عظیم اداکار قوی خان
ایس ایم یوسف نے فلم ’’بہو رانی‘‘ کا آغاز کیا فلم کے ہیرو محمد علی اور زیبا تھے
اداکار قوی خان بھی اپنے پرستاروں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ، مزاحیہ کردار نگاری ہو یا تیکھے موضوعات ان کو ادا کرنے کے ماہر تھے، انتہائی نفیس اور شریف انسان تھے ان کے بارے میں لفظ مرحوم لکھتے ہوئے دلی افسوس بھی ہو رہا ہے مگر ہم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ۔
قوی خان 1942 میں پشاور میں پیدا ہوئے یہ وہ فنکار تھے جنھوں نے بیک وقت تھیٹر، ٹی وی، ریڈیو اور فلموں میں خوب نام کمایا طبیعت کی ناسازی کے باعث کینیڈا کے اسپتال میں داخل تھے، فلم ''بہو رانی'' ٹی وی ڈرامہ ''اندھیرا اجالا ''ان کی پہچان بنے ، وہ اسٹیج، ٹی وی، فلم کے شہزادے تھے اور وہ واقعی اپنے کام میں قوی تھے اگر کوئی فلم فلاپ بھی ہوتی تھی تجارتی طور پر مگر ان کے کردار امر ہوتے تھے مانا کہ وہ ہیرو کی لسٹ میں نہیں تھے مگر ان کے کردار لوگ یاد رکھتے تھے۔
ماضی کے کامیاب ہدایت کار دلجیت مرزا نے انھیں اپنی فلم ''رواج'' میں کاسٹ کیا تھا یہ انڈسٹری میں ان کی پہلی فلم تھی اداکار شان کے والد ریاض شاہد مرحوم نے اس فلم کے مکالمے لکھے تھے وہ اپنے وقت کے بڑے مصنف تھے۔ ہدایت کار ایس ایم یوسف مرحوم اپنے وقت کے بڑے ہدایت کاروں میں شمار ہوتے تھے ان کے صاحبزادے اقبال یوسف بھی ہدایت کار تھے۔
ایس ایم یوسف نے فلم ''بہو رانی'' کا آغاز کیا فلم کے ہیرو محمد علی اور زیبا تھے اس فلم میں قوی نے کمال کی اداکاری کی اور اپنا لوہا منوا لیا اس وقت کے بڑے فنکاروں نے انھیں بڑا آرٹسٹ تسلیم کرلیا تھا۔
اداکارہ آسیہ مرحومہ اداکارہ ممتاز یہ دونوں آرٹسٹیں پنجابی فلموں کی جان ہوا کرتی تھیں 30 سال قبل کی بات ہے ان دونوں کی مادری زبان اردو تھی جب کہ سلطان راہی مرحوم کا تعلق بھی اردو بولنے والے گھرانے سے تھا۔ آسیہ نے ہیروئن شپ کے زمانے میں بنکاک کے ایک مسلمان تاجر جو پاکستانی تھے سے شادی کرکے انڈسٹری کو چھوڑ دیا تھا۔
ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں بہت ہی نفیس خاتون تھیں انھوں نے ایک طویل ملاقات میں بتایا تھا کہ میں تو اردو قوی صاحب سے سیکھتی ہوں ان کا طرز بیان اردو کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے وہ بہت آبرو مندانہ گفتگو کرنے کے عادی تھے۔
دنیا کے ہر موضوع پر آپ ان سے بات کرلیں ، اداکار ندیم نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ان کے ہمراہ کئی فلموں میں کام کیا، کھانے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ ہر قسم کے کھانے کو بڑے شوق سے کھا لیتے تھے وہ اے کلاس آرٹسٹ تھے جب کہ تہذیب کا نمونہ تھے اکثر مسکرا کر بات کرتے کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے۔
