آرمی چیف کی بڑے کاروباری افراد سے ملاقات
عام آدمی کی رائے میں آج جو مشکلات ہیں اس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہی ہے
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کے بڑے کاروباری افراد کے ایک گروپ سے ملاقات کی ہے۔اس ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔
میرے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ اس ملاقات میں کیا بات ہوئی۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود تھے۔ ملک میں ایک رائے موجود تھی کہ اسٹبلشمنٹ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔
موجودہ معاشی مشکلات میں اسحاق ڈار کو بھی ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے تو ایسا ماحول بھی بنایا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ہر کوئی یہ بات کر رہا تھا کہ اسحاق ڈار فارغ ہو گئے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی سامنے آرہی تھیں۔ اسحاق ڈار سے مستعفی ہونے پر ان سے سوالات بھی کیے گئے جس پر وہ ناراض ہو گئے۔ اس ناراضگی سے بھی یہی تاثر لیا گیا کہ وہ دباؤ میں ہیں۔
اب واضح ہو گیا ہے کہ اسحاق ڈار اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کوئی بد اعتمادی اور اختلاف نہیں ہے۔ اس ملاقات سے ملک کے کاروباری افراد کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ وزیر خزانہ کہیں نہیں جا رہے ہیں' میری رائے میں اس ملاقات یہ پیغام چلا گیا ہے' بڑے کاروباری افراد دونوں کو ساتھ دیکھ کر یقیناً سمجھ گئے ہونگے۔ اسحاق ڈار کے حوالے سے افواہیں درست نہیں ہیں۔
آرمی چیف سحاق ڈار کے بغیر بڑے کاروباری افراد کے وفد سے ملاقات کرتے تو یقیناً مختلف قسم کی چہ مگوئیاں سامنے آتی' ایک رائے بنتی ہے کہ اسحاق ڈار ناکامہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ملک کے بڑے کاروباری افراد سے ملتے تھے۔
ان میں کچھ ملاقاتوں میں وزیر خزانہ موجود تھے کچھ میں موجود نہیں بھی تھے۔ اس لیے بڑے کاروباری افراد کے وفود سے آرمی چیف کی ملاقاتوں کی روایت نئی نہیں ہے۔ اسٹبلشمنٹ اب ملک کے معاشی حالات سے خود کو لاتعلق نہیں رکھ سکتی۔
اس لیے وہ ملک کے بڑے معاشی فیصلوں میں شریک رہتی ہے۔ آج کے ملک کے معاشی حالات میں ایک غیر یقینی موجود ہے۔ عام آدمی مشکل میں ہے۔ وہ اپنی مشکلات کا ذمے دار کس کو ٹھہرائے۔ یقیناً اس کے لیے سب سے آسان موجودہ حکومت ہے۔
آج جو بھی ہو رہا ہے۔ا س کی ذمے دار موجودہ حکومت ہی ہے۔ آج کی مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہی سمجھنا مشکل ہے کہ مہنگائی کسی ایک ایسے معاہدے کی وجہ سے ہے جو عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا تھا۔ عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ عمران خان نے بجلی اور پٹرول سستا کر کے ملک کے ساتھ دشمنی کی تھی۔ اپنا کیا ہوا آئی ایم ایف کا معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
آج جو مشکلات ہیں وہ عمران خان کی وجہ سے ہیں۔ عام آدمی کی رائے میں آج جو مشکلات ہیں اس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہی ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت خود کو کسی بھی طرح بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ جب عمران خان کے دور میں مہنگائی تھی اس کے عمران خان ذمے دار تھے، آج موجودہ حکومت ذمے دار ہے۔
لیکن بڑے کاروباری افراد کی صورتحال مختلف ہے۔انھیں ملک کے معاشی حالات کی حقیقت سمجھ آسکتی ہے۔ان سے اصل بات ہو سکتی ہے۔ ان کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ آج ہم جس صورتحال کا شکار ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس لیے ان سے بات کرنا آسان ہے۔
اس لیے اس ملاقات میں یقیناً مختلف بات ہوئی ہوگی۔ اس لیے اس ملاقات میں سنجیدہ بات ہوئی ہوگی۔ اسحاق ڈار نے یقیناً اپنی بات کی ہوگی۔ انھوں نے اپنی پالیسیوں پر اپنا موقف پیش کیا ہوگا۔
پاکستان کے کاروباری طبقے کو اس موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ ان کا پاکستان پر یقین کامل ہونا چاہیے۔ جب تک وہ پرامید نہیں ہونگے معاملات آگے نہیں چل سکتے۔ ایک ماحول یہ بھی بن رہا ہے کہ لوگ پاکستان سے پیسے باہر لے کر جا رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے اپنے کاروبار ختم کر رہے ہیں۔
اس لیے ایسے ماحول میں یہ ملاقات یقیناً اہم ہے۔ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ یہ پیغام ضروری تھا کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔
ان کو یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ حکومت کی کوئی پالیسی ہے، ہم کام کر رہے ہیں، اور اسٹبلشمنٹ ساتھ ہے۔ اس ملاقات سے یہ دونوں پیغام گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے خدشات بھی دور کرنا ضروری تھے۔ یقیناً ہر بات میڈیا میں نہیں ہو سکتی تاہم بند کمروں میں ان کے ساتھ ہو سکتی تھی اور کی بھی گئی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ بڑے بڑے کاروباری پاکستان سے بہت کچھ لے لیتے ہیں لیکن جب پاکستان کو کچھ دینے کا وقت آتا ہے تو یہ بھاگ جاتے ہیں، یہ ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں، یہ حکومت سے مراعات لینے کی ہر وقت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کو دینے کے وقت بھاگ جاتے ہیں۔ یہ ہر وقت لٹ گئے لٹ گئے کی رٹ لگائے رہتے ہیں جب کہ ان کی دولت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
جمہوریت پسند طبقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ملک کے معاشی معاملات سے آرمی چیف کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے بھی یہی تنقید کی ہے حالانکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی جنرل باجوہ ایسی ملاقاتیں کرتے تھے۔ بلکہ ان میں تو کئی دفعہ حکومت کا کوئی نمایندہ بھی موجود نہیں ہوتا تھا۔ اس بار تو وزیر خزانہ موجود تھے۔ ان ملاقاتوں میں حکومت کے خلاف بھی باتیں ہوتی تھیں۔یہی کاروباری لوگ عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے تھے۔
کیا اس ملاقات سے سب کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں اسٹبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں پر اسٹبلشمنٹ کو مکمل اعتماد ہے۔
دونوں ملکر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ان قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں کہ اسٹبلشمنٹ ناراض ہے۔ اسحاق ڈار کی چھٹی ہو رہی ہے۔ یہی پیغام دیا گیا ہے۔ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
میرے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ اس ملاقات میں کیا بات ہوئی۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود تھے۔ ملک میں ایک رائے موجود تھی کہ اسٹبلشمنٹ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں سے خوش نہیں ہے۔
موجودہ معاشی مشکلات میں اسحاق ڈار کو بھی ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے تو ایسا ماحول بھی بنایا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ہر کوئی یہ بات کر رہا تھا کہ اسحاق ڈار فارغ ہو گئے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کی خبریں بھی سامنے آرہی تھیں۔ اسحاق ڈار سے مستعفی ہونے پر ان سے سوالات بھی کیے گئے جس پر وہ ناراض ہو گئے۔ اس ناراضگی سے بھی یہی تاثر لیا گیا کہ وہ دباؤ میں ہیں۔
اب واضح ہو گیا ہے کہ اسحاق ڈار اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان کوئی بد اعتمادی اور اختلاف نہیں ہے۔ اس ملاقات سے ملک کے کاروباری افراد کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ وزیر خزانہ کہیں نہیں جا رہے ہیں' میری رائے میں اس ملاقات یہ پیغام چلا گیا ہے' بڑے کاروباری افراد دونوں کو ساتھ دیکھ کر یقیناً سمجھ گئے ہونگے۔ اسحاق ڈار کے حوالے سے افواہیں درست نہیں ہیں۔
آرمی چیف سحاق ڈار کے بغیر بڑے کاروباری افراد کے وفد سے ملاقات کرتے تو یقیناً مختلف قسم کی چہ مگوئیاں سامنے آتی' ایک رائے بنتی ہے کہ اسحاق ڈار ناکامہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ملک کے بڑے کاروباری افراد سے ملتے تھے۔
ان میں کچھ ملاقاتوں میں وزیر خزانہ موجود تھے کچھ میں موجود نہیں بھی تھے۔ اس لیے بڑے کاروباری افراد کے وفود سے آرمی چیف کی ملاقاتوں کی روایت نئی نہیں ہے۔ اسٹبلشمنٹ اب ملک کے معاشی حالات سے خود کو لاتعلق نہیں رکھ سکتی۔
اس لیے وہ ملک کے بڑے معاشی فیصلوں میں شریک رہتی ہے۔ آج کے ملک کے معاشی حالات میں ایک غیر یقینی موجود ہے۔ عام آدمی مشکل میں ہے۔ وہ اپنی مشکلات کا ذمے دار کس کو ٹھہرائے۔ یقیناً اس کے لیے سب سے آسان موجودہ حکومت ہے۔
آج جو بھی ہو رہا ہے۔ا س کی ذمے دار موجودہ حکومت ہی ہے۔ آج کی مہنگائی کی ذمے دار موجودہ حکومت کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہی سمجھنا مشکل ہے کہ مہنگائی کسی ایک ایسے معاہدے کی وجہ سے ہے جو عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیا تھا۔ عام آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ عمران خان نے بجلی اور پٹرول سستا کر کے ملک کے ساتھ دشمنی کی تھی۔ اپنا کیا ہوا آئی ایم ایف کا معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
آج جو مشکلات ہیں وہ عمران خان کی وجہ سے ہیں۔ عام آدمی کی رائے میں آج جو مشکلات ہیں اس کی ذمے دار موجودہ حکومت ہی ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت خود کو کسی بھی طرح بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ جب عمران خان کے دور میں مہنگائی تھی اس کے عمران خان ذمے دار تھے، آج موجودہ حکومت ذمے دار ہے۔
لیکن بڑے کاروباری افراد کی صورتحال مختلف ہے۔انھیں ملک کے معاشی حالات کی حقیقت سمجھ آسکتی ہے۔ان سے اصل بات ہو سکتی ہے۔ ان کو پتہ بھی ہوتا ہے کہ آج ہم جس صورتحال کا شکار ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس لیے ان سے بات کرنا آسان ہے۔
اس لیے اس ملاقات میں یقیناً مختلف بات ہوئی ہوگی۔ اس لیے اس ملاقات میں سنجیدہ بات ہوئی ہوگی۔ اسحاق ڈار نے یقیناً اپنی بات کی ہوگی۔ انھوں نے اپنی پالیسیوں پر اپنا موقف پیش کیا ہوگا۔
پاکستان کے کاروباری طبقے کو اس موقع پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ ان کا پاکستان پر یقین کامل ہونا چاہیے۔ جب تک وہ پرامید نہیں ہونگے معاملات آگے نہیں چل سکتے۔ ایک ماحول یہ بھی بن رہا ہے کہ لوگ پاکستان سے پیسے باہر لے کر جا رہے ہیں۔ وہ پاکستان سے اپنے کاروبار ختم کر رہے ہیں۔
اس لیے ایسے ماحول میں یہ ملاقات یقیناً اہم ہے۔ یہ وقت کی ضرورت تھی۔ یہ پیغام ضروری تھا کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں جتنے بتائے جا رہے ہیں۔
ان کو یہ بتانا بھی ضروری تھا کہ حکومت کی کوئی پالیسی ہے، ہم کام کر رہے ہیں، اور اسٹبلشمنٹ ساتھ ہے۔ اس ملاقات سے یہ دونوں پیغام گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے خدشات بھی دور کرنا ضروری تھے۔ یقیناً ہر بات میڈیا میں نہیں ہو سکتی تاہم بند کمروں میں ان کے ساتھ ہو سکتی تھی اور کی بھی گئی ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ بڑے بڑے کاروباری پاکستان سے بہت کچھ لے لیتے ہیں لیکن جب پاکستان کو کچھ دینے کا وقت آتا ہے تو یہ بھاگ جاتے ہیں، یہ ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں، یہ حکومت سے مراعات لینے کی ہر وقت کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کو دینے کے وقت بھاگ جاتے ہیں۔ یہ ہر وقت لٹ گئے لٹ گئے کی رٹ لگائے رہتے ہیں جب کہ ان کی دولت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
جمہوریت پسند طبقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ملک کے معاشی معاملات سے آرمی چیف کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے بھی یہی تنقید کی ہے حالانکہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی جنرل باجوہ ایسی ملاقاتیں کرتے تھے۔ بلکہ ان میں تو کئی دفعہ حکومت کا کوئی نمایندہ بھی موجود نہیں ہوتا تھا۔ اس بار تو وزیر خزانہ موجود تھے۔ ان ملاقاتوں میں حکومت کے خلاف بھی باتیں ہوتی تھیں۔یہی کاروباری لوگ عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کرتے تھے۔
کیا اس ملاقات سے سب کو یہ پیغام مل گیا ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں اسٹبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ حکومت کی موجودہ معاشی پالیسیوں پر اسٹبلشمنٹ کو مکمل اعتماد ہے۔
دونوں ملکر کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ان قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں کہ اسٹبلشمنٹ ناراض ہے۔ اسحاق ڈار کی چھٹی ہو رہی ہے۔ یہی پیغام دیا گیا ہے۔ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