جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ
سینیئر جج کی موجودگی میں جونیئر جج کو بینچ کی سربراہی نہیں دی جا سکتی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں بینچز کے تشکیل اور ججز کے روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے ایک فیصلہ دیا ہے۔
دونوں محترم ججز کا یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اس فیصلہ میں واضح کیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں بینچز کے تشکیل اور ججز کے روسٹر کا طریقہ کار شفاف ہو، عوام کو اس پر یقین ہو کہ سپریم کورٹ میں کام شفاف بنیادوں پر ہو رہا ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد جہاں محترم چیف جسٹس کو بینچ تشکیل دینے اور روسٹر جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں، وہاں بینچ کو توڑنے، ان میں ججز کی تعداد کو کم یا زیادہ کرنے اور روسٹر میں تبدیلی کے اختیار نہیں دیتے۔ یعنی چیف جسٹس اگر ایک دفعہ ایک بینچ بنا دیں تو اسے ختم نہیں کر سکتے، اسی طرح اگر ایک مقدمہ ایک دفعہ ایک جج کو دے دیں تو بعد میں اس سے واپس نہیں لے سکتے، وہ مقدمہ پھر وہی جج سنے گا۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برادر جج جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کے بینچ کی سربراہی ان سے جونیئر جج کو دینے پر بھی کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے، سینیئر جج کی موجودگی میں جونیئر جج کو بینچ کی سربراہی نہیں دی جا سکتی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ نوبت اس حد تک کیوں پہنچی کہ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایسا فیصلہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
کیوں یہ مرحلہ آیا کہ جونیئر جج کو سنیئر پر ترجیح دینا پڑ گئی؟ کیوں یہ وقت آیا کہ بینچ بنا کر توڑے گئے اور روسٹر ختم کیے گئے؟
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بنچ 28فروری کو بغیر وجہ بتائے ختم کر دیا گیا۔ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گھر سے مقدمات سننے کے لیے آئے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بنچ ختم کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے صورتحال سمجھنے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کیا تو انھیں بتایا گیا کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے ان کا بینچ ختم کر دیا ہے، جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قانونی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے یہ حکم جاری کیا ہے۔
اب اگر اس حکم سے کسی کو اختلاف ہے تو وہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ لیکن اب یہ حکم موجود ہے۔ کیا ا س حکم سے چیف جسٹس کے بینچ تبدیل کرنے اور روسٹر ختم کرنے کے اختیارات ختم ہوگئے ہیں؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سنیئر ترین جج ہونے کے باجود سائیڈ لائن کیوں کیا گیا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ اہم مقدمات کے بینچز میں کیوں شامل نہیں ہوتے ہیں؟ ان سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا ہے؟
یہ سوال بھی موجود ہے کہ ان کا روسٹر یک دم کیوں ختم کر دیا گیا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے ایک سنیئر جج کو اس طرح بغیر مقدمات کے فارغ بٹھایا جا سکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ میں سینیئر جج کی کوئی حیثیت نہیں؟ اور سینیئر جج پر جونیئر ججز کو ترجیح دی جا سکتی ہے؟ یہ سوالات ایسے ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت میں آئینی معاملات پر سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر جج کا بینچ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے بینچ کے قیام پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، سب کو معلوم ہے کہ آئینی معاملات پر سپریم کورٹ کے پانچ سنیئر جج کا بینچ ہوگا لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
دنیا بھر میں بینچز کے قیام کے لیے شفاف قواعد بنائے گئے ہیں۔ اس لیے اب دنیا میں کہیں بھی ہمیں بینچز کے قیام کے حوالے سے تنازعہ نظر نہیں آتا۔ آج وقت آگیا ہے کہ ا س معاملے پر بھی سپریم کورٹ میں واضح قواعد بنائے جائیں۔ میری رائے میں اب تنازعہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معاملے کو حل کرنے میں تاخیر عدلیہ کی ساکھ کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ئی غیر اہم جج نہیں ہیں، وہ پاکستان کے اگلے چیف جسٹس ہیں، اسی سال انھوں نے چیف جسٹس بن جانا ہے۔