اداکار محمد علی مرحوم نے بتایا کہ ''آس'' کی شوٹنگ ہو رہی تھی سیٹ پر دس بجے آنا تھا علی سفیان آفاقی مرحوم سیٹ پر موجود تھے میں وقت کا بہت پابند تھا جس دن شوٹنگ تھی اتفاق سے گاڑی نے دھوکا دے دیا جس کی وجہ سے 11 بجے سیٹ پر پہنچا سفیان صاحب سے معذرت کی ۔
قوی خان کہنے لگے'' سفیان صاحب دوپہر کا کھانا آپ کی طرف سے نہیں ہوگا پورے یونٹ کو علی صاحب کھانا کھلائیں گے ''اور یوں اس زمانے میں غالباً 1978 کی بات ہے کھانے کا بل700 روپے آیا تو قوی نے مسکراتے ہوئے وہ بل فوراً ادا کیا۔
محمد علی کہتے تھے کہ وہ فلم کے ہیرو نہیں ہوتے تھے مگر ان کے پرستار ہیروز سے زیادہ ایورنیو اسٹوڈیو میں نظر آتے تھے۔ اداکارمحمد علی کہتے تھے کہ خوبصورتی میں ان کا ثانی نہیں تھا رنگ گورا ہونے کی وجہ سے انگریز کا گمان ہوتا تھا ۔
راقم الحروف کی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں ایورنیو اسٹوڈیو میں بے شمار ملاقاتیں ہوئیں ہمیشہ راقم کو صحافت میں شرافت کا درس دیتے جو آج راقم کے کام آ رہا ہے پھر ہم نے ایک نجی چینل 2003 میں جوائن کیا تو اس چینل کے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔
ان کے پسندیدہ فنکاروں میں محمد علی، ندیم، بہار، دیبا، آشا پوسلے (پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن تھیں) نیلو، ہدایت کاروں میں ایم اے رشید، علی سفیان آفاقی، شباب کیرانوی کی باتیں بہت محبت سے کرتے محسنوں کا بہت ریکارڈ کیا کرتے تھے۔
لاہور اسٹیج کے پروڈیوسر نعمان بٹ نے ایک اسٹیج ڈرامہ 1975 میں ''ہمارے بچے'' کے عنوان سے کیا، یہ ڈرامہ یتیم خانے کے بچوں کے حوالے سے ہوا تھا جس کی آمدنی یتیم خانے کے بچوں میں دی گئی۔
اس ڈرامے کا مرکزی کردار قوی نے کیا اور بلامعاوضہ کیا حالانکہ وہ مہنگے آرٹسٹ تھے اس میں ایک کردار اسکول ٹیچر کا تھا مختصر کردار تھا جسے محمد علی نے کیا 1975 میں اس ڈرامے کی آمدنی 30000 ہوئی تھی جو یتیم خانے کو دے دی گئی اور اس کا چیک اداکارمحمد علی اور قوی نے یتیم خانے کی انتظامیہ کو دیا۔
قوی صاحب اکثر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے مگر کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کرتے پرانے فنکار بڑے سخی ہوا کرتے تھے جہاں لاکھوں کمایا کرتے تھے وہاں ہزاروں لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔خاموشی سے اسلام آباد میں ایک چیریٹی شوا ہوا تھا جو کسی اسپتال کے لیے تھا جو بہاولپور میں تھا۔
اس کے ڈاکٹر ندیم توصیف سے ہماری ایک ملاقات ہوئی اس چیریٹی شو میں کمپیئرنگ قوی خان نے کی تھی جب کہ صدارت محمد علی مرحوم نے کی تھی ۔اس چیریٹی شو کی آمدنی 1982 میں 40000 ہوئی تھی جو اسپتال کو دی گئی ندیم توصیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' میری دعا ہے کہ علی بھائی اور قوی خان کو رب طویل زندگی دے۔
