بلوچستان کے ظالم سردار اور مظلوم عوام
سانحۂ بارکھان نے سرداری نظام کے چہرے سے پردہ اٹھادیا
پوری دنیا میں بلوچستان کے مسائل کا جب بھی ذکر آتا ہے تب بلوچستان کے سردار ذہن میں ضرور آتے ہیں۔
بلوچستان کا سرداری نظام جو موجودہ دور میں چل رہا ہے، اس کی بنیاد رابرٹ سنڈیمن نے 1876 میں رکھی تھی، جب وہ بلوچستان کے چیف کمشنر اور گورنر جنرل ہند مقرر ہوا تھا۔ اس نے بلوچستان میں سرداروں کو بہت سی مراعات دیں، انہیں ذاتی اور سرکاری نوکریاں بھی دیں اور ہزاروں لوگوں کو ان سرداروں کی توسط سے وظیفے دیے تھے۔
انہی سرداروں کی اولادوں کو خصوصی وظائف دیے جاتے تھے اور ان کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا تاکہ ان کی اولاد مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔
بلوچستان کے سب سردار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کئی سردار آج بھی اپنے اپنے علاقوں میں بیٹھے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے حکومت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بلوچستان میں غریب کا بچہ غریب تر اور امیر کا بچہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔
اگر غریب کا بچہ پڑھ لکھ لیتا ہے تو اس کو اعزازی منشی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 8 اپریل 1976ء کو کوئٹہ میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر تا حال اس پر عمل نہ ہو سکا۔
مرحوم ضیاء الحق نے تمام سرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں امن کے لیے خوش کیا اور خود آرام سے حکم رانی کے مزے لیتے رہے۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی یہ نظام ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی جس کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی کو بھی شہید کیا گیا، مگر پھر بھی سرداری نظام ختم نہیں ہوسکا۔
آج بھی بلوچستان میں کئی سرداروں کے اوطاق سسٹم اور جبری مشقت لینے والا نظام پورے طمطراقکے ساتھ موجود ہے۔ یہ سردار اپنے من پسند فیصلے کرتے ہیں۔
بلوچستان میں عوام کو غلام سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، بلوچ جنگ آزادی میں بھی پیش پیش تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ رابرٹ سنڈیمنواحد لیڈر تھے جو بلوچستان میں بغیر محافظ کے سفر کرتے تھے، اس کی وجہ ان کی بلوچوں سے محبت تھی۔ کبھی کسی نے ان کی طرف ایک انگلی تک نہ اٹھائی۔ انہوں نے تمام قبائلی علاقوں میں سرداروں کو اس طرح اپنے پنجرے میں بند کیا کہ آج تک سردار نہ بھول سکے۔
انہوں نے بلوچ قوم کو بہت سے فائدے بھی پہنچائے، ان سرداروں کے علاقوں میں اسکول کھلوائے، اسپتال بنوائے اور تو اور ان سرداروں کے بیٹوں کو بیرون ملک پڑھائی کے لیے بھی بھیجا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ہر سردار کے حصے کا کوٹا مقرر کیا، مگر آج کے حالات میں کوئی سردار اپنے علاقے میں تن تنہا نہیں گھومتا، اس کے ساتھ دس بیس باڈی گارڈز ضرور ہوتے ہیں۔
آج تمام سردار اپنی اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کا سہارا لیتے ہیں، بلوچوں کا مشہور قول ہے کہ جب آپ اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہوں تو سب سے پہلے آپ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار ہو جائیں، ہو سکتا ہے اس جنگ میں آپ کی جان چلی جائے۔ لیکن جان جانے سے آپ کے لوگوں کو اگر حق مل جائے تو آپ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی۔
