کراچی میں چھٹے 3 روزہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کا آغاز
تحقیق، ادب، موسیقی اور استدلال کسی بھی معاشرے کے ہتھیار ہوتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ
آرٹس کونسل کراچی اور سندھ لٹریری فاﺅنڈیشن کے مشترکہ تعاون سے منعقدہ چھٹے سندھ لٹریچر فیسٹیول کا رنگا رنگ افتتاح کردیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فیسٹیول کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا اور افتتاحی تقریب میں محمد احمد شاہ ، صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار علی شاہ، نورالہدیٰ شاہ، مشاہد حسین سید، فقیر الدین اعجاز شاہ، شمس الحق میمن، سلیم صافی اور اعجاز ترک نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کا نام سندھ ادبی میلو ہونا چاہئے تھا، سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے، میں خود لال شہباز قلندر کی نگری سے تعلق رکھتا ہوں، اس قسم کے ادبی پروگرامز ہونے چاہئیں اس سے انسانیت کا احترام بڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق، ادب، موسیقی اور استدلال کسی بھی معاشرے کے ہتھیار ہوتے ہیں جن سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے، ہمارے معاشرے میں ہم چند قدم آگے بڑھتے ہیں، پھر کچھ ایسی چیزیں اور واقعات رونما ہوتے ہیں، جن سے ہم پیچھے ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے معاشرے کی 50 فیصد آبادی یعنی ہماری عورتیں، مائیں، بہنیں، سب اپنے گھروں میں قید ہیں، آئیے مل کر ان کیلئے مواقع تلاش کریں اور سندھ کی خواتین کی جہنم جیسی زندگی کو بدلنے کے لیے کچھ اہم کام کریں۔
صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ قوتیں اس طرح کے فیسٹیول کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں، دھماکوں کا جواب دھمال سے دیں گے ، سندھ کا پیغام محبت و امن کا ہے، زبان اور قومیت کی بنیاد پر کسی سے اختلاف نہیں ، ایک مخصوص سوچ سے اختلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیسٹیول میں مختلف صوبوں سے لوگ آئے ہیں جو محبت کا پیغام لائے ہیں، برصغیر میں انتہاپسندی کا مقابلہ ثقافتی اداروں، ادیبوں اور فقراء نے کیا، لال شہباز قلندر پر جب دھماکہ ہوا تو تھوڑی دیر بعد دھمال شروع ہوا، ثابت ہوا کہ ہم بم کا جواب دھمال سے اور دھماکے کا جواب بیت سے دیں گے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم اپنے کلچر کے فروغ کے لیے سندھ سے نکل کر لاہور گئے، لاہور نے بانہیں کھول کر ہمارا استقبال کیا، ثقافت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے، پنجابیوں نے اس پیغام کو قبول کیا، بہت سی مشکلات ہیں، مراد علی شاہ کی قیادت میں ہم گلگت بھی جا رہے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کریں گے۔
شمس الحق میمن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اس بار فیسٹیول کا موضوع ہے ، موسمیاتی تبدیلی کا سفر برسوں سے جاری ہے، گلیشیئر وقت سے قبل پگھلنا شروع کرتے ہیں ، برسات اور کاشت کاری کے موسم تبدیل ہوگئے ہیں، ہمیں اپنے فیصلے موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھ کر کرنے ہوں گے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ سندھ لٹریچر فیسٹیول لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، مزاحمت سندھ سے شروع ہوئی ہے، ایم آر ڈی تحریک سندھ کی مزاحمتی تحریک تھی، صرف ثقافت ہی نہیں سیاست میں سندھ کا اہم کردار ہے ، سندھ کے دارالخلافہ میں سندھیوں کی اکثریت نہیں،سندھیوں کی مہمان نوازی قابل فخر ہے۔
نور الہدی شاہ نے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ سے مردم شماری پر بات کی ہے ، ہم نے وزیر اعلیٰ سے نوکری نہیں مانگی نہ پیسے مانگے، ہم نے لاہور میں جا کر سندھ کی بات کی ہے، دنیا میں آرٹس کونسل سندھ کی بات کرتا ہے۔
نصیر میمن نے کہاکہ چھ سات ماہ قبل ہم بدترین المیے سے گزرے ہیں ، سیلاب کے بعد سندھ میں مزید بیس لاکھ لوگ غریب ہوگئے ، کھنڈرات سندھ سے ایک نئی زندگی کی شروعات ہونی ہے،
نصیر گوپانگ نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کچھ ناعاقبت پسند دوست بلاوجہ مخالفت کررہے ہیں، ادبی میلوں سے سیکھنے کوملتاہے، سندھ لٹریچرفیسٹیول کاچھٹا سال ہے، حکومتی سرپرستی ادبی میلوں کے لیے ضروری ہے۔
فقیر اعجاز الدین نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ سندھی میں بات کروں ، اٹھارویں ترمیم کے بعد زبانوں کو صوبوں کے حوالے کیا جائے ، سندھ میں پچاس سال قبل جو حالات تھے آج بھی وہی ہیں ، اگر ہم اپنی قومی ثقافت پر فخر نہیں کریں گے تو وہ ختم ہوجائے گی۔
