انقلابی سوچ کے حامل عوامی شاعر حبیب جالب

وہ ابتداء میں اُستاد الشعرا جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کرتے تھے

دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ ، سچ ہی لکھتے جانا

مت گھبرانا ، مت ڈر جانا ، سچ ہی لکھتے جانا

باطل کے منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں

وہ شمعیں روشن کر جانا ، سچ ہی لکھتے جانا

حبیب جالب بلاشبہ ہمارا ادبی سرمایہ ہیں ، وہ درخشاں ستارے کی مانند پوری آب و تاب کیساتھ جلوہ افروز ہیں اور رہیں گے، وہ ایک صاف گو آدمی تھے۔

انھوں نے ایسے دور میں سچ کی آواز کو بلند کیا جب سچ و حق پر مکر و فریب کے حاوی ہونے کا دور تھا۔ وہ غریب کو جوتی پر رکھنے کا دور تھا۔ بعض اہلِ علم و ادب زندگی جیسی عارضی و فانی Lilusion کا خیال کرتے ہوئے اپنے اہل و عیال کی خوشیوں کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کر ڈالتے ہیں ، محض چند پیسوں کے عوض خود کو بیچ ڈالتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ '' ان کے جسموں پر پھر نہ تو لہو گردش کرتا ہے اور نہ ہی روح نام کی کوئی شے باقی رہتی ہے۔'' مگر حبیب جالب جیسے آدمی میں یہ بات نہیں تھی وہ تو ایک مقدس روح کی طرح سچ کی عبادت کرنیوالے تھے۔

انھیں تو نہ کوئی آمر اور نہ کوئی حاکم خرید سکا۔ اُردو ادب کا یہ عظیم انقلابی شاعر 24 مارچ1928 کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوا۔ انھوں نے اینکلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پندرہ برس کی عمر سے ہی مشقِ سخن شروع کردی۔

وہ ابتداء میں اُستاد الشعرا جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ کراچی مقیم ہوگئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی '' سندھ ہاری تحریک'' میں کام کیا۔

یہی وہ دور تھا جب انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور محسوس کیا اور یہی ان کی نظموں کا موضوع بن گیا۔ ایک مرتبہ اپنے عہد کے سب سے بڑے قومی زبان کے شاعر فیض احمد فیض کو ایک محفل میں عوامی شاعر قرار دیا گیا تو انھوں نے کہا کہ '' اگر عوامی شاعر کہلانے کا کسی کو جائز طور پر حق پہنچتا ہے تو وہ عصرِ حاضر کے حبیب جالب اور اُستاد دامنؔ ہی ہوسکتے ہیں۔ ''

میرے خیال میں دل کے جذبوں ، خواہشات ، ضرورتوں اور امنگوں کی بے لوث ترجمانی کے لیے عام لوگوں کی سمجھ میں آنیوالی زبان اور ان کے دلوں کو گرمانیوالے لہجے کے استعمال کے بغیر کوئی شاعر '' عوامی شاعر'' کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں منو بھائی مرحوم رقم طراز ہیں کہ '' کسی کے لیے عوامی شاعر ہونے سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا اور یہ اعزاز پاکستان میں حبیب جالبؔ کو دیا گیا۔

پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس عوامی شاعر کی پذیرائی کی، ان کے شعروں کو پسند کیا گیا اور دل کھول کر داد دی گئی۔'' عوام کے دلوں میں حبیب جالب کے شعروں اور نغموں، ترانوں اور نظموں کے علاوہ جالب کی سیاسی مستقل مزاجی ، پامردی اور ان قربانیوں کی بھی بے پناہ عزت تھی جو حبیب جالب نے عوام کی محبت اور اپنے نظریات کے تحفظ میں عام زندگی میں بے روزگاری ، حکومتی تشدد ، انتظامی مظالم کی صورت میں برادشت کیں اورکبھی کسی بھی حالت میں ظالم حکمرانوں سے مصالحت کا رویہ اختیار کرنے کا تاثر نہیں دیا۔

حبیب جالب جب کراچی سے 1956 میں لاہور منتقل ہوئے تو اس دوران انھوں نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے دورِ آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ انھوں نے ایوبی آئین کے بارے میں لافانی نظم '' دستور'' لکھی جو ضرب المثل اور محاورے کی صورت اختیار کر چکی تھی اور آج بھی اس کو مقبول ترین نظم سمجھا جاتا ہے۔

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا

حبیب جالب نے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کا پُرجوش ساتھ دیا۔ جنرل ایوب کے خلاف عوامی تحریکوں میں حبیب جالب کا کردار قابلِ ذکر اور قابلِ ستائش تھا ، جب جنرل یحییٰ خان نے فرعون مزاج بننے کی کوشش کی تو حبیب جالب نے کیا خوب لکھا کہ:

