الیکشن ایک امتحان

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس ملک میں آئین کے ساتھ کس نے کس کس طرح کھلواڑ کیا ہے

mjgoher@yahoo.com

یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کسی بھی ملک کا کاروبار سلطنت چلانے کے لیے دستور ہی سب سے زیادہ بااختیار، مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے۔

آئین و قانون کو اس کی روح کے مطابق عمل داری و نفاذ سے ریاستی اداروں کے درمیان فرائض منصبی کے آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ادائیگی سے توازن پیدا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب، باشعور، باوقار اور عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی پاس داری پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ انصاف معاشرے کی تعمیر میں صحت مند رجحانات کو فروغ دینے میں بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ جہاں عام آدمی سے لے کر خواص تک سب کے جرائم کو عدل کے ایک ترازو میں تولا جائے اور ایک ہی قانون کے تحت ایک ہی طریقے اور قاعدے سے ہر خاص و عام انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے۔

وہاں کے نظام انصاف پر پھر سوالات نہیں اٹھائے جاسکتے ، جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم، انتقام، اناپرستی، ذاتی عناد، کینہ، بغض، باہمی رنجشیں، شخصی تضادات، خواص و عام کے لیے دو قوانین اور عدل کے ترازو میں پاسنگ ہو تو پھر نہ صرف یہ کہ قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ یہ گمبھیر مسائل بڑھتے بڑھتے معاشرے کی تقسیم، انتشار اور زوال کا بھی سبب بنتے ہیں۔

جہاں طاقت، اختیارات، ضد اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے بہر صورت اپنی بات منوانے اور اپنی حاکمیت کا سکہ بٹھانے اور مقابل کو محکوم بنانے اور رہنما آئینی اصولوں، جمہوری روایات اور قانون کو پامال کرنے کی روایت جڑیں مضبوط کرلے وہاں عادلانہ سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور مہذب نظام کے قیام اور جملہ ریاستی و آئینی اداروں کے استحکام و کارکردگی کے آگے بڑے سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے بلکہ سرفہرست ہے جہاں تمام ریاستی و آئینی ادارے آئینی دائرہ کار کے تحت اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے آئین، اختیارات اور قانون سے تجاوز کرتے ہوئے ایک دوسرے پر حاوی ہونے اور سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس ملک میں آئین کے ساتھ کس نے کس کس طرح کھلواڑ کیا ہے، کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا شور، کبھی آمریت کا خوف ، کبھی عدلیہ کے آئینی و قانونی رعب داب کا غلغلہ ، کبھی میڈیا کی حاکمیت کا چرچا اور کبھی بالادستوں کی طاقت کی آوازوں نے پورے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ آئین کی حکمرانی کہیں نظر نہیں آتی۔


طرفہ تماشا دیکھیے کہ عدلیہ سے لے کر مقننہ تک اور مقننہ سے لے کر انتظامیہ تک اور پارلیمان سے لے کر ہر سرکاری عہدیدار تک وہ جو آئین پاکستان کے تحت حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ آئین کا تحفظ کریں گے پھر وہی لوگ آئین کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کرتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں۔

پاکستان میں پہلا آئین قیام کے 9 سال بعد 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا جسے میجر جنرل اسکندر مرزا نے صرف ڈھائی سال بعد 7 اکتوبر 1958 کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے منسوخ کردیا ، حالانکہ اسی آئین کے تحت اسکندر مرزا نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا تھا، یوں ملک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ ہوا جو درحقیقت ملک میں سول و غیر سول بیورو کریسی کی حکمرانی کا آغاز تھا اور آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔

سانحہ بنگال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی کا آغاز ہوا تو ان کی تگ و دو سے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد 14 اگست 1973 کو ملک میں تیسرا آئین نافذ کیا گیا جو ترامیم در ترامیم کی پے درپے پیوندکاری کے بعد آج بھی اپنی حرمت اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور طاقتور حلقوں کے طاقتور لوگ اسی آئین کے تحت اس کے تحفظ کا حلف اٹھا کر اسی کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں اور اسی آئین کی شقوں سے اپنی طاقت کے استعمال کی دلیلیں نکال کر لاتے ہیں کہ الحفیظ الامان۔

کون کیسے کیسے سمجھائے انگریز مورخ لارڈ جان ایمرچ ایکٹن نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ''تاریخ آزادی'' (History of Freedom) میں لکھا ہے کہ ''طاقت بدعنوان ہوتی ہے اور مطلق طاقت مطلق بدعنوان ہوتی ہے۔'' اور اس طاقت کے مظاہر قوم آج تک دیکھ رہی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جب طاقت اور اختیارات کا ہر ادارہ ازخود استعمال شروع کردے یا اس سے وابستہ افراد ایسے عمل کا ارتکاب کرنے لگیں تو پھر تقسیم کے عمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔

آپ دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں کہ آج ہر ادارے میں تقسیم کا عمل جاری ہے۔ سیاست سے لے کر صحافت تک اور قیادت سے لے کر عدالت تک ہر سطح پر سوچ اور نظریے کی تقسیم نے استحکام کی دیواریں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اداروں اور افراد کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ آئین کہاں کھڑا ہے، اس کی فریاد کون سنا رہا ہے، سب آئین آئین کا راگ الاپ رہے ہیں، ہر فرد اور ادارہ اپنی سوچ اور اپنے نظریے کے مطابق آئین کی تشریح کر رہا ہے۔

کہا جاتا ہے آئینی و قانونی ماہرین کی جانب سے کہ آئین کی تشریح کرنا عدالت عظمیٰ کا کام ہے۔ منصب اعلیٰ کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے تین دو کی اکثریت سے الیکشن کمیشن کو آئین کے مطابق 90 روز میں پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کردیا ہے۔ وفاقی حکومت اس فیصلے کو صدق دل سے اعلانیہ تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔ فیصلے پر نظرثانی کی اپیل داخل کی جاسکتی ہے۔

عمران خان خوش ہیں کہ عدالت نے کے پی اور پنجاب میں الیکشن کا حکم دے دیا ہے۔ انھوں نے جیل بھرو تحریک ختم کرنے کا اعلان کرکے کارکنوں کو الیکشن کی تیاری کا حکم جاری کیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کا امتحان ہے کہ وہ عدالتی فیصلے پر کب اور کس طرح عمل کرتا ہے۔
Load Next Story