ایم ڈی سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے قاضی کبیر نے کہا کہ سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نو لاکھ بچوں کو تعلیم دے رہی ہے ، ہمارے بچے دیگر صوبوں میں زیر تعلیم ہیں ، ہمارے پرانے ادیب تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے تھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فیسٹیول کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا اور افتتاحی تقریب میں محمد احمد شاہ ، صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار علی شاہ، نورالہدیٰ شاہ، مشاہد حسین سید، فقیر الدین اعجاز شاہ، شمس الحق میمن، سلیم صافی اور اعجاز ترک نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کا نام سندھ ادبی میلو ہونا چاہئے تھا، سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے، میں خود لال شہباز قلندر کی نگری سے تعلق رکھتا ہوں، اس قسم کے ادبی پروگرامز ہونے چاہئیں اس سے انسانیت کا احترام بڑھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق، ادب، موسیقی اور استدلال کسی بھی معاشرے کے ہتھیار ہوتے ہیں جن سے معاشرہ آگے بڑھتا ہے، ہمارے معاشرے میں ہم چند قدم آگے بڑھتے ہیں، پھر کچھ ایسی چیزیں اور واقعات رونما ہوتے ہیں، جن سے ہم پیچھے ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے معاشرے کی 50 فیصد آبادی یعنی ہماری عورتیں، مائیں، بہنیں، سب اپنے گھروں میں قید ہیں، آئیے مل کر ان کیلئے مواقع تلاش کریں اور سندھ کی خواتین کی جہنم جیسی زندگی کو بدلنے کے لیے کچھ اہم کام کریں۔
صوبائی وزیر ثقافت و تعلیم سید سردار شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ قوتیں اس طرح کے فیسٹیول کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں، دھماکوں کا جواب دھمال سے دیں گے ، سندھ کا پیغام محبت و امن کا ہے، زبان اور قومیت کی بنیاد پر کسی سے اختلاف نہیں ، ایک مخصوص سوچ سے اختلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیسٹیول میں مختلف صوبوں سے لوگ آئے ہیں جو محبت کا پیغام لائے ہیں، برصغیر میں انتہاپسندی کا مقابلہ ثقافتی اداروں، ادیبوں اور فقراء نے کیا، لال شہباز قلندر پر جب دھماکہ ہوا تو تھوڑی دیر بعد دھمال شروع ہوا، ثابت ہوا کہ ہم بم کا جواب دھمال سے اور دھماکے کا جواب بیت سے دیں گے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم اپنے کلچر کے فروغ کے لیے سندھ سے نکل کر لاہور گئے، لاہور نے بانہیں کھول کر ہمارا استقبال کیا، ثقافت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے، پنجابیوں نے اس پیغام کو قبول کیا، بہت سی مشکلات ہیں، مراد علی شاہ کی قیادت میں ہم گلگت بھی جا رہے ہیں، ہم نفرتوں کو ختم کریں گے۔
شمس الحق میمن نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اس بار فیسٹیول کا موضوع ہے ، موسمیاتی تبدیلی کا سفر برسوں سے جاری ہے، گلیشیئر وقت سے قبل پگھلنا شروع کرتے ہیں ، برسات اور کاشت کاری کے موسم تبدیل ہوگئے ہیں، ہمیں اپنے فیصلے موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھ کر کرنے ہوں گے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ سندھ لٹریچر فیسٹیول لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، مزاحمت سندھ سے شروع ہوئی ہے، ایم آر ڈی تحریک سندھ کی مزاحمتی تحریک تھی، صرف ثقافت ہی نہیں سیاست میں سندھ کا اہم کردار ہے ، سندھ کے دارالخلافہ میں سندھیوں کی اکثریت نہیں،سندھیوں کی مہمان نوازی قابل فخر ہے۔
نور الہدی شاہ نے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ سے مردم شماری پر بات کی ہے ، ہم نے وزیر اعلیٰ سے نوکری نہیں مانگی نہ پیسے مانگے، ہم نے لاہور میں جا کر سندھ کی بات کی ہے، دنیا میں آرٹس کونسل سندھ کی بات کرتا ہے۔
نصیر میمن نے کہاکہ چھ سات ماہ قبل ہم بدترین المیے سے گزرے ہیں ، سیلاب کے بعد سندھ میں مزید بیس لاکھ لوگ غریب ہوگئے ، کھنڈرات سندھ سے ایک نئی زندگی کی شروعات ہونی ہے،
نصیر گوپانگ نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ کچھ ناعاقبت پسند دوست بلاوجہ مخالفت کررہے ہیں، ادبی میلوں سے سیکھنے کوملتاہے، سندھ لٹریچرفیسٹیول کاچھٹا سال ہے، حکومتی سرپرستی ادبی میلوں کے لیے ضروری ہے۔
فقیر اعجاز الدین نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ سندھی میں بات کروں ، اٹھارویں ترمیم کے بعد زبانوں کو صوبوں کے حوالے کیا جائے ، سندھ میں پچاس سال قبل جو حالات تھے آج بھی وہی ہیں ، اگر ہم اپنی قومی ثقافت پر فخر نہیں کریں گے تو وہ ختم ہوجائے گی۔
ایم ڈی سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کے قاضی کبیر نے کہا کہ سندھ ایجوکیشن فاﺅنڈیشن نو لاکھ بچوں کو تعلیم دے رہی ہے ، ہمارے بچے دیگر صوبوں میں زیر تعلیم ہیں ، ہمارے پرانے ادیب تعلیمی اداروں سے جڑے ہوئے تھے۔