وہ احتساب کے ایک سخت عمل سے گزر کر آئے ہیں، اپنے خلاف ریفرنس کا انھوں نے جس طرح سامنا کیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔ آج جناب جسٹس مظاہر علی نقویٰ پر جو مبینہ الزامات سامنے آرہے ہیں، ا نہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا چاہیے۔
نوے دن میں انتخابات کے فیصلے کو آپ کسی بھی زاویے یا پہلو سے دیکھیں، میں حکومتی اور تحریک انصاف کی تشریحات میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے اس بات سے بھی کوئی خاص سروکار نہیں کہ فیصلہ تین چار سے ہے یا تین دو سے ہے۔
میرے لیے یہ بات خوش آیند ہے کہ سپریم کورٹ کے چار ججز نے چیف جسٹس کے سوموٹو کو غلط کہا ہے۔چار ججز نے یہ کہا ہے کہ سوموٹو لینا قانون کے مطابق نہیں تھا۔ اس لیے قطع نظر اس بات کے سیاسی تشریحات کیا ہیں، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چار ججز نے سو موٹو غلط قرار دیا ہے۔
اب جب ایک سوموٹو کے خلاف فیصلہ آگیا ہے تو سپریم کورٹ میں سو موٹو لینے کے اختیارات پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ پارلیمان اس پر قانون سازی کرے اور کہا جائے کہ عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہو گیا ہے، چیف جسٹس کے اختیارات پر حملہ ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کو اپنے ساتھی سینئیر ججز کے ساتھ ملکر سو موٹو کے لیے شفاف قواعد بنانے چاہیے۔ سوموٹوکس موقع پر اور کن حالات میں لیا جا سکتا، محترم چیف جسٹس اگر سوموٹو لیں گے تو کیسے لیں گے؟ کیا اس میں سنئیر ججز کی مشاورت لازمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے ماضی میں نہایت غیر اہم معاملات پر سوموٹو بھی دیکھا ہے۔
شادیوں اور طلاقوں پر سوموٹو بھی دیکھے گئے ہیں۔ اسی لیے آج سوموٹو کے بارے میں سوالات پر اٹھا رہے ہیں اور ایک رائے عامہ نظر آتی ہے اور سپریم کورٹ کے چار ججز نے سوموٹو کے خلاف فیصلہ دے کر اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تاثر بھی ٹھیک نہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاستدان اکٹھے نہ بیٹھیں تو بات سمجھ آتی ہے کہ ان کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے، ججز کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے، یہ بات ناقابل فہم ہے،اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ مستقبل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس لیے اس کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ کرنا ہوگا اور تمام ججز صاحبان کو مل کر مسائل کو حل کرنا ہوگا۔
دونوں محترم ججز کا یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اس فیصلہ میں واضح کیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے یہ ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں بینچز کے تشکیل اور ججز کے روسٹر کا طریقہ کار شفاف ہو، عوام کو اس پر یقین ہو کہ سپریم کورٹ میں کام شفاف بنیادوں پر ہو رہا ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد جہاں محترم چیف جسٹس کو بینچ تشکیل دینے اور روسٹر جاری کرنے کا اختیار دیتے ہیں، وہاں بینچ کو توڑنے، ان میں ججز کی تعداد کو کم یا زیادہ کرنے اور روسٹر میں تبدیلی کے اختیار نہیں دیتے۔ یعنی چیف جسٹس اگر ایک دفعہ ایک بینچ بنا دیں تو اسے ختم نہیں کر سکتے، اسی طرح اگر ایک مقدمہ ایک دفعہ ایک جج کو دے دیں تو بعد میں اس سے واپس نہیں لے سکتے، وہ مقدمہ پھر وہی جج سنے گا۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برادر جج جناب جسٹس یحییٰ آفریدی کے بینچ کی سربراہی ان سے جونیئر جج کو دینے پر بھی کہا ہے کہ یہ درست نہیں ہے، سینیئر جج کی موجودگی میں جونیئر جج کو بینچ کی سربراہی نہیں دی جا سکتی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ نوبت اس حد تک کیوں پہنچی کہ محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایسا فیصلہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
کیوں یہ مرحلہ آیا کہ جونیئر جج کو سنیئر پر ترجیح دینا پڑ گئی؟ کیوں یہ وقت آیا کہ بینچ بنا کر توڑے گئے اور روسٹر ختم کیے گئے؟
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بنچ 28فروری کو بغیر وجہ بتائے ختم کر دیا گیا۔ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ گھر سے مقدمات سننے کے لیے آئے تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بنچ ختم کر دیا گیا ہے۔
انھوں نے صورتحال سمجھنے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کیا تو انھیں بتایا گیا کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے ان کا بینچ ختم کر دیا ہے، جس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے قانونی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے یہ حکم جاری کیا ہے۔