بلوچوں میں بدلے کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ بلوچستان کے سرداروں کی آپس میں لڑائیاں بھی مشہور ہیں، اسی طرح اکثر سرداروں کی آپس میں رشتے داریاں بھی مشہور ہیں۔ بلوچستان کا سرداری نظام اتنا پرانا ہے جتنی ان کی آپس کی دشمنیاں قدیم ہیں۔
ان دشمنیوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا، ان حالات کے پیش نظر بلوچستان میں تشویش کی لہر ہے۔ انگریزوں نے کہا تھا کہ اگر بلوچوں کو عزت دو تو وہ خود اپنی گردن آپ کے سامنے پیش کر دیں گے، لیکن اگر زبردستی کرنے کی کوشش کی تو آپ کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔
تاریخ اس قول کی صداقت کی گواہ ہے۔ 1958ء میں نواب نوروزخان کی قیادت میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد نے پہاڑوں کا رخ کیا اور حکومت وقت سے جنگ کا اعلان کردیا۔ وہ کئی ماہ تک پہاڑوں پر رہے، پھر ایک دن حکم رانوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اب ہماری جنگ ختم ہے، مگر اگلے ہی روز نواب نوروزخان کو ان کے دوستوں سمیت جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا کر ان کو عمرقید کی سزا دی گئی، پھر ان کو اور ان کے عزیزوں کو 1962ء میں پھانسی دے دی گئی۔
پھر ایک بوڑھے سردار کو بلا کر ان کے اپنے دوستوں کی لاشیں دکھائی گئیں، اس وقت اس سردار نے تاریخی جملے کہے ''یہ سب میرے بیٹے ہیں، یہ بلوچ کا خون ہے، آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے، اب جنگ تا قیامت جاری رہے گی۔'' انہیںفقروں نے کئی سرداروں کو آزادی کی راہ پر گام زن کر دیا تھا۔ 1948ء سے اب تک کئی سردار شہید کیے گئے، کئی سردار اپنے اپنے علاقوں میں عوام پر ظلم ڈھاتے رہے اور کئی سردار ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
بلوچستان کے سرداروں نے تعلیمی نظام کو تباہ اور اوطاقوں میں تبدیل کر دیا ہے، اسپتالوں تک کو بند کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، سرکاری عمارتوں کو ذاتی ملکیت میں تبدیل کر دیا۔ ان سرداروں کے کہنے پر ان کے عوام اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔
نواب نوروز خان کے بعد بلوچستان میں گزشتہ بیس سال میں کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کا نام بہت بدنام کیا گیا ہے، جن میں ڈیرہ بگٹی میں ہونے والا ڈاکٹر شازیہ کیس بھی شامل ہے، اسی طرح نصیرآباد میں 5 لڑکیاں زندہ درگور کرنا ایک نہایت دردناک واقعہ بن کر سامنے آیا۔ بلوچستان کے تمام مسائل کی جڑ کوئی نہ کوئی تو ہے جس کی سزا بلوچ غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ غریب کی آواز اٹھانے والے کی زندگی کا چراغ گل کر دیا جاتا ہے۔
اگر انگریز انہی سرداروں کے خلاف اس وقت کارروائی کرتے تو شاید یہ سرداری نظام آج یوں رائج نہ ہوتا، ان کی جگہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے۔
دنیا نے جس تیزی سے ترقی کی اسی طرح بلوچ سرداروں نے بھی ترقی کی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ، جدید ہتھیار آ گئے جنہیں وہ جہاں چاہیں جس وقت چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان، افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں سے ملتا ہے، جہاں پرانے دور میں کافی بڑے سردار گزر چکے ہیں جن کے رسم و رواج ملتے جلتے ہیں۔
اس خطے میں اسمگلنگ کی ایک بڑی وجہ یہاں کے سردار ہیں۔ ان کے علاقوں میں نہ پولیس کی چلتی ہے، نہ فوج، نہ ایف سی کی... اگر کسی کی چلتی ہے تو وہ یہی سردار ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر یہاں پرندہ بھی پر نہیں مارتا ہے۔ ان ہی کی مرضی سے پوسٹنگ اور تبادلے کیے جاتے ہیں۔