انھوں نے بے آسرا مریضوں کو معاشی خون دیا ہے اور میری اور سب مریضوں کی دعائیں علی اور قوی کے لیے ہیں جب کہ کراچی سے مہ ناز نے بھی شرکت کی تھی جب کہ قوی ،محمد علی کی وجہ سے اس شو میں آئے تھے کیونکہ محمد علی اور قوی کی بہت دوستی تھی دونوں ہنس مکھ اور ملنسار تھے ۔
ٹی وی ڈرامہ غالباً 1967 کی بات ہے ڈرامہ ''لاکھوں میں'' آن ایئر ہوا، اس میں قوی نے لازوال اداکاری کرکے ناظرین ٹی وی کے دل جیت لیے تھے ۔ڈرامہ سیریل ''اندھیرا اجالا'' قوی کی وجہ سے مقبول ترین سیریل ثابت ہوئی راحت کاظمی اپنے وقت کے معروف ہیرو ٹی وی اور فلم رہے، انھوں نے بتایا تھا کہ آرٹسٹ تو میں نے بہت دیکھے ہیں مگر میری پہلی فلم ''آج اور کل'' میں قوی صاحب نے لاجواب اداکاری کرکے شایقین فلم کے دل جیت لیے تھے ۔
راحت کاظمی ٹی وی اور فلم کے واحد آرٹسٹ ہیں جو CSS آفیسر رہے ان کی تعریف تو قوی بھی ہم سے کرتے تھے قوی نے بے شمار فلمیں پروڈیوس کیں جن میں روشنی، بے ایمان، گورا کالا، منجی کتھے ڈھاواں، انھوں نے ایک پشتو فلم بھی بنائی ''مہ جبینے'' تھی۔
ضیاالحق سابق صدر کے غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا اور ہار گئے سیکڑوں فلموں میں کام کیا جنھیں تحریر میں نہیں لایا جاسکتا مگر کچھ اعلیٰ ترین فلموں میں بہو رانی، آج اور کل، پرکھ، پیاسا، دو ساتھی، سیتا مریم مارگریٹ، سماج، آس، سہرے کے پھول، نمک حرام قابل ذکر ہیں۔
قوی ان نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کے حوالے سے جو ایوارڈز لیے ان میں پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہ امتیاز، جب کہ اس سال وہ نامزد ہوئے تھے پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوارڈ ''نشان پاکستان'' کے لیے۔ رب ان کی مغفرت کرے۔( آمین)
قوی خان 1942 میں پشاور میں پیدا ہوئے یہ وہ فنکار تھے جنھوں نے بیک وقت تھیٹر، ٹی وی، ریڈیو اور فلموں میں خوب نام کمایا طبیعت کی ناسازی کے باعث کینیڈا کے اسپتال میں داخل تھے، فلم ''بہو رانی'' ٹی وی ڈرامہ ''اندھیرا اجالا ''ان کی پہچان بنے ، وہ اسٹیج، ٹی وی، فلم کے شہزادے تھے اور وہ واقعی اپنے کام میں قوی تھے اگر کوئی فلم فلاپ بھی ہوتی تھی تجارتی طور پر مگر ان کے کردار امر ہوتے تھے مانا کہ وہ ہیرو کی لسٹ میں نہیں تھے مگر ان کے کردار لوگ یاد رکھتے تھے۔
ماضی کے کامیاب ہدایت کار دلجیت مرزا نے انھیں اپنی فلم ''رواج'' میں کاسٹ کیا تھا یہ انڈسٹری میں ان کی پہلی فلم تھی اداکار شان کے والد ریاض شاہد مرحوم نے اس فلم کے مکالمے لکھے تھے وہ اپنے وقت کے بڑے مصنف تھے۔ ہدایت کار ایس ایم یوسف مرحوم اپنے وقت کے بڑے ہدایت کاروں میں شمار ہوتے تھے ان کے صاحبزادے اقبال یوسف بھی ہدایت کار تھے۔
ایس ایم یوسف نے فلم ''بہو رانی'' کا آغاز کیا فلم کے ہیرو محمد علی اور زیبا تھے اس فلم میں قوی نے کمال کی اداکاری کی اور اپنا لوہا منوا لیا اس وقت کے بڑے فنکاروں نے انھیں بڑا آرٹسٹ تسلیم کرلیا تھا۔
اداکارہ آسیہ مرحومہ اداکارہ ممتاز یہ دونوں آرٹسٹیں پنجابی فلموں کی جان ہوا کرتی تھیں 30 سال قبل کی بات ہے ان دونوں کی مادری زبان اردو تھی جب کہ سلطان راہی مرحوم کا تعلق بھی اردو بولنے والے گھرانے سے تھا۔ آسیہ نے ہیروئن شپ کے زمانے میں بنکاک کے ایک مسلمان تاجر جو پاکستانی تھے سے شادی کرکے انڈسٹری کو چھوڑ دیا تھا۔
ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں بہت ہی نفیس خاتون تھیں انھوں نے ایک طویل ملاقات میں بتایا تھا کہ میں تو اردو قوی صاحب سے سیکھتی ہوں ان کا طرز بیان اردو کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے وہ بہت آبرو مندانہ گفتگو کرنے کے عادی تھے۔
دنیا کے ہر موضوع پر آپ ان سے بات کرلیں ، اداکار ندیم نے ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ ان کے ہمراہ کئی فلموں میں کام کیا، کھانے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ ہر قسم کے کھانے کو بڑے شوق سے کھا لیتے تھے وہ اے کلاس آرٹسٹ تھے جب کہ تہذیب کا نمونہ تھے اکثر مسکرا کر بات کرتے کبھی کسی کی دل شکنی نہیں کرتے تھے۔
اداکار محمد علی مرحوم نے بتایا کہ ''آس'' کی شوٹنگ ہو رہی تھی سیٹ پر دس بجے آنا تھا علی سفیان آفاقی مرحوم سیٹ پر موجود تھے میں وقت کا بہت پابند تھا جس دن شوٹنگ تھی اتفاق سے گاڑی نے دھوکا دے دیا جس کی وجہ سے 11 بجے سیٹ پر پہنچا سفیان صاحب سے معذرت کی ۔
قوی خان کہنے لگے'' سفیان صاحب دوپہر کا کھانا آپ کی طرف سے نہیں ہوگا پورے یونٹ کو علی صاحب کھانا کھلائیں گے ''اور یوں اس زمانے میں غالباً 1978 کی بات ہے کھانے کا بل700 روپے آیا تو قوی نے مسکراتے ہوئے وہ بل فوراً ادا کیا۔
محمد علی کہتے تھے کہ وہ فلم کے ہیرو نہیں ہوتے تھے مگر ان کے پرستار ہیروز سے زیادہ ایورنیو اسٹوڈیو میں نظر آتے تھے۔ اداکارمحمد علی کہتے تھے کہ خوبصورتی میں ان کا ثانی نہیں تھا رنگ گورا ہونے کی وجہ سے انگریز کا گمان ہوتا تھا ۔
راقم الحروف کی اکثر ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں ایورنیو اسٹوڈیو میں بے شمار ملاقاتیں ہوئیں ہمیشہ راقم کو صحافت میں شرافت کا درس دیتے جو آج راقم کے کام آ رہا ہے پھر ہم نے ایک نجی چینل 2003 میں جوائن کیا تو اس چینل کے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔
ان کے پسندیدہ فنکاروں میں محمد علی، ندیم، بہار، دیبا، آشا پوسلے (پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن تھیں) نیلو، ہدایت کاروں میں ایم اے رشید، علی سفیان آفاقی، شباب کیرانوی کی باتیں بہت محبت سے کرتے محسنوں کا بہت ریکارڈ کیا کرتے تھے۔
لاہور اسٹیج کے پروڈیوسر نعمان بٹ نے ایک اسٹیج ڈرامہ 1975 میں ''ہمارے بچے'' کے عنوان سے کیا، یہ ڈرامہ یتیم خانے کے بچوں کے حوالے سے ہوا تھا جس کی آمدنی یتیم خانے کے بچوں میں دی گئی۔
