ٹیکس چوروں کو پکڑنے کیلیے قانون سازی کا عمل شروع

قانون سازی سے ایف بی آر کو قابل ٹیکس آمدنی والوں کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی مل جائیگی

بھارت کیساتھ ٹیکس معلومات کا معاہدہ نہ ہونے سے دونوں کو نقصان ہورہا ہے،ممبرایف بی آر۔ فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ٹیکس چوری وآمدنی چھپانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان سے آمدنی کے مطابق ٹیکس کی وصولی کیلیے قانون سازی کا عمل شروع کردیا ہے جس سے ان لوگوں کے بینک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل ہوگی۔

جبکہ اسلام آباد میں بڑی آمدنی اور زیادہ بیرونی دورے کرنیوالوں کے اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے اور ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں تعاون کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت سب سے پیچھے ہے۔ اکثر افراد پیسہ ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے اور غلط معلومات مہیا کرتے ہیں۔ کراچی اور لاہور نسبتا بہتر ہیں تاہم مجموعی طور پر پوٹینشل کے حوالے سے کوئی بھی شہر یا علاقہ اپنے حصے کا مکمل ٹیکس ادا نہیں کررہا۔ گزشتہ روز آن لائن کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر ان لینڈ پالیسی اور ترجمان شاہد حسین اسد کا کہنا تھا کہ اگر عوام اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے بروقت اپنے ٹیکسوں کی ادائیگیاں یقینی بنائیں اور رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو ٹیکس جمع کرنے والی اتھارٹی سے رجسٹر کرائیں تو ملک میں عام آدمی کیلیے ٹیکس ادائیگی کی شرح جلد نیچے لائی جاسکتی ہے، تاہم اس کے لیے عوام کا تعاون اولین شرط ہے۔

ترجمان ایف بی آر نے بتایا کہ دنیا بھر میں بینکنگ سیکرٹ انفارمیشن کا رجحان بتدریج ختم ہورہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں بھی کام جاری ہے۔ ایف بی آر بھی قانون سازی کے عمل میں ہے جس سے وہ ان لوگوں کے بینک اکائونٹس تک رسائی حاصل کر سکے گا جو نیشنل ٹیکس نمبر نہیں رکھتے یا ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔ ایف بی آر کی جانب سے کی گئی اصلاحات کے مطابق اب جس اکائونٹ میں ایک ماہ میں دس لاکھ روپے سے زیادہ رقم جمع ہوگی اس کو ایف بی آر خود دیکھے گا۔ اسی طرح اگر کسی کریڈٹ کارڈ سے ایک ماہ میں ایک لاکھ سے زیادہ رقم صرف ہوگی تو اس کی معلومات بھی ایف بی آر کو مہیا ہوسکے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام آباد میں ان افراد کی فہرستیں مرتب کی گئی ہیں جو مالی طو رپر انتہائی مضبوط ہونے اور وقتا فوقتا بیرون ممالک دورے کرنے کے باوجود اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔


جلد ہی ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جن ممالک کے ساتھ ٹیکس معلومات کے تبادلے کے معاہدے نہیں ہیں، ان کے ساتھ معاہدے کرنے کی کوشش جاری ہے جبکہ کچھ ممالک جن کے ساتھ پہلے سے معاہدے موجود ہیں، ان کے ساتھ ان معاہدوں کو مزید موثر اور مضبوط بنانے کے حوالے سے بات چیت کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے خطے کے ممالک بالخصوص بھارت کے ساتھ ایسے کسی معاہدے کی عدم موجودگی کا نقصان دونوں ممالک کو ہورہا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے عوام کی ایک بڑی تعداد ایک دوسرے کے ملکوں میں کاروبار کررہی ہے مگر ٹیکس معلومات کے معاہدے کی عدم موجودگی سے ایک دوسرے کے ممالک میں بینک اکائونٹس رکھنے والوں کی طرف سے ٹیکسوں کی چوری سے ایک دوسرے کے کرپٹ و بدعنوان افراد کو ہی فائدہ ہورہا ہے۔

شاہد حسین اسد کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بہتری اور ان میں اضافے کے بعد ٹیکس معلومات کے تبادلے کسی معاہدے کی شدید ضرورت ہے جس سے دونوں ممالک اپنے ٹیکس چوروں پر ہاتھ دال سکیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان غیر قانونی تجارت اور اسمگلنگ کے ذریعے کافی غیر قانونی آمدن پیدا کی جارہی ہے تاہم اس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلیے دونوں ممالک کے درمیان ٹیکس معلومات کے تبادلے کے لیے معاہدے کا ہونا ضروری ہے۔ شاہد حسین اسد نے بتایا کہ فروری 2011 میں جب معروف پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان کو نئی دہلی میں اندرا گاندھی ائیرپورٹ پر بڑی مقدار میں غیر قانونی کرنسی غیر قانونی طور پر رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تو پاکستانی متعلقہ حکام نے بھارت سے اس حوالے سے معلومات کے تبادلے کی درخواست کی جس پر بھارتی حکام نے دونوں ممالک میں ٹیکس معلومات کا کوئی باہمی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے معلومات کے تبادلے سے معذرت کرلی۔

ترجمان ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں کی ادائیگی میں تعاون کے حوالے سے وفاقی دارالحکومت سب سے پیچھے ہے جہاں اکثر افراد پیسہ ہونے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اگر کریں بھی تو غلط معلومات مہیا کرکے اصلی سے نہایت کم ٹیکس کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بڑے شہر کراچی اور لاہور نسبتا بہتر ہیں تاہم مجموعی طور پر پوٹینشل کے حوالے سے کوئی بھی شہر یا علاقہ اپنے حصہ کا مکمل ٹیکس ادا نہیں کررہا جس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام میں ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے رجحان کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری صورت میں وہ اپنی اصل آمدنی اور اس پر واجب الادا ٹیکس کی صحیح معلومات دینے سے کتراتے ہیں اور کم رقم پر ٹیکس ادا کرکے گلو خلاصی کرالیتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ سیلز ٹیکس گوشوارے صحیح طور پر جمع کرانا شروع کردیں تو جلد ہی سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے میں مدد ملے گی یہی حساب دیگر ٹیکسوں کے ساتھ بھی ہے۔
Load Next Story