آج بھی بلوچستان کے باسی پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک سردار سے ایک انگریز صحافی نے پوچھا کہ آپ نے پہلا قتل کس عمر میں کیا؟ تو وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ 14 سال کا تھا جب پہلا قتل کیا۔ اسی طرح ایک ضلع میں ایک نوجوان نے بے روزگاری سے تنگ آ کر الیکشن میں حصہ لیا تو اسے الیکشن کے دوران ہی سرِعام قتل کردیا گیا اور الیکشن ملتوی کردیا گیا۔
تین ماہ بعد دوبارہ الیکشن ہوئے تو سردار جیت گیا۔ اسی طرح 1951 میں ایک ''جٹ'' (پچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص) نے الیکشن میں حصہ لیا، اس کو بھی مار دیا گیا۔ اس روز کے بعد سے آج تک اس سردار کے مدِ مقابل کوئی جٹ نہ آ سکا۔
دیکھنے والے آج تک توبہ توبہ کرتے ہیں۔ اگر بلوچستان میں کوئی ان سرداروں کے مد مقابل ہے تو وہ سردار ہی ہے یا ان کا بیٹا یا ان کے خاندان والے ہی ہیں۔ بلوچستان کے کئی سردار پہلے کتے پالتے تھے اور وہ کتے انسانوں کو زندہ کھا جاتے تھے، اب یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔
بلوچ عوام کی قسمت میں یہ بلوچ سردار کب ان کے جبر کا دور ختم ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
سرداروں کے ظلم اور جبر کا تذکرہ اس وقت پھر تازہ ہوگیا جب گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر خبر پھیلی کہ بلوچستان کے ایک سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے ایک غریب شخص جان محمد مری کے اہل خانہ کو اپنی نجی جیل میں رکھا اور پھر اس کی بیوی اور دو بیٹوں کو قتل کر دیا جب کہ عبدالرحمٰن کھیتران نے اس واقعے سے انکار کر دیا۔
عبدالرحمٰن کھیتران کے مطابق اس کی تیسری بیوی سے ایک بیٹا سردار انعام کھیتران اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف ڈراما رچا رہا ہے۔ ابھی تک اس واقعے کی ساری تفصیلات اس کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے ذریعے ہی سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہیں۔
انعام کھیتران نے مظلوم خاندان کی بعض تصاویر بھی سوشل میڈیا پر ڈالی ہیں جن میں جان محمد کے بیوی بچوں کو سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے گھر اوطاق وغیرہ میں دکھایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہو رہا ہے کے یہ خاندان عبدالرحمٰن کھیتران کے پاس ہی تھا، مگر ساتھ ہی ان تصاویر سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ ان لوگوں پر تشدد کیا جا رہا تھا یا جس طرح ایک ملازم کی فیملی مالک کے گھر میں آزادانہ رہتی ہے۔
اس طرح کا معاملہ ہے! جن کپڑوں میں جان محمد مری کی اہلیہ کو دکھایا گیا وہی کپڑے مردہ حالت میں ان کے بدن پر پائے گئے۔نیز لاشوں کا کنوئیں میںکا پھینکا جانا بھی ایک اہم سوال ہے، کیوںکہ اگر قاتل عبدالرحمٰن کھیتران ہی ہوتا تو اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ ان لاشوں کو اتنی بڑی زمین میں کہیں دبا دیتا یا کہیں دور دراز علاقے میں پھینک دیتا جہاں یہ اجسام گل سڑ جاتے۔
کنوئیں میں پھینکنے سے یہ مقصد واضح ہو رہا ہے کہ آتا جاتا کوئی نہ کوئی ان لاشوں کو دیکھ لے، اور انہیں نکال لے۔
چند ہفتے پہلے جان محمد کی اہلیہ کی ویڈیو سوشل میڈیا سامنے آئی تھی جس میں وہ قرآن مجید اٹھا کر بتا رہی تھی کہ وہ عبدالرحمٰن کھیتران کی قید میں ہے اور وہ اس کی بیٹی کے ساتھ جنسی و جسمانی تشدد بھی کیا جارہا ہے۔
ان ویڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر عبدالرحمان کھیتران کے اپنے مذکورہ بیٹے نے شیئر کیا تھا۔ یہاں پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے جان محمد کی اہلیہ سے زبردستی دباؤ ڈال کر قرآن ہاتھ میں دے کر گواہی دلوائی گئی حالاںکہ مظلوم کو قرآن ہاتھ میں لینے کی عموماً ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے اس کی حالت ہی اس کی مظلومیت کی گواہی دے رہی ہوتی ہے۔
