حسن اخلاق ہمارے فنکار اور نیر سلطانہ

اس فلم میں ان کی محبت پروان چڑھی اور پھر فلم کی ریلیز کے بعد دونوں شادی کے مقدس بندھن میں بندھ گئے تھے

hamdam.younus@gmail.com

فلمی دنیا ایک طلسماتی دنیا ہے، اس کی چمک دمک لاکھوں لوگوں کو دیوانہ کردیتی ہے لوگ آسمان فلم کے ستاروں کو اپنے احساس کے پردوں پر بھی جگمگاتے دیکھتے ہیں اور ان کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور فلم کے لوگوں کو کوئی الگ ہی مخلوق سمجھتے ہیں مگر بات اس کے برعکس ہے ایک شعر فلمی دنیا پر بڑا صادق آتا ہے:

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

میں نے دس بارہ سال بہ حیثیت رائٹر فلمی دنیا میں گزارے ہیں، ہر اداکار اور ہر اداکارہ کو بڑے قریب سے دیکھا ہے ان کے رویوں پر بڑے قریب سے اندازہ لگایا ہے خودپرستی، خود غرضی ان کی شخصیات کے آئینے دیکھ کر ان کی اصل صورتیں مجھے صاف نظر آ جاتی تھیں۔

میں خود ایک رائٹر تھا اور فلموں کے لیے میں نے ہر ہیرو اور ہر ہیروئن کے لیے بے شمار گیت بھی لکھے، بعض فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے، میں نے تو بیشتر ہیروز اور ہیروئنوں کو مغرور ہی پایا۔ سیٹ پر دیر سے آنا اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جلدی شوٹنگ پیک اپ کرا کے چلے جانا ، زیادہ تر فنکاروں کا شیوہ رہا ہے۔

پھر بھی میں نے اپنے دور کی چند اداکاراؤں کو خوش گفتار اور خوش ادا بھی پایا ہے وہ اپنے سینئرز کا احترام بھی کرتی تھیں اور فلم کے سیٹ پر ہدایت کار اور رائٹرز کے ساتھ تعاون بھی کرتی تھیں، میں نے اپنی دانست میں صبیحہ خانم، بہار بیگم، سنگیتا، شمیم آرا اور نیر سلطانہ کو بہ طور اداکارہ اور ایک شخصیت کے طور پر بھی بہت اچھا پایا، نپے تلے انداز سے اپنائیت کے ساتھ ان کی خوش گفتاری بے مثال ہوتی تھی، اور سب سے زیادہ میں جس اداکارہ سے متاثر ہوا وہ نیر سلطانہ تھیں۔

انھیں فلمی دنیا میں ملکہ جذبات کا خطاب دیا گیا تھا ان کی اداکاری دلوں کو چھو لیتی تھی ان کا ہر فلمی کردار فلم بینوں کے دلوں پر دستک دیتا تھا۔

نیر سلطانہ کا میں نے ایک طویل اور یادگار انٹرویو بھی کیا تھا۔ نیر سلطانہ کے بارے میں پہلے یہ بتا دوں یہ فلمی دنیا میں کس طرح آئی تھیں۔ نیر سلطانہ کا اصلی نام طیبہ بانو تھا اور نیر سلطانہ کا نام انھیں ہدایت کار ہمایوں مرزا نے دیا تھا۔ نیر سلطانہ نے ہندوستان کے شہر علی گڑھ میں جنم لیا تھا۔

ان کا ایک بہت ہی متوسط فیملی سے تعلق تھا ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگئی تھیں اور انھوں نے لاہور میں سکونت اختیار کی تھی ان کے مشہور ہدایت کار انور کمال پاشا کی بیگم شمیم بانو سے گہرے مراسم تھے ایک دوسرے کے گھر بڑا آنا جانا تھا۔

اسی دوران ایک تقریب میں انور کمال پاشا کی نظر نیر سلطانہ پر پڑی ان دنوں وہ اپنی فلم قاتل کی تیاریوں میں مصروف تھے صبیحہ خانم کو وہ ہیروئن سائن کر چکے تھے اب انھیں ایک سائیڈ ہیروئن کی ضرورت تھی۔

انھوں نے نیر سلطانہ کے والدین سے فلم میں کام کرنے کی اجازت حاصل کرلی اور پھر نیر سلطانہ کو بھی فلم قاتل کی کاسٹ میں بہ طور سائیڈ ہیروئن شامل کرلیا گیا اور اس طرح اتفاقیہ طور پر نیر سلطانہ فلمی دنیا میں آگئی تھیں جب کہ ان کو فلم میں کام کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ فلم قاتل اپنے دور کی ایک سپرہٹ فلم تھی اس فلم میں صبیحہ خانم کے ساتھ نیر سلطانہ کی کردار نگاری کو بھی بڑا پسند کیا گیا۔


یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ فلم کے ہیرو سنتوش کمار تھے ، بعد میں سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی درپن نے نیر سلطانہ کو اپنا شریک زندگی بنا لیا تھا۔ فلم قاتل کے بعد نیر سلطانہ لاہور سے کراچی آگئیں۔

فلم قاتل کا سارے پاکستان میں چرچا تھا ہمایوں مرزا نے پھر کراچی میں نیر سلطانہ کو اپنی فلم انتخاب میں ہیروئن منتخب کرلیا، فلم انتخاب میں سائیڈ ہیروئن کا کردار جمیلہ رزاق کو دیا گیا تھا، اسی دوران انھیں کراچی کی ایک فلم انوکھی میں کاسٹ کیا گیا۔

