وقت ایک سا نہیں رہتا
ایک شخص آج وزیراعظم ہوسکتا ہے کل آپ اسے در بدر بھیک مانگتے ہوئے دیکھیں گے،
جب انسانیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو دکھ، افلاس اور ظلم و جبر کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ یزد کہتا ہے آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں ذلیل و خوار نہ کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ پاگل کتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے۔ ''شاہنامۂ فردوسی'' ایک عظیم ترین شاہکار ہے، یہ شاہکار آج بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے اہل فارس اپنی قوم کی تاریخ کے آئیڈیاز اخذ کرتے ہیں، فردوسی کا شاہ نامہ اہل فارس کے مسلمان بادشاہوں سے قبل چار سلطنتوں کو تسلیم کرتا ہے (1) پشڈا ڈی (2) کیانی (3) اشکانی (4) ساسانی۔ ہوشنگ پشڈا ڈی کا پوتا تھا اور جمشید ہوشنگ کا بیٹا تھا۔
ہوشنگ نے اپنے بیٹے جمشید کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہا تھا آغاز اور انجام خدا کے ہاتھ میں ہے اور تمام تر مدد منجانب اﷲ ہے، وہ تعریف کے لائق ہے، وہ جو آغاز کو سمجھتا ہے وہ اس کی تعریف سر انجام دیتا ہے اور جو انجام سے باخبر ہوتا ہے وہ اس کا غلام بن جاتا ہے، وہ جو یہ جانتا ہے کہ مدد محض اس کی جانب سے آتی ہے، وہ عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے یا جو اس کی خیر خواہی اور فیاضی سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے اور غرور و تکبر سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ سب سے بہترین چیز جو انسان کو خدا کی جانب سے ملتی ہے وہ اس دنیا کا علم اور دوسری دنیا میں معافی ہے۔
خدا کے غلاموں کے کردار چار اصولوں پر بنیاد کرتے ہیں، علم، صبروتحمل، پاک دامنی اور پاکیزگی، انصاف۔ نیکی اور پارسائی کا علم حاصل کرنا چاہیے۔ علم اور عمل روح اور جسم کی مانند ہے، عمل کے بغیر علم قابل تعریف ہرگز نہیں ہے اور علم کے بغیر عمل کہیں نہیں لے جائے گا۔ آزادی خواہشات سے نجات میں پنہاں ہے، سچائی ایمانداری میں پنہاں ہے، خواہشات سے پاک ہونے میں طمانیت پنہاں ہے۔ خواہشات انسانی کو اپنے دل سے نکال دو تاکہ تمہارے قدم ڈگمگا نہ جائیں اور تمہارا جسم پرسکون رہے۔ ظالم اور بے رحم اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے، اگرچہ اس کی تعریف ہی کیوں نہ کی جائے اور مظلوم طمانیت سے دوچار ہوتا ہے اگرچہ اس کی سرزنش اور ملامت کیوں نہ کی جائے۔
موت تمہارے تعاقب میں ہے اور یہ تمہارے کنٹرول میں نہیں ہے، ہر وقت موت کے لیے تیار رہو۔ اگر تم میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں تب تم دنیا میں کامیابی کو گلے لگا سکتے ہو۔ خون پسینے سے کمائی ہوئی روٹی، دوستی میں ثابت قدمی، سچائی اور پارسائی۔ جب کہ عمر خیام کے فلسفہ زندگی کے مطابق ماضی اور مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتا، انسان کو اپنے ماضی اور مستقبل کے لیے کچھ نہیں کرنا، جو کچھ بھی موجود ہے وہ حال میں موجود ہے۔ خیام نے جو کچھ مشاہدہ سرانجام دیا تھا، وہ یہ تھا کہ دنیا کے عظیم انسان دن رات سازشوں میں مصروف تھے اور اپنی غیر قانونی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے تھے لیکن وہ چیزیں کس قدر ناپائیدار تھیں جن کو حاصل کرنے کی خاطر وہ اس قدر جدوجہد سر انجام دیتے تھے اور اس قدر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے انھیں حاصل کرتے تھے۔
ایک شخص آج وزیراعظم ہوسکتا ہے کل آپ اسے در بدر بھیک مانگتے ہوئے دیکھیں گے، ایک شخص جو کل تک ایک سلطنت کا بادشاہ تھا آج وہ ایک بھکاری ہے، جو مسجد کے دروازے پر کھڑا ہے۔ برمی سائیڈز ایران کی ایک عظیم شرفاء کی فیملی تھی اور 50 برس تک (752 تا 804) ان کو عباسی خاندان کے پہلے پانچ خلفاء کی حمایت حاصل رہی تھی۔ ہارون الرشید نے حسد کی بناء پر ان کا قتل عام کروا دیا تھا، اس فیملی کی ایک وسیع تر آبادی پر حکومت تھی اور تھوڑی دیر بعد آپ تمام تر فیملی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھتے ہیں۔ ابوالفضل جو کل تک ایک چہیتا درباری تھا، آج اس کا سر قلم کیا جاچکا ہے اور اس کا کٹا ہوا سر دربار میں پیش کیا گیا ہے۔
وہ کہتا ہے عزت و وقار اور عہدے بڑی حماقت ہیں اور زندگی بذات خود کچھ بھی نہیں۔ فریدون کی مٹی سے برتن بنائے جاتے ہیں اور جمشید کی لاش اینٹیں بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں لہٰذا غم و فکر اور تفکرات اور انسانی جدوجہد یا دوڑ دھوپ فضول اور بے کار ہے۔ عہدوں اور خطابات کے حامل مشہور اور معروف انسانوں کی زندگیاں بیماری سے دوچار ہیں، بے چینی اور غصے سے دوچار ہیں اور یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اگرکوئی انسان ان کی مانند جذبات کا غلام نہ ہو تب وہ اسے نیچے گرادیتے ہیں۔ اگر تم خدا کے بھیدوں کو جاننے کی خواہش رکھتے ہو تو دیکھو کہ کسی بھی مخلوق کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا یا مسترد نہیں کیا جاتا۔
سعدی کہتے ہیں جب اختیارات ایسے شخص کے ہاتھوں میں آتے ہیں جو درست راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے وہ اسے اعلیٰ عہدہ تصور کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک گڑھے میں گر چکا ہوتا ہے۔ لوگوں کی رسوائی ان کے حکمرانوں کی بدعنوانی بنتی ہے، سلطنت اور عہدے پر اعتبار نہ کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی موجود تھے اور تمہارے بعد بھی موجود رہیں گے۔ سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے ''جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبر کافی ہے''۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے بے حسی کی انتہا ہوگئی ہے، غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دے دیں۔ عوام کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے جب کہ حکمرانوں کے کتے مربے کھا رہے ہیں۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام چند ہزار افراد کے ہاتھوں روندے اور کچلے جارہے ہیں، ان کو روندنے اور کچلنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ ان کے ہی ہم وطن، ہم نسل اور ہم مذہب ہیں، ان کی بھوک، ہوس، لالچ، خودغرضی، بے حسی کے ہاتھوں عوام ذلیل و خوار ہورہے ہیں، یہ چند ہزار افراد دراصل ذہنی بیماری کا شکار ہیں، ان چند ہزار افراد میں سیاست دان، بیورو کریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی رہنما شامل ہیں، یہ چند ہزار افراد اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے اور ان کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کا کہیں بھی کبھی بھی حساب نہیں لیا جائے گا۔
وہ ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہیں، خدا نے ان کو صرف اور صرف لوٹ مار، عیاشیوں اور دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، دوسری طرف سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ جو لٹ رہے ہیں، برباد ہورہے ہیں، جو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، جو تڑپ اور سسک رہے ہیں، جو روز بے موت مررہے ہیں، جو سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں وہ خاموش، بے حس بنے ہوئے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کونسا اور برا وقت آئے گا جب یہ لوگ اپنے حق کے لیے اٹھیں گے اور ان غاصبوں، جابروں اور لٹیروں کو اجڑی ہوئی قبر کے علاوہ اور کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔
ہوشنگ نے اپنے بیٹے جمشید کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہا تھا آغاز اور انجام خدا کے ہاتھ میں ہے اور تمام تر مدد منجانب اﷲ ہے، وہ تعریف کے لائق ہے، وہ جو آغاز کو سمجھتا ہے وہ اس کی تعریف سر انجام دیتا ہے اور جو انجام سے باخبر ہوتا ہے وہ اس کا غلام بن جاتا ہے، وہ جو یہ جانتا ہے کہ مدد محض اس کی جانب سے آتی ہے، وہ عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے یا جو اس کی خیر خواہی اور فیاضی سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے اور غرور و تکبر سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ سب سے بہترین چیز جو انسان کو خدا کی جانب سے ملتی ہے وہ اس دنیا کا علم اور دوسری دنیا میں معافی ہے۔
خدا کے غلاموں کے کردار چار اصولوں پر بنیاد کرتے ہیں، علم، صبروتحمل، پاک دامنی اور پاکیزگی، انصاف۔ نیکی اور پارسائی کا علم حاصل کرنا چاہیے۔ علم اور عمل روح اور جسم کی مانند ہے، عمل کے بغیر علم قابل تعریف ہرگز نہیں ہے اور علم کے بغیر عمل کہیں نہیں لے جائے گا۔ آزادی خواہشات سے نجات میں پنہاں ہے، سچائی ایمانداری میں پنہاں ہے، خواہشات سے پاک ہونے میں طمانیت پنہاں ہے۔ خواہشات انسانی کو اپنے دل سے نکال دو تاکہ تمہارے قدم ڈگمگا نہ جائیں اور تمہارا جسم پرسکون رہے۔ ظالم اور بے رحم اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے، اگرچہ اس کی تعریف ہی کیوں نہ کی جائے اور مظلوم طمانیت سے دوچار ہوتا ہے اگرچہ اس کی سرزنش اور ملامت کیوں نہ کی جائے۔
موت تمہارے تعاقب میں ہے اور یہ تمہارے کنٹرول میں نہیں ہے، ہر وقت موت کے لیے تیار رہو۔ اگر تم میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں تب تم دنیا میں کامیابی کو گلے لگا سکتے ہو۔ خون پسینے سے کمائی ہوئی روٹی، دوستی میں ثابت قدمی، سچائی اور پارسائی۔ جب کہ عمر خیام کے فلسفہ زندگی کے مطابق ماضی اور مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتا، انسان کو اپنے ماضی اور مستقبل کے لیے کچھ نہیں کرنا، جو کچھ بھی موجود ہے وہ حال میں موجود ہے۔ خیام نے جو کچھ مشاہدہ سرانجام دیا تھا، وہ یہ تھا کہ دنیا کے عظیم انسان دن رات سازشوں میں مصروف تھے اور اپنی غیر قانونی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے تھے لیکن وہ چیزیں کس قدر ناپائیدار تھیں جن کو حاصل کرنے کی خاطر وہ اس قدر جدوجہد سر انجام دیتے تھے اور اس قدر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے انھیں حاصل کرتے تھے۔
ایک شخص آج وزیراعظم ہوسکتا ہے کل آپ اسے در بدر بھیک مانگتے ہوئے دیکھیں گے، ایک شخص جو کل تک ایک سلطنت کا بادشاہ تھا آج وہ ایک بھکاری ہے، جو مسجد کے دروازے پر کھڑا ہے۔ برمی سائیڈز ایران کی ایک عظیم شرفاء کی فیملی تھی اور 50 برس تک (752 تا 804) ان کو عباسی خاندان کے پہلے پانچ خلفاء کی حمایت حاصل رہی تھی۔ ہارون الرشید نے حسد کی بناء پر ان کا قتل عام کروا دیا تھا، اس فیملی کی ایک وسیع تر آبادی پر حکومت تھی اور تھوڑی دیر بعد آپ تمام تر فیملی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھتے ہیں۔ ابوالفضل جو کل تک ایک چہیتا درباری تھا، آج اس کا سر قلم کیا جاچکا ہے اور اس کا کٹا ہوا سر دربار میں پیش کیا گیا ہے۔
وہ کہتا ہے عزت و وقار اور عہدے بڑی حماقت ہیں اور زندگی بذات خود کچھ بھی نہیں۔ فریدون کی مٹی سے برتن بنائے جاتے ہیں اور جمشید کی لاش اینٹیں بنانے میں استعمال کی جاتی ہیں لہٰذا غم و فکر اور تفکرات اور انسانی جدوجہد یا دوڑ دھوپ فضول اور بے کار ہے۔ عہدوں اور خطابات کے حامل مشہور اور معروف انسانوں کی زندگیاں بیماری سے دوچار ہیں، بے چینی اور غصے سے دوچار ہیں اور یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ اگرکوئی انسان ان کی مانند جذبات کا غلام نہ ہو تب وہ اسے نیچے گرادیتے ہیں۔ اگر تم خدا کے بھیدوں کو جاننے کی خواہش رکھتے ہو تو دیکھو کہ کسی بھی مخلوق کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا یا مسترد نہیں کیا جاتا۔
سعدی کہتے ہیں جب اختیارات ایسے شخص کے ہاتھوں میں آتے ہیں جو درست راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے وہ اسے اعلیٰ عہدہ تصور کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک گڑھے میں گر چکا ہوتا ہے۔ لوگوں کی رسوائی ان کے حکمرانوں کی بدعنوانی بنتی ہے، سلطنت اور عہدے پر اعتبار نہ کرو کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی موجود تھے اور تمہارے بعد بھی موجود رہیں گے۔ سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے ''جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبر کافی ہے''۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے بے حسی کی انتہا ہوگئی ہے، غریب آدمی کو سستا آٹا نہیں دے سکتے تو چوہے مار گولیاں ہی دے دیں۔ عوام کو اس طرح مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے جب کہ حکمرانوں کے کتے مربے کھا رہے ہیں۔ پاکستان کے 18 کروڑ عوام چند ہزار افراد کے ہاتھوں روندے اور کچلے جارہے ہیں، ان کو روندنے اور کچلنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ ان کے ہی ہم وطن، ہم نسل اور ہم مذہب ہیں، ان کی بھوک، ہوس، لالچ، خودغرضی، بے حسی کے ہاتھوں عوام ذلیل و خوار ہورہے ہیں، یہ چند ہزار افراد دراصل ذہنی بیماری کا شکار ہیں، ان چند ہزار افراد میں سیاست دان، بیورو کریٹس، جاگیردار، سرمایہ دار اور مذہبی رہنما شامل ہیں، یہ چند ہزار افراد اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے اور ان کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کا کہیں بھی کبھی بھی حساب نہیں لیا جائے گا۔
وہ ہر قسم کے احتساب سے مبرا ہیں، خدا نے ان کو صرف اور صرف لوٹ مار، عیاشیوں اور دوسروں کا مال ہڑپ کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے، دوسری طرف سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ جو لٹ رہے ہیں، برباد ہورہے ہیں، جو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، جو تڑپ اور سسک رہے ہیں، جو روز بے موت مررہے ہیں، جو سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں وہ خاموش، بے حس بنے ہوئے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کونسا اور برا وقت آئے گا جب یہ لوگ اپنے حق کے لیے اٹھیں گے اور ان غاصبوں، جابروں اور لٹیروں کو اجڑی ہوئی قبر کے علاوہ اور کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