تاریخ کی درست تشریح کیوں ضروری ہے
اب وہ وقت آگیا ہے جو شاید دوبارہ نہ آسکے کہ یہ فیصلہ کرلیا جائے
آج پاکستان جس سنگین معاشی، سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے، اس کا آغاز محض چند برس پہلے نہیں ہوا تھا۔ تخلیق پاکستان کے فوراً بعد ایسے سیاسی مسائل ابھر کر سامنے آئے جس کی نوعیت بہت پیچیدہ نہیں تھی اور جنھیں بڑی آسانی سے حل کیا جاسکتا تھا۔
مشرقی پاکستان سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ بنگالی کو بھی اردو کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ اس مطالبے کو مان لینے میں کوئی امر مانع نہیںہونا چاہیے تھا۔ زبان کو انا کا مسئلہ بنالیا گیا۔
ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ کئی برس جاری رہا جس کے بعد بالآخر اس جائز مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا لیکن اس تاخیر کے باعث ملک کے مشرقی بازو میں جو احساس محرومی پیدا ہوا تھا اسے سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے ریاستی جبر اور طاقت کا استعمال کیا گیا اور اس کا نتیجہ آزاد بنگلہ دیش کی شکل میں برآمد ہوا۔ اس غیرمعمولی واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا بلکہ باقی ماندہ پاکستان کے عوام سے حقائق چھپائے گئے۔
یہ ثابت کیا جاتا رہا کہ علاقائی اور عالمی سازشوں سے پاکستان دولخت ہوا۔ حمود الرحمن کیشن رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی ہے۔ 1947میں وجود میں آنے والا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا۔ اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑانے میں عافیت جانی۔ اس واقعے کو 50 سال سے زیادہ گزرچکے ہیں۔ اس دوران تین نسلیں جوان ہوئی ہیں۔ آج بھی محض چند نوجوان ہی جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اصل اسباب و حقائق کیا تھے۔
سازشی مفروضوں کی بنیاد پر عوام کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ ہر فرد کہتا سنائی دے گا کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ بڑی طاقتیں سیاستدانوں کو خرید کر اپنے مفادات کے لیے پاکستان کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں، جو کچھ بھی ہوا ہے اور جو ہورہا ہے اس میں ہماری کوئی خطا نہیں ہے۔
اس صورتحال کا سبب یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے لوگوں سے سچ چھپادیا۔ درست تاریخ کو سامنے نہیں آنے دیا گیا اور مفروضوں پر مبنی ایسی من گھڑت تاریخ پیش کی گئی جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر ذہن ابہام کا شکار ہے اور کئی جہتی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
جب درست اور حقائق پر مبنی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں فوراً ہندوستان کے بڑے تاریخ داں اور علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر عرفان حبیب کا نام سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ اس کا سبب ممتاز دانشور اکٹر جعفر احمد یہ بتاتے ہیں کہ ''اس کی ایک بڑی وجہ تو علم سے ہماری عمومی بے اعتنائی ہے۔ پھر بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیمی اداروں بشمول جامعات میں سرکاری نصاب ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے جو بیشتر غیرمعروضی اور ریاست کے نظریاتی بیانیے ہی کی ترویج کا ذریعہ بن چکا ہے۔''