انوکھی کی ہیروئن ہندوستان سے آئی ہوئی اداکارہ شیلا رمانی تھی جو کراچی اپنے کسی رشتے دار کی شادی کی تقریب میں شرکت کرنے آئی تھی اور پھر فلم انوکھی کی شوٹنگ مکمل کرا کے وہ واپس ہندوستان چلی گئی تھی۔

فلم انوکھی کے ہدایت کار ایک سینئر اداکار شاہ نواز تھے اور انوکھی میں پہلی بار مزاحیہ آرٹسٹ لہری کو فلم میں پیش کیا گیا تھا اس سے پہلے وہ کراچی اسٹیج پر مزاحیہ فنکار مشہور تھے اور اسی فلم میں گلوکار احمد رشدی بھی بہ طور پلے سنگر متعارف ہوئے تھے اور انھوں نے اپنا پہلا گیت گایا تھا۔

ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار، یہ گیت فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا، اس فلم کا ہیرو ایاز تھا اور مزاحیہ آرٹسٹ دلجیت مرزا نے بھی کام کیا تھا، اور فلم کے موسیقار بھی برنی تھے جو ان دنوں انڈیا سے پاکستان آئے ہوئے تھے پھر نیر سلطانہ کو لاہور جانے کے بعد فلم ساز شاعر و ہدایت کار سیف الدین سیف کی فلم سات لاکھ سے شہرت ملی تھی، سات لاکھ میں بھی صبیحہ خانم اور نیر سلطانہ کا ساتھ رہا تھا اور پھر اس فلم کی بے مثال کامیابی کے بعد نیر سلطانہ پر شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے پھر یہ صف اول کی معروف ترین اداکارہ بن چکی تھیں، لاہور کی ایک فلم ''ایک مسافر ایک حسینہ'' میں اداکار درپن کے ساتھ نیر سلطانہ کو ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ ان دونوں آرٹسٹوں کی ایک سنگ میل فلم تھی۔

اس فلم میں ان کی محبت پروان چڑھی اور پھر فلم کی ریلیز کے بعد دونوں شادی کے مقدس بندھن میں بندھ گئے تھے، نیر سلطانہ کو فلم باجی، سہیلی، اولاد اور نائلہ کے بعد ہر ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا گیا اور جس ہیرو کے ساتھ بھی نیر سلطانہ نے کام کیا اس نے اپنی فطری اداکاری سے فلم بینوں کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔

نیر سلطانہ نے فلمی ہیروئن ہونے کے باوجود فلمی ہیروئنوں کی طرح کبھی نخرے نہیں کیے کبھی فلم سازوں کو تنگ نہیں کیا۔ فلمی ماحول میں رہتے ہوئے نیر سلطانہ غیر فلمی خاتون ہی نظر آتی رہی بے شمار فلموں میں کام کیا۔ جس فلم میں بھی کام کیا باوقار انداز سے کام کیا اپنے کام کو منوایا اپنی شخصیت کی گہری چھاپ کو ہمیشہ نمایاں رکھا، خوش اخلاق، خوش اطوار ان سے گفتگو کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی شاعر کی خوبصورت نظم یا غزل نے صنف نازک کا روپ دھار لیا ہے۔

نیر سلطانہ کی گفتگو سے بھی بعض اوقات ادب جھلکتا تھا۔ ایک بار درپن اور نیر سلطانہ سے نگار فلم اسٹوڈیو کی تقریب کے دوران ایک ہوٹل میں ملاقات جو کراچی میں ہوئی تھی۔

میں آج تک نہیں بھولا ہوں۔ میں ان سے ملنے ان کے ہوٹل گیا تھا میں نے فون کیا درپن صاحب نے کمرے میں بلالیا، وہ مجھے ایک کمرے میں بٹھا کر دوسرے کمرے میں نیر سلطانہ کو بتانے چلے گئے۔

اس دوران ان کا تین سال کا بچہ کمرے میں آگیا وہ مجھے دور سے دیکھتا رہا پھر میں نے دھیمی آواز میں ایک گانے کے بول دہرائے منا بڑا پیارا، جب میں نے یہ گا کر سنایا تو وہ بچہ میرے پاس آگیا اور میں نے گیت گاتے ہوئے اس بچے کو گود میں اٹھا لیا اور گیت بھی گاتا رہا کیونکہ یہ گیت میں اپنی چھوٹی بہن کے بچوں کو جب بھی سناتا تھا تو وہ روتے ہوئے بھی چپ ہو جاتے تھے میرے گیت اور آواز کا جادو یہاں بھی چل گیا تھا جب نیر سلطانہ اور درپن دونوں کمرے میں آئے تو اپنے بچے کو میری گود میں دیکھ کر حیران ہوئے اور بولے'' کمال ہے بھئی ہمارا بچہ کسی اجنبی کی گود میں کبھی نہیں جاتا آپ پہلے آدمی ہیں جس کی گود میں یہ آگیا ہے'' پھر ماں باپ کو دیکھ کر وہ بچہ میری گود سے اتر گیا تھا اور پھر ہماری کافی دیر تک باتیں ہوتی رہی تھیں۔ وہ ملاقات آج بھی میرے ذہن میں کسی دیے کی طرح روشن ہے۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ جس طرح سنتوش کمار صبیحہ خانم کو تنہائی کا پیکر بنا کر جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اسی طرح درپن بھی نیر سلطانہ کا ساتھ دیر تک نہ نبھا سکے اور ان کو داغ مفارقت دے کر تنہائی، بے کلی اور بے قراری کے بیکراں سمندر میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

درپن کی جدائی کو یہ بھی زیادہ عرصہ نہ برداشت کرسکی تھیں اور پھر کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر 27 اکتوبر 1992 کو یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں اور آج ایک عظیم اداکارہ بھولا بسرا افسانہ بن چکی ہے۔
Load Next Story