جان محمد مری جو متاثرہ خاندان کا سربراہ ہے وہ عبدالرحمٰن کھیتران پر ہی الزام عائد کر رہا ہے۔ جان محمد مری کے مطابق اس پر عبدالرحمٰن کھیتران دباؤ ڈال رہا تھا کہ اس کے بیٹے انعام کھیتران کے خلاف مقدمات میں گواہی دے جس پر جان محمد مری انکار کر دیتا تھا۔ اور پھر بقول جان محمد مری اس کی فیملی کو نجی جیل میں قید کرلیا گیا۔
اس سارے کیس میں عبدالرحمٰن کھیتران کے خلاف ہی شواہد ظاہر ہو رہے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ قاتل بھی وہی ہو سردار انعام الرحمٰن کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ ایک اعلٰی تحقیقاتی کمیٹی قائم ہونی چاہیے جس پر فریقین کا دباؤ نہ ہو۔ قاتل عبدالرحمٰن کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب تک کے واقعے کے مطابق جان محمد مری کی فیملی مظلوم ہے۔
اور ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ظالم کا تعین ہونا باقی ہے کہ ظالم یزید ہے کہ خود کوفی یا پھر دونوں۔ خان محمدمری کے مطابق لاشیں میری اہلیہ، بڑے بیٹے محمد نواز اورمیرے دوسرے بیٹے عبدالقادر کی ہیں جو عرصے سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید تھے۔ میرے گھر کے مزید 5 افراد اب بھی سردار عبدالرحمان کھیتران کے جیل میں قید ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کنوئیں سے ملنے والی لاشیں جان محمد مَری کی بیوی اور بیٹوں کی نہیں۔ یہ تحقیق جاری ہے کہ پھر یہ مارے جانے والے کون ہیں؟ اس حقیقت کے سامنے آنے سے یہ معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔
سارے سوالات اور اس معاملے کے الجھاؤ اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد جب پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اپنے بچوں سمیت سردار کے مظالم سہ رہی ہے تو ریاست کہاں تھی؟ اور ''کسی کو'' اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ حالاں کہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہنے کے لیے سیاسی مقدمات سننے کے لیے رات گئے بھی انصاف کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔
انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی مقتول کے قاتل نہیں پکڑے جاتے، چور ڈکیت نہیں پکڑے جاتے، بچوں سے زیادتی کرنے والے نہیں پکڑے جاتے، اربوں روپے کرپشن کر کے کروڑوں پاکستانیوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والے نہیں پکڑے جاتے۔
اس وقت سردار کھیتران اپنے علاقے کے طاقت ور حکم راں ہیں اور بارکھان ان کی سلطنت ہے۔ بارکھان میں ان کی منظوری کے بنا محاورتاً نہیں حقیقتاً پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ان کے طبقاتی رشتے پاکستانی ریاست کے عسکری، سیاسی و عدالتی اشرافیہ سے ہیں۔
ایسے میں یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ ریاست کا قانون مجرم ثابت ہونے پر بھی ان کو کوئی سزا دے گا۔ جوڈیشل کمیشن، جے آئی ٹی، انکوائری کمیٹی فلاں ڈھمکاں، یہ سب اس خون آشام طبقے کو محفوظ راستہ دینے کے حربے ہیں۔
سانحہ بارکھان نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ جس معاشرے میں، جس جگہ پر جس علاقے میں ظالم کو عزت و احترام دیا جائے اور مظلوم کی آواز کو دبایا جائے، اس کی سسکیوں کو نظرانداز کیا جائے، اس کی چیخ و پکار کو سن کر فراموش دیا جائے تو وہاں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہیں گے۔
