ارتکاز توجہ اور جسم مثالی کی پرواز
توجہ کی یکسوئی اور ارتکاز خیال کا مسئلہ واقعی بے حد اہم ہے۔
توجہ کی یکسوئی اور ارتکاز خیال کا مسئلہ واقعی بے حد اہم ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز اہم قلم ڈاکٹر محمد حسن کی تحریر کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو نیا دور کراچی کے شمارہ 21، 22 میں شائع ہوا۔
''توجہ کو پوری یکسوئی سے ایک نقطہ پر مرکوز رکھنا آسان کام نہیں ہے اور ذہانت اور طباعی کے ساتھ جو لوگ اس انہماک کو حاصل کرسکتے ہیں، عظمت ان ہی کے حصے میں آتی ہے۔ ہماری نئی نسل اور یہاں میری مراد صرف ادبی نئی نسل سے نہیں ہے، اکثر یکسوئی سے عاری پائی جاتی ہے اور اگر یکسوئی نصیب بھی ہوتی ہے تو خاص سطحی قسم کی اور نچلے درجے کی۔ ٹھہرائو اور صبر و استقلال کی کمی کی وجہ سے سنجیدگی کا فقدان اور اعصابی ہیجانات کی کثرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں تو نئی نسل کم و بیش اعصابی ہوتی ہے کیونکہ اس پر نئے سماجی حقائق کا فوری ردعمل اعصاب کے ذریعے ہوتا ہے، اسے ہضم کرنا، ان اعصابی ہیجانات کو مرتب کرکے انھیں تاثر اور اس کے بعد ایک سنجیدہ ذہنی رویے میں تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔
لیکن ہماری نئی نسل کی اعصابیت دوسروں سے کچھ زیادہ ہے، اسے عجلت ہے اور عجلت میں اعصابی ہیجان زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے جلدی غصہ آتا ہے، جلدی پیار آتا ہے اور جلد ہی وہ بیزار ہوجاتی ہے اور تشکیک، نفرت اور طنز سے دنیا کی ساری اقدار پر زہر خند کرنے لگتی ہے۔ اس تیز رفتاری میں جھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ نمایاں ہے، جس میں بت شکنی کا پرتو ہے کوہ کنی کا جمال نہیں ہے۔ اس لیے نئی نسل کی ذہنی سمت کا تعین دشوار ہے۔ اس کی دنیا میں چوطرفہ ہوائیں چل رہی ہیں، ان میں کبھی بادِ صر صر کی تیزی ہے اور کبھی صبا کی۔''
ڈاکٹر محمد حسن نے نئی نسل کے ذہنی رویے کا تعین بڑی خوبی کے ساتھ کیا ہے اور اسی بنا پر میں برابر نئی نسل کے نوجوانوں کو ارتکاز توجہ کی مشقوں کا پرزور مشورہ دیا کرتا ہوں تاکہ ہمارے نوجوانوں میں جو عجلت پسندی اور جلد بازی پائی جاتی ہے اس کا ازالہ ہوجائے اور وہ صبر و استقلال کے ساتھ راہ عمل پر گامزن ہوسکیں۔ درحقیقت استغراق اور انہماک ہی یہاں کسی مہم کی کامیابی کی دلیل ہے۔ جب تک آپ یا میں اپنے مقصد اور نصب العین میں ڈوب نہ جائیں، مقصدیت سے چپک نہ جائیں، اس وقت تک کامیابی محال ہے۔
اس بات کا تذکرہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشقیں کرتے ہوئے اچانک دل میں پرانی یادیں کلبلانے اور پرانے مناظر (جنھیں فراموش کیا جاچکا ہو) یاد آنے لگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ توجہ کی یکسوئی حافظے پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہے۔ درحقیقت نفس انسانی (آپ ذہن کہہ لیجیے) تہہ در تہہ اور پرت در پرت واقع ہوا ہے۔ ان مشقوں سے شعور کی گرہیں کھلنے لگی ہیں اور یکے بعد دیگرے نفس کے پرت ابھرتے اور حافظے کے در کھلنے لگتے ہیں اور وہ یادداشتیں تازہ ہوجاتی ہیں جنھیں عملی شعور نے فی الوقت مناسب و مفید بحث نہ پا کر حافظے کی پرانی الماری میں دفن کردیا تھا۔ انسانی شعور بے حد عملی اور حقیقت پسند واقع ہوا ہے، وہ صرف ان باتوں کو یاد رکھتا ہی جن کو یاد رکھنا عملی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
