اتحادی حکومتی شکست اور اسلام آباد پولیس
اِس مستحکم تاثر نے عوام کی اکثریت کو اتحادی حکومت سے بہت دُور کر دیا ہے
اتحادی حکومت نے مہنگائی کا 48سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پچھلے 11ماہ میں اتحادی حکومت کے وزیر اعظم، جناب شہباز شریف، کے ہاتھوں سے کوئی ایک بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے جسے عوامی مفاد اور بہبود کا نام دیا جا سکے۔
ایسے میں کون اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو ووٹ دے گا؟ ویسے یہ تاثر خاصا مستحکم ہو چکا ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل ہر لیڈر اور پارٹی نے اپنے اپنے مفادات خوب سمیٹے ہیں ، اور یہ کہ اِن 11مہینوں میں پاکستان کے غریب عوام کو خوار و زبوں بنا دیا گیا ہے۔
اِس مستحکم تاثر نے عوام کی اکثریت کو اتحادی حکومت سے بہت دُور کر دیا ہے۔ اِس دُوری نے اتحادی حکومت کے تینوں مرکزی لیڈروں( شہباز شریف، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن) کے دل میں اب ایک گہرا خوف پیدا کررکھا ہے۔
یہ خوف ہی ہے جو اتحادی حکومت کا حصہ ہر جماعت کو عام انتخابات کی جنگ کا سامنا کرنے سے ڈرا رہا ہے ۔
عجب منظر ہے : درجن بھر جماعتوں کی اتحادی حکومت عام انتخابات کے انعقاد سے بھاگ رہی ہے اوران کے مقابل کھڑی اکیلی جماعت ، پی ٹی آئی ، سینہ ٹھونک کر انتخابات کے لیے للکار رہی ہے ۔
اِس للکار سے اتحادی حکومت کا سینہ بُری طرح لرز رہا ہے ۔اتحادی حکومت نے پچھلے گیارہ مہینوں میں جو عوام دشمن اقدامات کیے ہیں ، ان کی موجودگی میں وہ کس منہ سے عوام سے محبت اور تعاون مانگ سکتی ہے؟
وزیر خزانہ ،اسحاق ڈار، کی سبھی پھرتیاں خاک چاٹ رہی ہیں ۔پچھلے11مہینوں کے دوران اتحادی حکومت کی قسمت میں ایک بھی کامیابی نہیں لکھی جا سکی ہے ۔جب کہ عمران خان کے لیے قدم قدم پر فتح اور کامیابی کے دوازے کھل رہے ہیں ۔
اتحادی حکومت کے مقدر میں قدم قدم پر پسپائی اور شکست اس لیے لکھی جا رہی ہے کہ اتحادی حکومت بے ہمت بھی ہے اور اپنے اہداف سے ناآشنا بھی ۔ اپنے اپنے مفادات کی کشمکش نے اتحادی حکومت سے احترام بھی چھین رکھا ہے ۔
کسی سطح پر احساس ہی نہیں ہوتا کہ ملک میں کوئی حکومت بھی ہے۔ اگرچہ جناب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں لیکن حکومت میں شامل ہر بڑی جماعت کا ہر وزیر کوئی بھی فیصلہ کرنے ، یا قدم اٹھانے یا بیان دینے سے قبل وزیر اعظم صاحب کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنی پارٹی سربراہ کے اشارئہ ابرو کا منتظر ہوتا ہے ۔ اتحادی حکومت کا یہ حقیقی المیہ ہے ۔
تحادی حکومت محض بے دست و پا نظر آتی ہے۔ کنفیوژن اور گھبراہٹ کا شکار ۔ مضمحل اور انتہائی کمزور بھی ۔ یکم مارچ2023 کو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے انتخابات بارے جو فیصلہ آیا ہے ، یہ حکومت کی ایک اور شکست ہے ۔ حکومت کی رُوح پر اِس تازہ فیصلے سے مُردنی چھا گئی ہے ۔ حکومت مزید پریشان اور کنفیوژن کا شکار ہے ۔
اِس کا اندازہ ہم اُن بیانات سے بخوبی لگا سکتے ہیں جو مذکورہ فیصلے کے بعد وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے سامنے آئے ہیں ۔