عالمی شہرت یافتہ مؤرخ عرفان حبیب کا تعلق ایک علمی اور سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد لکھنؤ کے مشہور وکیل اور جدوجہد آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کی والدہ پہلے ہندوستانی بیرسٹر جسٹس بدرالدین طیب جی کی نواسی تھیں۔ نانا عباس طیب جی گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ پروفیسر عرفان حبیب نے آکسفورڈ سے 25 سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے برصغیر کی تاریخ پر بہت سے مقالات لکھے جن سے تاریخ کو درست تناظر میں سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے ان کی اہم تاریخی تحریروں پر مشتمل ایک کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ ان مضامین کا ترجمہ ڈاکٹر انور شاہین نے کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ترقی پسند اور روشن خیال دانشور ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت سے ترجمے کا کام مکمل کیا ہے۔ اس کتاب کا عنوان ''ہندوستان کی تاریخ۔ مارکسی تناظر'' رکھا گیا ہے۔ کتاب کا تعارف موجودہ دور کے اہم تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تحریر کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''پروفیسر عرفان حبیب نے ماضی کی تاریخ کے صرف سیاسی عنوانات کو تحقیق کا موضوع نہیں بنایا بلکہ اقتصادی، سماجی اور تہذیبی موضوعات پر بھی پیشہ ورانہ انداز میں تحقیق کو برتا ہے۔ ان کے موضوعات کا دامن بہت وسیع ہے۔ پروفیسر صاحب تاریخ کے مطالعے اور تجزیے کے لیے مارکسی طرز فکر اور سائنسی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور یہی چیز ان کی تحریروں کی وقعت اور ان کی فکر انگیزی، نیز تاریخ فہمی میں ان کے راہ کشا ہونے کی بنیادی وجہ قرار پائی ہے۔''
کتاب میں ذات پات کے حوالے سے ایک مضمون پر وہ اظہار رائے کرتے ہوئے کہتے ہیں ''یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ذات پات کا ادارہ بے حد مضبوط ہے اور اس میں تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن تاریخی عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ذات پات کے نظام میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آئیں۔ جب ہندوستان میں ترکوں کی حکومت قائم ہوئی تو وہ اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے۔ جس کی وجہ سے کاریگروں کا طبقہ خوشحال ہوگیا۔ پھر انھوں نے اپنے کاروبار کے حساب کتاب کے لیے برہمنوں کو ملازم رکھنا شروع کردیا اس کی وجہ سے ان کا سماجی درجہ گرگیا۔
اس صورتحال میں اس وقت تبدیلی آئی جب یہاں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ جس نے ذات پات کی شناخت کو ابھار کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے لہٰذا جب مردم شماری میں ذات پات کا خانہ شروع ہوا تو اس نے ہر فرد کو اپنی ذات کی شناخت قائم کرنے میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ انگریز حکومت نے بہت سی اصلاحات کیں جنھوں نے ذات پات کو کمزور تو کیا مگر یہ لوگوں کے ذہن کو نہیں بدل سکیں اور ہندو سوسائٹی آج بھی ذات پات کے چکر سے نہیں نکل پائی ہے۔
خاص طور سے دلت یا اچھوت آج بھی ذات پات کے شدید طبقاتی تصور کا شکار ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں ابھی تک ذات پات کے خیالات گہرائی کے ساتھ موجود ہیں۔
پروفیسر عرفان حبیب نے مغل تاریخ پر نئی سوچ کے ساتھ لکھا ہے جسکی وجہ سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی عہد وسطیٰ کی تاریخ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس موضوع پر اپنے ایک مضمون میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا مغلوں کے دور میں ہندستان سرمایہ داری کے مرحلے میں داخل ہوسکتا تھا۔ ایک تو اٹھارہویں صدی میں نادر شاہ (وفات 1739ء) اور احمد شاہ ابدالی (وفات 1772) کے حملوں نے مغل خزانوں کو لوٹ کر مغل سلطنت کو معاشی اور سیاسی طور پر زوال پذیر کردیا۔
