اہل کراچی ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر
پاکستان کی معاشی ترقی میں کراچی کا ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا ہے
کراچی پاکستان کا دل ہی نہیں بلکہ معاشی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے ، کراچی چلتا ہے تو پورا ملک چلتا ہے۔
پاکستان کی ہر زبان ، ہر نسل ، ہر قوم ، ہر مذہب اور ہر فقہ کے لوگ یہاں آباد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو ''منی پاکستان '' کہا جاتا ہے۔ قومی معیشت میں کراچی کا 70 فیصد اور سندھ کی معیشت میں 90 فیصد حصہ ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں کراچی کا ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا ہے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے 10 سرفہرست بازاروں نے ایک سال میں مجموعی طور پر94 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا۔
بھاری ٹیکس دینے کے باوجود کراچی انفرا اسٹرکچر ، لوڈ شیڈنگ ، سیوریج سمیت اسٹریٹ کرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ صرف اسٹریٹ کرائم کی بات کی جائے تو سال 2022 میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کی 82 ہزار 713 وارداتیں ہوئیں ، دوران ڈکیتی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 100 سے زائد شہری جاں بحق اور 419 زخمی ہوئے۔
شہریوں سے 27 ہزار 249 موبائل فون چھینے گئے،2 ہزار 131 گاڑیاں جب کہ 52 ہزار 383 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں۔ کراچی میں لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز نے عوام کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سال 2023 کے ابتدائی دو ماہ میں اسٹریٹ کرائم میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو کے مطابق اسٹریٹ کرائم میں 7.37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سندھ پولیس کی بے حسی ، لاتعلقی اور ہٹ دھرمی اپنی جگہ۔ لیکن کراچی کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور تنظیموں نے بھی اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
نہ کوئی جماعت اس پر احتجاج کررہی ہے ، نہ کوئی تنظیم اس پر مظاہرے کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے نہ جانے کیوں اسٹریٹ کرائم پر آواز اْٹھانے کی بجائے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے انھیں ان کی رقوم ، موبائل اورگاڑیوں سے محروم کیا جا رہا ہے ، لیکن شہر کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں اور سیاسی قائدین نے اس پر آواز اٹھانے ، حکومت سندھ سے احتجاج کرنے کی بجائے خود کو لاتعلق کر لیا ہے۔ یہ سیاسی مصلحت پسندی ہے یا کسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ کوئی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
روز روز کی لوٹ مار سے تنگ آنے کے بعد، شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جرائم پیشہ اور ڈاکوؤں کو پکڑنے اور اپنے تحفظ کے لیے لائسنس یافتہ اسلحہ ساتھ رکھنا شروع کیا تاکہ وقت ضرورت جرائم پیشہ افراد کے خلاف استعمال کیا جاسکے تو حکومت سندھ نے نہ جانے کس کے تحفظ کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا۔
جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی فرد ( ایک عام شہری ) تین ماہ تک اپنے ساتھ اسلحہ لیکر نہیں چل سکتا ہے، اور یوں شہر پر مسلط ڈاکوؤں اور لٹیروں کو اسلحہ رکھنے اور شہریوں کو لوٹ مار کرنے کی مکمل اجازت دے دی گئی ہے مگر ایک شہری اپنے تحفظ کے لیے لائسنس یافتہ اسلحہ نہیں رکھ سکتا ہے۔
اس پر بھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائد نے خاموشی اختیار رکھی۔ کوئی نہیں ہے جو اس شہر کے محکوم اور مظلوم شہریوں کی آواز بن سکے۔
کروڑوں کی آبادی والا شہر مسلح لٹیروں ، ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دن ہو یا رات ، جب چاہیں اور جہاں چاہیں بزرگ اور خواتین سمیت جس کو چاہتے لوٹ لیتے ہیں۔
ان کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ معمولی سی مزاحمت پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کراچی کے امن و امان کو خراب کرنے میں جہاں دیگر عناصر شامل ہیں اس میں ایک اہم کردار افغان تارکین وطن کا بھی ہے۔
گزشتہ دس برس میں جس طرح کراچی میں غیر ملکی تارکین وطن اور خاص طور پر افغانیوں کا اضافہ ہوا ہے، کراچی کمشنریٹ کے اعداد وشمار (2016 میں) کے مطابق شہر میں افغان پناہ گزین کی تعداد 71 ہزار تھی جب کہ غیر رجسٹرڈ تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اس بارے میں حکومت سندھ کی یہ رپورٹ ہوش اْڑا دینے کے لیے کافی ہے۔
حکومت سندھ کی رپورٹ (2014) کے مطابق کراچی میں 25 لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن رہائش پزیر تھے ، گزشتہ چند سالوں میں یہاں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کی تعداد تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں اسٹریٹ کرائم کے نام پر شہریوں کو جس طرح لوٹا جارہا ہے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، موٹر سائیکل پر سوار جرائم پیشہ افراد گلیوں، محلوں، مارکیٹوں اور مساجد سے باہر نکلنے والے افراد اور بازار میں خواتین سے پیسے، پرس اور موبائل چھین رہے ہیں۔ معمولی سی مزاحمت پر نوجوانوں کی جان لے لی جاتی ہے۔