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا


اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

ذوالفقار علی بھٹو اور حبیب جالب نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ ان دونوں شخصیات کا سیاسی فلسفہ استحصال کا خاتمہ اور عوام کی فلاح تھا ، مگر اس کے باوجود بھی حبیب جالب ہر دور میں قیدی کی حیثیت سے جیل میں رہے۔

ایک دفعہ ان کی بیگم جیل میں ان سے ملاقات کے لیے گئیں اور کہنے لگیں '' تم ہر چھ ماہ بعد جیل میں آجاتے ہو۔ اُدھرگھر میں آٹا ختم ہونیوالا ہے ، بچوں کے اسکول کی فیسیں دینی ہیں ، میں کیا کروں۔'' جالب صاحب کا عوام سے عشق اپنے بچوں سے بھی زیادہ تھا انھوں نے اس ملاقات کا احوال اپنی ایک نظم ''ملاقات'' میں کیا خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

جو نہ ہو سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی

حالات کا ماتم تھا ملاقات کیا تھی

حبیب جالب متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ایک عام آدمی کے انداز میں سوچتے تھے ، وہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی زندگی میں تبدیلی کے خواہش مند تھے اور یہی وجہ رہی ہے کہ وہ سماج کے ہر اُس پہلو سے لڑے جس میں آمریت کا رنگ جھلکتا تھا۔

وہ اپنی انقلابی سوچ کے تحت آخری دم تک سماج کے محکوم عوام کو اعلیٰ طبقات کے استحصال سے نجات دلانے کا کام کرتے رہے اور جب جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو جالب ان کے سامنے بھی اپنے نظریے اور جمہوری اصولوں پر ڈٹے رہے اور اپنی ایک نظم میں انھوں نے لکھا :

ظلمت کو ضیا ، صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا

حبیب جالب وہ شاعر تھے جو تاریکی کو روشنی اور باطل کو حق نہ کہہ سکے۔ احمد ندیم قاسمی ، جالب کی شاعر ی کے اس ارتقائی سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ '' بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ لمحے فن میں ڈھل کر صدیاں بن جاتے ہیں اس کی ایک مثال تو مولانا ظفر علی خاں کی استعمار دشمن شاعری ہے اُن کے فورابعد حبیب جالب کا نام آتا ہے۔''

ان تمام تر حکمرانوں کے جس سیاسی شخصیت نے حبیب جالب کو متاثرکیا وہ محترمہ بے نظیر بھٹوکی بے باک ، دلیر اور جرات مندانہ شخصیت تھی۔ انھوں نے '' نہتی لڑکی '' کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو بڑی مقبول ہوئی ، مگرکچھ ہی ماہ بعد حبیب جالب ، محترمہ کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوئے تو لکھا کہ:

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

حبیب جالب غریب عوام کے بنیادی حقوق کے بے باک وکیل تھے۔ انھوں نے زندگی بھر عوام کو جگانے اور انھیں انقلاب پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے فرزندِ ارجمند ناصر جالب مرحوم نے بہت پہلے اس کالم کے دوران مجھے بتایا کہ '' جالب صاحب کے ساتھ میں نے وہ دن گزارے ہیں جن دنوں وہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔

یوں اس طرح میں ان کے اچھے اور بُرے دنوں کا ہمراز بھی ٹھہرا۔ انھوں نے یہاں تک بتایا کہ جالب صاحب کبھی کبھار اصلاح کے لیے اپنے اشعار طفیل ہوشیار پوری کو دکھا لیا کرتے تھے ۔'' بہرحال حبیب جالب وہ شخصیت تھے جنہوں نے جو دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا، نتائج کی پروا کیے بغیر اس کو اپنے اشعار میں ڈھال دیا۔

ان کی شعری تصانیف میں برگِ آوارہ ، سرِ مقتل ، عہدِ ستم ، ذکر بہتے خون کا ، گوشے میں قفس کے ،حرفِ حق، اس شہرِ خرابی میں ،حرفِ سرِ دار کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔ عوام کی یہ عوامی اور انقلابی شاعر 12 مارچ1993 کو 65 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔

ان کی وفات کے بعد ان کی متعدد کتب کی اشاعت کا سلسلہ ان کے بیٹے ناصر جالب مرحوم نے اُٹھایا تھا جسے ان کی وفات کے بعد حبیب جالب کی بیٹی نے نہ صرف جاری رکھا ہُوا ہے بلکہ لاہور میں حبیب جالب میموریل فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیے ہوئے ہیں جس کے زیرِ اہتمام ان کی ہر برسی پر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

آخری بات کے طور پر کہتا چلوں کہ ہمیں آج بھی موجودہ نظامِ حکومت کو دیکھتے ہوئے ہر جابر حکمران کے تناظر میں حبیب جالب یاد آتے ہیں اور یاد آتے رہیں گئے۔
Load Next Story