نفس کا غلام

خلافت اسلامیہ اس وقت اس حالت میں تھی کہ بیت المال بادشاہ وقت کا ذاتی خزانہ بن چکا تھا

زمین، جائیداد پر جب انسان کا غلبہ ہو جائے تو ایک حاکمانہ، غاصبانہ سا جذبہ ابھرتا ہے جس کا جن بڑھتے بڑھتے خوف ناک صورت اختیار کرلیتا ہے ، اگر ان جائیدادوں ، زمینوں کی واپسی کا انتظام ہو جائے تو ذرا سوچیے کہ حالات کس رخ پر ہوں گے اور ان حاکمانہ ، غاصبانہ جذبات کا کیا ہوگا کس قدر عجیب سی حالت ہوگی ، کیا ایسا ہو سکتا ہے یا ہوا ہوگا کہ ایک طویل عرصہ جس مال و جائیداد پر قبضہ کرکے انسان بیٹھا رہے اسے اچھی طرح علم ہے کہ یہ جس پر وہ جم کر بیٹھا ہے اس کا ہرگز بھی نہیں ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کی والدہ حضرت عمر فاروقؓ کی پوتی تھیں اور آپ کے والد مصر کے گورنر تھے، آپ کو سلیمان بن عبدالملک نے اپنا جاں نشیں مقرر کیا تھا جو آپ کے چچازاد بھائی تھے۔

خلافت اسلامیہ اس وقت اس حالت میں تھی کہ بیت المال بادشاہ وقت کا ذاتی خزانہ بن چکا تھا جسے محتاجوں ، غریبوں پر صرف کرنے کی بجائے شاہانہ ٹھاٹھ برقرار رکھنے کے لیے خرچ کیا جاتا تھا۔ شاہی خاندان کے افراد لاکھوں، کروڑوں کی جاگیروں کے مالک بنے بیٹھے تھے اور پرتعیش زندگی بسر کر رہے تھے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ان تمام برائیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ انھوں نے پہلا کام ان جاگیروں کی جانب توجہ کی جسے زبردستی چھین کر بنو امیہ نے اپنے تصرف میں رکھی تھیں۔

یہ ایک بڑا اور خطرناک کام تھا اور اس سے بہت مسائل جڑے تھے گویا بنوامیہ سے دشمنی مول لینا تھی لیکن آپ کے ارادے مصمم اور بلند تھے۔ انھوں نے عزم کیا کہ وہ تمام املاک جو چھینی ہوئی ہیں ان کے اصل مستحقین کو واپس دلا کے رہیں گے۔ خود آپ کے اپنے گھر میں بھی ایسے ہی معاملات تھے۔

لہٰذا انھوں نے ابتدا اپنے ہی گھر سے کی۔ انھوں نے اپنے نوجوان بیٹے عبدالملک کو بلا کر کہا کہ '' میں چاہتا ہوں کہ ہمارے آبا و اجداد نے جو زمین اور جائیداد غریب رعایا سے چھین کر قبضہ میں کر لی تھی اسے واپس کر دیا جائے۔ اس ضمن میں تمہاری کیا رائے ہے؟'' بیٹے نے جواب دیا کہ '' بہت نیک خیال ہے۔

ابھی جا کر اس امر کا اعلان کر دیں۔'' حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ بولے کہ '' اگر تم میری رائے سے متفق ہو تو آیندہ جمعہ کو مسجد میں جا کر اس کی منادی کرا دی جائے گی۔'' عبدالملک ایک نیک دل نوجوان تھا ، اس نے کہا کہ '' امیرالمومنین ! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ جمعہ تک زندہ بھی رہیں گے؟ اس عارضی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے اس نیک کام کو سرانجام دینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔''

آپ اپنے بیٹے کی اس رائے سے بہت خوش ہوئے اور اسی وقت جا کر اعلان کردیا کہ '' جس کا مال میرے باپ دادا نے ضبط کر لیا تھا وہ مجھ سے آ کر واپس لے لے۔'' جیساکہ ہر زمانے میں مکھن لگانے والے خیرخواہ ہوتے ہیں ، اس دور میں بھی تھے۔

