قومی بحران اورعام انتخابات کا راستہ
وقت کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ عام انتخابات کا اعلان ہو، نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں
پاکستان کا قومی بحران مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کا حل کسی جادوئی طریقہ سے ممکن نہیں ۔ ہمیں سنجیدہ غور وفکر کے ساتھ غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایک منطق یہ دی جارہی ہے کہ فوری انتخابات مسائل کا حل نہیں اور انتخابی عمل مزید سیاسی تقسیم , محاذ آرائی اور ٹکراؤ کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔
اتحادی حکومت سے ہمدردی رکھنے والے اہل قلم اور ٹی وی اینکرز و تجزیہ کارکا معاشی بدحالی، دہشت گردی اور نئی مردم شماری کو بنیاد بنا کر انتخابات کو کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرنے کی بات کرتے ہیں،اسی طرح پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے اہل قلم، ٹی وی اینکرزو تجزیہ کار فوری الیکشن کو ملکی مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اسمبلی کی تحلیل سے لے کر 90دنوں میں انتخابات کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اسی فیصلہ میں پنجاب میں صدر مملکت اور خیبر پختونخواہ میں گورنر کو اختیار دیا گیا کہ وہ فریقو ں سے مشاورت کے بعد انتخابی تاریخ کا اعلان کریں ۔ اگر صوبائی گورنر خیبر پختونخواہ انتخابی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے تو صدر انتخابی تاریخ کو دے سکتے ہیں۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور تمام متعلقہ اداروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتظامی، مالی اور سیکیورٹی دینے کے پابند ہیں۔
اسی فیصلہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں سے صدر مملکت نے پنجاب کے صوبائی انتخاب کے لیے 30اپریل کی تاریخ مقرر کردی ہے جب کہ الیکشن کمیشن نے کے پی کے کے لیے انتخابی تاریخ کے لیے گورنر کے پی کے کو بھی خط لکھ دیا ہے کہ وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میںانتخابی تاریخ کا اعلان کریں۔
اس فیصلہ کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات کے لیے ایک قانونی راستہ دے دیا ہے اورجس سے انحراف اب فی الحال کسی کو بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بات تواتر کے ساتھ مجھ سمیت لکھتے یا بولتے رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں انتخابات کا التوا ممکن نہیں اور حتمی طور پر انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک بار اگر آئینی ٹرین پٹری سے اتر گئی تو اسے دوبارہ پٹری پر چڑھانا آسان کام نہیں ہوگا۔
اسی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی حرکیات میں عام انتخابات سے قبل دو صوبائی اسمبلیوں بالخصوص پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ ایک نئی تاریخ ہوگی ۔ کیونکہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ میں ہورہے ہیں۔ ایسے میں عام انتخابات سے قبل ملک میں صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر عام انتخابات سے قبل انتخابی عمل بہت سی سیاسی پیچیدگیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ آئینی طور پر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں صوبوں میں 90دنوں میں انتخابات کا انعقاد آئینی ذمے داری ہے ۔لیکن سیاسی پنڈتوں کے بقول ایسا کرنے سے اگلے عام انتخابات کی حرکیات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گی۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود حکمران اتحاد، الیکشن کمیشن اور بہت سے ان کے حامی اہل قلم اور ٹی وی اینکرز اسی نقطہ پر زور دے رہے ہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مسئلہ کا حل نہیں بلکہ انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہیے اور عام انتخابات کا راستہ ہی قومی بحران کے حل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
