بندرسے انسان اور انسان سے بندر

نہ دوسروں کے پاس دیکھ کر حسد کرنے کی ضرورت نہ چھیننے کی تمنانہ لڑنے مرنے کاعذاب

barq@email.com

انتظار حسین کا ایک مشہور افسانہ''آخری آدمی'' آپ نے یقیناً حسب معمول اور حس عادت ''نہیں ''پڑھا ہوگا کیوں کہ آپ کو کہنے،بولنے اور لکھنے سے فرصت ہوتو کچھ پڑھیں گے، اس لیے ہم ہی بتا دیتے ہیں، یہ ایک استعاراتی اورعلامتی کہانی ہے ۔

کسی بستی میں انسان بڑی تیزی سے بندر بنتے جارہے ہیں جس کا بستی کے ایک سمجھ دار آدمی کو بڑا دکھ ہے۔

وہ حیران و پریشان ہے کہ انسانوں کو بندر بننے سے کس طرح روکے۔ وہ دن رات لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ بندر مت بنو لیکن کوئی اس کی نہیں سنتا،آخر جب ایک ایک کرکے اس کے سارے دوست اور عزیز واقارب بندر بن جاتے ہیں اور وہ اکیلارہ جاتاہے تو ایک جگہ مبہوت اورحیران وپریشان بیٹھا رہتا ہے کہ اب وہ اکیلا ان بندروں میں کیسے رہ پائے گا کہ اچانک وہ بھی چھلانگ لگا کر اور بندر کی طرح فرفر کرتے ہوئے چاروں پیروں سے دوڑنے لگتاہے ۔

انتظارحسین کی اس بندربستی کا پتہ تو ہم نہیں لگاپائے لیکن ایک اوربستی ہمیں مل گئی ہے جو انتظار حسین کی اس بستی کے بالکل برعکس اورالٹ ہے۔

یہاں انسان بندر نہیں ہورہے ہیں بلکہ بندر انسان ہوتے جارہے ہیں اوراس بات کااس بستی کے ایک بزرگ اوردانا دانشور بندرکو ازحد دکھ ہے، وہ چوں کہ کافی عرصہ انسانوں کے ساتھ رہاہے کیوں کہ بچپن میں ایک انسان اسے پکڑ کرلے گیا تھا اور وہ اسے انسانوں کی بستیوں میں نچواتا رہا اورتماشے دکھاتا رہاتھا اوراس نے انسانوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔

وہ بندروں کو روکتارہاکہ انسان بن کر خود کو عذاب میں مبتلا مت کرو ، اب تو تم جنگل میں آرام سے رہتے ہو، کھانے کو مل جاتاہے، پیٹ بھرکر آرام سے لیٹ جاتے ہو، نہ کل کے لیے خوراک کا غم نہ آرام کی فکر، جب چاہوجہاں چاہو چلے جاؤ، کہیں سے بھی کھانے کو ملے کھا لو، شرارتیں کرو، باتیں کرو، تھک جاؤ تو کہیں بھی سو جاؤ۔

اگر کوئی مادہ آمادہ ہے تو اس کے پاس جاؤ ورنہ آرام سے پڑے رہتے ہو ،مادائیں بیسیوں ہزاروں میں بھی ارد گرد ہوں تو بھی شیطان وسوسے نہیں ڈالتا اور نہ جرم پر اکساتا ہے،نہ دوسروں سے چھپن کر کل پرسوں ترسوں بلکہ برسوں تک جمع کرنے کاغم۔ نہ دوسروں کے پاس دیکھ کر حسد کرنے کی ضرورت نہ چھیننے کی تمنانہ لڑنے مرنے کاعذاب۔ نہ قوم پرستی کی تحریک اور نہ کوئی مذہبی فرقہ نہ کوئی لسانی، نسلی امتیاز کا رونا لیکن کسی ایک بندر نے اپنے اس بزرگ بندر کی بات نہیں سنی ، بندر ایک ایک کرکے انسان بنتے گئے اورانسانی بستیوں کی طرف چلے گئے یہاں تک کہ جنگل میں اس ایک بوڑھے بندر کے سوا اورکوئی بندر نہیں رہا۔ایک دن اس نے سوچا، چلو اپنے ان سابقہ عزیزوں کی ذرا خبر لیں کہ انسان بننے کے بعد ان پر کیاگزری ہے۔