شہر میں کل 26,647 پولیس اہلکار ہیں لیکن امن و امان برقرار رکھنے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے صرف 14,433 پولیس اہلکار دستیاب ہیں۔ کراچی کی آبادی کے لیے صرف 8,541 پولیس اہلکار حفاظتی مقاصد کے لیے تعینات ہیں۔
جب کہ پولیس کی دستیاب قوت میں سے آٹھ ہزار پولیس اہلکار اہم شخصیات ، جن میں سیاستدان ، اراکین پارلیمنٹ ، اعلٰی حکام ، کاروباری شخصیات ، سماجی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں کی سیکیورٹی کی ذمے داری ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 204 ، گورنر ہاؤس میں119، عدالتوں کے لیے474 ، فارن سیکیورٹی سیل میں767 محافظ تعینات ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں پولیس حکام نے بتایا کہ ملک کے کچھ حصوں میں سیلاب کے بعد کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں '' خطرناک اضافہ '' ہوا ہے۔ پکڑے گئے جرائم پیشہ افراد میں سے نصف کا تعلق ملک کے دیگر حصوں سے ہے۔
اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، بے روزگاری اور غربت کی سطح سمیت متعدد عوامل ہیں۔ غیر موثر پولیسنگ سسٹم اور کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے بھی اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا ہے۔
محدود پولیس اہلکاروں اور غیر تجربہ کار پولیس کی مدد سے جرائم کو روکنا ناممکن ہوگیا ہے ، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر سیف سٹی منصوبے کو مکمل کیا جائے۔ منشیات اور جرائم پیشہ افراد کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے۔ کچی آبادیوں اور افغان بستیوں میں رہنے والے ہر فرد کی مقامی تھانے میں رجسٹریشن کی جائے۔
تارکین وطن کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے۔ روزگار کو مواقعے پیدا کیے جائیں تاکہ بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ کیا جاسکے۔
عادی جرائم پیشہ افراد گرفتاری کے چند ماہ بعد ہی ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں اور پھر وارداتوں میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے تمام عادی جرائم پیشہ افراد کو شہر بدر کیا جائے۔ اسٹریٹ کرائم میں بڑی تعداد غیر مقامی لوگوں کی ہے لہٰذا ان کی نگرانی کا مناسب انتظام کیا جائے۔
پاکستان کی ہر زبان ، ہر نسل ، ہر قوم ، ہر مذہب اور ہر فقہ کے لوگ یہاں آباد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس شہر کو ''منی پاکستان '' کہا جاتا ہے۔ قومی معیشت میں کراچی کا 70 فیصد اور سندھ کی معیشت میں 90 فیصد حصہ ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں کراچی کا ہمیشہ سے کلیدی کردار رہا ہے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے 10 سرفہرست بازاروں نے ایک سال میں مجموعی طور پر94 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا۔
بھاری ٹیکس دینے کے باوجود کراچی انفرا اسٹرکچر ، لوڈ شیڈنگ ، سیوریج سمیت اسٹریٹ کرائم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ صرف اسٹریٹ کرائم کی بات کی جائے تو سال 2022 میں شہر میں اسٹریٹ کرائم کی 82 ہزار 713 وارداتیں ہوئیں ، دوران ڈکیتی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے 100 سے زائد شہری جاں بحق اور 419 زخمی ہوئے۔
شہریوں سے 27 ہزار 249 موبائل فون چھینے گئے،2 ہزار 131 گاڑیاں جب کہ 52 ہزار 383 موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں۔ کراچی میں لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز نے عوام کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سال 2023 کے ابتدائی دو ماہ میں اسٹریٹ کرائم میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ کراچی پولیس چیف جاوید عالم اوڈھو کے مطابق اسٹریٹ کرائم میں 7.37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سندھ پولیس کی بے حسی ، لاتعلقی اور ہٹ دھرمی اپنی جگہ۔ لیکن کراچی کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور تنظیموں نے بھی اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
نہ کوئی جماعت اس پر احتجاج کررہی ہے ، نہ کوئی تنظیم اس پر مظاہرے کررہی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے نہ جانے کیوں اسٹریٹ کرائم پر آواز اْٹھانے کی بجائے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے انھیں ان کی رقوم ، موبائل اورگاڑیوں سے محروم کیا جا رہا ہے ، لیکن شہر کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں اور سیاسی قائدین نے اس پر آواز اٹھانے ، حکومت سندھ سے احتجاج کرنے کی بجائے خود کو لاتعلق کر لیا ہے۔ یہ سیاسی مصلحت پسندی ہے یا کسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ کوئی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