ایسا واقعہ کسی باضمیر و باشعور اور مہذب معاشرے میں ہوتا تو نہ صرف ملزم گرفتار کر لیا جاتا بلکہ اس سے تمام مراعات، پروٹوکول اور اختیار لے لیا جاتا، لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اس حوالے سے غوروفکر کرنا ہوگا۔
بلوچستان کا سرداری نظام جو موجودہ دور میں چل رہا ہے، اس کی بنیاد رابرٹ سنڈیمن نے 1876 میں رکھی تھی، جب وہ بلوچستان کے چیف کمشنر اور گورنر جنرل ہند مقرر ہوا تھا۔ اس نے بلوچستان میں سرداروں کو بہت سی مراعات دیں، انہیں ذاتی اور سرکاری نوکریاں بھی دیں اور ہزاروں لوگوں کو ان سرداروں کی توسط سے وظیفے دیے تھے۔
انہی سرداروں کی اولادوں کو خصوصی وظائف دیے جاتے تھے اور ان کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا جاتا تھا تاکہ ان کی اولاد مفت اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔
بلوچستان کے سب سردار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کئی سردار آج بھی اپنے اپنے علاقوں میں بیٹھے ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے حکومت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ بلوچستان میں غریب کا بچہ غریب تر اور امیر کا بچہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔
اگر غریب کا بچہ پڑھ لکھ لیتا ہے تو اس کو اعزازی منشی کی ڈگری دی جاتی ہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 8 اپریل 1976ء کو کوئٹہ میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تھا مگر تا حال اس پر عمل نہ ہو سکا۔
مرحوم ضیاء الحق نے تمام سرداروں کو اپنے اپنے علاقوں میں امن کے لیے خوش کیا اور خود آرام سے حکم رانی کے مزے لیتے رہے۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی یہ نظام ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی جس کی وجہ سے نواب اکبر بگٹی کو بھی شہید کیا گیا، مگر پھر بھی سرداری نظام ختم نہیں ہوسکا۔
آج بھی بلوچستان میں کئی سرداروں کے اوطاق سسٹم اور جبری مشقت لینے والا نظام پورے طمطراقکے ساتھ موجود ہے۔ یہ سردار اپنے من پسند فیصلے کرتے ہیں۔
بلوچستان میں عوام کو غلام سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب صدیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، بلوچ جنگ آزادی میں بھی پیش پیش تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ رابرٹ سنڈیمنواحد لیڈر تھے جو بلوچستان میں بغیر محافظ کے سفر کرتے تھے، اس کی وجہ ان کی بلوچوں سے محبت تھی۔ کبھی کسی نے ان کی طرف ایک انگلی تک نہ اٹھائی۔ انہوں نے تمام قبائلی علاقوں میں سرداروں کو اس طرح اپنے پنجرے میں بند کیا کہ آج تک سردار نہ بھول سکے۔
انہوں نے بلوچ قوم کو بہت سے فائدے بھی پہنچائے، ان سرداروں کے علاقوں میں اسکول کھلوائے، اسپتال بنوائے اور تو اور ان سرداروں کے بیٹوں کو بیرون ملک پڑھائی کے لیے بھی بھیجا۔ حتیٰ کہ انہوں نے ہر سردار کے حصے کا کوٹا مقرر کیا، مگر آج کے حالات میں کوئی سردار اپنے علاقے میں تن تنہا نہیں گھومتا، اس کے ساتھ دس بیس باڈی گارڈز ضرور ہوتے ہیں۔
آج تمام سردار اپنی اپنی حفاظت کے لیے دوسروں کا سہارا لیتے ہیں، بلوچوں کا مشہور قول ہے کہ جب آپ اپنا حق لینے کے لیے کھڑے ہوں تو سب سے پہلے آپ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار ہو جائیں، ہو سکتا ہے اس جنگ میں آپ کی جان چلی جائے۔ لیکن جان جانے سے آپ کے لوگوں کو اگر حق مل جائے تو آپ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی۔