مزید خانہ جنگیوں نے مزید تباہی و بربادی کی۔ مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور روہیلوں نے بغاوتیں کر کے مغل سلطنت کے وقار کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی مرکزی حکومت معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہوگئی مگر اس کی جانشین ریاستوں کے پاس بہت دولت آگئی۔ اس میںاَودھ، مرشدآباد اور دکن کی حکومتیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ سورت کی بندرگاہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے خوشحال ہوگئی تھی۔
اس کے تاجروں کے پاس جہاز تھے اور وہ جنوب مشرقی ایشیاء کے ملکوں سے تجارت کرتے تھے لیکن سورت شہر کو کئی بار مرہٹوں نے لوٹا اور حکومت تاجروں کی حفاظت نہیں کرسکی۔ ہندو تاجروں کے بحری جہازوں کو انگریز قزاقوں نے بھی لوٹنا شروع کردیا جس کی وجہ سے تجارت میں کمی واقع ہوئی۔
ہندوئوں کی پرانی تجارتی فرمیں تھیں۔ ان کو تجارت کا تجربہ بھی تھا لیکن ان کے سرمائے کی حفاظت کے انتظامات نہیں تھے۔ عہد مغلیہ کے آخری دور میں بادشاہ اور امرا ان سے قرض لیا کرتے تھے جس کی ادائیگی مشکل ہی سے ہوتی تھی۔ ضرورت پڑنے پر ان سے زبردستی وصولی بھی کی جاتی تھی۔ جب فرخ سیر دہلی آرہا تھا تو اس نے پٹنہ میں ہندو تاجروں سے زبردستی مال و دولت وصول کی۔ ان حالات میں ہندوستان کا سرمایہ دارانہ دور میں داخل ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔''
میں نے زیرنظر کالم کے آغاز میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان اس وقت جس ہمہ جہت نوعیت کے سماجی، سیاسی اور معاشی بحرانوں کی زد میں ہے۔ اسکی ایک اہم وجہ ہماری ذہن سازی ہے۔ اس کی بنیاد غلط اور سازشی مفروضوں پررکھی گئی ہے۔ 75 سال سے جاری بحران وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سنگین ہوکر سامنے آتا ہے۔ صرف فروعی موضوعات پر بحث کرنے سے یہ بحران نہیں ٹلے گا۔
اب وہ وقت آگیا ہے جو شاید دوبارہ نہ آسکے کہ یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ عوام کے ذہنوں میں تاریخ، سیاست، معیشت کے حوالے سے جو غلط تناظر راسخ کردیا گیا ہے، اب اس کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ایسا کرنے کے لیے پروفیسر عرفان حبیب کی تحریر ہمارے لیے کافی سودمند اور مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
مشرقی پاکستان سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ بنگالی کو بھی اردو کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ اس مطالبے کو مان لینے میں کوئی امر مانع نہیںہونا چاہیے تھا۔ زبان کو انا کا مسئلہ بنالیا گیا۔
ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ کئی برس جاری رہا جس کے بعد بالآخر اس جائز مطالبے کو تسلیم کرنا پڑا لیکن اس تاخیر کے باعث ملک کے مشرقی بازو میں جو احساس محرومی پیدا ہوا تھا اسے سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے ریاستی جبر اور طاقت کا استعمال کیا گیا اور اس کا نتیجہ آزاد بنگلہ دیش کی شکل میں برآمد ہوا۔ اس غیرمعمولی واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا بلکہ باقی ماندہ پاکستان کے عوام سے حقائق چھپائے گئے۔
یہ ثابت کیا جاتا رہا کہ علاقائی اور عالمی سازشوں سے پاکستان دولخت ہوا۔ حمود الرحمن کیشن رپورٹ آج تک سامنے نہیں آئی ہے۔ 1947میں وجود میں آنے والا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا۔ اکثریت نے اقلیت سے جان چھڑانے میں عافیت جانی۔ اس واقعے کو 50 سال سے زیادہ گزرچکے ہیں۔ اس دوران تین نسلیں جوان ہوئی ہیں۔ آج بھی محض چند نوجوان ہی جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اصل اسباب و حقائق کیا تھے۔
سازشی مفروضوں کی بنیاد پر عوام کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ ہر فرد کہتا سنائی دے گا کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ بڑی طاقتیں سیاستدانوں کو خرید کر اپنے مفادات کے لیے پاکستان کے وسائل کا استحصال کرتی ہیں، جو کچھ بھی ہوا ہے اور جو ہورہا ہے اس میں ہماری کوئی خطا نہیں ہے۔