اگرچہ عام انتخابات اکتوبر 2023میں ہونے ہیں لیکن اگر اس وقت انتظار کیا جاتا ہے تو پھر دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد آئینی ذمے داری ہے او راس سے انحراف آئین سے انحراف ہوگا۔ انتخابات میں تاخیری کو بنیاد بنا کر ہمیں اس فیصلہ کے لیے عدالتوں کی رضامندی بھی درکار ہے جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔
حکومتی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ آئینی پوزیشن سے ہٹ کر سیاسی او رمعاشی بنیادوں پر معاملات کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے ان حالات میں انتخابات کے نتائج اپنے حق میں نہیں نظر آتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ انتخابات سے کسی نہ کسی بہانے اکتوبر تک چلے جائیں۔لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے حکومت کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے اور ان کے پاس انتخابات کے سوا کوئی آپشن نظر نہیںآتا ۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ انتخابات نہ کرانے کی صورت میں عدالت کی توہین اور دوسری طرف حکومت کی رٹ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
حکومتی موقف کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ہی دن ہونا چاہیے تاکہ سیاسی، قانونی، انتظامی پیچیدگیوں سے خود کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح دو صوبائی اسمبلیوں کے اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو وفاق میں مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیو ں کی حکومت ہوگی او رانتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائیں گے۔
اگر صوبائی انتخاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جاتی ہے تو عام انتخابات نگرانوں کے بجائے ان ہی حکومتوں کی نگرانی میں ہوںگے جو آج کی حکومتی اتحاد کو قبول کرنے میں مشکل ہوگی اور خود علیحدہ علیحدہ انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے انتظامی سطح پر مشکل پیدا کرے گا۔حکمران اتحاد کے پاس اس وقت کیا آپشنز ہیں۔
اول وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرکے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا راستہ اختیار کرے ۔ دوئم وہ عدالتی فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردے اور جو بھی وہ آئینی تشریح کرے گی، وہ توہین عدالت کے زمرے میںآئے گا ۔ سوئم وہ موجودہ حالات میں دو صوبائی انتخاب کے مقابلے میں عام انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرے تاکہ یہ بحران بھی ختم ہو او رملک میں ایک ہی عام انتخاب ممکن ہوسکے۔
جو لوگ انتخابات کو مسائل کا حل نہیں سمجھ رہے ان کے پاس ایسا کونسا متبادل نظام ہے جس کی مدد سے ہم انتخابات کے بغیر اپنی سیاسی و معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں, تو جواب نفی میں ہے ۔انتخابات سے فوری طور پر کوئی انقلاب نہیں آئے گا لیکن جو ملک میں اس وقت ایک غیر یقینی سی سیاسی، معاشی، قانونی یا ادارہ جاتی سطح پر صورتحال ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔اس لیے مسلم لیگ ن سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں کو ایک ہی وقت میں '' عام انتخابات کا راستہ '' ہی اختیار کرنا چاہیے۔
کسی بھی سطح پر مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز ملک کے مفاد میں نہیں ۔ حکمرانوں کے پاس یہ ہی آپشن ہے کہ اگر وہ دو صوبائی انتخابات سے بچنا چاہتے ہیں تو وقت سے پہلے قومی اسمبلی و دیگر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کریں تاکہ نئی نگران حکومت کی موجودگی میں پورے ملک میں ایک ہی انتخاب ممکن ہوسکے۔ کیونکہ حکومتی اتحاد نے اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا راستہ اختیار کیا تو ان کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا ہوگا او راس کا براہ راست فائدہ ان صوبائی سطح کے انتخابات میں بھی اور پھر اکتوبر کے عام انتخابات میں بھی ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ہوگا۔