بلوچوں میں بدلے کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ بلوچستان کے سرداروں کی آپس میں لڑائیاں بھی مشہور ہیں، اسی طرح اکثر سرداروں کی آپس میں رشتے داریاں بھی مشہور ہیں۔ بلوچستان کا سرداری نظام اتنا پرانا ہے جتنی ان کی آپس کی دشمنیاں قدیم ہیں۔
ان دشمنیوں نے ان کو پیچھے دھکیل دیا، ان حالات کے پیش نظر بلوچستان میں تشویش کی لہر ہے۔ انگریزوں نے کہا تھا کہ اگر بلوچوں کو عزت دو تو وہ خود اپنی گردن آپ کے سامنے پیش کر دیں گے، لیکن اگر زبردستی کرنے کی کوشش کی تو آپ کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔
تاریخ اس قول کی صداقت کی گواہ ہے۔ 1958ء میں نواب نوروزخان کی قیادت میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد نے پہاڑوں کا رخ کیا اور حکومت وقت سے جنگ کا اعلان کردیا۔ وہ کئی ماہ تک پہاڑوں پر رہے، پھر ایک دن حکم رانوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اب ہماری جنگ ختم ہے، مگر اگلے ہی روز نواب نوروزخان کو ان کے دوستوں سمیت جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا کر ان کو عمرقید کی سزا دی گئی، پھر ان کو اور ان کے عزیزوں کو 1962ء میں پھانسی دے دی گئی۔
پھر ایک بوڑھے سردار کو بلا کر ان کے اپنے دوستوں کی لاشیں دکھائی گئیں، اس وقت اس سردار نے تاریخی جملے کہے ''یہ سب میرے بیٹے ہیں، یہ بلوچ کا خون ہے، آزادی کی راہ میں قربان ہونے والے، اب جنگ تا قیامت جاری رہے گی۔'' انہیںفقروں نے کئی سرداروں کو آزادی کی راہ پر گام زن کر دیا تھا۔ 1948ء سے اب تک کئی سردار شہید کیے گئے، کئی سردار اپنے اپنے علاقوں میں عوام پر ظلم ڈھاتے رہے اور کئی سردار ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
بلوچستان کے سرداروں نے تعلیمی نظام کو تباہ اور اوطاقوں میں تبدیل کر دیا ہے، اسپتالوں تک کو بند کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، سرکاری عمارتوں کو ذاتی ملکیت میں تبدیل کر دیا۔ ان سرداروں کے کہنے پر ان کے عوام اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔
نواب نوروز خان کے بعد بلوچستان میں گزشتہ بیس سال میں کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کا نام بہت بدنام کیا گیا ہے، جن میں ڈیرہ بگٹی میں ہونے والا ڈاکٹر شازیہ کیس بھی شامل ہے، اسی طرح نصیرآباد میں 5 لڑکیاں زندہ درگور کرنا ایک نہایت دردناک واقعہ بن کر سامنے آیا۔ بلوچستان کے تمام مسائل کی جڑ کوئی نہ کوئی تو ہے جس کی سزا بلوچ غریب عوام بھگت رہے ہیں۔ غریب کی آواز اٹھانے والے کی زندگی کا چراغ گل کر دیا جاتا ہے۔
اگر انگریز انہی سرداروں کے خلاف اس وقت کارروائی کرتے تو شاید یہ سرداری نظام آج یوں رائج نہ ہوتا، ان کی جگہ تعلیم یافتہ نوجوان ہوتے۔
دنیا نے جس تیزی سے ترقی کی اسی طرح بلوچ سرداروں نے بھی ترقی کی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ، جدید ہتھیار آ گئے جنہیں وہ جہاں چاہیں جس وقت چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان، افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں سے ملتا ہے، جہاں پرانے دور میں کافی بڑے سردار گزر چکے ہیں جن کے رسم و رواج ملتے جلتے ہیں۔
اس خطے میں اسمگلنگ کی ایک بڑی وجہ یہاں کے سردار ہیں۔ ان کے علاقوں میں نہ پولیس کی چلتی ہے، نہ فوج، نہ ایف سی کی... اگر کسی کی چلتی ہے تو وہ یہی سردار ہیں۔ ان کی مرضی کے بغیر یہاں پرندہ بھی پر نہیں مارتا ہے۔ ان ہی کی مرضی سے پوسٹنگ اور تبادلے کیے جاتے ہیں۔
آج بھی بلوچستان کے باسی پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک سردار سے ایک انگریز صحافی نے پوچھا کہ آپ نے پہلا قتل کس عمر میں کیا؟ تو وہ ہنسنے لگا اور کہا کہ 14 سال کا تھا جب پہلا قتل کیا۔ اسی طرح ایک ضلع میں ایک نوجوان نے بے روزگاری سے تنگ آ کر الیکشن میں حصہ لیا تو اسے الیکشن کے دوران ہی سرِعام قتل کردیا گیا اور الیکشن ملتوی کردیا گیا۔