اِس فیصلے کے بعد نون لیگ کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر ، محترمہ مریم نواز ، نے بھی جس طرح خاموشی کی چادراوڑھ لی ہے، یہ بھی خاصی معنی خیز ہے ۔مریم نواز صاحبہ ہی کیا، ساری نون لیگی ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف قیادت بھی خاموش ہو چکی ہے ۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اُن کی طرف سے کوئی واضح اور قوی بیان سامنے نہیں آ سکا ہے۔ عام انتخابات کا انعقاد اتحادی حکومت کے لیے سب سے بڑا ڈراوا بن چکا ہے ۔ وہ میدان سے فرار چاہتے ہیں۔ جب کہ عمران خان پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اکیلا ہی اُن کا تعاقب کررہا ہے ۔
کوئی عمران خان کی پالیسیوں ، اقدامات اور بیانات سے لاکھ عدم اتفاق کرے ، ایک بات واضح ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ خان صاحب ہی کی یلغار اور للکار سے گونج رہا ہے ۔ خان صاحب نے اگلے روز اسلام آباد کی دو عدالتوں میں جس اسلوب میں حاضری دی ، اِس نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا نئے سرے سے لہو گرما دیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ نون لیگ یا پی پی پی یا جے یو آئی ایف کے کارکنان تو اِس اسلوب کے پاسنگ بھی نہیں ہیں ۔ عمران خان کے ٹائیگروں کی یلغار کے سامنے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کا گیٹ ٹوٹ کر زمین بوس ہو گیا لیکن اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عمران خان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی اور نہ ہی کوئی اور ادارہ حرکت میں آ سکا ۔
عمران خان کے لیے ہر جانب اور ہر میدان میں وِن وِن پوزیشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے روز جب عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں ایک مخصوص اسٹائل میں پیش ہُوئے تو اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جارحیت کے سامنے بھیگی بلی بنی رہی جب کہ یہی اسلام آباد پولیس نے نہتے صحافیوں پر پوری طاقت سے تشدد کیا۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی اور عمران خان سے مار کھاتی ہے اور بدلے میں نہتے صحافیوں کومارتی ہے ۔ اگر اسلام آباد پولیس اہل ہو تی تو چند برس قبل اسلام آباد پولیس کی کسٹڈی سے مبینہ طور پر عمران خان اپنے گرفتار شدہ کارکنوں کو زبردستی رہا کروا کر نہ لے جاتے ۔
اگر اسلام آباد پولیس نااہل نہ ہوتی تو اسلام آباد کا جوڈیشل کمپلیکس کا مین گیٹ پی ٹی آئی کی یلغار سے ٹوٹنے سے بچ جاتا ہے ۔
روزنامہ ''ایکسپریس'' سمیت سبھی اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ صحافیوں پر اسلام آباد پولیس کے تشدد کی خبر پا کر اسلام آباد کے چیف کمشنر اور آئی جی نے نوٹس لے لیا ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہُوا ۔ وزیر داخلہ ، رانا ثناء اللہ، سے منسوب یہ بیان بھی شائع ہُوا کہ اسلام آباد کے نہتے صحافیوں پر پولیس کے تشدد کی تحقیقات کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ، لیکن یہ مبینہ حکم بھی بے سُود ثابت ہُوا ۔
یوں کہ یکم مارچ کی شام ایک نجی ٹی وی کے سینئر اینکر نے آن دی ریکارڈ کہا کہ ''جب وزیر داخلہ صاحب سے اِس تشدد کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے کہا کہ تشدد زدہ صحافیوں اور متعلقہ اسلام آبادی پولیس میں صلح صفائی ہو گئی ہے ، جب کہ یہ بات سرے ہی سے غلط ہے ۔'' اِس پر مذکورہ اینکر پرسن نے مزید کہا:'' جس وزیر داخلہ سے اسلام آباد کی پولیس غلط بیانی کررہی ہو اور وہ کچھ نہ کر پارہے ہوں ، اُس حکومت کے وزیر داخلہ سے ہم مزید کیا توقعات رکھ سکتے ہیں ۔''خبر یہ ہے کہ اگر اسلام آبادکی پولیس کسی اہل ہوتی تو اسلام آباد کی سب سے بڑی جامعہ میں قانون کے نفاذ اور قیامِ امن کے لیے وی سی صاحب حکومت کو رینجرز تعینات کرنے کے لیے خط نہ لکھتے ۔