انھوں نے آپ کو اس عمل سے روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ '' اگر آپ ساری املاک ان کے اصلی وارثوں کو واپس کردیں گے تو آپ کی اولاد کا کیا بنے گا ؟'' فرمایا '' انھیں خدا کے سپرد کرتا ہوں۔''یہ کس قدر کا اعتماد اور جذبہ تھا اپنے پروردگار کے لیے جو وہ اپنے ہی لوگوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوئے کہ برائی کی جڑ پہلے اپنے اندر سے ختم کریں اور یہ آپ کی اس عمل کے لیے پہلی کوشش تھی لیکن وہ آسانی سے کب ماننے والے تھے اور اس وقت سوشل میڈیا بھی نہ تھا جو ان پر تنقید کرتا ، ٹرول کرتا ، بہرحال وہ اکڑ گئے اور کہنے لگے کہ '' جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہیں ہو جائیں گے اس وقت تک یہ جائیدادیں واپس نہیں ہوسکتیں۔'' یہ جواب بڑا دہلانیوالا تھا گویا وہ امیرالمومنین کے خلاف تن کر کھڑے ہوگئے تھے۔


ان کا خیال تھا کہ اس سخت جواب کے بعد شاید ان کے رویے میں کچھ نرمی ، لچک آ جائے گی اور ہماری بچت ہو جائے گی ، ان کو تو اس شاہانہ انداز کی عادت پڑ چکی تھی اور ویسے بھی مفت کا مال تو بڑی آسانی سے انسان ہضم کرنے کے مرض میں ہمیشہ سے ہی مبتلا رہا ہے۔ اس وقت بھی یہی حال تھا۔ ان لوگوں کا جواب گستاخانہ اور مغروریت سے پر تھا اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے ناراض ہو کر فرمایا کہ:

''خدا کی قسم! اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو میں تمہیں بھی ذلیل و خوار کر کے چھوڑوں گا۔''

اس پر وہ لوگ سہم گئے اور دھڑا دھڑ غصب شدہ جائیدادیں واپس کیں ، خود امیرالمومنین اس معاملے میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ انھوں نے اپنی بیوی کے زیورات تک اتروا کر بیت المال میں داخل کردیے تھے۔

اپنے خاندان سے نمٹنے کے بعد آپ نے اپنے ماتحت مختلف گورنروں کو بھی اسی قسم کا حکم نامہ جاری کیا کہ جو غصب شدہ مال اور جائیدادیں ہیں فی الفور کارروائی کرو اور ان کے اصل مالکان تک پہنچاؤ۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو ہوکر گزر چکا ہے ماضی کے صفحے پلٹتے پلٹتے خود بہ خود اس جانب وقت جیسے ٹھہر سا گیا تھا۔

صرف کراچی میں ہی نجانے کتنی ہاؤسنگ سوسائٹیز ایسی ہیں جن پر ان لوگوں نے گھر بنا رکھے ہیں جو اس کے اصل وارثین نہیں بلکہ دوسرے شہروں اور ملکوں سے آ کر بس گئے ہیں۔

ان زمینوں کے اصل وارثین چالیس ، پینتالیس برسوں پہلے ان ویران لق و دق زمینوں کے وارث تھے جب ادھر صرف مٹی اڑتی تھی ، وقت گزرنے کیساتھ ساتھ قبضہ مافیاز اور دوسرے سیاسی اور غیر سیاسی محرکات کے باعث مسائل اس قدر بڑھے کہ وہاں باقاعدہ آبادی قائم ہوچکی ہے۔

کراچی کی کچھ اسکیموں میں ایک بڑا حصہ ایسی ہی آبادیوں سے بھرا پڑا ہے، اصل مالکان سوسائٹیز کے دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں، اور ان کی یونین والے کرپشن پر کہانیاں ثبت کرتے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک پرانی پوسٹ نظر سے گزری۔ لاہور کی ایک نامی گرامی رہائشی اسکیم کے کرتا دھرتا بڑے صاحب اپنے الاٹیز سے بچتے چھپتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے چھپ گئے۔

ایک ایسے مقام پر جہاں تک اس دنیا والوں کی پہنچ نہیں۔ یہ ایک لمحہ جب انسان کی روح اس کے جسم سے نکلتی ہے، جب ملک الموت سے سامنا ہوتا ہے، اس بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔

بس وہ ایک پل ایک لمحہ اور انسان کی ساری زندگی گویا انسان سوئی کے ناکے سے گزر رہا ہو۔ اس پل ہمارے سارے عیش، اکڑ، غرور، سیاسی چالیں، کاروباری حربے، اولاد کے لیے بڑے بڑے منصوبے سب دھرے رہ جاتے ہیں اور رہ جاتا ہے تو صرف اس ہستی کا نام کہ جس کی وہ توفیق دے کہ مجھے پکارو، میں تو ہمیشہ سے تمہارے پاس ہی ہوں اور اگر توفیق نہ دے تو۔ ہم سب اس مقام کو یاد رکھیں تو یقینا دنیاوی بہت سے جھنجھٹ باآسانی حل ہو سکتے ہیں، اگر ہمارا نفس ہمارے قابو میں آجائے تب۔
Load Next Story