سفارت کاری کے محاذ پر بڑی جنگ

سفارت کاری میں داخلی بیانیہ اور تصور کی اہمیت ہوتی ہے اور یہ سفارت کاری میں سفارت کاروں کو طاقت بھی دیتی ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کو اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر جن بڑے مسائل کا سامنا ہے اس سے نمٹ کر ہی ہم خود کو ایک محفوظ ملک کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ہمیں بھارت، افغانستان ، ایران، چین اور روس کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔

ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی سفارت کاری کے معاملات پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ ہم اپنی سفارت کاری کی بنیاد پر کیسے اپنا بیانیہ تشکیل دیں گے۔

ایک بات ہمیں سفارت کاری کے تناظر میں سمجھنی چاہیے کہ یہ عمل جامد نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہم دنیا کے حالات کے مطابق اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرتی ہیں ۔اسی لیے آج کی سیاست میں سفارت کاری کو ایک مشکل اور پیچیدہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔

اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگرحکومت درست حکمت عملی اختیار کرتی ہے تو ہم اسے سفارت کاری کے محاذ پر کیسے لڑیں۔ ہمیں اپنی سفارت کاری کے محاذ پر غیر معمولی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ۔ اول، سفارت کاروں کی تقرری پر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر خالصتاً پروفیشنل اور بلاصلاحیت افراد کی تقرریاں کی جائیں ۔ دوئم، ہمیں مالی , علمی اور فکری بنیادوں پر سفارت کاری میں ایک بڑی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسی سرمایہ کاری جو سفارت کاروں کی صلاحیت کو بڑھانے اور وہاں ملکی مفاد کے حق میں بااثر اور رائے عامہ تشکیل دینے والے انفرادی یا اجتماعی افراد یا اداروں کو جوڑ کر مختلف سرگرمیوں کو یقینی بنائیں اور ہمارے بارے میں جو منفی تاثر ہے۔

اس کا ہر سطح پر ازالہ کیا جائے ۔ سوئم، حکومت،وزارت خارجہ کا دفتر، وزیر خارجہ ، وزیر خزانہ سمیت دیگر اہم وزراتوں کو سفارت کاری کے نیٹ سے جوڑا جائے تاکہ سفارت کاروں کو بھی معلوم ہوسکے کہ ہمیں کن خطوط پر کام کرنا ہے۔


چہارم، آج ڈیجیٹل کی دنیا ہے اور جو نیا عالمی ابلاغ سوشل میڈیا کی صورت میں سامنے آیا ہے اس کو کیسے اپنے حق میں اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس عمل کے ذریعے لوگوں کی رائے کو اپنے حق میں تبدیل کیا جائے ۔پنجم، حکومت، پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا یا وکلا برادری سمیت علمی و فکری ماہرین کے ساتھ دنیا کے مکالمہ کو اجاگر کیا جائے اور ایسے انتظامات کیے جائیں کہ ہمارے پالیسیاں بنانے والے یا پارلیمنٹ کے ارکان یا اہل دانش کا ان ممالک کا دورہ ہو جہاں ہم اپنا بیانیہ درست سمت میں پیش کرسکیں ۔

ششم، ہمیں اپنے ملک میں ایسے موثر اور علمی و فکری تھنک ٹینک بنانے چاہیے اور ان کا ریاستی یا حکومتی اداروں سے موثر رابطہ کاری اور عالمی دنیا میں موجود تھنک ٹینک سے رابطوں کو موثر بنانا ان کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

آج کی دنیا میں ریاستی سطح پر کھیلوں، تجارت، ثقافت، کلچرکو بھی بنیاد بنا کر اپنا مثبت تشخص قائم کرسکتے ہیں کیونکہ سیاسی ، عسکری ، معاشی اور سماجی ڈپلومیسی کی اہمیت ہی زیادہ ہوتی ہے اس کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ہمیں ہر صورت میں خود کو معاشی ترقی کے ماڈل میں شریک ہونا ہوگا اور ایسی پالیسیاں یا اقدامات اختیار کرنے ہوں گے جو سیاسی تقسیم کے مقابلے میں معاشی بنیادوں پر مستحکم ہوسکیں ۔

ہفتم، ہم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل سفارت کاری کی ہی مدد سے ممکن ہوگا تو یہ ضروری نہیں ۔کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی مسائل کو حل نہیں کریں گے اور جو بھی داخلی سطح کے تضادات ہیں ان کو ختم کیے بغیر ہماری داخلی سیاست یا ریاست میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں لائیں گے کچھ بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔

کیونکہ سفارت کاری میں داخلی بیانیہ اور تصور کی اہمیت ہوتی ہے اور یہ سفارت کاری میں سفارت کاروں کو طاقت بھی دیتی ہے ۔اس کے لیے ہمیں ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت شفاف حکمرانی کے نظام کو یقینی بنانا ہوگا جس میںمحروم یا کمزور طبقات کو زیادہ بالادستی ہو۔

ہشتم، ہمیں اپنی داخلی سطح کی سیکیورٹی کو بہتر بنا کر سیاحت کو زیادہ سے زیادہ آگے ترقی دینی ہوگی ۔نہم، ہمیں معاشرے میں مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا اور مکالمہ کے نام پر انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی حوصلہ شکنی اور اقلیتوں کو تحفظ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا ۔

ہمیں سیکیورٹی ریاست کے مقابلے میں فلاحی ریاست پر توجہ دینی ہوگی۔دہم، سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی، پارلیمنٹ سمیت سیاسی فورم کو موثر بنانا اور اصلاحاتی بنیاد پر ایجنڈا بنا کے ہم اپنے داخلی مسائل سے موثر انداز میں نمٹنے کی حکمت عملی اور عملدرآمد کے نظام کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔لیکن کیا ہم یہ سب کچھ کرسکیں گے یہ ہی سوال ہے جس کا جواب سامنے آنا چاہیے ۔
Load Next Story