ایسے میں کون اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کو ووٹ دے گا؟ ویسے یہ تاثر خاصا مستحکم ہو چکا ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل ہر لیڈر اور پارٹی نے اپنے اپنے مفادات خوب سمیٹے ہیں ، اور یہ کہ اِن 11مہینوں میں پاکستان کے غریب عوام کو خوار و زبوں بنا دیا گیا ہے۔
اِس مستحکم تاثر نے عوام کی اکثریت کو اتحادی حکومت سے بہت دُور کر دیا ہے۔ اِس دُوری نے اتحادی حکومت کے تینوں مرکزی لیڈروں( شہباز شریف، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن) کے دل میں اب ایک گہرا خوف پیدا کررکھا ہے۔
یہ خوف ہی ہے جو اتحادی حکومت کا حصہ ہر جماعت کو عام انتخابات کی جنگ کا سامنا کرنے سے ڈرا رہا ہے ۔
عجب منظر ہے : درجن بھر جماعتوں کی اتحادی حکومت عام انتخابات کے انعقاد سے بھاگ رہی ہے اوران کے مقابل کھڑی اکیلی جماعت ، پی ٹی آئی ، سینہ ٹھونک کر انتخابات کے لیے للکار رہی ہے ۔
اِس للکار سے اتحادی حکومت کا سینہ بُری طرح لرز رہا ہے ۔اتحادی حکومت نے پچھلے گیارہ مہینوں میں جو عوام دشمن اقدامات کیے ہیں ، ان کی موجودگی میں وہ کس منہ سے عوام سے محبت اور تعاون مانگ سکتی ہے؟
وزیر خزانہ ،اسحاق ڈار، کی سبھی پھرتیاں خاک چاٹ رہی ہیں ۔پچھلے11مہینوں کے دوران اتحادی حکومت کی قسمت میں ایک بھی کامیابی نہیں لکھی جا سکی ہے ۔جب کہ عمران خان کے لیے قدم قدم پر فتح اور کامیابی کے دوازے کھل رہے ہیں ۔
اتحادی حکومت کے مقدر میں قدم قدم پر پسپائی اور شکست اس لیے لکھی جا رہی ہے کہ اتحادی حکومت بے ہمت بھی ہے اور اپنے اہداف سے ناآشنا بھی ۔ اپنے اپنے مفادات کی کشمکش نے اتحادی حکومت سے احترام بھی چھین رکھا ہے ۔
کسی سطح پر احساس ہی نہیں ہوتا کہ ملک میں کوئی حکومت بھی ہے۔ اگرچہ جناب شہباز شریف وزیر اعظم ہیں لیکن حکومت میں شامل ہر بڑی جماعت کا ہر وزیر کوئی بھی فیصلہ کرنے ، یا قدم اٹھانے یا بیان دینے سے قبل وزیر اعظم صاحب کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اپنی پارٹی سربراہ کے اشارئہ ابرو کا منتظر ہوتا ہے ۔ اتحادی حکومت کا یہ حقیقی المیہ ہے ۔
تحادی حکومت محض بے دست و پا نظر آتی ہے۔ کنفیوژن اور گھبراہٹ کا شکار ۔ مضمحل اور انتہائی کمزور بھی ۔ یکم مارچ2023 کو عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے انتخابات بارے جو فیصلہ آیا ہے ، یہ حکومت کی ایک اور شکست ہے ۔ حکومت کی رُوح پر اِس تازہ فیصلے سے مُردنی چھا گئی ہے ۔ حکومت مزید پریشان اور کنفیوژن کا شکار ہے ۔
اِس کا اندازہ ہم اُن بیانات سے بخوبی لگا سکتے ہیں جو مذکورہ فیصلے کے بعد وزیر قانون اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی طرف سے سامنے آئے ہیں ۔
اِس فیصلے کے بعد نون لیگ کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر ، محترمہ مریم نواز ، نے بھی جس طرح خاموشی کی چادراوڑھ لی ہے، یہ بھی خاصی معنی خیز ہے ۔مریم نواز صاحبہ ہی کیا، ساری نون لیگی ، پی پی پی اور جے یو آئی ایف قیادت بھی خاموش ہو چکی ہے ۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اُن کی طرف سے کوئی واضح اور قوی بیان سامنے نہیں آ سکا ہے۔ عام انتخابات کا انعقاد اتحادی حکومت کے لیے سب سے بڑا ڈراوا بن چکا ہے ۔ وہ میدان سے فرار چاہتے ہیں۔ جب کہ عمران خان پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اکیلا ہی اُن کا تعاقب کررہا ہے ۔