اب اگر اس حکم سے کسی کو اختلاف ہے تو وہ سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔ لیکن اب یہ حکم موجود ہے۔ کیا ا س حکم سے چیف جسٹس کے بینچ تبدیل کرنے اور روسٹر ختم کرنے کے اختیارات ختم ہوگئے ہیں؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سنیئر ترین جج ہونے کے باجود سائیڈ لائن کیوں کیا گیا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ اہم مقدمات کے بینچز میں کیوں شامل نہیں ہوتے ہیں؟ ان سے کام کیوں نہیں لیا جا رہا ہے؟
یہ سوال بھی موجود ہے کہ ان کا روسٹر یک دم کیوں ختم کر دیا گیا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے ایک سنیئر جج کو اس طرح بغیر مقدمات کے فارغ بٹھایا جا سکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ میں سینیئر جج کی کوئی حیثیت نہیں؟ اور سینیئر جج پر جونیئر ججز کو ترجیح دی جا سکتی ہے؟ یہ سوالات ایسے ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت میں آئینی معاملات پر سپریم کورٹ کے پانچ سینیئر جج کا بینچ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے بینچ کے قیام پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، سب کو معلوم ہے کہ آئینی معاملات پر سپریم کورٹ کے پانچ سنیئر جج کا بینچ ہوگا لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
دنیا بھر میں بینچز کے قیام کے لیے شفاف قواعد بنائے گئے ہیں۔ اس لیے اب دنیا میں کہیں بھی ہمیں بینچز کے قیام کے حوالے سے تنازعہ نظر نہیں آتا۔ آج وقت آگیا ہے کہ ا س معاملے پر بھی سپریم کورٹ میں واضح قواعد بنائے جائیں۔ میری رائے میں اب تنازعہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ معاملے کو حل کرنے میں تاخیر عدلیہ کی ساکھ کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ئی غیر اہم جج نہیں ہیں، وہ پاکستان کے اگلے چیف جسٹس ہیں، اسی سال انھوں نے چیف جسٹس بن جانا ہے۔
وہ احتساب کے ایک سخت عمل سے گزر کر آئے ہیں، اپنے خلاف ریفرنس کا انھوں نے جس طرح سامنا کیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔ آج جناب جسٹس مظاہر علی نقویٰ پر جو مبینہ الزامات سامنے آرہے ہیں، ا نہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا چاہیے۔
نوے دن میں انتخابات کے فیصلے کو آپ کسی بھی زاویے یا پہلو سے دیکھیں، میں حکومتی اور تحریک انصاف کی تشریحات میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے اس بات سے بھی کوئی خاص سروکار نہیں کہ فیصلہ تین چار سے ہے یا تین دو سے ہے۔
میرے لیے یہ بات خوش آیند ہے کہ سپریم کورٹ کے چار ججز نے چیف جسٹس کے سوموٹو کو غلط کہا ہے۔چار ججز نے یہ کہا ہے کہ سوموٹو لینا قانون کے مطابق نہیں تھا۔ اس لیے قطع نظر اس بات کے سیاسی تشریحات کیا ہیں، اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چار ججز نے سو موٹو غلط قرار دیا ہے۔
اب جب ایک سوموٹو کے خلاف فیصلہ آگیا ہے تو سپریم کورٹ میں سو موٹو لینے کے اختیارات پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ پارلیمان اس پر قانون سازی کرے اور کہا جائے کہ عدلیہ کی خود مختاری پر حملہ ہو گیا ہے، چیف جسٹس کے اختیارات پر حملہ ہوگیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کو اپنے ساتھی سینئیر ججز کے ساتھ ملکر سو موٹو کے لیے شفاف قواعد بنانے چاہیے۔ سوموٹوکس موقع پر اور کن حالات میں لیا جا سکتا، محترم چیف جسٹس اگر سوموٹو لیں گے تو کیسے لیں گے؟ کیا اس میں سنئیر ججز کی مشاورت لازمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے ماضی میں نہایت غیر اہم معاملات پر سوموٹو بھی دیکھا ہے۔
شادیوں اور طلاقوں پر سوموٹو بھی دیکھے گئے ہیں۔ اسی لیے آج سوموٹو کے بارے میں سوالات پر اٹھا رہے ہیں اور ایک رائے عامہ نظر آتی ہے اور سپریم کورٹ کے چار ججز نے سوموٹو کے خلاف فیصلہ دے کر اسی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ تاثر بھی ٹھیک نہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز اکٹھے بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاستدان اکٹھے نہ بیٹھیں تو بات سمجھ آتی ہے کہ ان کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے، ججز کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے، یہ بات ناقابل فہم ہے،اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ مستقبل کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس لیے اس کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالات کی نزاکت کا اندازہ کرنا ہوگا اور تمام ججز صاحبان کو مل کر مسائل کو حل کرنا ہوگا۔