تین ماہ بعد دوبارہ الیکشن ہوئے تو سردار جیت گیا۔ اسی طرح 1951 میں ایک ''جٹ'' (پچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص) نے الیکشن میں حصہ لیا، اس کو بھی مار دیا گیا۔ اس روز کے بعد سے آج تک اس سردار کے مدِ مقابل کوئی جٹ نہ آ سکا۔
دیکھنے والے آج تک توبہ توبہ کرتے ہیں۔ اگر بلوچستان میں کوئی ان سرداروں کے مد مقابل ہے تو وہ سردار ہی ہے یا ان کا بیٹا یا ان کے خاندان والے ہی ہیں۔ بلوچستان کے کئی سردار پہلے کتے پالتے تھے اور وہ کتے انسانوں کو زندہ کھا جاتے تھے، اب یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔
بلوچ عوام کی قسمت میں یہ بلوچ سردار کب ان کے جبر کا دور ختم ہوگا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔
سرداروں کے ظلم اور جبر کا تذکرہ اس وقت پھر تازہ ہوگیا جب گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر خبر پھیلی کہ بلوچستان کے ایک سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے ایک غریب شخص جان محمد مری کے اہل خانہ کو اپنی نجی جیل میں رکھا اور پھر اس کی بیوی اور دو بیٹوں کو قتل کر دیا جب کہ عبدالرحمٰن کھیتران نے اس واقعے سے انکار کر دیا۔
عبدالرحمٰن کھیتران کے مطابق اس کی تیسری بیوی سے ایک بیٹا سردار انعام کھیتران اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف ڈراما رچا رہا ہے۔ ابھی تک اس واقعے کی ساری تفصیلات اس کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے ذریعے ہی سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی ہیں۔
انعام کھیتران نے مظلوم خاندان کی بعض تصاویر بھی سوشل میڈیا پر ڈالی ہیں جن میں جان محمد کے بیوی بچوں کو سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے گھر اوطاق وغیرہ میں دکھایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہو رہا ہے کے یہ خاندان عبدالرحمٰن کھیتران کے پاس ہی تھا، مگر ساتھ ہی ان تصاویر سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا کہ ان لوگوں پر تشدد کیا جا رہا تھا یا جس طرح ایک ملازم کی فیملی مالک کے گھر میں آزادانہ رہتی ہے۔
اس طرح کا معاملہ ہے! جن کپڑوں میں جان محمد مری کی اہلیہ کو دکھایا گیا وہی کپڑے مردہ حالت میں ان کے بدن پر پائے گئے۔نیز لاشوں کا کنوئیں میںکا پھینکا جانا بھی ایک اہم سوال ہے، کیوںکہ اگر قاتل عبدالرحمٰن کھیتران ہی ہوتا تو اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ ان لاشوں کو اتنی بڑی زمین میں کہیں دبا دیتا یا کہیں دور دراز علاقے میں پھینک دیتا جہاں یہ اجسام گل سڑ جاتے۔
کنوئیں میں پھینکنے سے یہ مقصد واضح ہو رہا ہے کہ آتا جاتا کوئی نہ کوئی ان لاشوں کو دیکھ لے، اور انہیں نکال لے۔
چند ہفتے پہلے جان محمد کی اہلیہ کی ویڈیو سوشل میڈیا سامنے آئی تھی جس میں وہ قرآن مجید اٹھا کر بتا رہی تھی کہ وہ عبدالرحمٰن کھیتران کی قید میں ہے اور وہ اس کی بیٹی کے ساتھ جنسی و جسمانی تشدد بھی کیا جارہا ہے۔
ان ویڈیوز اور تصاویر کو سوشل میڈیا پر عبدالرحمان کھیتران کے اپنے مذکورہ بیٹے نے شیئر کیا تھا۔ یہاں پرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے جان محمد کی اہلیہ سے زبردستی دباؤ ڈال کر قرآن ہاتھ میں دے کر گواہی دلوائی گئی حالاںکہ مظلوم کو قرآن ہاتھ میں لینے کی عموماً ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے اس کی حالت ہی اس کی مظلومیت کی گواہی دے رہی ہوتی ہے۔
جان محمد مری جو متاثرہ خاندان کا سربراہ ہے وہ عبدالرحمٰن کھیتران پر ہی الزام عائد کر رہا ہے۔ جان محمد مری کے مطابق اس پر عبدالرحمٰن کھیتران دباؤ ڈال رہا تھا کہ اس کے بیٹے انعام کھیتران کے خلاف مقدمات میں گواہی دے جس پر جان محمد مری انکار کر دیتا تھا۔ اور پھر بقول جان محمد مری اس کی فیملی کو نجی جیل میں قید کرلیا گیا۔
اس سارے کیس میں عبدالرحمٰن کھیتران کے خلاف ہی شواہد ظاہر ہو رہے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ قاتل بھی وہی ہو سردار انعام الرحمٰن کو شامل تفتیش کیا جانا چاہیے۔ ایک اعلٰی تحقیقاتی کمیٹی قائم ہونی چاہیے جس پر فریقین کا دباؤ نہ ہو۔ قاتل عبدالرحمٰن کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اب تک کے واقعے کے مطابق جان محمد مری کی فیملی مظلوم ہے۔
اور ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ظالم کا تعین ہونا باقی ہے کہ ظالم یزید ہے کہ خود کوفی یا پھر دونوں۔ خان محمدمری کے مطابق لاشیں میری اہلیہ، بڑے بیٹے محمد نواز اورمیرے دوسرے بیٹے عبدالقادر کی ہیں جو عرصے سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید تھے۔ میرے گھر کے مزید 5 افراد اب بھی سردار عبدالرحمان کھیتران کے جیل میں قید ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کنوئیں سے ملنے والی لاشیں جان محمد مَری کی بیوی اور بیٹوں کی نہیں۔ یہ تحقیق جاری ہے کہ پھر یہ مارے جانے والے کون ہیں؟ اس حقیقت کے سامنے آنے سے یہ معاملہ مزید الجھ گیا ہے۔
سارے سوالات اور اس معاملے کے الجھاؤ اپنی جگہ، لیکن سوال یہ ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد جب پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اپنے بچوں سمیت سردار کے مظالم سہ رہی ہے تو ریاست کہاں تھی؟ اور ''کسی کو'' اس معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ حالاں کہ میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہنے کے لیے سیاسی مقدمات سننے کے لیے رات گئے بھی انصاف کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔
انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ بلوچستان میں کسی بھی مقتول کے قاتل نہیں پکڑے جاتے، چور ڈکیت نہیں پکڑے جاتے، بچوں سے زیادتی کرنے والے نہیں پکڑے جاتے، اربوں روپے کرپشن کر کے کروڑوں پاکستانیوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والے نہیں پکڑے جاتے۔
اس وقت سردار کھیتران اپنے علاقے کے طاقت ور حکم راں ہیں اور بارکھان ان کی سلطنت ہے۔ بارکھان میں ان کی منظوری کے بنا محاورتاً نہیں حقیقتاً پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ان کے طبقاتی رشتے پاکستانی ریاست کے عسکری، سیاسی و عدالتی اشرافیہ سے ہیں۔
ایسے میں یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ ریاست کا قانون مجرم ثابت ہونے پر بھی ان کو کوئی سزا دے گا۔ جوڈیشل کمیشن، جے آئی ٹی، انکوائری کمیٹی فلاں ڈھمکاں، یہ سب اس خون آشام طبقے کو محفوظ راستہ دینے کے حربے ہیں۔
سانحہ بارکھان نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ جس معاشرے میں، جس جگہ پر جس علاقے میں ظالم کو عزت و احترام دیا جائے اور مظلوم کی آواز کو دبایا جائے، اس کی سسکیوں کو نظرانداز کیا جائے، اس کی چیخ و پکار کو سن کر فراموش دیا جائے تو وہاں اس طرح کے واقعات آئے دن ہوتے رہیں گے۔
ایسا واقعہ کسی باضمیر و باشعور اور مہذب معاشرے میں ہوتا تو نہ صرف ملزم گرفتار کر لیا جاتا بلکہ اس سے تمام مراعات، پروٹوکول اور اختیار لے لیا جاتا، لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اس حوالے سے غوروفکر کرنا ہوگا۔