات میں گیرامنڈ فونٹ کا استعمال کیا جائے تو روشنائی کی کھپت 24 فی صد کم ہوجائے گی، نتیجتاً 21000 ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔
اساتذہ Suvir کے کام سے بے حد خوش ہوئے اور اسے اپنی تحقیق شایع کروانے کا مشورہ دیا۔ 2011ء میں ایک معروف سائنسی جریدے میں اس کی تحقیق شایع ہوئی۔ اقتصادی ماہرین اس سادہ سی تجویز اور اس کے نتائج پر حیران رہ گئے۔ بعدازاں انھوں نے تخمینے لگائے کہ اگر اس تجویز کو سرکاری سطح پر اپنالیا جائے تو اس سے سالانہ 40 کروڑ ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ تاہم ابھی تک اس تجویز پر سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
چودہ سالہ Suvir Mirchandani کی تجویز پر عمل درآمد کے نتیجے میں امریکی حکومت کو ہزاروں، لاکھوں نہیں بلکہ سالانہ 40 کروڑ ڈالر کی بچت ہوگی۔ Suvir کی پیش کردہ تجویز بہت سادہ ہے۔ اس نے بس حکومت سے یہ کہا ہے کہ سرکاری دستاویزات کی چھپائی میں استعمال ہونے والے ٹائمز نیو رومن فونٹ کو گیرامنڈ فونٹ سے بدل دیا جائے۔ گیرامنڈ فونٹ میں ہر حرف ہلکا اور باریک پرنٹ ہوتا ہے۔ اس لیے اس فونٹ میں ٹائمز نیو رومن کے مقابلے میں 25 فی صد کم روشنائی خرچ ہوتی ہے، جس سے چھپائی پر آنے والی لاگت بھی محدود ہوجاتی ہے۔
Suvir کو یہ خیال اسکول میں منعقدہ سائنسی میلے کے لیے پروجیکٹ تیار کرتے ہوئے آیا۔ یہ پروجیکٹ کمپیوٹر سائنس کے ماحول دوست استعمال کا طریقہ وضع کرنے سے متعلق تھا۔ خاصی ریسرچ کرنے کے بعد اس نے کاغذ اور روشنائی کا استعمال محدود کرنے کی تیکنیک تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے Suvir نے اپنے اسکول کے اساتذہ کے تیار کردہ ہینڈآؤٹس لیے۔ ان کا بہ غور مطالعہ کرنے پر پتا چلا کہ تحریر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ e، t، a، o اور r ہیں۔ اس کے بعد Suvir نے چار مختلف فونٹس کا مطالعہ کیا۔ پھر اس نے ایک سوفٹ ویئر کی مدد سے معلوم کیا کہ ہر فونٹ میں کتنی روشنائی استعمال ہوتی ہے۔ بالآخر اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر اس کی کاؤنٹی کے تمام اسکولوں کی دستاویزات میں گیرامنڈ فونٹ کا استعمال کیا جائے تو روشنائی کی کھپت 24 فی صد کم ہوجائے گی، نتیجتاً 21000 ڈالر سالانہ کی بچت ہوگی۔
اساتذہ Suvir کے کام سے بے حد خوش ہوئے اور اسے اپنی تحقیق شایع کروانے کا مشورہ دیا۔ 2011ء میں ایک معروف سائنسی جریدے میں اس کی تحقیق شایع ہوئی۔ اقتصادی ماہرین اس سادہ سی تجویز اور اس کے نتائج پر حیران رہ گئے۔ بعدازاں انھوں نے تخمینے لگائے کہ اگر اس تجویز کو سرکاری سطح پر اپنالیا جائے تو اس سے سالانہ 40 کروڑ ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے۔ تاہم ابھی تک اس تجویز پر سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