اگر بچپن سے اب تک کے تمام چھوٹے بڑے واقعات پوری تفصیل سے ہمیں یاد رہنے لگیں تو عجیب خلط بحث پیدا ہو جائے۔ آخر ان واقعات اور سلسلۂ عمل کو یاد رکھنے سے کیا فائدہ، جو آج کی زندگی میں مفید نہ رہا۔ تاہم ذہنی صحت مندی کے لیے پرانی یادوں کو تازہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہماری سو فیصد جذباتی الجھنوں کے بنیادی اسباب لاشعور میں پیوست ہوتے ہیں۔ ہم ایک انجان خوف میں مبتلا ہیں، کیوں مبتلا ہیں؟ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر کسی طرح ہمیں یاد آجائے کہ اس خوف کی ابتدا بچپن میں فلاں واقعے سے ہوئی تھی تو یوں سمجھیے کہ 90 فیصد خوف ختم ہوگیا۔
ان مشقوں سے مختلف جذباتی الجھنوں کے اسباب کا پتہ چل جاتا ہے اور ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہماری فلاں ذہنی کمزوری کا بنیادی سبب یہ تھا اور یہ علم ہوتے ہی آدمی کے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر جاتا ہے۔ نپولین جس نے اپنے فاتحانہ قدموں سے روند ڈالا تھا، بلی سے ڈرتا تھا۔ اگر نپولین کو یاد آجاتا کہ وہ فلاں وقت فلاں سبب سے بلی سے ڈر گیا تھا، تو یقیناً اس کا خوف ختم ہوجاتا۔ تحلیل نفسی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ذہن کے اندر دبی ہوئی یادوں کے مدفون سلسلوں کو کھوج کر باہر نکالا جائے اور مریض کی روح میں جذباتی حوادث کے جو کانٹے چبھے ہوئے ہیں، جن کے سبب وہ شدید کرب محسوس کرتا ہے یکے بعد دیگرے ان کانٹوں کو باہر نکالا جائے۔ ارتکاز توجہ کی مشقیں اس اعتبار سے تحلیل نفسی کا نعم البدل ہیں۔
ارتکاز توجہ کی مشقوں سے نفس میں اتنی قوت اور استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حقائق کائنات کا ادراک کرسکتا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مشقوں سے ''سیر جسم مثالی'' astral Projection بھی ممکن ہے۔ سائنسی طور پر یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہر شے (جاندار ہو یا غیر جاندار) کے گرد ایک ہالۂ نور ہوتا ہے۔ کیرلین فوٹو گرافی کے ذریعے اس ہالۂ نور کا عکس بھی لیا جاچکا ہے۔ اس ہالۂ نور کو مابعد النفسیات کی اصطلاح میں آپ ''جسم مثالی'' یا ''پیکر نوری'' کہہ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ ٹھیک ہے آدم زاد اپنی فطرت میں نوری یا ناری نہ ہو لیکن اپنی ساخت اور اپنے وجود میں خاکی اور نوری ضرور ہے، اس کے پیکر خاکی کے ساتھ ایک نورانی جسم نتھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس جسم نوری کے بھی مختلف درجے ہیں۔ وجود نوری کے بعد وجود ذہنی، پھر وجود روحی اور پھر وجود روحانی اور پھر نہ جانے کیا۔ خواب، نشے اور استغراق کے عالم میں کبھی کبھی جسم مثالی جسم خاکی سے الگ ہو کر بہت دور نکل جاتا ہے، البتہ ایک رشتہ سیمیں کے ذریعے ان دونوں جسموں کے درمیان رابطہ قائم رہتا ہے اور طرح طرح کے عجائبات کا نظارہ کرتا ہے۔ پرانے زمانے میں خواب کی تعبیر اس انداز سے کی جاتی تھی اور خواب کے مناظر کو جسم مثالی کے مشاہدات سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ آسٹرل پروجیکشن یعنی جسم مثالی کی پرواز کے تجربات بھی سائنسی انداز میں کیے گئے ہیں اور تقریباً ان کی صحت کی تصدیق کی جاسکتی ہے، تفصیلات میں اختلاف ممکن ہے۔ اصل حقیقت میں اختلاف ممکن نہیں۔ بہرحال یہ مسلمہ ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشق سے جسم مثالی کو ضرور چست و فعال اور سرگرم کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayantamseel)
