بجلیوں کا مکاں

اتنا تو طے ہے کہ اس ملک میں جتنے افراد ہیں اتنے ہی بحران بھی ہیں

barq@email.com

وہ دنیاکا سب سے مشہور سوال تو آپ کو معلوم ہی ہوگا، جس کا جواب کسی کو معلوم نہیں ہے، یعنی پہلے انڈا پیدا ہوا تھا یا مرغی؟ بہت سارے لوگوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن کسی کا بھی جواب درست ثابت نہیں ہوا ہے، مثلا یہ جواب کہ نہ مرغی نہ انڈا بلکہ سب سے پہلے مرغا پیدا ہوا تھا یا یہ کہناکہ جب مرغی پیدا ہو رہی تھی تو اس کے پیٹ میں انڈا بھی تھا اور اس انڈے میں پھر مرغی تھی۔

خیر مرغی کو مرغی اور انڈے کو انڈا ماریئے بلکہ مرغی اور انڈا کھانے والوں کو بھی۔ ایسا ہی ایک سوال ہمارے ذہن میں بھی آیا ہے، پہلے خود اس کاجواب ڈھونڈیں گے، نہ ملا تو پھر آپ سے پوچھیں گے اورآپ کے پاس تو ہرسوال کاجواب موجود ہوتا ہے۔

اگر آپ بھی ناکام ہوگئے تو پھر کالموں اور چینلوں کے دانا دانشور تو موجود ہیں، وہ تو اس سوال کاجواب بھی جانتے ہیں جو سرے سے موجود نہ ہو یا جو اپنے سوال سے بھی پہلے پیدا ہوجاتے ہیں، وہ سوال یہ ہے کہ پہلے پاکستان پیدا ہوا تھا یا بحران۔ اس سلسلے میں جب غور کے حوض میں غوطہ زنی کی تو دوردور تک دونوں ایک ساتھ ہی دکھائی دیے، پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ان میں بڑاکون ہے اور چھوٹا کون، یعنی سینئرکون اورجونئیر کون؟ویسے اگر دونوں کو ''ٹوئن'' یا جڑواں بھی مان لیں تب بھی آگے پیچھے والا سلسلہ تو ہوسکتا ہے۔

اب یہ بھی معلوم کرنا ممکن نہیں، اس لیے وہ مرغی اور انڈے کاجواب یہاں بھی دیا جاسکتاہے کہ جب پاکستان پیدا ہو رہا تھا تو اس کی کوکھ میں بحران تھا اور بحران کی کوکھ میں پاکستان تھا اور پھر اس میں وہ سیاسی ''لیڈر'' اور سرکاری نوکر تھے جو بحران پیدا کرنے میں سو پشتوں کی مہارت رکھتے ہیں بلکہ یہ دونوں اتنے زمانوں سے ساتھ ساتھ چپکے اور لیٹے ہوئے چلے آرہے ہیں کہ دونوں میں یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ لیڈرکون ؟ اور بحران کون ؟ گویا

من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی

تاکہ کس نہ گوئد بعد ازیں دیگرم تو دیگری

جس طرح روزنہ کولہو سے تیل نکالنے والا تیلی ہوجاتاہے،ڈاکے مارنے والا ڈاکوہوجاتاہے اور زمین سے تعلق کی بنا پر آدمی زمیندارہوجاتا ہے یا ''ہیرجو رانجھا ہوگئی تھی۔

رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی

پشتو میں ایک لطیفہ ہے۔ ''دیمو'' لفظ ''زما'' کا مطلب ہے ''میرا'' لیکن ایک ہجے میں (ز) دال (د) بن جاتی ہے اور(ما) ''مو'' بن جاتاہے اس لیے ''دیمو'' کا مطلب ہوتا ہے ''میرا''

کسی جگہ بھرتی ہورہی تھی، ایک دیمو لہجے والے کی باری آئی تو انگریز افسر نے پوچھا، نام؟ ''دیمو'' والے نے اسے سوال بناتے ہوئے کہا، دیمو ؟ یوں یہ سلسلہ چلا۔

نیم؟ دیمو ، باپ کانام دیمو ؟ قومیت ؟ دیمو ؟ گاؤں کا نام۔ دیمو ؟ ماں کا نام ؟ دیمو ؟ عمر ؟ دیمو؟ انگریزافسر چلایا ؟ وٹ ازدس ۔ یوآرآل ''دیمو''۔