وقت کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ عام انتخابات کا اعلان ہو، نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں اور انتخابات سے پہلے حکومت وحزب اختلاف مل بیٹھ کر انتخابات سے جڑے معاملات جن میں کچھ فوری طلب اصلاحات ہیں کو ممکن بناسکیں ۔ کیونکہ اصل مسئلہ انتخابات کی بڑی شفافیت کا ہے۔ انتخابات او راس کے نتائج کو کسی بھی سطح پر متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک منطق یہ دی جارہی ہے کہ فوری انتخابات مسائل کا حل نہیں اور انتخابی عمل مزید سیاسی تقسیم , محاذ آرائی اور ٹکراؤ کا سبب بنے گا۔ اس حوالے سے ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔
اتحادی حکومت سے ہمدردی رکھنے والے اہل قلم اور ٹی وی اینکرز و تجزیہ کارکا معاشی بدحالی، دہشت گردی اور نئی مردم شماری کو بنیاد بنا کر انتخابات کو کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کرنے کی بات کرتے ہیں،اسی طرح پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے اہل قلم، ٹی وی اینکرزو تجزیہ کار فوری الیکشن کو ملکی مسائل کا حل قرار دے رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اسمبلی کی تحلیل سے لے کر 90دنوں میں انتخابات کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح اسی فیصلہ میں پنجاب میں صدر مملکت اور خیبر پختونخواہ میں گورنر کو اختیار دیا گیا کہ وہ فریقو ں سے مشاورت کے بعد انتخابی تاریخ کا اعلان کریں ۔ اگر صوبائی گورنر خیبر پختونخواہ انتخابی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے تو صدر انتخابی تاریخ کو دے سکتے ہیں۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور تمام متعلقہ اداروں کو پابند کردیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتظامی، مالی اور سیکیورٹی دینے کے پابند ہیں۔
اسی فیصلہ کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں سے صدر مملکت نے پنجاب کے صوبائی انتخاب کے لیے 30اپریل کی تاریخ مقرر کردی ہے جب کہ الیکشن کمیشن نے کے پی کے کے لیے انتخابی تاریخ کے لیے گورنر کے پی کے کو بھی خط لکھ دیا ہے کہ وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میںانتخابی تاریخ کا اعلان کریں۔
اس فیصلہ کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات کے لیے ایک قانونی راستہ دے دیا ہے اورجس سے انحراف اب فی الحال کسی کو بھی ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بات تواتر کے ساتھ مجھ سمیت لکھتے یا بولتے رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں انتخابات کا التوا ممکن نہیں اور حتمی طور پر انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ ایک بار اگر آئینی ٹرین پٹری سے اتر گئی تو اسے دوبارہ پٹری پر چڑھانا آسان کام نہیں ہوگا۔
اسی طرح پاکستان کی موجودہ سیاسی حرکیات میں عام انتخابات سے قبل دو صوبائی اسمبلیوں بالخصوص پنجاب میں انتخابات کا فیصلہ ایک نئی تاریخ ہوگی ۔ کیونکہ یہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی تاریخ میں ہورہے ہیں۔ ایسے میں عام انتخابات سے قبل ملک میں صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر عام انتخابات سے قبل انتخابی عمل بہت سی سیاسی پیچیدگیوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ آئینی طور پر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں صوبوں میں 90دنوں میں انتخابات کا انعقاد آئینی ذمے داری ہے ۔لیکن سیاسی پنڈتوں کے بقول ایسا کرنے سے اگلے عام انتخابات کی حرکیات مکمل طور پر تبدیل ہوجائیں گی۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود حکمران اتحاد، الیکشن کمیشن اور بہت سے ان کے حامی اہل قلم اور ٹی وی اینکرز اسی نقطہ پر زور دے رہے ہیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات مسئلہ کا حل نہیں بلکہ انتخابات ایک ہی وقت پر ہونے چاہیے اور عام انتخابات کا راستہ ہی قومی بحران کے حل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔
اگرچہ عام انتخابات اکتوبر 2023میں ہونے ہیں لیکن اگر اس وقت انتظار کیا جاتا ہے تو پھر دو تحلیل شدہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد آئینی ذمے داری ہے او راس سے انحراف آئین سے انحراف ہوگا۔ انتخابات میں تاخیری کو بنیاد بنا کر ہمیں اس فیصلہ کے لیے عدالتوں کی رضامندی بھی درکار ہے جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتی۔
حکومتی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ آئینی پوزیشن سے ہٹ کر سیاسی او رمعاشی بنیادوں پر معاملات کا تجزیہ کرتی ہے تو اسے ان حالات میں انتخابات کے نتائج اپنے حق میں نہیں نظر آتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ انتخابات سے کسی نہ کسی بہانے اکتوبر تک چلے جائیں۔لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے حکومت کو بند گلی میں دکھیل دیا ہے اور ان کے پاس انتخابات کے سوا کوئی آپشن نظر نہیںآتا ۔ کیونکہ ان کو ڈر ہے کہ انتخابات نہ کرانے کی صورت میں عدالت کی توہین اور دوسری طرف حکومت کی رٹ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
حکومتی موقف کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ہی دن ہونا چاہیے تاکہ سیاسی، قانونی، انتظامی پیچیدگیوں سے خود کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح دو صوبائی اسمبلیوں کے اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو وفاق میں مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیو ں کی حکومت ہوگی او رانتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائیں گے۔
اگر صوبائی انتخاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جاتی ہے تو عام انتخابات نگرانوں کے بجائے ان ہی حکومتوں کی نگرانی میں ہوںگے جو آج کی حکومتی اتحاد کو قبول کرنے میں مشکل ہوگی اور خود علیحدہ علیحدہ انتخابات الیکشن کمیشن کے لیے انتظامی سطح پر مشکل پیدا کرے گا۔حکمران اتحاد کے پاس اس وقت کیا آپشنز ہیں۔
اول وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرکے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا راستہ اختیار کرے ۔ دوئم وہ عدالتی فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردے اور جو بھی وہ آئینی تشریح کرے گی، وہ توہین عدالت کے زمرے میںآئے گا ۔ سوئم وہ موجودہ حالات میں دو صوبائی انتخاب کے مقابلے میں عام انتخابات کا ہی راستہ اختیار کرے تاکہ یہ بحران بھی ختم ہو او رملک میں ایک ہی عام انتخاب ممکن ہوسکے۔
جو لوگ انتخابات کو مسائل کا حل نہیں سمجھ رہے ان کے پاس ایسا کونسا متبادل نظام ہے جس کی مدد سے ہم انتخابات کے بغیر اپنی سیاسی و معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں, تو جواب نفی میں ہے ۔انتخابات سے فوری طور پر کوئی انقلاب نہیں آئے گا لیکن جو ملک میں اس وقت ایک غیر یقینی سی سیاسی، معاشی، قانونی یا ادارہ جاتی سطح پر صورتحال ہے اس کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔اس لیے مسلم لیگ ن سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں کو ایک ہی وقت میں '' عام انتخابات کا راستہ '' ہی اختیار کرنا چاہیے۔
کسی بھی سطح پر مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز ملک کے مفاد میں نہیں ۔ حکمرانوں کے پاس یہ ہی آپشن ہے کہ اگر وہ دو صوبائی انتخابات سے بچنا چاہتے ہیں تو وقت سے پہلے قومی اسمبلی و دیگر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کریں تاکہ نئی نگران حکومت کی موجودگی میں پورے ملک میں ایک ہی انتخاب ممکن ہوسکے۔ کیونکہ حکومتی اتحاد نے اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا راستہ اختیار کیا تو ان کو مزید سیاسی نقصان اٹھانا ہوگا او راس کا براہ راست فائدہ ان صوبائی سطح کے انتخابات میں بھی اور پھر اکتوبر کے عام انتخابات میں بھی ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ہوگا۔
وقت کا تقاضہ یہ ہی ہے کہ عام انتخابات کا اعلان ہو، نگران حکومتیں تشکیل دی جائیں اور انتخابات سے پہلے حکومت وحزب اختلاف مل بیٹھ کر انتخابات سے جڑے معاملات جن میں کچھ فوری طلب اصلاحات ہیں کو ممکن بناسکیں ۔ کیونکہ اصل مسئلہ انتخابات کی بڑی شفافیت کا ہے۔ انتخابات او راس کے نتائج کو کسی بھی سطح پر متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