''توجہ کو پوری یکسوئی سے ایک نقطہ پر مرکوز رکھنا آسان کام نہیں ہے اور ذہانت اور طباعی کے ساتھ جو لوگ اس انہماک کو حاصل کرسکتے ہیں، عظمت ان ہی کے حصے میں آتی ہے۔ ہماری نئی نسل اور یہاں میری مراد صرف ادبی نئی نسل سے نہیں ہے، اکثر یکسوئی سے عاری پائی جاتی ہے اور اگر یکسوئی نصیب بھی ہوتی ہے تو خاص سطحی قسم کی اور نچلے درجے کی۔ ٹھہرائو اور صبر و استقلال کی کمی کی وجہ سے سنجیدگی کا فقدان اور اعصابی ہیجانات کی کثرت پیدا ہوجاتی ہے۔ یوں تو نئی نسل کم و بیش اعصابی ہوتی ہے کیونکہ اس پر نئے سماجی حقائق کا فوری ردعمل اعصاب کے ذریعے ہوتا ہے، اسے ہضم کرنا، ان اعصابی ہیجانات کو مرتب کرکے انھیں تاثر اور اس کے بعد ایک سنجیدہ ذہنی رویے میں تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے۔
لیکن ہماری نئی نسل کی اعصابیت دوسروں سے کچھ زیادہ ہے، اسے عجلت ہے اور عجلت میں اعصابی ہیجان زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے جلدی غصہ آتا ہے، جلدی پیار آتا ہے اور جلد ہی وہ بیزار ہوجاتی ہے اور تشکیک، نفرت اور طنز سے دنیا کی ساری اقدار پر زہر خند کرنے لگتی ہے۔ اس تیز رفتاری میں جھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ نمایاں ہے، جس میں بت شکنی کا پرتو ہے کوہ کنی کا جمال نہیں ہے۔ اس لیے نئی نسل کی ذہنی سمت کا تعین دشوار ہے۔ اس کی دنیا میں چوطرفہ ہوائیں چل رہی ہیں، ان میں کبھی بادِ صر صر کی تیزی ہے اور کبھی صبا کی۔''
ڈاکٹر محمد حسن نے نئی نسل کے ذہنی رویے کا تعین بڑی خوبی کے ساتھ کیا ہے اور اسی بنا پر میں برابر نئی نسل کے نوجوانوں کو ارتکاز توجہ کی مشقوں کا پرزور مشورہ دیا کرتا ہوں تاکہ ہمارے نوجوانوں میں جو عجلت پسندی اور جلد بازی پائی جاتی ہے اس کا ازالہ ہوجائے اور وہ صبر و استقلال کے ساتھ راہ عمل پر گامزن ہوسکیں۔ درحقیقت استغراق اور انہماک ہی یہاں کسی مہم کی کامیابی کی دلیل ہے۔ جب تک آپ یا میں اپنے مقصد اور نصب العین میں ڈوب نہ جائیں، مقصدیت سے چپک نہ جائیں، اس وقت تک کامیابی محال ہے۔
اس بات کا تذکرہ پہلے بھی ہوچکا ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشقیں کرتے ہوئے اچانک دل میں پرانی یادیں کلبلانے اور پرانے مناظر (جنھیں فراموش کیا جاچکا ہو) یاد آنے لگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ توجہ کی یکسوئی حافظے پر شدت سے اثر انداز ہوتی ہے۔ درحقیقت نفس انسانی (آپ ذہن کہہ لیجیے) تہہ در تہہ اور پرت در پرت واقع ہوا ہے۔ ان مشقوں سے شعور کی گرہیں کھلنے لگی ہیں اور یکے بعد دیگرے نفس کے پرت ابھرتے اور حافظے کے در کھلنے لگتے ہیں اور وہ یادداشتیں تازہ ہوجاتی ہیں جنھیں عملی شعور نے فی الوقت مناسب و مفید بحث نہ پا کر حافظے کی پرانی الماری میں دفن کردیا تھا۔ انسانی شعور بے حد عملی اور حقیقت پسند واقع ہوا ہے، وہ صرف ان باتوں کو یاد رکھتا ہی جن کو یاد رکھنا عملی زندگی کے لیے ضروری ہے۔