حالانکہ وہ بتانا نہیں بلکہ پوچھتا ہے کہ کیا آپ میرا نام پوچھ رہے ہیں؟

اور اب اگر ہم لیڈر کے ساتھ بھی انٹرویو کریں تو، ہی ازآل دیمو۔ یعنی بحران ہی بحران۔ کہ وہ خود بھی بحران ہوتا ہے۔ پیداکرتا بھی بحران ہے، کھاتا بھی بحران ہے، پیتا بھی بحران ہے، اڑتا بچھاتا بھی بحران ہے ،دیتا لیتا بھی بحران ہے، بیجتا اور خریدتا بھی بحران ہے ۔


ہوسکتاہے کہ آپ ہم سے اتفاق نہ کریں جو یقیناً لیڈر عرف بحران ہی ہوں گے کہ آخر لیڈروں اور بحرانوں کا یہ جنم جنماتر کاساتھ کیوں ؟ یاکیسے؟

ان سے ہم ایک سیدھا سادا سوال پوچھیں گے کہ ''بحران'' نہ ہوں تو لیڈر کیاکریں گے۔

بحر ساکن ہو تو تم کو کوئی پوچھے بھی نہیں

ناخدا خیر منا بحر میں طوفانوں کی

مریض نہ ہوں تو معالج کیا خاک کھائیں گے، مردے نہ ہوں تو گورکن کیاکریں گے؟ مجرم نہ ہوں تو قانون نافذکرنے والے کیا بھیک مانگیں گے، پیٹ نہ ہو تو دکاندار کیا مکھیاں اڑائیں گے ۔

مسافرنہ ہوں تو سرائے، ہوٹلز والے سیٹیاں بجائیں گے ؟ آنے جانے والے نہ ہوں تو سواریوں والے ڈاکے ڈالیں گے ؟ مرتشی نہ ہوں تو راشی کیا عمرے پر جائیں گے، مطلب یہ کہ دیکھیے، سنئے، سوچئے غورئیے کہ گھاس نہ ہوں تو گھوڑا کیا چرے گا ؟

یہ ایک ''ڈپینڈڈ'' دنیا ہے، شکاری کا کام شکار ہی سے چلتاہے، ہرکسی کا کام کسی دوسرے کے ذریعے چلتاہے ،چنانچہ بحران پیدا کرنا، انھیں پالنا پوسنا اور ان سے اپنا کام چلانا، لیڈروں کا جدی پشتی کام بھی ہے، مشلغہ بھی اور دھندہ بھی ۔

اگر لوگوں کو روٹی ،کپڑا، مکان میسر آجائے تو روٹی کپڑا مکان والے کیاکریں گے ۔لق و دق صحرا والے نہ ہوں تو ''سبزباغ'' کون بیچے گا اور کیسے بیچے گا۔سفید پوش نہ ہو تو کالے باغ کون فروخت کرے گا۔اور اب کے تو اس بحران اندر بحران ملک نے اپنے جو بحران اعظم پیدا کیا ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی بھی بحران پیدا نہ ہو تو سو سال تک کسی اور بحران کی ضرورت نہیں ہے، لگ بھگ پانچ سال سے اس نے اتنے بحران پیداکیے ہیں، اتنے بحران پیدا کیے ہیں کہ پورا ملک ، ملک کاچپہ چپہ اور ہرچپے پر رہنے والا فرد بجائے خود ایک بحران بن گیا ہے

لیجیے آشیاں بن گیاہے

بجلیوں کامکان بن گیاہے

کچھ زیادہ حساب کتاب تو ہمیں نہیں آتا لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس ملک میں جتنے افراد ہیں اتنے ہی بحران بھی ہیں، گویا وہی بات ہوگئی ہے کہ ہر مرغی کے اندر انڈا اور ہرانڈے کے اندر مرغی تو ہے لیکن ہر مرغا بھی انڈے دینے لگا ہے اور ہر مرغا جو انڈا دیتا ہے اس کے اندر بھی مرغا ہوتاہے اور ہرمرغے کے اندر ایک ''بانگ'' بھی ہوتی ہے ۔

تم شہرمیں ہوتے ہو تو کیا غم جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے بحران کئی اور
Load Next Story