اس ڈرامے کا مرکزی کردار قوی نے کیا اور بلامعاوضہ کیا حالانکہ وہ مہنگے آرٹسٹ تھے اس میں ایک کردار اسکول ٹیچر کا تھا مختصر کردار تھا جسے محمد علی نے کیا 1975 میں اس ڈرامے کی آمدنی 30000 ہوئی تھی جو یتیم خانے کو دے دی گئی اور اس کا چیک اداکارمحمد علی اور قوی نے یتیم خانے کی انتظامیہ کو دیا۔
قوی صاحب اکثر لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے مگر کبھی کسی سے تذکرہ نہیں کرتے پرانے فنکار بڑے سخی ہوا کرتے تھے جہاں لاکھوں کمایا کرتے تھے وہاں ہزاروں لوگوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔خاموشی سے اسلام آباد میں ایک چیریٹی شوا ہوا تھا جو کسی اسپتال کے لیے تھا جو بہاولپور میں تھا۔
اس کے ڈاکٹر ندیم توصیف سے ہماری ایک ملاقات ہوئی اس چیریٹی شو میں کمپیئرنگ قوی خان نے کی تھی جب کہ صدارت محمد علی مرحوم نے کی تھی ۔اس چیریٹی شو کی آمدنی 1982 میں 40000 ہوئی تھی جو اسپتال کو دی گئی ندیم توصیف نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' میری دعا ہے کہ علی بھائی اور قوی خان کو رب طویل زندگی دے۔
انھوں نے بے آسرا مریضوں کو معاشی خون دیا ہے اور میری اور سب مریضوں کی دعائیں علی اور قوی کے لیے ہیں جب کہ کراچی سے مہ ناز نے بھی شرکت کی تھی جب کہ قوی ،محمد علی کی وجہ سے اس شو میں آئے تھے کیونکہ محمد علی اور قوی کی بہت دوستی تھی دونوں ہنس مکھ اور ملنسار تھے ۔
ٹی وی ڈرامہ غالباً 1967 کی بات ہے ڈرامہ ''لاکھوں میں'' آن ایئر ہوا، اس میں قوی نے لازوال اداکاری کرکے ناظرین ٹی وی کے دل جیت لیے تھے ۔ڈرامہ سیریل ''اندھیرا اجالا'' قوی کی وجہ سے مقبول ترین سیریل ثابت ہوئی راحت کاظمی اپنے وقت کے معروف ہیرو ٹی وی اور فلم رہے، انھوں نے بتایا تھا کہ آرٹسٹ تو میں نے بہت دیکھے ہیں مگر میری پہلی فلم ''آج اور کل'' میں قوی صاحب نے لاجواب اداکاری کرکے شایقین فلم کے دل جیت لیے تھے ۔
راحت کاظمی ٹی وی اور فلم کے واحد آرٹسٹ ہیں جو CSS آفیسر رہے ان کی تعریف تو قوی بھی ہم سے کرتے تھے قوی نے بے شمار فلمیں پروڈیوس کیں جن میں روشنی، بے ایمان، گورا کالا، منجی کتھے ڈھاواں، انھوں نے ایک پشتو فلم بھی بنائی ''مہ جبینے'' تھی۔
ضیاالحق سابق صدر کے غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا اور ہار گئے سیکڑوں فلموں میں کام کیا جنھیں تحریر میں نہیں لایا جاسکتا مگر کچھ اعلیٰ ترین فلموں میں بہو رانی، آج اور کل، پرکھ، پیاسا، دو ساتھی، سیتا مریم مارگریٹ، سماج، آس، سہرے کے پھول، نمک حرام قابل ذکر ہیں۔
قوی ان نے اپنی اعلیٰ کارکردگی کے حوالے سے جو ایوارڈز لیے ان میں پرائیڈ آف پرفارمنس، ستارہ امتیاز، جب کہ اس سال وہ نامزد ہوئے تھے پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوارڈ ''نشان پاکستان'' کے لیے۔ رب ان کی مغفرت کرے۔( آمین)