اگر بچپن سے اب تک کے تمام چھوٹے بڑے واقعات پوری تفصیل سے ہمیں یاد رہنے لگیں تو عجیب خلط بحث پیدا ہو جائے۔ آخر ان واقعات اور سلسلۂ عمل کو یاد رکھنے سے کیا فائدہ، جو آج کی زندگی میں مفید نہ رہا۔ تاہم ذہنی صحت مندی کے لیے پرانی یادوں کو تازہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہماری سو فیصد جذباتی الجھنوں کے بنیادی اسباب لاشعور میں پیوست ہوتے ہیں۔ ہم ایک انجان خوف میں مبتلا ہیں، کیوں مبتلا ہیں؟ اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر کسی طرح ہمیں یاد آجائے کہ اس خوف کی ابتدا بچپن میں فلاں واقعے سے ہوئی تھی تو یوں سمجھیے کہ 90 فیصد خوف ختم ہوگیا۔
ان مشقوں سے مختلف جذباتی الجھنوں کے اسباب کا پتہ چل جاتا ہے اور ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہماری فلاں ذہنی کمزوری کا بنیادی سبب یہ تھا اور یہ علم ہوتے ہی آدمی کے ذہن سے بہت بڑا بوجھ اتر جاتا ہے۔ نپولین جس نے اپنے فاتحانہ قدموں سے روند ڈالا تھا، بلی سے ڈرتا تھا۔ اگر نپولین کو یاد آجاتا کہ وہ فلاں وقت فلاں سبب سے بلی سے ڈر گیا تھا، تو یقیناً اس کا خوف ختم ہوجاتا۔ تحلیل نفسی کا مقصد ہی یہ ہے کہ ذہن کے اندر دبی ہوئی یادوں کے مدفون سلسلوں کو کھوج کر باہر نکالا جائے اور مریض کی روح میں جذباتی حوادث کے جو کانٹے چبھے ہوئے ہیں، جن کے سبب وہ شدید کرب محسوس کرتا ہے یکے بعد دیگرے ان کانٹوں کو باہر نکالا جائے۔ ارتکاز توجہ کی مشقیں اس اعتبار سے تحلیل نفسی کا نعم البدل ہیں۔
ارتکاز توجہ کی مشقوں سے نفس میں اتنی قوت اور استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حقائق کائنات کا ادراک کرسکتا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مشقوں سے ''سیر جسم مثالی'' astral Projection بھی ممکن ہے۔ سائنسی طور پر یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ہر شے (جاندار ہو یا غیر جاندار) کے گرد ایک ہالۂ نور ہوتا ہے۔ کیرلین فوٹو گرافی کے ذریعے اس ہالۂ نور کا عکس بھی لیا جاچکا ہے۔ اس ہالۂ نور کو مابعد النفسیات کی اصطلاح میں آپ ''جسم مثالی'' یا ''پیکر نوری'' کہہ سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔ ٹھیک ہے آدم زاد اپنی فطرت میں نوری یا ناری نہ ہو لیکن اپنی ساخت اور اپنے وجود میں خاکی اور نوری ضرور ہے، اس کے پیکر خاکی کے ساتھ ایک نورانی جسم نتھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس جسم نوری کے بھی مختلف درجے ہیں۔ وجود نوری کے بعد وجود ذہنی، پھر وجود روحی اور پھر وجود روحانی اور پھر نہ جانے کیا۔ خواب، نشے اور استغراق کے عالم میں کبھی کبھی جسم مثالی جسم خاکی سے الگ ہو کر بہت دور نکل جاتا ہے، البتہ ایک رشتہ سیمیں کے ذریعے ان دونوں جسموں کے درمیان رابطہ قائم رہتا ہے اور طرح طرح کے عجائبات کا نظارہ کرتا ہے۔ پرانے زمانے میں خواب کی تعبیر اس انداز سے کی جاتی تھی اور خواب کے مناظر کو جسم مثالی کے مشاہدات سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ آسٹرل پروجیکشن یعنی جسم مثالی کی پرواز کے تجربات بھی سائنسی انداز میں کیے گئے ہیں اور تقریباً ان کی صحت کی تصدیق کی جاسکتی ہے، تفصیلات میں اختلاف ممکن ہے۔ اصل حقیقت میں اختلاف ممکن نہیں۔ بہرحال یہ مسلمہ ہے کہ ارتکاز توجہ کی مشق سے جسم مثالی کو ضرور چست و فعال اور سرگرم کیا جاسکتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔
(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayantamseel)