فوج پہ تنقید کے مسائل
فوجی حکمرانوں کو زیر بحث لائیں اور ادارے کو تختہ تنقید نہ بنائیں عملاً ممکن نہیں ہے۔
چونکہ ہم نے تنقید کو جمہوریت کا اولین ترین معیار تسلیم کیا ہوا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہمارا مفروضہ بھی ہے کہ اس معیار کو پانے کے لیے ہمیں ہر حد سے پھلانگنا ہے کہ دیکھنے اور سننے والا ششدر رہ جائے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فوج پر ہونے والی حالیہ تنقید جمہوری ہے۔ اور جو کچھ بھی لکھا اور بولا جا رہا ہے وہ اس بنیادی حق کی ایک شکل ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں فوج کو سیاسی کردار پر مامور کیا گیا۔ اس غیر آئینی تعیناتی کے نتائج خوف ناک رہے۔ ان نتائج میں سے بیسیوں ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ فوجی ادوار میں فوج اور سیاست ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ فوجی حکمرانوں کو زیر بحث لائیں اور ادارے کو تختہ تنقید نہ بنائیں عملاً ممکن نہیں ہے۔
تین نومبر کی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے فوجی سربراہ کے طور پر دستخط کیے۔ اس سے پہلے اپنے کمانڈرز سے اپنی قیادت پر اعتماد کا اظہار بھی کروایا جس پر با قاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور ایوب خان نے اپنی سیاست کو چلانے کے لیے فوج کو بطور ادارہ استعمال کیا۔ بنیادی جمہوریت ہو یا انتخابات، پکڑ دھکڑ ہو یا مار دھاڑ، سیاسی عہدوں کی تقسیم ہو یا منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھانے یا پھر ملک بدر کرنے کا عمل یہ سب کچھ فوجی حکمران اپنے ادارے کی طاقت سے سر انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ تاریخ کے ان ادوار سے حوالے دیے جائیں اور فوج پر بطور ادارہ تنقید کا ایک قطرہ بھی نہ گرے۔ ماضی ایک خوفناک چیز ہے۔ جو کہا، کیا یا سنا جاتا ہے وہ سامنے ضرور آتا ہے۔
مگر ان تمام اصولوں اور تاریخی حقائق کے باوجود فوج پر ہونے والی موجودہ تنقید کا یہ دور مسائل کے بغیر نہیں ہے۔ پہلا مسئلہ ان نقادوں سے متعلق ہے جو آج کل سب سے بلند آواز میں اس حوالے سے سنے جاتے ہیں۔ جن کے قلم روشنائی کی جگہ زہر استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کچھ سال پہلے تک اسی فوج کے ساتھ تھے۔ ان دنوں جب یہ جمہوریت کا لبادہ نہیں اوڑھے ہوئے تھے تو ان کو یونیفارم کا رنگ بہت بھاتا تھا۔ ریاست کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ان اداروں کے ٹکڑوں پر پلنے کے بعد اب ان کے منہ سے اصولی باتیں سن کر حیرت بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی۔
حیرت کی وجہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر پریشانی یہ ہے کہ کسی بہترین اصول کی ساکھ کو تباہ کرنے کے لیے اس کی تشہیر پر بے اصولوں کو مامور کر دیا جائے۔ سویلین اداروں کی برتری کی بات جب ان حلقوں کی طرف سے سامنے آتی ہے تو وہ اصول پرستی کم اور سازش زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ فوج ان افراد کو بھی اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتی تھی۔ لہذا آج ان کی طرف سے جمہوری دعوے سنتے ہوئے یقینا یہ محسوس کرتی ہو گی کہ اس مرتبہ یہ سب کسی اور کا کھا کر یہ باتیں کر رہے ہیں۔
فوج پر تنقید کا دوسرا بڑا مسئلہ اس سیاسی پود سے ہے جو کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی طریقے سے فوج کی آبیاری کی مرہون منت رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں محمد نواز شریف، عمران خان یا طاہر القادری۔ ایم کیو ایم ہو یا جماعت اسلامی تمام جماعتوں نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر خود کو سیاسی طور پر متعارف یا مستحکم کیا۔ یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب فوج سیاست پر حاوی ہو تو سیاستدانوں کے لیے میدان میں آ کر اس طرح قدم جمانا کہ غالب طاقت سے معانقہ نہ ہو ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ سیاست ایک عملی شعبہ ہے۔ اس کو خالی جذبات سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی قربانیاں یا اپنی غلطیوں کی قوم سے معافی یقینا ان کو فوج سے ہٹ کر اپنے سیاسی کردار کو بھی بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ لیکن فوج کے سیاسی کردار کی طرح سیاسی جماعتوں کا ماضی بھی اتنی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔
پچھلے ہفتے حکومت کے انتہائی معتبر اور اعلی عہدے پر فائز شخص نے مجھے میاں نواز شریف کے ساتھ سعودی عرب میں بات چیت پر مبنی ایک واقعہ سنایا۔ سرور محل میں میاں صاحب کی خوشنودی کے حصول کے لیے ان صاحب نے فوجی ادوار کے بارے میں غصے کا اظہار کیا۔ یہ کہنے لگے کہ تمام جرنیلی دور اس ملک کی تباہی کا بنیادی سبب ہیں۔ زور بیان میں موصوف نے جنرل ضیاء الحق کو منافق کہہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تنگ نواز شریف اس تنقید پر خوش ہوں گے مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب نواز شریف نے رد عمل میں یہ کہا کہ ضیا ء الحق کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنا درست نہیں۔ اپنی پشیمانی چھپاتے ہوئے یہ صاحب اتنا کہہ کر چُپ ہو گئے کہ میاں صاحب آپ بڑے وسیع القلب ہیں۔
اس قسم کے واقعات جو فوج کے ہاتھوں بننے والے سیاسی عمل اور اس عمل سے نکلنے والے جمہوریت پسندوں کی تاریخ رقم کرتے ہیں، ایک نہیں سیکڑوں ہیں۔ ایک طرح سے شیشے کا گھر ہے جس میں بیٹھ کر پتھر اچھالنا خود پر کرچیوں کی بارش کروانے کے مترادف ہے۔ جنرل مشرف کے مقدمے میں فوج پر تنقید کا یہ زاویہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جنرل مشرف نے 12 اکتوبر کو آئین پہ جو شب خون مارا اس کی کوئی سزا نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ذریعے طاقت اور دولت کی سیڑھیاں پھلانگنے والے قوم سے معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں۔ مگر فوج کو بطور ادارہ رگیدنے میں پیش پیش ہیں۔ جو لوگ ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے اور پھر اپنے خاندانوں کو پاکستان کی سیاست پر اگلی کئی نسلوں کے لیے مسلط کر دیا ۔ ان کے ماننے والے آج احتساب کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔
جہاد کے نام پر پیسے بنانے والی قوتیں آج آئین کی سر بلندی کی باتیں کرتی ہیں۔ سیاسی ارتقاء کے اس پیچیدہ عمل میں حتمی فیصلہ کرنے کی استطاعت سیاسی اور عدا لتی حلقوں کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ انتخابات کی صورت میں قوم نے بار بار سیاسی قوتوں کو ہی اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اور جمہوریت میں اس عمل سے گزرنے کے بعد ماضی کے داغ دھل بھی جاتے ہیں۔ کل کون کیا تھا ایک غیر ضروری بحث ہے۔ جو اصولی طور پر انتخابی عمل سے گزر نے کے بعد ختم ہو جانی چاہیے۔ مگر یہ ارتقاء طویل اور تکلیف دہ ہے۔ دو انتخابات کروا کر ہم اس سیاسی منظر نامے کو اپنی بحث سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔
جو 80,70,60 اور 2000 کی دہائیوں میں ہم نے دیکھا۔ پاکستان میں سیاسی قوتیں فوج کی مدد سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ وہ وقت ابھی دور ہے کہ جب ماضی ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دے گا۔ اور جب تک یہ چھٹکارہ حاصل نہیں ہو جاتا تنقید کرتے وقت ماضی کو یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے یہ تنقید ایک حقیقی شکل اختیار کر لے گی۔ اس کا غصہ اور زہر بھی کم ہو جائے گا۔ فوج خود پر ہونے والی تنقید کو کیسے لیتی ہے یہ اگلے کالم کا موضوع ہو گا ۔
تین نومبر کی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے فوجی سربراہ کے طور پر دستخط کیے۔ اس سے پہلے اپنے کمانڈرز سے اپنی قیادت پر اعتماد کا اظہار بھی کروایا جس پر با قاعدہ پریس ریلیز جاری کی گئی۔ جنرل ضیاء الحق اور ایوب خان نے اپنی سیاست کو چلانے کے لیے فوج کو بطور ادارہ استعمال کیا۔ بنیادی جمہوریت ہو یا انتخابات، پکڑ دھکڑ ہو یا مار دھاڑ، سیاسی عہدوں کی تقسیم ہو یا منتخب وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھانے یا پھر ملک بدر کرنے کا عمل یہ سب کچھ فوجی حکمران اپنے ادارے کی طاقت سے سر انجام دیتے رہے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ تاریخ کے ان ادوار سے حوالے دیے جائیں اور فوج پر بطور ادارہ تنقید کا ایک قطرہ بھی نہ گرے۔ ماضی ایک خوفناک چیز ہے۔ جو کہا، کیا یا سنا جاتا ہے وہ سامنے ضرور آتا ہے۔
مگر ان تمام اصولوں اور تاریخی حقائق کے باوجود فوج پر ہونے والی موجودہ تنقید کا یہ دور مسائل کے بغیر نہیں ہے۔ پہلا مسئلہ ان نقادوں سے متعلق ہے جو آج کل سب سے بلند آواز میں اس حوالے سے سنے جاتے ہیں۔ جن کے قلم روشنائی کی جگہ زہر استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کچھ سال پہلے تک اسی فوج کے ساتھ تھے۔ ان دنوں جب یہ جمہوریت کا لبادہ نہیں اوڑھے ہوئے تھے تو ان کو یونیفارم کا رنگ بہت بھاتا تھا۔ ریاست کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ان اداروں کے ٹکڑوں پر پلنے کے بعد اب ان کے منہ سے اصولی باتیں سن کر حیرت بھی ہوتی ہے اور پریشانی بھی۔
حیرت کی وجہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر پریشانی یہ ہے کہ کسی بہترین اصول کی ساکھ کو تباہ کرنے کے لیے اس کی تشہیر پر بے اصولوں کو مامور کر دیا جائے۔ سویلین اداروں کی برتری کی بات جب ان حلقوں کی طرف سے سامنے آتی ہے تو وہ اصول پرستی کم اور سازش زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ چونکہ فوج ان افراد کو بھی اپنے کاموں کے لیے استعمال کرتی تھی۔ لہذا آج ان کی طرف سے جمہوری دعوے سنتے ہوئے یقینا یہ محسوس کرتی ہو گی کہ اس مرتبہ یہ سب کسی اور کا کھا کر یہ باتیں کر رہے ہیں۔
فوج پر تنقید کا دوسرا بڑا مسئلہ اس سیاسی پود سے ہے جو کسی نہ کسی دور میں کسی نہ کسی طریقے سے فوج کی آبیاری کی مرہون منت رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا میاں محمد نواز شریف، عمران خان یا طاہر القادری۔ ایم کیو ایم ہو یا جماعت اسلامی تمام جماعتوں نے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر خود کو سیاسی طور پر متعارف یا مستحکم کیا۔ یقینا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب فوج سیاست پر حاوی ہو تو سیاستدانوں کے لیے میدان میں آ کر اس طرح قدم جمانا کہ غالب طاقت سے معانقہ نہ ہو ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ سیاست ایک عملی شعبہ ہے۔ اس کو خالی جذبات سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی قربانیاں یا اپنی غلطیوں کی قوم سے معافی یقینا ان کو فوج سے ہٹ کر اپنے سیاسی کردار کو بھی بنانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ لیکن فوج کے سیاسی کردار کی طرح سیاسی جماعتوں کا ماضی بھی اتنی آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔
پچھلے ہفتے حکومت کے انتہائی معتبر اور اعلی عہدے پر فائز شخص نے مجھے میاں نواز شریف کے ساتھ سعودی عرب میں بات چیت پر مبنی ایک واقعہ سنایا۔ سرور محل میں میاں صاحب کی خوشنودی کے حصول کے لیے ان صاحب نے فوجی ادوار کے بارے میں غصے کا اظہار کیا۔ یہ کہنے لگے کہ تمام جرنیلی دور اس ملک کی تباہی کا بنیادی سبب ہیں۔ زور بیان میں موصوف نے جنرل ضیاء الحق کو منافق کہہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں تنگ نواز شریف اس تنقید پر خوش ہوں گے مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب نواز شریف نے رد عمل میں یہ کہا کہ ضیا ء الحق کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرنا درست نہیں۔ اپنی پشیمانی چھپاتے ہوئے یہ صاحب اتنا کہہ کر چُپ ہو گئے کہ میاں صاحب آپ بڑے وسیع القلب ہیں۔
اس قسم کے واقعات جو فوج کے ہاتھوں بننے والے سیاسی عمل اور اس عمل سے نکلنے والے جمہوریت پسندوں کی تاریخ رقم کرتے ہیں، ایک نہیں سیکڑوں ہیں۔ ایک طرح سے شیشے کا گھر ہے جس میں بیٹھ کر پتھر اچھالنا خود پر کرچیوں کی بارش کروانے کے مترادف ہے۔ جنرل مشرف کے مقدمے میں فوج پر تنقید کا یہ زاویہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جنرل مشرف نے 12 اکتوبر کو آئین پہ جو شب خون مارا اس کی کوئی سزا نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے ذریعے طاقت اور دولت کی سیڑھیاں پھلانگنے والے قوم سے معافی مانگنے پر تیار نہیں ہیں۔ مگر فوج کو بطور ادارہ رگیدنے میں پیش پیش ہیں۔ جو لوگ ایوب خان کی کابینہ کا حصہ بنے اور پھر اپنے خاندانوں کو پاکستان کی سیاست پر اگلی کئی نسلوں کے لیے مسلط کر دیا ۔ ان کے ماننے والے آج احتساب کی تسبیح پڑھ رہے ہیں۔
جہاد کے نام پر پیسے بنانے والی قوتیں آج آئین کی سر بلندی کی باتیں کرتی ہیں۔ سیاسی ارتقاء کے اس پیچیدہ عمل میں حتمی فیصلہ کرنے کی استطاعت سیاسی اور عدا لتی حلقوں کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ انتخابات کی صورت میں قوم نے بار بار سیاسی قوتوں کو ہی اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اور جمہوریت میں اس عمل سے گزرنے کے بعد ماضی کے داغ دھل بھی جاتے ہیں۔ کل کون کیا تھا ایک غیر ضروری بحث ہے۔ جو اصولی طور پر انتخابی عمل سے گزر نے کے بعد ختم ہو جانی چاہیے۔ مگر یہ ارتقاء طویل اور تکلیف دہ ہے۔ دو انتخابات کروا کر ہم اس سیاسی منظر نامے کو اپنی بحث سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔
جو 80,70,60 اور 2000 کی دہائیوں میں ہم نے دیکھا۔ پاکستان میں سیاسی قوتیں فوج کی مدد سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ وہ وقت ابھی دور ہے کہ جب ماضی ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دے گا۔ اور جب تک یہ چھٹکارہ حاصل نہیں ہو جاتا تنقید کرتے وقت ماضی کو یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس سے یہ تنقید ایک حقیقی شکل اختیار کر لے گی۔ اس کا غصہ اور زہر بھی کم ہو جائے گا۔ فوج خود پر ہونے والی تنقید کو کیسے لیتی ہے یہ اگلے کالم کا موضوع ہو گا ۔