اس نے دیکھا کہ ان بندروں نے انسان بن کر ایک بستی بسالی ہے، بہت خوبصورت بستی تھی۔ شہرخوبصورت تھا لیکن بندرجو انسان بنے تھے ، وہ اکٹھے رہ کر بھی تنہا تھے، انسان اپنے جیسے انسان سے ڈرتا ہے۔

ہرشخص تیزی سے دوڑ رہاتھا ،جگہ جگہ چھینا جھپٹی ہورہی تھے، لڑائی مارکٹائی، شوروغل اور ہنگامے ،ہرکوئی اس کوشش میں تھا کہ جو کچھ بھی ملے جہاں سے بھی ملے جیسے بھی ہاتھ لگے اٹھا کر اپنے گھر لے جائے حالاں کہ ان کے پیٹ بھرے ہوئے، جیبیں بھی بھری ہوئی تھیں،ایک ایک گھر کئی کئی گاڑیاں کھڑی تھیں، نابالغ بچے تک گاڑیاں اور موٹر سائیکلز دوڑا رہے تھے، ہرچیزکی بہتات تھی لیکن پھر بھی کوئی پورا نہیں تھا۔

سب بھوکے اور پیاسے اور ڈرے ہوئے تھے جیسے سب کچھ ہوکر بھی کچھ میسر نہ ہو، کندھے سے کندھا چل رہاتھا لیکن پھر بھی ہرکوئی تنہا تھا۔ اسے ایسا لگا جیسے بستی نہ ہو سیمنٹ اور سریے کا جنگل ہو اوراس میں ہرکوئی درندہ ہو اور شکار پر نکلا ہو یا ہرکوئی شکار ہو اورشکاریوں سے بچ کرجان بچانے کے لیے دوڑ رہاتھا ۔سب سے براحال ''بندریوں'' کا تھا جو اب عورتیں بن گئی تھیں، وہ چار دیواری میں بھی سہمی ہوئی تھیں، گھر سے باہر نکلیں تو ہوس پرست درندے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے تھے، ہر جگہ ان کا گوشت اوراعضا بھی بک رہے تھے ۔

مشکل ہے کہ اب شہرمیں نکلے کوئی گھر سے

ہرکوئی اس کوشش میں تھا کہ خود کو بھی بچائے اورکسی دوسرے کو بچنے بھی نہ دے ، بوڑھے بندر نے غورسے دیکھا تو شہرمیں ایک بھی آئینہ نہ تھا، سارے آئینے ٹوٹ کر بکھرے ہوئے تھے بلکہ توڑ کر کرچی کرچی کیے گئے تھے کیوں کہ سارے انسان اپنا چہرہ دیکھنے سے ڈرتے تھے۔


پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

ایک اور عجیب بات اس نے یہ دیکھی کہ ہرکوئی اس بھیڑ میں نہ صرف تنہاتھا بلکہ کسی سے چھپنے کی کوشش میں تھا ،کس سے ؟ یہ اسے بالکل پتہ نہیں تھا لیکن ایک جگہ اس نے کسی سے سنا،بھیڑ میں سے آوازآرہی تھی۔

خود اپنے سے ملنے کا بھی یارا نہ تھا مجھ میں

میں بھیڑ میں گم ہوگیا تنہائی کے ڈر سے

اچھا تو یہ بات ہے! بوڑھے بندر نے سوچا،یہ لوگ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھاگنے اورچھپنے کی کوشش میں ہیں کیوں کہ ہرکوئی ایک ہی عذاب میں مبتلاتھا۔

زندگی کی راہوں میں رنج وغم کے میلے میں

بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں

آئینے کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھاہے

ایک میں بھی تنہا تھا سو میں بھی اکیلے ہیں

بچارا بوڑھا بندر لڑکھڑاتا ہوا اپنے جنگل میں آگیا اوردکھ سے ایک جگہ پڑا رہا ۔ اسے یہ علم ہی نہ ہوسکا کہ وہ جس بستی سے آگیا ہے وہی بستی بعد میں انتظار حسین والی بستی بن گئی، یہ وہ بستی تھی جس کے انسان آہستہ آہستہ پھر سے بندر ہونے لگے اوربستی سے فرار ہوکر جنگل میں بسیرا کرنے لگے تھے۔

جاں بچی سو لاکھوں پائے

خیر سے بدھوگھر کو آئے
Load Next Story