کوئی عمران خان کی پالیسیوں ، اقدامات اور بیانات سے لاکھ عدم اتفاق کرے ، ایک بات واضح ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ خان صاحب ہی کی یلغار اور للکار سے گونج رہا ہے ۔ خان صاحب نے اگلے روز اسلام آباد کی دو عدالتوں میں جس اسلوب میں حاضری دی ، اِس نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کا نئے سرے سے لہو گرما دیا ہے ۔
سچی بات یہ ہے کہ نون لیگ یا پی پی پی یا جے یو آئی ایف کے کارکنان تو اِس اسلوب کے پاسنگ بھی نہیں ہیں ۔ عمران خان کے ٹائیگروں کی یلغار کے سامنے اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس کا گیٹ ٹوٹ کر زمین بوس ہو گیا لیکن اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عمران خان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی اور نہ ہی کوئی اور ادارہ حرکت میں آ سکا ۔
عمران خان کے لیے ہر جانب اور ہر میدان میں وِن وِن پوزیشن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے روز جب عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں ایک مخصوص اسٹائل میں پیش ہُوئے تو اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جارحیت کے سامنے بھیگی بلی بنی رہی جب کہ یہی اسلام آباد پولیس نے نہتے صحافیوں پر پوری طاقت سے تشدد کیا۔
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی اور عمران خان سے مار کھاتی ہے اور بدلے میں نہتے صحافیوں کومارتی ہے ۔ اگر اسلام آباد پولیس اہل ہو تی تو چند برس قبل اسلام آباد پولیس کی کسٹڈی سے مبینہ طور پر عمران خان اپنے گرفتار شدہ کارکنوں کو زبردستی رہا کروا کر نہ لے جاتے ۔
اگر اسلام آباد پولیس نااہل نہ ہوتی تو اسلام آباد کا جوڈیشل کمپلیکس کا مین گیٹ پی ٹی آئی کی یلغار سے ٹوٹنے سے بچ جاتا ہے ۔
روزنامہ ''ایکسپریس'' سمیت سبھی اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ صحافیوں پر اسلام آباد پولیس کے تشدد کی خبر پا کر اسلام آباد کے چیف کمشنر اور آئی جی نے نوٹس لے لیا ہے لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہُوا ۔ وزیر داخلہ ، رانا ثناء اللہ، سے منسوب یہ بیان بھی شائع ہُوا کہ اسلام آباد کے نہتے صحافیوں پر پولیس کے تشدد کی تحقیقات کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ، لیکن یہ مبینہ حکم بھی بے سُود ثابت ہُوا ۔
یوں کہ یکم مارچ کی شام ایک نجی ٹی وی کے سینئر اینکر نے آن دی ریکارڈ کہا کہ ''جب وزیر داخلہ صاحب سے اِس تشدد کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے کہا کہ تشدد زدہ صحافیوں اور متعلقہ اسلام آبادی پولیس میں صلح صفائی ہو گئی ہے ، جب کہ یہ بات سرے ہی سے غلط ہے ۔'' اِس پر مذکورہ اینکر پرسن نے مزید کہا:'' جس وزیر داخلہ سے اسلام آباد کی پولیس غلط بیانی کررہی ہو اور وہ کچھ نہ کر پارہے ہوں ، اُس حکومت کے وزیر داخلہ سے ہم مزید کیا توقعات رکھ سکتے ہیں ۔''خبر یہ ہے کہ اگر اسلام آبادکی پولیس کسی اہل ہوتی تو اسلام آباد کی سب سے بڑی جامعہ میں قانون کے نفاذ اور قیامِ امن کے لیے وی سی صاحب حکومت کو رینجرز تعینات کرنے کے لیے خط نہ لکھتے ۔