اس صورتحال کا سبب یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے لوگوں سے سچ چھپادیا۔ درست تاریخ کو سامنے نہیں آنے دیا گیا اور مفروضوں پر مبنی ایسی من گھڑت تاریخ پیش کی گئی جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر ذہن ابہام کا شکار ہے اور کئی جہتی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
جب درست اور حقائق پر مبنی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں فوراً ہندوستان کے بڑے تاریخ داں اور علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ پروفیسر عرفان حبیب کا نام سامنے آتا ہے۔ پاکستان میں بہت کم لوگ ان کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ اس کا سبب ممتاز دانشور اکٹر جعفر احمد یہ بتاتے ہیں کہ ''اس کی ایک بڑی وجہ تو علم سے ہماری عمومی بے اعتنائی ہے۔ پھر بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیمی اداروں بشمول جامعات میں سرکاری نصاب ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے جو بیشتر غیرمعروضی اور ریاست کے نظریاتی بیانیے ہی کی ترویج کا ذریعہ بن چکا ہے۔''
عالمی شہرت یافتہ مؤرخ عرفان حبیب کا تعلق ایک علمی اور سیاسی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد لکھنؤ کے مشہور وکیل اور جدوجہد آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ ان کی والدہ پہلے ہندوستانی بیرسٹر جسٹس بدرالدین طیب جی کی نواسی تھیں۔ نانا عباس طیب جی گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ پروفیسر عرفان حبیب نے آکسفورڈ سے 25 سال کی عمر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے برصغیر کی تاریخ پر بہت سے مقالات لکھے جن سے تاریخ کو درست تناظر میں سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ نے ان کی اہم تاریخی تحریروں پر مشتمل ایک کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ ان مضامین کا ترجمہ ڈاکٹر انور شاہین نے کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک ترقی پسند اور روشن خیال دانشور ہیں۔ انھوں نے بڑی محنت سے ترجمے کا کام مکمل کیا ہے۔ اس کتاب کا عنوان ''ہندوستان کی تاریخ۔ مارکسی تناظر'' رکھا گیا ہے۔ کتاب کا تعارف موجودہ دور کے اہم تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے تحریر کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''پروفیسر عرفان حبیب نے ماضی کی تاریخ کے صرف سیاسی عنوانات کو تحقیق کا موضوع نہیں بنایا بلکہ اقتصادی، سماجی اور تہذیبی موضوعات پر بھی پیشہ ورانہ انداز میں تحقیق کو برتا ہے۔ ان کے موضوعات کا دامن بہت وسیع ہے۔ پروفیسر صاحب تاریخ کے مطالعے اور تجزیے کے لیے مارکسی طرز فکر اور سائنسی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور یہی چیز ان کی تحریروں کی وقعت اور ان کی فکر انگیزی، نیز تاریخ فہمی میں ان کے راہ کشا ہونے کی بنیادی وجہ قرار پائی ہے۔''
کتاب میں ذات پات کے حوالے سے ایک مضمون پر وہ اظہار رائے کرتے ہوئے کہتے ہیں ''یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ذات پات کا ادارہ بے حد مضبوط ہے اور اس میں تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن تاریخی عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ذات پات کے نظام میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آئیں۔ جب ہندوستان میں ترکوں کی حکومت قائم ہوئی تو وہ اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی لے کر آئے۔ جس کی وجہ سے کاریگروں کا طبقہ خوشحال ہوگیا۔ پھر انھوں نے اپنے کاروبار کے حساب کتاب کے لیے برہمنوں کو ملازم رکھنا شروع کردیا اس کی وجہ سے ان کا سماجی درجہ گرگیا۔