روز روز کی لوٹ مار سے تنگ آنے کے بعد، شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جرائم پیشہ اور ڈاکوؤں کو پکڑنے اور اپنے تحفظ کے لیے لائسنس یافتہ اسلحہ ساتھ رکھنا شروع کیا تاکہ وقت ضرورت جرائم پیشہ افراد کے خلاف استعمال کیا جاسکے تو حکومت سندھ نے نہ جانے کس کے تحفظ کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا۔
جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی فرد ( ایک عام شہری ) تین ماہ تک اپنے ساتھ اسلحہ لیکر نہیں چل سکتا ہے، اور یوں شہر پر مسلط ڈاکوؤں اور لٹیروں کو اسلحہ رکھنے اور شہریوں کو لوٹ مار کرنے کی مکمل اجازت دے دی گئی ہے مگر ایک شہری اپنے تحفظ کے لیے لائسنس یافتہ اسلحہ نہیں رکھ سکتا ہے۔
اس پر بھی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائد نے خاموشی اختیار رکھی۔ کوئی نہیں ہے جو اس شہر کے محکوم اور مظلوم شہریوں کی آواز بن سکے۔
کروڑوں کی آبادی والا شہر مسلح لٹیروں ، ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ دن ہو یا رات ، جب چاہیں اور جہاں چاہیں بزرگ اور خواتین سمیت جس کو چاہتے لوٹ لیتے ہیں۔
ان کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ معمولی سی مزاحمت پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کراچی کے امن و امان کو خراب کرنے میں جہاں دیگر عناصر شامل ہیں اس میں ایک اہم کردار افغان تارکین وطن کا بھی ہے۔
گزشتہ دس برس میں جس طرح کراچی میں غیر ملکی تارکین وطن اور خاص طور پر افغانیوں کا اضافہ ہوا ہے، کراچی کمشنریٹ کے اعداد وشمار (2016 میں) کے مطابق شہر میں افغان پناہ گزین کی تعداد 71 ہزار تھی جب کہ غیر رجسٹرڈ تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اس بارے میں حکومت سندھ کی یہ رپورٹ ہوش اْڑا دینے کے لیے کافی ہے۔
حکومت سندھ کی رپورٹ (2014) کے مطابق کراچی میں 25 لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن رہائش پزیر تھے ، گزشتہ چند سالوں میں یہاں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکی باشندوں کی تعداد تشویشناک حد تک پہنچ گئی ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں اسٹریٹ کرائم کے نام پر شہریوں کو جس طرح لوٹا جارہا ہے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، موٹر سائیکل پر سوار جرائم پیشہ افراد گلیوں، محلوں، مارکیٹوں اور مساجد سے باہر نکلنے والے افراد اور بازار میں خواتین سے پیسے، پرس اور موبائل چھین رہے ہیں۔ معمولی سی مزاحمت پر نوجوانوں کی جان لے لی جاتی ہے۔
شہر میں کل 26,647 پولیس اہلکار ہیں لیکن امن و امان برقرار رکھنے اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے صرف 14,433 پولیس اہلکار دستیاب ہیں۔ کراچی کی آبادی کے لیے صرف 8,541 پولیس اہلکار حفاظتی مقاصد کے لیے تعینات ہیں۔
جب کہ پولیس کی دستیاب قوت میں سے آٹھ ہزار پولیس اہلکار اہم شخصیات ، جن میں سیاستدان ، اراکین پارلیمنٹ ، اعلٰی حکام ، کاروباری شخصیات ، سماجی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں کی سیکیورٹی کی ذمے داری ادا کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 204 ، گورنر ہاؤس میں119، عدالتوں کے لیے474 ، فارن سیکیورٹی سیل میں767 محافظ تعینات ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں پولیس حکام نے بتایا کہ ملک کے کچھ حصوں میں سیلاب کے بعد کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں '' خطرناک اضافہ '' ہوا ہے۔ پکڑے گئے جرائم پیشہ افراد میں سے نصف کا تعلق ملک کے دیگر حصوں سے ہے۔
اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی وجہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، بے روزگاری اور غربت کی سطح سمیت متعدد عوامل ہیں۔ غیر موثر پولیسنگ سسٹم اور کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے بھی اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا ہے۔
محدود پولیس اہلکاروں اور غیر تجربہ کار پولیس کی مدد سے جرائم کو روکنا ناممکن ہوگیا ہے ، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر سیف سٹی منصوبے کو مکمل کیا جائے۔ منشیات اور جرائم پیشہ افراد کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے۔ کچی آبادیوں اور افغان بستیوں میں رہنے والے ہر فرد کی مقامی تھانے میں رجسٹریشن کی جائے۔
تارکین وطن کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے۔ روزگار کو مواقعے پیدا کیے جائیں تاکہ بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ کیا جاسکے۔
عادی جرائم پیشہ افراد گرفتاری کے چند ماہ بعد ہی ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں اور پھر وارداتوں میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے تمام عادی جرائم پیشہ افراد کو شہر بدر کیا جائے۔ اسٹریٹ کرائم میں بڑی تعداد غیر مقامی لوگوں کی ہے لہٰذا ان کی نگرانی کا مناسب انتظام کیا جائے۔