اس صورتحال میں اس وقت تبدیلی آئی جب یہاں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی۔ جس نے ذات پات کی شناخت کو ابھار کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیے لہٰذا جب مردم شماری میں ذات پات کا خانہ شروع ہوا تو اس نے ہر فرد کو اپنی ذات کی شناخت قائم کرنے میں مبتلا کر دیا۔ اگرچہ انگریز حکومت نے بہت سی اصلاحات کیں جنھوں نے ذات پات کو کمزور تو کیا مگر یہ لوگوں کے ذہن کو نہیں بدل سکیں اور ہندو سوسائٹی آج بھی ذات پات کے چکر سے نہیں نکل پائی ہے۔
خاص طور سے دلت یا اچھوت آج بھی ذات پات کے شدید طبقاتی تصور کا شکار ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں ابھی تک ذات پات کے خیالات گہرائی کے ساتھ موجود ہیں۔
پروفیسر عرفان حبیب نے مغل تاریخ پر نئی سوچ کے ساتھ لکھا ہے جسکی وجہ سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی عہد وسطیٰ کی تاریخ کا مرکز بن گئی ہے۔ اس موضوع پر اپنے ایک مضمون میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا مغلوں کے دور میں ہندستان سرمایہ داری کے مرحلے میں داخل ہوسکتا تھا۔ ایک تو اٹھارہویں صدی میں نادر شاہ (وفات 1739ء) اور احمد شاہ ابدالی (وفات 1772) کے حملوں نے مغل خزانوں کو لوٹ کر مغل سلطنت کو معاشی اور سیاسی طور پر زوال پذیر کردیا۔
مزید خانہ جنگیوں نے مزید تباہی و بربادی کی۔ مرہٹوں، جاٹوں، سکھوں اور روہیلوں نے بغاوتیں کر کے مغل سلطنت کے وقار کو ختم کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی مرکزی حکومت معاشی اور سیاسی طور پر کمزور ہوگئی مگر اس کی جانشین ریاستوں کے پاس بہت دولت آگئی۔ اس میںاَودھ، مرشدآباد اور دکن کی حکومتیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ سورت کی بندرگاہ اپنی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے خوشحال ہوگئی تھی۔
اس کے تاجروں کے پاس جہاز تھے اور وہ جنوب مشرقی ایشیاء کے ملکوں سے تجارت کرتے تھے لیکن سورت شہر کو کئی بار مرہٹوں نے لوٹا اور حکومت تاجروں کی حفاظت نہیں کرسکی۔ ہندو تاجروں کے بحری جہازوں کو انگریز قزاقوں نے بھی لوٹنا شروع کردیا جس کی وجہ سے تجارت میں کمی واقع ہوئی۔
ہندوئوں کی پرانی تجارتی فرمیں تھیں۔ ان کو تجارت کا تجربہ بھی تھا لیکن ان کے سرمائے کی حفاظت کے انتظامات نہیں تھے۔ عہد مغلیہ کے آخری دور میں بادشاہ اور امرا ان سے قرض لیا کرتے تھے جس کی ادائیگی مشکل ہی سے ہوتی تھی۔ ضرورت پڑنے پر ان سے زبردستی وصولی بھی کی جاتی تھی۔ جب فرخ سیر دہلی آرہا تھا تو اس نے پٹنہ میں ہندو تاجروں سے زبردستی مال و دولت وصول کی۔ ان حالات میں ہندوستان کا سرمایہ دارانہ دور میں داخل ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔''
میں نے زیرنظر کالم کے آغاز میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان اس وقت جس ہمہ جہت نوعیت کے سماجی، سیاسی اور معاشی بحرانوں کی زد میں ہے۔ اسکی ایک اہم وجہ ہماری ذہن سازی ہے۔ اس کی بنیاد غلط اور سازشی مفروضوں پررکھی گئی ہے۔ 75 سال سے جاری بحران وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ سنگین ہوکر سامنے آتا ہے۔ صرف فروعی موضوعات پر بحث کرنے سے یہ بحران نہیں ٹلے گا۔
اب وہ وقت آگیا ہے جو شاید دوبارہ نہ آسکے کہ یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ عوام کے ذہنوں میں تاریخ، سیاست، معیشت کے حوالے سے جو غلط تناظر راسخ کردیا گیا ہے، اب اس کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ ایسا کرنے کے لیے پروفیسر عرفان حبیب کی تحریر ہمارے لیے کافی سودمند اور مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